Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 12
لباس کے آداب اور مقاصد !
لباس کے آداب اور مقاصد

جب سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے نسل انسانی کو پیدا فرمایا ہے، اس وقت سے لباس کا استعمال اور ستر پوشی انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے اور اس میں کسی مذہب وملت کا کوئی امتیاز بھی نہیں ہے اور یہ لباس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانیت پر ایک نہایت عظیم احسان ہے، جواس نے انسان کو ستر ڈھانپنے کے لئے ایک بہترین تحفہ کے طور پر مرحمت فرمایا ہے۔
دنیا کا ہرانسان چاہے وہ کسی بھی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہو، اگر وہ شریف اور سلیم الفطرت شخص ہے تو وہ اپنے ستر کی برہنگی کو قابل شرم ورسوائی سمجھتا ہے۔
اس کی اہمیت کا اندازہ حضرت آدم وحواء علیہما السلام کے واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص حکمت کے تحت دنیا میں اتارنے کا فیصلہ فرمایا، تو سب سے پہلے ان سے جنت کا لباس دور کرکے ان کو آزمائش میں ڈالا اور وہ پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ستر پوشی ابتداء آفرینش سے انسان کا فطری تقاضا اور عمل ہے، اس میں ان لوگوں کے لئے بھی سامان ہدایت ہے جو انسان کو ایک زمانے تک ننگ دھڑنگ کہنے پر اصرار کرتے رہے ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں لباس کو بطور انعام واحسان کے ذکر فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساَ یُّوَارِیْ سَوْأٰتِکُمْ وَرِیْشاَ“۔ (الأعراف:۲۶)
ترجمہ:۔”اے اولادِ! آدم ہم نے اتاری تم پر پوشاک جو ڈھانکے تمہاری شرمگاہیں اور اتارے آرائش کے کپڑے“۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لباس کو بطور نعمت واحسان گردانتے ہوئے اس کے اغراض ومقاصد اور آداب کو بھی لطیف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔
احادیث میں بھی آنحضرت ا نے لباس کے آداب کو بیان فرمایا ہے۔ قرآن وحدیث کا جائزہ لینے کے بعد لباس کے جو آداب اور مقاصدمعلوم ہوتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
۱…لباس کا بنیادی مقصد ستر پوشی ہے، جو لباس اس مقصد پر پورا نہ اترے، اس کو دنیا والے چاہے ترقی یافتہ لباس کہیں یا جدید دور کے فیشن زدہ لباس سے تعبیر کریں، شریعت کی نظر میں وہ لباس شمار ہی نہیں ہوتا، چنانچہ جو عورتیں ایسا باریک کپڑا پہنیں جس سے جسم نہ چھپتا ہو ایسی عورتوں کے بارے میں شریعت کا واضح اعلان یہی ہے کہ وہ درحقیقت برہنہ اور بے لباس ہیں اور حدیث میں ان کو کاسیات اور عاریات (یعنی بظاہر لباس پہننے والی مگر حقیقت میں ننگی )سے ہی پکارا گیا ہے۔ ۲…لباس ستر پوشی کے علاوہ سردی اور دھوپ کی تپش سے بچانے کے کام بھی آتا ہے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد ہے: ” قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساَ یَّوارِیْ سَوْأٰتِکُمْ وَرِیْشاَ“۔(الأعراف:۲۶) میں رِیشاً سے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
۳…لباس کا ایک اہم مقصد آرائش وزیبائش ہے کہ اس کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو جاذب نظر اور دلکش بنایا کرتا ہے اور لباس کے ذریعہ آرائش اور زیب وزینت اس صورت میں پسندیدہ اور مباح ہے، جب کہ انسان اس کی وجہ سے فخر اور غرور میں مبتلا نہ ہواور اگر انسان کے اندر عمدہ لباس کی وجہ سے تکبر اور عجب پیدا ہونے لگے تو یہ لباس اباحت سے نکل کر کراہت کی حدود میں داخل ہوجائے گا۔
۴…لباس کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لئے الگ الگ اور ممتاز لباس ہو، مرد کے لئے عورتوں جیسا لباس پہننا اور عورتوں کے لئے مردوں کی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ہے، ایک حدیث میں وارد ہے:
”عن ابن عباس قال: لعن رسول الله ا المتشبّہات بالرجال من النساء والمتشبہین بالنساء من الرجال۔“ (ترمذی۲/۱۰۶ )
