Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

7 - 12
انسان کا مقصد ِ تخلیق !
انسان کا مقصد ِ تخلیق

سیاست:
سیاست کس زبان کا لفظ ہے؟ اوراس زبان میں سیاست کے لغوی معانی کیا ہیں؟ ان لغوی معانی کی روشنی میں سیاست کی تعریف کیا بنتی ہے؟ سیاست در اصل کس کا عمل واستحقاق ہے؟ اس وقت سیاست کا فریضہ کس پر عائد ہوتا ہے؟ اگر کوئی سیاست کے میدان میں قدم رکھے تو شروع کہاں سے کرے؟ اور کس طرح کرے؟
مقصد تخلیق
اس حوالے سے علماء کے تین طبقے ہیں:
۱…بعض علماء کی نظر آیت ”إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الَأرْضِ خَلِیْفَةً“ (بقرہ:۳۰) وغیرہ پر ہے۔ لہذا ان علماء کی رائے میں انسانی تخلیق کا اصل مقصد خلافت ہے۔ جیساکہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ خلیفہ سے مراد خلیفة اللہ ہے۔ لہذا ان علماء کے ہاں سیاسی عمل کواہمیت حاصل ہے۔ ان حضرات نے ذاتی اصلاح کو یا تو بالکل نظر انداز کردیا ہے، یا پھراسے ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔
۲… بعض دوسرے علماء کی نظر ”وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاّ لِیَعْبُدُوْنَ“ (الذاریات:۵۶) پر رہی ہے۔ ان کی رائے میں انسانی تخلیق کا اصل مقصد عبدیت (ذاتی اصلاح) ہے۔ ان حضرات نے خلافت (سیاسی عمل) کو یا تو بالکل نظر انداز کردیا ہے، یا پھراس کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔
۳… تیسرا طبقہ علماء کا ایسا ہے کہ وہ ان دونوں مذکورہ بالا آراء میں اشتباہات بیان کرتے ہیں۔ اول رائے میں یہ کہ خلافت بمعنی اصلاح جماعت لینا اور سیاسی عمل کو اہمیت دے کر عبدیت یعنی ذاتی اصلاح کو نظر انداز کرنا یااس کو ثانوی حیثیت دینا اس لئے مناسب نہیں ہے کہ نبی ا فرماتے ہیں:
”بنی الاسلام علی خمس، شہادة ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ واقام الصلاة وایتاء الزکاة وحج البیت وصوم رمضان“ (صحیح مسلم، ، حدیث:۱۱۳)
اس کا معنی یہ ہے کہ پُر امن جماعت جو اللہ جل جلالہ کی ہدایات اور نبی ا کی سنت کے سامنے سر تسلیم ہو، اسی صورت میں ممکن ہے کہ کم از کم اس کے بااختیار لوگ ذاتی اصلاح کے حامل ہوں اوران کا ذاتی کردار عبدیت کا ہو یعنی وہ اللہ اور رسول کی کامل تعظیم وکامل اطاعت کی صفت سے متصف ہوں، کیونکہ اسلام بمعنی سلم یعنی امن ہو یا بمعنی تسلیم یعنی سپرد گی، دونوں صورتوں میں مفہوم یہ نکلتا ہے کہ امن کی حامل جماعت او رایک ایسی جماعت جس نے سب کچھ اللہ اور رسول ا کے سپرد کیا ہو اور اس کا کوئی بھی عمل اور تصرف اللہ کی ہدایات اور نبی ا کی سنت کے خلاف نہ ہو، اسی صورت میں ممکن ہے جب افراد جماعت میں یہ پانچ چیزیں موجود ہوں جن کا تعلق عبدیت یعنی ذاتی اصلاح سے ہے۔ جیساکہ کہا جاتا ہے کہ چھت دیواروں یا ستونوں پر قائم ہے۔ معنی یہ کہ صرف دیواریں یاستون تعمیر نہیں کہلاتے اور نہ ہی موسمی تغیرات سے بچاؤ کا باعث بنتے ہیں اور نہ ہی کسی ٹیک کے بغیر چھت کا کھڑا کرنا ممکن ہے۔
لہذا جیساکہ ہرتعمیر میں چھت اور اس کی ٹیک ضروری ہے، وہ چاہے دیواروں کی صورت میں ہو یا ستونوں کی صورت میں ہو ،بہرحال اس کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح خلافت بمعنی اصلاح جماعت یعنی سیاسی عمل اور عبدیت یعنی افراد کی ذاتی اصلاح، الٰہی ہدایات اور نبی کریم ا کی سنت کے مطابق بھی ہو اور وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں۔ ذاتی اصلاح (عبدیت) بغیر عوام کی اصلاح کے کامل نہیں ہوسکتی اور جماعت کی اصلاح بغیر ذاتی اصلاح کے ممکن نہیں۔
