Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

10 - 12
حضرت مولانا علی محمد حقانی کی رحلت !
حضرت مولانا علی محمد حقانی کی رحلت

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سندھ کے مایہٴ ناز عالم دین، قاطع شرک وبدعت، مجاہد ملت، بقیة السلف، استاذ العلماء میرے والد، میرے استاذ، میرے محسن اور میرے مربی استاذ العلماء حضرت مولانا علی محمد حقانی سندھ کی بزرگ شخصیت تھے، وہ بہترین استاذ، بہترین منتظم اور حقیقی معنوں میں اللہ والے تھے۔
ان کی تاریخ پیدائش تحریری طور پر ہمارے پاس موجود نہیں، اپنے سال ولادت کے بارے میں انہوں نے اپنی مبارک زندگی میں ہمیں اور اپنے مختلف احباب کو جو کچھ بتایا اور ہمارے خاندان کے بزرگ اور معمر افراد سے ہمیں جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کے مطابق اندازہ یہ ہے کہ حضرت کی ولادت ۱۳۲۶ھ کے لگ بھگ ہوئی ہے۔آپ کی ولادت لاڑکانہ کے قریب نوڈیرو شہر میں ہوئی، آپ کے والد بزرگوار، یعنی میرے داداجان مرحوم امیر بخش سومرو، سید العارفین حضرت مولانا سیدتاج محمود امروٹی کے خصوصی معتقدین اور مریدین میں سے تھے، باباجان کی ولادت کے بعد ان کے والد بزرگوار نوڈیرو سے نقل مکانی کرکے لاڑکانہ سے پانچ کلو میٹر مشرق کی جانب دریائے سندھ کے کنارے واقع عاقل نامی گاؤں میں آکر آباد ہوئے۔ حضرت والد مرحوم نے ابتدائی تعلیم عاقل گوٹھ میں حاصل کی، ان کے ابتدائی استاذ حافظ محمد الیاس تھے، سنہڑی گوٹھ میں مولانا حافظ محمد کامل  سے فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مولانا حبیب اللہ نوناری سے صرف ،حضرت مولانا خوش محمد میروخانی سے نحو میر، امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار کے امین اور فلسفہ شاہ ولی اللہ کے عظیم شارح حضرت علامہ مولانا غلام مصطفی قاسمی سے منطق کی کتابیں پڑھیں ۔ اس کے بعد حضرت حقانی ولی کامل حضرت مولانا عبد العزیز بھانڈوی کے رتوڈیرو والے مدرسے میں جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا عبد اللہ چانڈیو سے بھی کچھ کتابیں پڑھیں، اس کے بعدبابا حقانی مزید تعلیم کے لئے ٹھل حمزہ تشریف لائے، جہاں پر انہوں نے خطیب حرم حضرت مولانا محمد مکی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے والد بزرگوار حضرت مولانا خیر محمد حجازی سے اور گمانی شریف میں حضرت سید محمد انور شاہ کشمیری کے تلمیذ رشید، استاذ الاساتذة حضرت مولانا بزرگ حبیب اللہ سے کافی کتابیں پڑھیں، اس کے بعد وہ کوٹ مٹھن تشریف لائے، جہاں پر انہوں نے معروف منطقی عالم حضرت مولانا واحد بخش سے شرح تہذیب، قطبی، میر قطبی، رسالہ قطبیہ، حمد اللہ اور دیگر کتابیں پڑھیں،اس کے بعد وہ حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی کے پاس تشریف لائے اور ان سے بھی اکتساب فیض کیا، اس کے بعد وہ اَنی شریف تشریف لائے، جہاں پر انہوں نے مشہور استاذ حضرت مولانا ولی اللہ سے فلسفہ اور منطق کی کتابیں پڑھیں، بعد ازاں وہ راولپنڈی تشریف لائے، جہاں پر انہوں نے شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان  سے اکتساب فیض کیا،اس کے بعد وہ گوجرانوالہ تشریف لائے، جہاں پر انہوں نے حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کے تلمیذ رشید، شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی شمس الدین سے باقی کتابیں پڑھیں اور حضرت نے دورہ حدیث بھی وہیں پر کیا۔