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس سے روایت ہے، انہوں نے فرمایاکہ رسول اللہا نے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے“۔
۵…مسلمانوں پر اس بات کو لازم کیا گیا ہے کہ وہ لباس اور وضع قطع میں غیر مسلموں کی مشابہت اور پیروی کرنے سے بچیں، لہذا ہر وہ لباس جو غیر مسلموں کے مشابہ ہو، اس کو غیر مسلموں کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے کی نیت سے پہننا جائز نہیں ہے۔
آج کے دور میں جو اہل مغرب (یہود ونصاریٰ )کی اندھی تقلید کا رواج چل نکلا ہے، اس نے مسلمانوں کی غیرت کا جنازہ تو نکال ہی دیاہے اور اب لباس میں ان کی پیروی کرکے شرم وحیا کا جنازہ بھی نکالا جارہا ہے۔ فالی الله المشتکی احادیث میں غیر مسلموں کی مشابہت کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں حتی کہ ایک حدیث میں ہے کہ جو جس کی مشابہت کرے گا قیامت میں انہیں کے ساتھ اس کا حشر ہوگا۔مشکوٰة المصابیح میں ہے:
”من تشبہ بقوم فہو منہم“ (۲/۳۷۵)
ترجمہ:۔”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے“۔
کفار کا لباس اختیار کرنے میں متعدد مفاسد اور خرابیاں ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
۱…مسلمان اور کافر کے درمیان فرق ختم ہوجائے گا۔
۲…کفار کا لباس پہننا، ان کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔
۳…کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے ان کی برتری کو تسلیم کرنا ظاہر ہوتا ہے۔
۴…مسلمانوں کا لباس چھوڑ کر کفار کا لباس اختیار کرنے میں مسلمانوں کی کمتری اور حقارت کا خاموش اظہار ہے۔
۵…کفار کی مشابہت اختیار کرنا غیرتِ ایمانی کے بھی خلاف ہے۔
۶…جس طرح ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کی فوج کا لباس پہننے سے باغی شمار ہوتی ہے، اسی طرح مسلمان (جو اللہ کی فوج ہیں) کے لئے کافر کا لباس پہننا بغاوت کی علامت ہے۔
۷…مسلمان کا لباس اس طرح ڈھیلا اور کشادہ ہونا چاہئے کہ جسمانی اعضاء کی ساخت اس میں سے نمایاں نہ ہوتی ہو، اگر لباس اس قدر چست اور تنگ ہے کہ جسمانی ساخت نمایاں ہوتی ہے تو اس لباس کا پہننا جائز نہیں ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ لہذا ہر مسلمان کی غیرتِ ایمانی اور حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ طبعی طور پر یہود ونصاریٰ کے لباس سے کراہیت اور بیزاری محسوس کرے اور اس کو استعمال کرنے کا تصور تک دل میں نہ لائے۔
مگر افسوس یہ ہے کہ جو لباس مسلمان مردوں کی غیرت کے منافی تھا اور شرم وحیا کے خلاف تھا، آج اس سے بدتر اور بیہودہ ملبوسات مسلمان عورتوں کے لئے تیار کرکے بازار میں پیش کئے جارہے ہیں اور مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں اور شریف وباعزت خاندانوں کی عورتیں بڑے دھڑلّے سے ان لباسوں کو خرید بھی رہی ہیں اور طبقہ اشرافیہ کی علامت سمجھ کر پہنتے ہوئے فخر بھی محسوس کررہی ہیں۔
مسلمان گھرانوں کی وہ شریف زادیاں جن کے بال تک غیر محرم مردوں سے اوجھل رہتے تھے اور ان کے ناخن کے پورے بھی اجنبی مردوں کی نگاہوں سے داغدار نہیں ہوتے تھے وہی آج کل ترقی اور جدت پسندی کے نام پر مغربی لباس پہن کر اور چست اور تنگ کپڑے زیب تن کرکے عزت وشرافت اور شرم وحیا کے پردے چاک کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔انا لله وانا الیہ راجعون
ایک غلط فہمی اکثر لوگوں کو یہ ہوتی ہے کہ شریعت میں لباس اور وضع قطع کی پابندی صرف بالغ مرد اور عورت کے لئے ہے اور جو نابالغ ہے، اس کو جو لباس پہناؤ کوئی حرج نہیں۔ شکل وصورت جیسی بنالو، کوئی گناہ نہیں اور اس غلط فہمی کے باعث امت کا ایک بڑا طبقہ اپنی اولاد کو اہل مغرب کے سانچے میں ڈھال کر نشو ونما کررہا ہے اور خود بھی گناہگار ہورہا ہے اور ان بچوں کا مستقبل بھی تاریک کررہا ہے۔