اسی لئے ایک موقع پر نبی کریم ا فرماتے ہیں: ”رجعنا من الجہاد الاصغر“ …یعنی طاغوت اور ظالم قوت کے ساتھ حق کے لئے جنگ کرنے کے عمل سے ہم لوٹے… الی الجہاد الاکبر…بڑے جہاد کی طرف،یعنی اپنے آپ کو اندرونی کیفیات اور ظاہری اعمال میں خود پسندی، خود غرضی، مفاد پرستی غرضیکہ ذاتی زندگی میں نفس کے ہرقسم کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کی جنگ جس کو تزکیہ نفس کہتے ہیں… یعنی ہم پہلے جہاد سے جو چھوٹا تھا دوسرے بڑے جہاد جو نفس کے ساتھ ہے لوٹ آئے۔
ظاہر بات ہے جب تک مجاہدین کی وہ جماعت جو طاغوت کے ساتھ مصروف جنگ ہے۔ اپنی ذات کے اندر نفس کے تسلط سے آزاد اور اللہ اور رسول کی عبدیت کی صفت سے متصف نہ ہوگی وہ اس جنگ کے ذریعے سے شاید ظالم کو بدل دیں۔ مگر ظلم کا خاتمہ نہیں کرسکتے، اس لئے کہ یہ جماعت خود اپنے نفس کے تسلط سے آزاد نہیں اور نہ ہی عبدیت کی صفت سے متصف ہے تو وہ اگر اس جنگ کے ذریعے عوام کو مسلط طاغوت سے نجات بھی دلادیں تو یہ نئے طاغوت کی شکل میں عوام پر مسلط ہوں گے۔ لہذا عوام آزادی کی نعمت سے دور ہونے کی بجائے طاغوت کی غلامی میں جکڑی جائے گی اور بہت ممکن ہے کہ نیا طاغوت پرانے کی نسبت زیادہ خطرناک اور ظالم ثابت ہو۔ عوام کو طاغوت سے نجات دلانے اور اللہ ورسول کی اطاعت میں لانے کے عمل میں مصروف قوت وجماعت کے لئے لازم ہے کہ وہ اور اس کے علمبردار افراد اپنی ذاتی زندگی میں اندرونی احساسات ومیلانات اور ظاہری کردار وعمل کے میدان میں نفس کے ہرقسم کے تسلط سے آزاد ہوں، ورنہ اگر یہ جماعت دعوت وسیاست کے میدان میں ہے تو اس کی دعوت وسیاست ہدایت وراہنمائی کا ذریعہ نہیں، بلکہ نفرت کا ذریعہ بنے گی اور اگر حکومت او رجہاد کے میدان میں رہے تو یہ حکومت اور جہاد ظلم کے خاتمے کا نہیں بلکہ پرانے طاغوت کے بدلنے اور نئے طاغوت کے مسلط ہونے کا ذریعہ بنے گا۔
ب…جن علماء کی نظر عبدیت کی آیت پر ہے، اس میں یوں اشتباہ بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس آیت کا مقصد اگر ذاتی اصلاح ہے تو پھر آیت میں جن اور انس دونوں کا مقصد تخلیق بیان کیا گیا ہے۔ اگر دونوں کا مقصد تخلیق ایک ہے تو دونوں فضیلت میں برابر ہونے چاہئیں، جب کہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ انس کو جن پر فضیلت ہے تو وہ فضیلت کس چیزمیں ہے؟
۲…بلکہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت افراد کی ذاتی اصلاح کی بنیاد پر صالح جماعت کے لئے تھی، جیساکہ کمپنی جہاں اپنی ایجاد کردہ مشین کے لئے پرزے بناتی ہے وہاں ان پرزوں کو باہم جوڑ کر ایک واحد شکل بھی دیتی ہے تب پھر کمپنی کا یہ پورا عمل کارآمدثابت ہوتا ہے۔ لہذا پرزوں کی صالح بناوٹ او ران کے جوڑنے سے مشین کی تکمیل ہوتی ہے اور مشین کے مکمل ہونے سے ہرایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پرکار آمد ثابت ہوتا ہے۔ یہی کیفیت صالح جماعت اور اس کے صالح افراد کی ہے اور نبی ہو یا امام وہ جہاں دعوت علی وجہ البصیرت کے ذریعے عبدیت کی بنیاد پر صالح افراد تیار کرنے کے عمل میں مصروف ہوتا ہے وہاں ان صالح افراد سے ایک صالح جماعت کی تشکیل کے لئے دعوت وعمل جاری رکھتا ہے تو گویا عبدیت اور خلافت کے لئے دعوت وعمل کو ایک ساتھ جاری رکھنا ہی انبیاء علیہم السلام کا مشن تھا اور ہمارے نبی ا کی نبوت او ران کی دعوت وعمل جماعت راہنمائی اور سیرت وسنت سے، عبدیت اور خلافت دونوں کی تکمیل ہوچکی ہے، اس لئے آپ ا نبی بھی تھے، امام بھی تھے اور خلیفہ بھی۔