دینی علوم کی تکمیل کے بعد وہ اپنے آبائی گاؤں عاقل تشریف لائے اور وہاں پر انہوں نے دینی مدرسہ قائم کیا اور چھ سات سال عاقل میں درس دیا، اس کے بعد وہ ضلع خیر پور میرس کی ایک بستی کھرڑاہ تشریف لائے، جہاں پر انہوں نے چھ سات سال تک دینی تعلیم دی، اس کے بعد انہوں نے ضلع سانگھڑ میں شاہ پور چاکر کے قریب برہون گوٹھ میں ایک سال تک پڑھایا، اس کے بعد وہ ضلع خیر پور کی تحصیل فیض گنج میں پکاچانگ تشریف لائے، وہاں پر بھی انہوں نے چھ سات سال تک پڑھایا، اس کے بعد وہ اپنے آبائی گوٹھ عاقل والوں کے اصرار پر دوبارہ عاقل تشریف لے آئے اور عرصہ دراز تک عاقل میں پڑھاتے رہے، عاقل میں انہوں نے کھیتی باڑی کا سلسلہ شروع کیا تھا، وہ خود بھی اور طلباء بھی اسباق سے فارغ ہونے کے بعد کھیتی باڑی کیا کرتے تھے اور حضرت حقانی صاحب  اس کھیتی باڑی سے مدرسے کو چلایا کرتے تھے اس دوران انہوں نے طب کی تعلیم بھی حاصل کی، آپ ماہر طبیب بھی تھے۔کھیتی باڑی کے ساتھ وہ روزانہ کچھ وقت اپنا مطب بھی چلاتے تھے، جہاں پر کافی لوگ آتے تھے اور حضرت کے ہاتھوں شفایاب ہوتے تھے۔
عاقل گوٹھ کے زمیندار اس وقت کے پاکستان کے وزیر دفاع خان بہادر محمد ایوب کھڑوصاحب تھے۔ ایک مرتبہ عید الفطر کے موقع پر حضرت کا ان کے ساتھ اختلاف ہوگیا، حکومت نے اعلان کیا کہ کل عید ہے، علماء کرام نے کہا کہ عید نہیں، حضرت حقانی نے نماز عید پڑھانے سے انکار کیا، جس پر خان بہادر محمد ایوب کھڑو صاحب ناراض ہوگئے اور انہیں حکم دیا کہ آپ میری بستی سے نکل جائیں، لاڑکانہ شہر میں حضرت کے ایک دوست تھے حاجی گل محمد شیخ مرحوم جو اس وقت لاڑکانہ میں میڈیکل اسٹور چلایا کرتے تھے، اس کو پتہ چلا کہ حضرت حقانی کو کھڑو صاحب نے بستی سے نکلنے کا حکم دیا ہے، اس پر وہ حضرت کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے لاڑکانہ میں دودائی روڈ پر واقع اپنی ایک زر خرید جگہ حضرت کو وقف کرکے دے دی، جہاں پر حضرت نے جامعہ اسلامیہ اشاعت القرآن والحدیث کے نام سے دینی مدرسہ قائم کیا، لاڑکانہ چونکہ رفض اور شرک وبدعات کا مضبوط گڑھ تھا اس لئے وہاں پر توحید کا پرچار کرنا بظاہر ناممکنات میں سے تھا، لیکن حضرت نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے لاڑکانہ میں محنت شروع کی، اس وقت لاڑکانہ میں صحیح العقیدہ مسلمانوں کی ایک یا دو مسجدیں تھیں اور اب لاڑکانہ شہر میں اہل حق کی ۷۰ سے زائد چھوٹی بڑی مسجدیں ہیں، جہاں پر حضرت کے شاگرد یا ان کے شاگردوں کے شاگرد امام اور خطیب ہیں، جو لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف بلارہے ہیں اور ان کو توحید کا درس دے رہے ہیں۔
ہر دم اللہ اللہ کر، نورسے اپنا سینہ بھر
جئے تو اس کا ہوکر جی، مرے تو اس کا ہوکرمر
حضرت حقانی نے پوری زندگی مدرسے کی پرانی عمارت میں گزاری، انہوں نے اولڈ کیمپس کے قریب ۱۹۷۷ء میں ادارے کی توسیع کے لئے احباب کے تعاون سے ایک پلاٹ خرید کیا، جہاں پر ادارے کی نئی عمارت نیو کیمپس تعمیر کرائی گئی، الحمد للہ! اس ادارے کے اولڈ کیمپس، نیو کیمپس، دس برانچز اور مدرسة البنات میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد طلباء اور طالبات اس وقت زیر تعلیم ہیں، بنین میں بھی ہر سال دورہ حدیث تک تعلیم ہوتی ہے اور بنات میں بھی دورہ حدیث تک تعلیم ہوتی ہے، دونوں ادارے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ ملحق ہیں، اس وقت حضرت کا ادارہ اندرون سندھ کی اہم دینی درسگاہوں اور بہترین جامعات میں سے ایک ہے، اس وقت ادارے کے مین کیمپس میں پانچ سو کے لگ بھگ رہائشی طلباء ہیں، جن کا کھانا ، پینا مدرسہ کے ذمہ ہے۔
