Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ - اپریل ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

2 - 12
اختلاف قرأت کی بنا پر قرآن کے الگ الگ نسخے چھاپنے کا حکم !
اختلاف قرأت کی بنا پر قرآن کے الگ الگ نسخے چھاپنے کا حکم!

محترم جناب حضرت مفتی صاحب!
ہمیں یہ یقین ہے کہ آپ جیسے اہل بصیرت حضرات مندرجہ ذیل دو چیزوں میں واضح فرق کو سمجھتے ہیں:
۱…اختلاف قرأ ت کا وہ فن جو مسلمان اہل علم میں پڑھایا جاتا ہے اور وہ فن قرأ ت کی کتابوں میں مدون اور محفوظ شکل میں موجود ہے۔
۲…اختلاف قرأ ت کی بنیاد پر بیس (۲۰) قرآن کریم کے مستقل نسخے الگ الگ قاری حضرات کے نام سے شائع کئے جائیں اور عام لوگوں میں پھیلائے جائیں۔
ہمیں یقین ہے کہ آپ جیسے اہل علم حضرات نمبر۲ میں بیان کردہ موقف میں غور وفکر کریں گے اور اس معاملے میں عوام کے تشویش میں مبتلا ہونے کے پیش نظر محتاط اور چوکنا ہوں گے اور اس موقف کی قطعاَ تائید نہیں کریں گے اور نہ ایسا کرنے کی کسی کو اجازت دیں گے، مگر اہل حدیث مکتبہ ٴ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ماہنامہ ”رشد،، جے۔۹۹ ماڈل لاہور کے جون ۲۰۰۹ء میں شائع ہونے والے اپنے جریدے کے توسط سے عوام تک یہ بات پہنچائی ہے کہ وہ مختلف قاری حضرات کے حوالے سے بیس (۲۰) الگ الگ مصحف شائع کرنے کا عزم رکھتے ہیں، جیساکہ مذکورہ ماہنامہ ماہ جون کا شمارہ ص:۶۷۸ سے واضح ہے۔
اس رسالے میں لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ امت کی ۷۰ فیصد سے زیادہ حنفی اکثریت کے اہل علم ہمارے اس پروگرام میں ہمارے ساتھ ہیں، حالانکہ ہمیں امید ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ لہذا آپ بزرگان کرام سے ہماری عاجزانہ التجاء ہے کہ آپ اپنا نقطہٴ نظر خواہ بیان کی صورت میں، خواہ فتوے کی صورت میں دوسرے ذرائع ابلاغ کے توسط سے یہ بات واضح فرمادیں کہ عوامی سطح پر اختلاف قرأت کی بنیاد پر قرآن کریم کے مختلف الگ الگ نسخے شائع کرنا مثلاً ”ورش،، کی قرأ ت یا ”کالون،، کی قرأت میں اس طریقے سے دس قرائے کرام کے بیس شاگردوں کے حوالے سے بیس (۲۰) اختلافی مصاحف شائع کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے، جس سے نہ صرف عام مسلمانوں کو تشویش ہوگی، بلکہ غیر مسلموں کو چار انجیلوں کی طرح قرآن کریم کے حوالے سے پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے گا۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی عظمت وحفاظت کے لئے اور دشمنان اسلام کی سازشوں سے محفوظ کرنے کے لئے آپ جیسے اکابرین اسلام کی محنتوں کو قبول فرمائیں۔آمین