۳…حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا مقصد اگرچہ بنی اسرائیل کو فرعون کے استبداد، ظلم اور تسلط سے نجات دلانا تھا، لیکن سب سے پہلا حکم یہ ہوتا ہے کہ: ”اِذْہَبْ إِلٰی فِرْعَوْنَ إِنَّہ طَغَیٰ“ (طہ:۲۴) یعنی سیدھا فرعون کے پاس جاکہ اس کی حاکمیت اور سیاست تمام خرابیوں : فساد، سرکشی اور بغاوت کی جڑ ہے تو حضرت موسی علیہ السلام نے جہاں دعوت کے ذریعے بنی اسرائیل کو الٰہی عبدیت کی جانب راغب کرنے کی جد وجہد کی، وہاں طاغوت اور اس کی تشکیل کردہ طاغوتی جماعت کی اصلاح کے لئے بھی جد وجہد جاری رکھی۔ لہذا عبدیت وخلافت (سیاست) دونوں کیلئے دعوت وعمل جاری رکھا۔
۴…انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخ میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان کی قوموں کے درمیان اختلاف اور محاذ آرائی عبدیت یعنی ذات الٰہی کی ہدایت کے تابع بنانے کے میدان میں تھی یا سیاست وخلافت یعنی ایک صالح جماعت کی تشکیل اور اس کی رہبری اور نگرانی پر تھی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم کہتی ہے:
”قَالُوْا أَجِئتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبآءَ نَا وَتَکُوْنَ لَکُمَا الکِبْرِیآءُ فِی الأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤمِنِیْنَ“ ۔ (یونس: ۷۸)
یعنی کیا تم اسی لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ جس طرز زندگی پر ہم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے ہمارے رخ کو موڑ کر اپنے پیچھے لگائے، تاکہ اس خطہ زمین پر حاکمیت تم دونوں بھائیوں کی ہو، ہم کسی بھی صورت میں تمہاری اس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ حضرت شعیب علیہ السلام سے قوم نے کہا:
”قَالُوْا یَا شُعَیْبُ أَصَلوٰتُکَ تَأمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبآؤُنآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِی أَمْوَالِنَا مَا نَشٰؤْا إِنَّکَ لأَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ“ (ہود:۸۷)
یعنی کہنے لگے اے شعیب! کیا تمہاری خدا پرستی تمہیں یہی بتاتی ہے کہ ہمارے آباء واجداد جن کی تعظیم واطاعت کرتے تھے، ان سے یکسر دستبردار ہوکر چھوڑ دیں اور تمہارے پیچھے ایسے لگ جائیں کہ ہمیں اپنے مال میں بھی اپنے ماضی کا تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو، بلکہ زندگی کے ہرمعاملہ میں راہنمائی آپ سے لیں گے اور تعظیم واطاعت آپ کی کریں گے۔ ہم تو تمہیں بڑا نیک اور پارسا سمجھ رہے تھے تم نے بھی تسلط حاصل کرنے کی ٹھان لی ہے۔
