Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ - اپریل ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

9 - 12
آفتاب علم و عمل غروب ہوگیا !
آفتاب علم و عمل غروب ہوگیا


محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوری قدس سرہ کے شاگرد رشید، شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے صحبت یافتہ، معاون، خلیفہ مجاز اور آپ کے علمی جانشین، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی کی فکر کے امین، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مجلس شوریٰ کے رکن اور کراچی کے امیر، اقرأ روضة الاطفال کے سرپرست،جامعہ امینہ للبنات کے شیخ الحدیث، ماہنامہ بینات و ہفت روزہ ختم نبوت کے مدیر، روزنامہ جنگ کے مشہور و مقبول عام سلسلہٴ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ کے فقہی کالم نگار ،مرشد العلما حضرت اقدس مولانا سعید احمد جلال پوری، آپ کے بڑے بیٹے حافظ محمد حذیفہ، آپ کے خادم مولانا فخر الزمان اور آپ کے مخلص معتقد الحاج عبدالرحمن کو بروز جمعرات ۲۵ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۱/ مارچ ۲۰۱۰ء رات دس بجے بیان و مجلس ذکر سے فراغت کے بعد گھر جاتے ہوئے ابوالحسن اصفہانی لنک روڈ پر سفاک ظالموں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا اور آپ کے ایک ساتھی مولانا محمد خطیب صاحب کو زخمی کردیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمی۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت پر کیا لکھا جائے اور کس طرح لکھا جائے؟ دل و دماغ ابھی تک بند ہے، عقل و خرد نے ساتھ چھوڑ دیا، سوچوں پر گویا تالے لگے ہوئے ہیں، ابھی تک یقین نہیں آتا کہ ہمارے حضرت واقعی ہم سے جدا ہوگئے، مگر ”کل من علیہا فان“ اور ”کل نفس ذائقة الموت“سنت الٰہیہ اور ابدی قانون ہے کہ تسلیم و انقیاد اور رضا بالقضا کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
اس پر تو اطمینان ہے کہ الحمدللہ! ہمارے حضرت اپنے اکابر کی راہ وفا اور طریق مستقیم پر چلتے ہوئے مقامِ شہادت پر فائز ہوئے، جس کی انہیں تمنا اور آرزو تھی، وہ حیات جاوداں پاکر جنت کی نعمتوں سے شاد کام ہوگئے، انشاء اللہ آپ جنت کے مزے لوٹ رہے ہوں گے اور جنت میں اہل شہدأ کی مجلس میں محو گفتگو ہوں گے۔
مگر اس پر صدمہ ہے کہ ہم ان کی محبتوں، شفقتوں اور دعاؤں سے محروم ہوگئے، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا ترجمان چھین لیا گیا، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،اقرأ روضة الاطفال ٹرسٹ، جامعہ امینہ للبنات ،آپ کے ہزاروں شاگرد، مریدین اور متوسلین یتیم و بے سہارا ہوگئے۔
حضرت اقدس مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت دنیائے علم و اخلاق کا عظیم حادثہ ہے، ایسے اہل علم کی شہادت اور وفات علامات قیامت میں سے ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید کو وہبی اور فطری ملکات کے وہ مقامات عالیہ عطا فرمائے تھے کہ ریاضات و مجاہدات کے بعد بھی ان کا حاصل ہوجانا باعث کمال اور شرف ہوتا ہے۔ علم و فضل اور شرف و کمال کے ساتھ ساتھ عاجزی و انکساری اور خاموشی و کم گوئی آپ کی فطری کرامت تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے شیخ شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی  کی ہر ہر صفت و ادا کا عکس و پر تو بنایا تھا، چاہے وہ تدریس و تقریر کا میدان ہو یا تحریر کی جولان گاہ۔ ملحدین و مرتدین کا تعاقب ہو یا منکرین حدیث و منکرین دین کی گرفت، ہر محاذ پر آپ نے اپنے شیخ حضرت لدھیانوی شہید کی جانشینی کا حق ادا کر دکھایا، ایسی جامع کمالات شخصیت اور ہستی کی شہادت سے دینی و علمی حلقوں میں ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے کہ جس کے پُر ہونے کی بظاہر کوئی توقع نہیں۔