حضرت حقانی کے شاگرد بلامبالغہ ہزاروں میں ہیں، جو اندرون ملک اور بیرون ملک خدمت دین متین میں مصروف ہیں۔ کوئٹہ بلوچستان کے شیخ الحدیث مولانا عبد القادر، بلوچستان کے شیخ الحدیث مولانا علم الدین، سنی خضدار کے مولانا عبد القادر ، قلات کے سید محمد صدیق شاہ، سندھ کے معروف مناظر اسلام، قاطع شرک وبدعت حضرت مولانا سید عبد اللہ شاہ بخاری،بھریا روڈ کے معروف عالم دین حضرت مولانا نور محمد کیریو، برہون کے حضرت مولانا فضل کریم، سپاہ صحابہ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ حضرت مولانا علی شیر حیدری شہید، کھرڑاہ کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا رشید احمد سومرو دامت برکاتہم العالیہ، جامعہ مفتاح العلوم حیدر آباد کے شیخ الحدیث حضرت مولانا جان محمد راجپر دامت برکاتہم العالیہ، دوحہ قطر کے معروف عالم دین مولانا احمد خان مینگل دامت برکاتہم العالیہ، طیس چاہ بہار ایران کے معروف عالم حضرت مولانا محمد نور حسنی دامت برکاتہم العالیہ، حضرت حقانی کے خصوصی شاگردوں میں سے ہیں۔
عمر بھر قرآن کا پیغام پھیلاتا رہا
ہر گھڑی اسلام کی تبلیغ فرماتا رہا
حضرت حقانی ۷۰ کی دہائی میں جمعیت علماء اسلام ضلع لاڑکانہ کے امیر بھی رہے، لاڑکانہ شہر میں جمعیت کا پہلا جھنڈا ان کے مدرسہ میں لگا، اس نبوی جھنڈے کی پرچم کشائی مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود  اور بابائے جمعیت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کے ہاتھوں عمل میں آئی تھی۔ ۷۰ کے انتخابات میں جب جناب ذوالفقار علی بھٹو نے حضرت مولانا مفتی محمود کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو حضرت حقانی نے بھٹو صاحب کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اور الیکشن لڑا۔ اس زمانے میں بھٹو خاندان کے خلاف الیکشن لڑنا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ یہ حضرت کی ایمانی غیرت تھی اور حضرت مفتی صاحب کے ساتھ ان کی محبت تھی۔ اس دور میں بابا جان تقریباً اکیلے تھے، اللہ پاک کے سہارے کے سوا کوئی دوسرا سہارا ان کے پاس نہیں تھا، غربت بھی تھی، لیکن اس مرد قلندر نے جمعیت علماء اسلام کا جھنڈا اٹئاکر کر تن تنہا بھٹو خاندان کے خلاف الیکشن مہم کا آغاز کیا اور لاڑکانہ کے لوگوں نے پہلی مرتبہ جمعیت علماء اسلام کا نام سنا، وہ پوری زندگی جمعیت علماء اسلام کے ساتھ وابستہ رہے، وفات کے بعد جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو اس وقت بھی ان کے جسدخاکی کو پرچم نبوی سے ڈھانپا گیا تھا۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذان لا الہ الا اللہ
مفتی اعظم سندھ حضرت مولانا مفتی غلام قادر ٹھیڑہی والے، استاذ العلماء حضرت مولانا محمد بلال ٹھیڑہی والے ، حضرت مولانا محمد امین ٹھیڑہی والےاور سندھ کے دیگر مشاہیر حضرت مولانا عبد الرحمن دریاخان مری والے، حضرت مولانا غلام محمد کولاب جیل والے، حضرت مولانا درمحمد ہنگورجا والے، حضرت مولانا عبد اللطیف میمن کنڈیارو والے، حضرت مولانا عبد الرحمن سومرو جنہان سومرو والے، حضرت مولانا عبد الروف حیدر آباد والے اور حضرت مولانا مفتی شمس الدین حیدر آباد والے ان کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ حضرت کے یہ سارے دوست حضرت کی زندگی ہی میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، حضرت اپنے احباب میں سے بزرگوں کی آخری نشانی تھے، میرے بابا جان کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رات ہی بدل گئی