جب ابو طالب مرض موت میں مبتلا ہوئے تو سرداران قریش نے طے کیا کہ ابوطالب کے پاس چلتے ہیں اور ا س سے کہتے ہیں کہ اپنے بھتیجے اور ہمارے درمیان تصفیہ کرادو، قریش میں یہی ایک شخص ہے کہ یہ تصفیہ کراسکتا ہے، اگر یہ نہ رہا تو یہ تصفیہ کبھی بھی نہیں ہوگا اس شخص کے دونوں طرف روابط ہیں، ہم سے عقیدے کا اور ان سے رشتے اور تعاون کا، لہذا ہم دونوں اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ ابوجہل سمیت سرداران قریش ابوطالب کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ بھتیجے کے ساتھ ہمارا تصفیہ کرادو، ہم تمام سرداران قریش اس اکیلے شخص کو اپنا ہم پلہ تسلیم کرتے ہیں، لہذا انفرادی زندگی ہم اس کے حوالے کرتے ہیں، بیشک ایک خدا کا عقیدہ رکھے، عبادت اور نذر ونیاز ایک خدا کے لئے، عبادت وسجدہ ایک خدا کو کرے اور لوگوں کو بھی دعوت دے لیکن اجتماعی معاملات ہم پر چھوڑ دے۔ زندگی کے دو شعبوں میں سے ایک شعبہ انفرادی زندگی کا اس کے حوالے ہوگا اور دوسرا شعبہ اجتماعی زندگی کی رہبری اور نگرانی اور اس پر غلبہ اور بالادستی ہم پر چھوڑے، راستے دو ہوجائیں گے، ذاتی زندگی کی تشکیل اس کے حوالے او راجتماعی زندگی کی سرپرستی ہمارے حوالے ہوگی،لہذا نہ ہم اس کے راستے اور دعوت کے لئے روک بنیں گے اور نہ وہ ہماری سرداری اور سربراہی کا خطرہ بنیں۔ابوطالب نے نبی کریم ا سے کہا کہ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے کہ اگر قوم کے تمام سربراہان وسرداران آپ کو اپنا مساوی تسلیم کرکے آدھا حصہ زندگی کا آپ کے حوالے کرتے ہیں تو آپ کو یہ فیصلہ تسلیم کرنا چاہئے۔نبی کریم ا نے ابوجہل کو مخاطب کرکے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم لوگ میری اس بات کو مانو گے تو تمام عرب پر تو تمہارا اقتدار رہے گا ہی، بلکہ عجم بھی تمہارے اقتدار کے تابع ہوکر تمہیں جزیہ دیں گے۔ ابوجہل نے کہا اس قسم کے دس کلمے بتادو۔ نبی کریم ا نے فرمایا: بول! ”لا الٰہ الا اللہ“ سرداران قریش سمجھ رہے تھے کہ الٰہ کا معنی حاکم ہے تو ہم اس اللہ کے محکوم ہوں گے جس کے پیغام رسانی کا دعویٰ محمدا کرتے ہیں۔ یا ”الٰہ“ بمعنی مالک ہے تو ہم اس کا مال ہوں گے، غلام ہوں گے۔ یا بمعنی معبود ہے تو ہم اس کی تعظیم واطاعت کے پابند ہوں گے۔ اگر ہم نے یہاں یہ وعدہ کیا تو اللہ کی نہ تو ہمیں جگہ معلوم ہے نہ ان کی ذات سے واقف ہیں، نہ براہ راست ہماری نشست اور گفتگو ان سے ہوسکتی ہے تو یہی ہوگا کہ محمدا ہمیں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں ہدایات دے گا۔ نسبت اللہ سے کرے گا اور ہم ان ہدایات کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوں گے، گویا عملاً ہم سب محمدا کے محکوم وغلام ہوں گے اور اس کی تعظیم واطاعت کے پابند ہوں گے۔ لہذا نام خدا پرستی کا ہوگا اور کام حاکمیت اور بالادستی کا لیا جائے گا، اس لئے سرداران قریش کہنے لگے: ”ان ہذا لشیئ یراد“ (ص:۶) یعنی اب تو بالکل واضح ہوا کہ اس پوری جد وجہد سے مقصد اقتدار وبالادستی قائم کرنا ہے جو ہم پہلے کہا کرتے تھے کہ یہ شخص اقتدار کا طالب ہے۔
آج بھی اگر دین وشریعت کے حوالے سے اقتدار وحاکمیت پر انگلی نہ اٹھائی جائے تو ذاتی معاملات میں شرعی ہدایات کی پابندی کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ جس دعوت میں شرعی اصول وہدایات کی روشنی میں اقتدار وحاکمیت پر حرف گیری ہو تو مستبد قوتیں سٹپٹا جاتی ہیں تو جب دعوت علی منہاج النبوة ہو تو اس میں ذاتی زندگی کی اصلاح اور صالح جماعت کی تشکیل دونوں کے لئے دعوت وعمل ساتھ ساتھ جاری رہے گا اور وہی قوتیں ابتدائی طور پر مقابلے میں رہیں گی جو انبیاء کے مقابلے میں رہی ہیں۔ اگرچہ بعد میں مقابل قوتیں بھی نبی کریم ا کا ساتھ دینے لگیں۔