…………………………
حضرت اقدس مولانا سعید احمد جلال پوری شہید نے ۱۹۵۶ء میں نقشبندی بزرگ حضرت جام شوق محمد جلال پوری کے گھر میں آنکھ کھولی، آپ کا آبائی گاؤں نوراجا بھٹہ جلال پور پیر والا تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر کے قریب مولانا عطاء الرحمن اور مولانا غلام فرید سے ہوئی، ۱۹۷۱ء میں مدرسہ انواریہ حبیب آباد طاہر والی میں اور ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۴ء تک، مدرسہ عربیہ احیاء العلوم ظاہر پیر خان پور میں، اور پھر ایک سال دارالعلوم کبیر والا خانیوال سے موقوف علیہ کرلینے کے بعد دورئہ حدیث کے لئے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا۔ حضرت اقدس مولانا سیّد محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ، مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا سیّدمصباح اللہ شاہ، مولانا بدیع الزماں، مولانا محمد ادریس میرٹھی، مولانا فضل محمد سواتی وغیرہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات سے کسب فیض کیا اور ۱۹۷۷ء میں فاتحہ فراغ پڑھا۔ کراچی بورڈ سے آپ نے میٹرک کرلینے کے بعد ایف اے کا امتحان دیا اور کراچی ہی سے عربی فاضل کی سند حاصل کی۔
عملی زندگی
آپ نے جامع مسجد شریفی جوڑیا بازار کراچی، جامع مسجد راہ گزر شاہ فیصل کالونی کراچی ،جامع مسجد رحمانی پاپوش نگر، میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ معارف العلوم پاپوش نگر کے نگران اور مدرس رہے اور اپنی مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں بھی اسباق پڑھاتے رہے۔
صحافتی خدمات
آپ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ترجمان ماہنامہ بینات کے مدیر، روزنامہ جنگ کراچی کے اسلامی صفحہ اقرأ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ کے کالم نگار رہے، آپ کے ردِقادیانیت اور تردید فرق باطلہ میں ملکی و قومی اخبارات وجرائد میں بے شمار مضامین و مقالات شائع ہوچکے ہیں اور آپ نے بیسیوں کتب و رسائل پر پُرمغز تبصرے اور تقریظات لکھیں۔
تصانیف
معارف بہلوی (چار جلدیں)، بزم حسیں (دو جلدیں)، حدیث ِ دل (تین جلدیں)، پیکر اخلاص، فتنہ گوہر شاہی۔ زیر طبع کتب: تخریج و نظرثانی آپ کے مسائل اور ان کا حل (۱۰ جلدیں)، قادیانیت کا تعاقب، حدیث دل (جلد چہارم)۔
بیعت و خلافت
ابتدائی بیعت حضرت اقدس مولانا محمد عبداللہ بہلوی سے کی، ان کی رحلت کے بعد حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید سے بیعت کی اور خلافت سے سرفراز ہوئے، امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا۔ تجدید بیعت: خواجہ خواجگان حضرت خواجہ خان محمد دامت برکاتہم العالیہ سے کی۔
چونکہ آپ حیاً و میتاً اپنے شیخ شہید اسلام کا عکس و پر تو تھے، جی چاہتا ہے کہ آپ کے محاسن و فضائل کی ترجمانی کسی قدر حک و اضافہ کے ساتھ آپ ہی کے الفاظ میں ہوجائے جو آپ نے اپنے شیخ شہید اسلام کی شہادت پر رقم فرمائے: ”آپ نے کامیاب اور بھرپور زندگی گزاری، مقبولیتِ عامہ کا سنہری تاج تادَمِ آخر آپ کے سر پر سجا رہا، آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اتباعِ سنت سے عبارت تھا، ذکر و شغل آپ کی حیات و رُوح تھی، اصلاح و ارشاد، وعظ و نصیحت آپ کا امتیاز، درس و تدریس آپ کی مشغولیت، احقاقِ حق اور تردیدِ باطل آپ کی طبیعتِ ثانیہ تھی...