ایک شخص پورے شہر کو ویران کرگیا
خانقاہ امروٹ شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا علامہ سید محمد شاہ امروٹی، خانقاہ ہالیجی شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا حافظ محمود اسعد ہالیجوی، حضرت ہالیجوی کے خلیفہ حضرت مولانا عبد العزیز بہانڈوی، اور حضرت لاہوری  کے خلیفہ حضرت مولانا سائیں محمد حسن صاحب شاہپور چاکر والے دامت برکاتہم العالیہ سے بھی ان کی بڑی عقیدت اور محبت تھی۔
باباجان کی بیعت کا پہلا تعلق قطب الاقطاب حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجوی سے قائم ہوا تھا۔ حضرت حماد اللہ ہالیجوی کے انتقال کے بعد انہوں نے حضرت کے خلیفہ، ولی کامل اور خانقاہ بیر شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا محمد عبد الکریم قریشی سے بیعت کی تجدید کی تھی۔ حضرت نے پوری زندگی قلندرانہ انداز میں گزاری، ان کی درویشی اور سادگی ضرب المثل تھی۔ وہ ریاکاری سے کوسوں دور تھے۔ عقائد کی اصلاح اور اعمال کی درستگی ان کی محنت کا میدان تھا۔ انہوں نے پوری زندگی شرک وبدعات کے تعاقب میں گذاری، رسوم باطلہ کی بیخ کنی کے لئے وہ ہمیشہ مستعد رہے۔ ان کی محنتوں سے ہزاروں لوگوں کو ہدایت ملی۔ قبروں کے پجاری، گھوڑوں کو چاٹنے والے، جھنڈوں کو سجدے کرنے والے حضرت کی محنت سے ایک اللہ کے حقیقی بندے بنے، موحد بنے، مجاہد بنے اور سنت کے پیروکار بنے۔
آئینِ جوان مرداں حق گوئی وبیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
ان کے شاگردوں نے بھی اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، شہر شہر اور بستی بستی توحید باری تعالیٰ کے نعرے بلند کئے اور لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی سکھائی۔
جو رند یہاں سے اٹھا ہے
وہ پیر مغاں کہلایاہے
خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب کندیاں شریف والے، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب،حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید، حضرت مولانا عبد السمیع شہید، پیر طریقت حضرت مولانا محمد لدھیانوی شہید، مجاہد اسلام حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید، حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید کافی مرتبہ حضرت والد صاحب کی دعوت پر لاڑکانہ تشریف لائے ، انہوں نے کئی مرتبہ جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں مختلف دینی اجتماعات سے خطاب کیا، حضرت والد صاحب ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔
جامع المنقول والمعقول حضرت مولانا عبد الغفور قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ، پیر طریقت حضرت مونالا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا حکیم محمد مظہر صاحب مذظلہ اور محبوب العلماء حضرت مولانا پیر ذو الفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے بھی حضرت بڑی محبت کرتے تھے، ان کی خواہش پر یہ بزرگ بھی لاڑکانہ تشریف لاچکے ہیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کی کتابوں کو ہمارے حضرت بہت پسند کرتے تھے، میرے والد بزرگوار، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے بھی بہت بڑے مداح تھے۔ میں جب بھی کسی سفر پر ہندوستان جاتا رہا ہوں تو ہر دفعہ میرے والد بزرگوار مجھے فرماتے تھے کہ کوشش کرکے میں حضرت مدنی کے صاحبزادگان میں سے کسی ایک کو لاڑکانہ لے آؤں، میں نے بہت مرتبہ کوشش کی، لیکن افسوس کہ اب تک اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ میرے والد بزرگوار کی زندگی میں تو ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی، لیکن میں اپنی کوشش جاری رکھوں گا، ممکن ہے کہ میرے اباجان کی وفات کے بعد ہی ان کی خواہش پوری ہوسکے۔ ملک اور ملت کی بھلائی کے لئے پاکستان میں جتنی بھی تحریکیں چلی ہیں، ہمارے حضرت ان تمام تحریکوں میں پیش پیش رہے۔ تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی اور تحریک بحالی جمہوریت میں ہمارے حضرت نے مقامی علماء کی قیادت فرمائی۔ وہ دین کو مکمل نظام حیات کے طور پر نہ صرف مانتے تھے، بلکہ اپنے خطبات اور اپنے مواعظ میں اس حوالے سے لوگوں کی ذہن سازی بھی فرماتے تھے۔ وہ دینی مدارس میں پرانے نظام کو باقی رکھنے کے حق میں تھے اور درس کی پرانی کتابوں کو نصاب سے نکالنے کے شدید مخالف تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ طلباء دینی تعلیم اپنی اصلاح اور امت کی اصلاح کی نیت سے حاصل کریں اور دین کو ذریعہ معاش نہ بنائیں۔وہ اصلاح باطن پر بھی زور دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ کسی نہ کسی اللہ والے سے تعلق قائم کرنا چاہئے۔ وہ فرماتے تھے کہ نفس کے خناس کو مارنے کے لئے اللہ والوں کی صحبت بہت ضروری ہے، اس حوالے سے گویا وہ یہ چاہتے تھے کہ:
تو کو اتنا مٹا کہ تو نہ رہے
تیری ہستی کا رنگ وبو نہ رہے
ہومیں اتنا کمال پیدا کر
کہ بجز ہو کے غیر ہو نہ رہے
ان کی مبارک زندگی میں حضرت امام ولی اللہ  کی تعلیمات کے مطابق طہارت، سماحت، اخبات اور عدالت کی جھلکیاں نظر آتی تھیں، وہ فرماتے تھے کہ طہارت سے مراد یہ ہے کہ بندے کی نیت بھی پاک ہو، فکر بھی پاک ہو، قلب بھی پاک ہو، دماغ بھی پاک ہو، ا سکے کپڑے بھی پاک ہو اور اس کا جسم بھی پاک ہو۔ وہ فرماتے تھے کہ جب تک لوگوں کے عقائد ٹھیک نہیں ہوں گے، تب تک بات نہیں بنے گی۔ وہ فرماتے تھے کہ مشرک اللہ کا باغی ہے اور بدعتی اللہ کے رسول ا کا باغی ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ قرآن پاک کے انسانوں پر پانچ حق ہیں، پہلا حق یہ کہ اس چیز کو تسلیم کیا جائے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ دوسرا حق یہ کہ اس کی تلاوت کی جائے۔ تیسرا حق یہ کہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ چوتھا حق یہ کہ قرآن کے حکامات پر عمل کیا جائے۔ اور پانچواں حق یہ کہ قرآنی قانون کے نفاذ کے لئے محنت کی جائے۔اسی طرح وہ فرماتے تھے کہ سید المرسلین حضرت محمدا کے بھی انسانوں پر چار حق ہیں:پہلا حق یہ کہ حضرت محمدا کو اللہ کا سچا اور آخری رسول مانا جائے۔دوسرا حق یہ کہ حضرت محمد رسو ل اللہا کی عزت کی جائے۔تیسرا حق یہ کہ حضرت محمد ا سے محبت کی جائے۔اور چوتھا حق یہ کہ حضرت محمدا کی اطاعت کی جائے۔