سورة بقرہ کے ابتداء کے دو رکوع میں نبی کریم کی دعوت کے مخاطبین کی تقسیم بیان کی گئی ہے کہ مخاطبین میں کچھ وہ لوگ ہوں گے جن کو آپ کی ذات پر مکمل اعتماد ہوگا اور آپ کی دعوت کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کریں گے۔ یہ ہیں مؤمن یعنی کامل اعتماد کرنے والے۔ دوسرا وہ طبقہ ہوگا جو کھل کر آپ کی ذات پر اعتماد کریں گے اور نہ ہی آپ کی دعوت کو تسلیم کریں گے، یہ ہیں کافر یعنی نہ ماننے والے۔ اور ایک تیسرا طبقہ ایسا ہوگا کہ خود غرض اور مفاد پرست ہوگا۔ اس کو منافق کہتے ہیں یعنی ان کی کسی بات پر کوئی اعتماد نہیں ہوگا۔ سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۱ سے ۲۹ تک نزول وحی کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ نزول وحی کا مقصد انسانی فرد اور جماعت کی حفاظت اور اس مقصد کے حصول کا راستہ عبدیت یعنی اللہ ورسول کی کامل تعظیم او ران کی ہدایات کی کامل اطاعت یہ واحد راستہ ہے، انسانی فرد او رجماعت کی ہرقسم کے مصائب و مشکلات اور نقصانات وپریشانیوں سے حفاظت کا۔
سورہٴ بقرہ کی آیت ۳۰ میں انسانی تخلیق کی حکمت، افادیت اور مقصد خلافت بتایاگیا ہے۔ حضرت ابن عباس کی تفسیری روایت کے مطابق خلیفہ کا معنی خلیفة اللہ ہے۔ ملائکہ کے استفسار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ نئی مخلوق اللہ کا خلیفہ ہوگی تو مخلوق میں تعدد ہوگا اور اللہ کی صفات میں نمایاں صفات دو ہیں۔ ۱…اختیار، ۲…اقتدار۔ تو گویا خلافت کی بنیاد پر ہر فرد بشر اختیار کا مالک بھی ہوگا اور اقتدار کی صلاحیت بھی رکھتا ہوگا تو ایسی صورت میں حصول اقتدار کی ریس میں تصادم ہوگا۔ آبادیاں اجڑیں گی اور خون بہے گا۔
سابقہ بحث سے شایدیہ بات واضح ہوچکی ہو کہ انسانی تخلیق کا مقصد خلافت لینا اور سیاسی عمل کو اولیت دینا اور ذاتی اصلاح سے صرف نظر کرنا۔ یا انسانی تخلیق کا مقصد عبدیت لینا اور صرف ذاتی اصلاح پر نظر مرکوز کرنا اور سیاسی عمل یعنی اصلاح جماعت کے لئے دعوت وعمل سے صرف نظر کرنا دونوں آراء اشتباہات سے خالی نہیں ہیں۔
خلافت او رعبدیت لغوی مفاہیم کے اعتبار سے اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن عملی تطبیق اور خارجی مصداق کے اعتبار سے ایک ہیں۔ ذاتی زندگی میں انسان کے پاس دو چیزوں کا نقد سرمایہ ہے۔ ایک جان، یعنی سر سے لے کر پاؤں تک انسانی صلاحیتیں مثلاً دل ودماغ سے انسان سوچتا اور منصوبہ بندی کرتا ہے۔ کانوں سے سنتا، آنکھوں سے دیکھتا، زبان سے بولتا ہے وغیرہ وغیرہ اور دوسری چیز مالی وسائل ہیں۔ ان دونوں کو انسان اپنی تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، معاشی اور تمدنی میدانوں میں استعمال کرتا ہے اور اس استعمال کے بدلے میں کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جن چیزوں کو انسان حاصل کرنا چاہتا ہے ان کے تعین کے لئے انسان کے پاس دو ذریعے ہیں۔ ایک نفس جس کی چاہت اور انتخاب کا تعلق ظاہر مادی اور دنیاوی مفادات، خواہشات اور لذائذ سے ہے۔ اور دوسرا عقل: جس کے انتخاب ، خواہش اور طلب کا مدار دلیل، حجت، برہان اور بصیرت پر ہے۔ اب اگر انسان اپنی شخصی زندگی میں اللہ کا خلیفہ ہوگا تو وہ جان اور مال کے سرمائے کا نفس سے دفاع کرے گا ،اسے بچائے گا، جہاد مع النفس کرے گا اور عقل ودلیل کے راستے سے وحی کی روشنی میں اپنی جان اور مال پر مسلط او ر حکومت کرے گا۔ اس طرح زندگی میں انسان خلیفہ اس اعتبار سے ہے کہ اس نے اپنے اندر اللہ کی حاکمیت قائم کی ہے، اپنی جان اور مال کو نفس کے تسلط سے آزاد کیا ہے جو جہاد ہے۔ اور دلیل کے راستے سے وحی کی روشنی اور حدود اربعہ میں عقل کو اپنی جان اور مال پر مسلط کرکے حاکم کیا ہے جو خلافت ہے اور عبدیت ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی جان اور مال کو اللہ کی تعظیم واطاعت میں اور نبی کریم ا کی سیرت اور سنت کے مطابق استعمال کرتا ہے اور عبدیت اسی تعظیم واطاعت کا نام ہے۔ لہذا ایسی صورت میں انسان اپنی ذاتی زندگی میں خلیفة اللہ بھی ہے اور عبد اللہ بھی۔ لیکن عبدیت کا پہلو نمایاں ہے، ساری دنیاکو نظر آتا ہے کہ یہ شخص اپنی جان اور مال کو اللہ اور رسول کی اطاعت وتعظیم میں استعمال کرتا ہے۔ لیکن ذات پر اس کی حاکمیت کا پہلو نظر نہیں آتا۔ اس لئے انسان کی ذاتی زندگی کے میدان میں خلافت سے بھی تعبیر عبدیت سے کی جائے گی۔ اور جب یہی شخص دعوت کے میدان میں امامت کے مرحلے سے گزر کر عام پبلک کے اعتماد اور رضامندی کے نتیجے میں خلافت کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور ایک صالح جماعت تشکیل دیتا ہے ، تو وہ اس جماعت سے دفاع بھی کرتا ہے، جو جہاد ہے۔ اور اس پر اللہ کی حاکمیت بھی قائم کرتا ہے، جو خلافت ہے۔ اور جماعت کی تمام صلاحیتوں اور وسائل کو اللہ اور رسول کی اطاعت میں استعمال کرتا ہے، جو عبدیت ہے۔ لیکن جماعت پر حاکمیت کی صورت میں خلافت کا پہلو (یعنی حاکمیت) نمایاں ہے اور اس جماعت کا جو ایک اعتباری فرد ہے، اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو اللہ اور رسول کی تعظیم واطاعت میں استعمال کرنے کا عمل ہے جو عبدیت ہے، اتنا ظاہر نہیں۔ لہذا اس مرحلہ میں عبدیت سے تعبیر خلافت سے کی جائے گی۔ گویا کہ ذاتی اور شخصی زندگی میں خلافت سے تعبیر عبدیت سے کی جائے گی اور اجتماعی زندگی میں عبدیت سے تعبیر خلافت سے کی جائے گی ،اگرچہ دونوں مراحل میں دونوں صفات موجود ہیں۔خلاصہٴ کلام یہ کہ:
۱…انسانی تخلیق کی حکمت، افادیت اور مقصد، خلافت ہے۔
۲…محفوظ راستہ شخصی اور اجتماعی زندگی کا اللہ کی عبدیت اور رسول کی اطاعت ہے۔ جو ابتداء میں حصول خلافت اور بعد میں بقائے خلافت کا ذریعہ ہے۔
۳… بنیادی فریضہ جہاد ہے۔ شخصی زندگی میں جان اور مال کو نفس کے تسلط سے آزادکرانا اور دلیل کے راستے سے وحی کی روشنی میں جان اور مال پر عقل کو حاکم اور مسلط کرانا اور اجتماعی زندگی میں اس صالح جماعت کو ضرر رساں اور محارب قوتوں سے بچانا اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں چل کر الٰہی خلافت قائم کرنا۔
۴…بنیادی ضرورت جماعت ہے۔ جس کی ابتداء نصب امام سے ہوتی ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: عصری طلبہ کی موسم گرما کی تعطیلات کا ایک بہترین مصرف !
Flag Counter