جو بچہ مغربی لباس پہن کر شعور کی منزل کو پہنچے، یہود ونصاریٰ کی وضع قطع کو اپنائے ہوئے حدِّ بلوغت کو پار کرے، بچپن ہی سے آزادانہ ماحول میں پروان چڑھے، اس سے یہ امید کیونکر رکھی جاتی ہے کہ وہ بالغ ہوکر اس مغربی ثقافت سے بیزاری کااظہار کرے گا اور اس ترقی اور جدت پسندی کے نام پر بے حیائی اور فحاشی وعریانی کے رواج پانے پر اس کا دل تلملائے گا، وہ تو یہی سمجھے گا کہ یہ سب تو ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور ہمارا مذہب اس طرح کے لباس اور وضع قطع پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، اس لئے تو میرے والدین مجھے بچپن سے اسی حلیے کا عادی بناتے آئے ہیں،حالانکہ فقہاء کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جو لباس بالغ مردوں او رعورتوں پر حرام ہے، وہ لباس نابالغوں پربھی حرام ہے اور نابالغ کو اس طرح کا لباس پہنانے پر اس کے والدین گناہ گار ہوں گے۔ جیساکہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
”وما یکرہ للرجل لبسہ یکرہ للغلمان والصبیان؛ لأن النص حرم الذہب والحریر علی ذکور أمتہ بلاقید البلوغ والحریة والإثم علی من ألبسہم؛ لانا أمرنا بحفظہم، کذا فی التمرتاشی“۔ (۵/۳۳۱)
ترجمہ:۔”جس چیز کا پہننا کسی بڑے آدمی کے لئے مکروہ ہے وہ غلاموں اور بچوں کے لئے بھی مکروہ ہے، اس لئے کہ نص نے بلوغ اور آزادی کی قید لگائے بغیر ہی سونے اور ریشم کو امت مسلمہ کے مذکر افراد کے لئے حرام قرار دیا ہے اور گناہ ان پر ہوگا جنہوں نے ان (غلاموں اور بچوں) کو پہنایا اس لئے کہ ہمیں ان کو بھی ان چیزوں سے بچانے کا حکم ہے“۔
باطل نے روشن خیالی اور جدت پسندی کے نام پر سب سے پہلے عورتوں کو پردہ سے دور کردیا، پھر محنت کا دائرہ بڑھااور مسلمان لڑکیوں کے سر سے آنچل ڈھلکنے لگے، پھر باطل نے اور زور لگایا اور خواتین کے بازوٴں کی آستینیں غائب ہوتی چلی گئیں۔ مسلمان گھرانوں کے وہ باعزت خاندان، جن کی لڑکیاں کسی نامحرم کے سامنے تک نہ آتی تھیں، آج ننگے سر اور برہنہ بازو بازاروں میں اور مختلف محافل میں بے دھڑک تقریریں کرتی نظر آتی ہیں اور ان کے خاندان والے اس نام نہاد ترقی (یعنی بے غیرتی) پر بغلیں بجاتے ہیں۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اور اب باطل نے اپنی محنت کا دائرہ کار اور بڑھادیا ہے اور بازاروں میں جابجا خواتین کے لئے مغربی لباس کی دکانیں کھلی نظر آرہی ہیں اور وہ صنعت کار جن کو صرف زر اور بینک بیلنس کی غرض ہے، وہ اپنی فیکٹریوں میں مسلمان لڑکیوں کے لئے ایسے بیہودہ لباس تیار کرنے میں مصروف ومشغول ہیں کہ جن کو کوئی شریف زادی پہننے کا تصور تک نہیں کرسکتی، حالانکہ علماء اور فقہاء نے یہ بات واضح طور پر لکھ دی ہے کہ جس لباس کا پہننا جائز نہیں ہے، اس لباس کا سینا بھی جائز نہیں ہے اور جس چیز کا استعمال ممنوع ہے، اس چیز کو اپنی فیکٹریوں میں بنانا بھی درست نہیں ہے۔ البحر الرائق میں ہے:
”لوأن خیاطا أمرہ إنسان أن یخیط قمیصاً علی زیّ الفسّاق، یکرہ أن یفعل ذلک“۔ (کتاب الکراہیة۔فصل فی البیع ۸/۳۷۱،ط:رشیدیہ)
درمختارمیں ہے:
”فإذا ثبت کراہة لبسہا للتختّم تبث کراہة بیعہا وصبغہا لما فیہ من الإعانة علی مالایجوز، وکل ما أدّی إلی مالایجوز لایجوز“۔
(کتاب الحضر والإباحة، فصل فی اللباس ۶/۳۶۰،ط:سعید)
ترجمہ:۔”جب ان چیزوں (مثلاً سونا، لوہا وغیرہ) کو انگوٹھی کے طور پر پہننا مکروہ ثابت ہوا تو ان کی بیع اور رنگائی بھی مکروہ ہوگی ،اس لئے کہ اس میں مدد کرنا ہے اس چیز پر جو جائز نہیں ہے اورہر وہ کام جو ناجائز کی طرف لے جانے والا ہو وہ خود بھی ناجائز ہوتا ہے“۔
لہذا ہر وہ شخص جو اس مغربی لباس کی ترویج اور عام کرنے میں لگاہوا ہے، چاہے وہ والدین ہوں یا صنعت کار یا دکاندار، ہرایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ متنبّہ ہو اور دنیا کے چند روپیوں اور نام نہاد عزت کی خاطر مسلمان بچوں اور خاص طور پر مسلمان عورتوں کو ترقی اور آزادی کے نام پر بے حیائی ، فحاشی اورعریانی کا عادی نہ بنائیں کہ ہم تو چند دنوں میں دنیا سے رخصت ہوجائیں گے ،مگر اپنے پیچھے مستقل گناہ کا بیج بوجائیں گے، جس کا وبال مرنے کے بعد بھی ہمارے کھاتے میں درج ہوتا چلا جائے گا۔فقط واللہ اعلم
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: اسرارِ قبلہ !
Flag Counter