دُوسری طرف جب موت آئی تو منہ مانگی، اور زندگی بھر کے مناجاتِ مقبول کے معمول ”اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ“ کی تعبیر فوراً سامنے آگئی۔
زبان پر ذکرِ الٰہی جاری تھا کہ قدرت کی جانب سے بلاوا آگیا، اور اللہ اللہ کرتے شہادت کی خلعتِ فاخرہ سے سرفراز ہوگئے، اس پر بھی بس نہیں، قدرت نے اس بہشتی دُولہے کی خود حنابندی فرمائی اور اس بہشتی جوان کو گل و لالہ کی بجائے شہادت کے لہو کا گلوبند پہنایا گیا۔
اسے قدرتِ الٰہی کا کرشمہ کہئے یا حضرت کی محبوبیت کا راز! کہ حنابندی میں تکوینی طور پر اس کا بھی خیال رکھا گیا کہ غازہٴ حسن ملتے ہوئے صرف آپ کی داڑھی مبارک کو خون سے رنگین کیا گیا، لیکن آپ کے رُخِ زیبا پر خون کا ایک قطرہ تک نہیں آنے دیا گیا، کہ کہیں حسن و محبوبیت میں فرق نہ آجائے۔
سچ ہے کہ: ”من احب لقاء الله احب الله لقائہ!“ کے مصداق جو اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند فرماتے ہیں، یہ لقاءِ الٰہی کی محویت ہی تھی کہ سفاک قاتلوں نے آپ کے جاں نثار رفیق اور ڈرائیور عبدالرحمن پر فائرنگ کی، پھر ان درندوں نے یکے بعد دیگرے کئی گولیاں آپ کے نحیف و نزار جسم میں پیوست کردیں اور حضرتِ اقدس کو شہید کردیا۔ مگر آپ کے چہرہٴ انور پر کسی دہشت کے آثار نہیں تھے، بلکہ نہایت ہشاش بشاش اور مسکراتے چہرے کے ساتھ جامِ شہادت نوش فرماکر اس ارشادِ الٰہی: ”یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔“ (پھر چل اپنے رَبّ کی طرف، تو اس سے راضی ہے، وہ تجھ سے راضی، پھر شامل ہو میرے بندوں میں، اور داخل ہو میری بہشت میں) کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔
....بلاشبہ حضرتِ اقدس اپنی ذات میں انجمن تھے، اور ارشادِ الٰہی: ”اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ کَانَ اُمَّةً“ (ابراہیم علیہ السلام اُمت تھے) کے مصداق ،آپ کی شخصیت ایک فرد سے نہیں، بلکہ ایک جماعت سے عبارت تھی، آپ کی علمی خدمات کو دیکھا جائے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کسی اکیلے شخص کا کام ہوسکتا ہے؟آپ کا سب سے اہم کمال یہ تھا کہ آپ جہاں اعدائے اسلام کے لئے تیغِ براں تھے، وہاں اپنوں کے معاملے میں ”رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ“ کی سچی تصویر تھے، آپ عصبی اور گروہی اختلافات اور معاصرتی چشمک سے بالکل الگ تھلگ، رِیا، دِکھلاوے سے دُور اور نمود و نمائش سے متنفر تھے، گوشہ نشینی آپ کا اختصاص و امتیاز تھا.... آپ کا ایک کمال یہ تھا کہ آپ سے ملنے والا ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ حضرت کا سب سے زیادہ تعلق مجھ سے ہے، اس طرح پاکستان بھر کی تمام دینی اور مذہبی جماعتیں، ان کے اکابر و کارکن سمجھتے تھے کہ حضرت ہمارے سرپرست ہیں، سچ یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے محبوب و مقبول میرِ کارواں تھے۔“
…………………………
حضرت شہید کی شہادت کی خبر سنتے ہی پورا کراچی بلکہ پورا پاکستان غم و اندوہ میں ڈوب گیا، آپ کے مریدین، معتقدین، آناً فاناً اضطرابی حالت میں دیوانہ وار مقامی ہسپتال میں امڈ پڑے، ہسپتال کچھا کھچ بھر گیا، جس کی بنا پر چاروں شہدأ کو ایمبولینس کے ذریعہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن لایا گیا، شہدأ کی زیارت کرنے والا ہر شخص اشک بار تھا اور ہر دل رنجیدہ و غمزدہ تھا، اپنے بھی غم و اندوہ کی تصویر تھے اور پرائے بھی اس سے متاثر تھے۔