انہوں نے سندھی زبان میں درجنوں کتابیں لکھیں، جو ہزاروں کی تعداد میں کئی کئی بار شائع ہوئیں اور جن کے ذریعے سے بہت سارے لوگوں کو ہدایت ملی، ان کی مطبوعہ کتابوں میں سے عقیدے کے عنوان پر آئینہ اعتقاد مدلل سندھی اور نماز کے مسائل پر دو جلدوں پر مشتمل کتاب نبوی نماز مدلل سندھی نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے مسند امام اعظم کا سندھی ترجمہ بھی کیا، اس کتاب نے بھی علماء کرام سے خراج تحسین وصول کیا۔ اس کے علاوہ ان کی اور بھی چھوٹی بڑی درجنوں کتابیں مختلف اوقات میں شائع ہوئیں، ان کی بہت ساری تصانیف ایسی بھی ہیں، جو ابھی تک شائع نہیں کی جاسکیں، ان غیر مطبوعہ کتابوں میں درسی کتابوں کی شروح بھی شامل ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ سندھی زبان میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی جائے، اس پرانہوں نے اپنی عمر کے آخری ۳۰ سال صرف کئے اور الحمد للہ انہوں نے تفسیر قرآن کا کام مکمل کیا۔ یہ تفسیر بھی ابھی تک اشاعت کے انتظار میں ہے، اگر یہ تفسیر شائع ہوجائے تو امید ہے کہ یہ تفسیر اہلیان سندھ کے لئے ایک مثالی اور یادگار تفسیر ثابت ہوگی۔
گمراہوں نے راہ پائی جن کی تصنیفات سے
جاہلوں نے علم سیکھا ان کی تعلیمات سے
یلوح الخط فی القرطاس دہراً
وکاتبہ رمیم فی التراب
حضرت جب تک صحت مند رہے ، تہجد پابندی سے پڑھتے رہے اور رمضان المبارک میں آخری عشرے کا اعتکاف بھی پابندی کے ساتھ کرتے رہے۔ دو تین پارے روزانہ قرآن پاک کی تلاوت، روزانہ پندرہ بیس اسباق پڑھانا، اوراد مسنونہ کی پابندی اور اس کے علاوہ تصنیف وتالیف کے لئے وقت نکالنا، یہ ان کی کرامت تھی۔ انہوں نے زندگی بھر وعظ ونصیحت کے ذریعے بھی لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف بلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ ہر وقت احقاق حق وابطال باطل میں مصروف رہے، دینی معاملات میں سیدھی سیدھی سناتے تھے، ان کی حق گوئی اور بے باکی کو علاقے کے لوگ زندگی بھر یاد رکھیں گے۔
میرے بابا جان تقریباً ۱۰۷ برس کی عمر میں ۱۱ /اپریل ۲۰۱۱ء بمطابق ۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ بروز پیر کی صبح ۱۱ بجے اللہ کو پیارے ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اسی روز شام کو ان کا جنازہ ہوا، ان کے جنازے کی نماز خانقاہ بیر شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا عبد العزیز قریشی دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھائی۔ حضرت کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے، جن میں اکثریت علماء اور صلحاء کی تھی۔ ان کو نماز مغرب کے قریب ان کے آبائی گاؤں عاقل کے قریبی قبرستان میں ان کے والد برزگوار (یعنی میرے داداجان) اور ان اہلیہ محترمہ (یعنی میری امی جان)کے پہلو میں سپردخاک کیا گیا۔ خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را
حضرت نے اپنے پسماندگان میں مجھ سمیت ۴ بیٹے، ۳ بیٹیاں، ۱۴ پوتے، ۱۲ نواسے، ۱۱ نواسیاں، ۳ پڑ پوتے، ۲ پڑپوتیاں، ۲۲ پڑنواسے اور ۱۸ پڑنواسیاں سوگوار چھوڑے ہیں۔ حضرت کا خاندان اس وقت ۱۰۱ افراد پر مشتمل ہے، حضرت اپنے خاندان کے پہلے عالم تھے اور اس وقت حضرت کے خاندان میں سے ۹ عالم ہیں، ۱۱ حافظ ہیں، ۶ عالمات ہیں، ۷ بچے اور ۶ بچیاں دینی علوم کے حصول میں مصروف ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت باباجان کے نقش قدم پر چلنے اور ان کی نسبتوں کی لاج رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت نے لاڑکانہ میں جامعہ اسلامیہ اشاعت القرآن والحدیث کے نام سے جو دینی گلشن قائم کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس گلشن کی آبیاری کی توفیق نصیب فرمائے اور اللہ تعالیٰ حضرت کے سارے خاندان کو قیامت تک خدمت دین متین کے لئے منظور ومقبول فرمائے، آمین۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: عالمِ انسانیت اور پیٹ کا مسئلہ !
Flag Counter