رات کو ہی مشاورت سے یہ اعلان کیا گیا کہ حضرت کی نماز جنازہ بعد نماز جمعہ جامعة علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں ہوگی، گھر والوں کا تقاضا تھا کہ حضرت اور آپ کے بیٹے حافظ محمد حذیفہ کے جسد خاکی گھر لائے جائیں، حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید اور آپ کے شہید بیٹے کو صبح آپ کی رہائش گاہ لے جایا گیا، بارہ بجے تک گھر والوں اور اعزہ و اقربأ نے ان کی زیارت کی، بعد میں ان شہدأ کو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن لایا گیا، نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جمعہ سے پہلے لوگ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن پہنچنا شروع ہوگئے تھے، نماز جمعہ تک مسجد اور جامعہ کا صحن عوام الناس سے بھر چکا تھا، لوگوں نے باہر روڈ پر دور دور تک صفیں بنائیں اور نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی، نماز جمعہ کے بعد جنازہ سے پہلے جامعہ کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر دامت برکاتہم نے مختصر بیان میں فرمایا کہ:
”حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید اور آپ کے رفقاء نے دین کی حفاظت اور سربلندی کے لئے اپنی جان راہ خدا میں پیش کی ہے، دشمن سمجھتا ہے کہ حضرت کو شہید کردینے سے دین ختم ہوجائے گا، یہ اس کی بھول ہے، آپ کی شہادت سے گرنے والے خون کے ہر ہر قطرہ سے اللہ تعالیٰ کئی سعید پیدا فرمادے گا جو ان کی طرح دین کی پاسبانی کا حق ادا کریں گے۔ “
جنازہ میں آئے ہوئے حضرات سے صبر کی تلقین کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے ایسے موقعوں پر صبر کا حکم دیا ہے اور اس پر بڑا اجر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اولئک علیہم صلوات من ربہم ورحمة واولئک ہم المہتدون“ کہ ان پر اللہ کی برکتیں اور رحمتیں ہیں اور یہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ آپ اس بشارت کو سامنے رکھیں اور صبر سے کام لیں۔
بیان کے بعد صفیں بنائی گئیں، حضرت ڈاکٹر صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی، شہدأ کو ایمبولینسوں کے ذریعے براستہ اسلامیہ کالج، حسن اسکوائر، نیپا، ابوالحسن اصفہانی روڈ سے حضرت لدھیانوی شہید کی قائم کردہ مسجد ختم النبیین لے جایا گیا، لوگوں کے ہجوم کی کثرت کی بنا پر شہدأ کو مین دروازہ کی بجائے مسجد کے شمالی دروازہ سے بحفاظت اندر لے جایا گیا، آپ کے برادر کبیر قاری فاروق صاحب اور آپ کے بڑے داماد مولانا محمد انس چونکہ پہلی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوسکے تھے، انہوں نے وہاں نماز جنازہ ادا کی، تقریباً چار بجے علم و عمل کا یہ آفتاب کنج شہدأ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عشاق کی نظروں سے غروب ہوگیا۔حضر ت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید نے پسماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹا، اورچھ بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہیداور ان کے ساتھ شہید ہونے والے اہل وفا کو اپنی بارگاہ الٰہی سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائے، ان کے ساتھ رضا و رضوان کا معاملہ فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں اور خدام کو آپ کے چھوڑے ہوئے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق بخشے۔ قارئین بینات اور حضرت شہیدکے متعلقین سے درخواست ہے کہ وہ حضرت شہید کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۱ھ - اپریل: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: دین اسلام کامل ترین نظام حیات ہے !
Flag Counter