العارض: ذاکر حسین ، نارتھ ناظم آباد، کراچی

الجواب حامداًومصلیاً
آپ کا سوال دو پہلوؤں سے وضاحت طلب ہے:
۱… کیا مجوّزہ بیس (۲۰) نسخوں کی طباعت میں رسم عثمانی اور دیگر فنی تفصیلات کی رعایت کی جائے گی؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو ایسے نسخوں کی طباعت غلط ، ناجائز اور حرام ہے۔اگر رسم عثمانی کی پابندی کی جائے گی تو پھر بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا ایساقرین مصلحت ہے یا نہیں؟
یہ دوسری تنقیح اس لئے ضروری ہے کہ شریعت کسی شئ کے استعمال اور استعمال سے پیدا شدہ نتائج پر بحث کرتی ہے۔ شرعی اصول یہ ہے کہ جب کسی فعل کا ارادہ کیا جائے تو اس کے آثار ونتائج کو ابتداء میں موجود مان کر اس کا جائزہ لیا جائے۔ اگر نتائج درست اور موافق شرع نکلتے ہوں تو اقدام درست ٹھہرتا ہے، بصورت دیگر ابتداء ہی ناجائز ٹھہرتی ہے۔
پہلا سوال اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ جس اسلوب میں خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی  کے حکم سے حضرت زید بن ثابت  نے قرآن کریم تحریر کیا تھا،اس طرز تحریر کی اتباع واجب ہے اور اس کی مخالفت حرام ہے۔
آنحضرت ا نے جس رسم الخط میں قرآن کی کتابت کرائی تھی اور حضرت ابو بکر صدیق نے جس رسم میں مصحف کو مرتب کیا تھا اور حضرت عثمان غنی نے جس کی نقول مختلف بلاد وامصار میں روانہ فرمائی تھیں، وہ وہی طرز تحریر ہے جو صدیوں سے مسلمانوں میں مروّج ہے۔ قرن اول سے آج تک دنیا کے ہر خطے میں اسی اسلوب میں قرآن کریم لکھا جارہا ہے، نہ کسی نے اس کی مخالفت کی ہے، نہ ہی اسے بدلنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری اور تیسری صدی میں اسلامی علوم کی باقاعدہ تدوین ہوئی، ان میں نئی نئی شاخیں پیدا ہوئیں ، لیکن عثمانی رسم الخط ہر دور میں اور ہر خطے میں محفوظ اور محترم رہا، اور ہر ایک اسی کی پیروی کرتے رہے۔ (مناہل العرفان ۱/۳۷۰، عبد العظیم زرقانی)
رسم عثمانی پر بارہ ہزار صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ تابعین وتبع تابعین سب کے سب اس پر متفق ہیں۔ اُمت کے کسی دور میں اس اجماع کے خلاف نہیں ہوا ہے۔ سلفاً وخلفاً، شرقاً وغرباً اُمت کا اجماع اس امر کی قوی دلیل ہے کہ رسم عثمانی سے عدول وانحراف کی گنجائش نہیں۔ اس لئے جمہور کا مذہب ہے کہ رسم عثمانی توقیفی ہے یعنی آنحضرت ا کا تجویز کردہ ہے، کیونکہ خود نبی کریم ا نے کاتبانِ وحی کے لئے ایک دستور العمل مقرر فرمایا تھا۔
”کنز العمال،، میں ہے:
”الق الدواة، وحرف القلم، وانصب الباء، وفرق السین، ولاتعور المیم۔۔۔۔الخ،، (کنز العمال ج:۱۰ درمنثور ۱/۱۰)
”الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی،، میں ہے:
”وقال ابن فارس الذی تقولہ: ان الخط توقیفی، لقولہ تعالیٰ: علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم۔۔۔۔الخ،، ( ۲/۱۶۶،۱۶۷، ط:سہیل اکیڈمی لاہور)
”بحوث قرآنیہ،، میں ہے:
”ذہب جمہور العلماء سلفاً وخلفاً الی ان رسم المصحف توقیفی، لاتجوز مخالفتہ،،۔ (ص:۱۵۷،ط:الشرکة المصریة قاہرة)
امام احمد نے فرمایا کہ مصحف عثمانی کے خط کی مخالفت حرام ہے۔
”الاتقان فی علوم القرآن ،،میں ہے:
”وقال الامام احمد: یحرم مخالفتہ خط مصحف عثمان فی واو او یا او الف او غیر ذلک،،۔ (۲/۱۶۷،ط:سہیل اکیڈمی لاہور)
امام مالک سے پوچھا گیا کہ کیا مصحف کو ان حروف ہجا میں لکھا جاسکتا ہے جو لوگوں نے ایجاد کر لئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ ایک اور موقع پر جب دریافت کیا گیا، تو فرمایا: مصحف کے حروف میں تغیّر نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً: واو اور الف تک کے معاملے میں کہ یہ لکھنے میں تو آتے ہیں، لیکن پڑھنے میں نہیں آتے ۔جیسے لفظ ”اولوا،،۔
”الاتقان فی علوم القرآن،، میں ہے:
”وقال اشہب: سئل مالک، ہل یکتب المصحف علی ما احدثہ الناس من الہجاء، فقال: لا إلا علی الکتبة الاولیٰ۔۔۔۔۔ الخ،، (۲/۱۶۶،۱۶۷، ط:سہیل اکیڈمی لاہور)
”محیط برہانی،، میں ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ مصحف کی کتابت رسم عثمانی کے علاوہ کسی اور رسم الخط میں کی جائے۔ (بحوالہ مناہل العرفان للزرقانی)
رسم عثمانی کی اہمیت کے پیش نظر آج صرف وہی قراأ ت قابل قبول ہے جس کی رسم عثمانی میں گنجائش ہو۔ مثلاً”بعد،، کی قراء ت ”باعد،، تو قبول کی جاسکتی ہے لیکن ”بعدت،، قبول نہیں کی جاسکتی۔
کسی قراء ت کے رسم عثمانی کے موافق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان مصاحف میں سے کسی ایک میں لکھی ہو جو حضرت عثمان غنی نے لکھوائے تھے۔ اگر کوئی ایسا کلمہ زیادہ کردیا جائے جو مصاحف عثمانیہ میں نہ ہو یا کم کر دیا جائے جو مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک میں موجود ہو یاکوئی کلمہ مقدم کردیا جائے یا مؤخر کر دیا جائے تو ایسی مخالفت ہرگز جائز نہیں ہے۔
اوپر ذکر ہوا کہ رسم عثمانی جمہور کے نزدیک توقیفی ہے، اس میں رائے اور قیاس کو دخل نہیں ہے۔ اگرچہ اکثر جگہ قرآنی کلمات کتابت کے قواعد کے مطابق ہیں، لیکن بعض کلمات کتابت کے قواعد کے مطابق نہیں ہیں۔ مثلاً:
۱…نعمت الله (بقرہ: ۲۳۱) نعمة الله (مائدہ:۷)
۲…فہل ینظرون إلا سنت الأولین، فلن تجد لسنت الله تبدیلا، ولن تجد لسنت الله تحویلا۔ (فاطر:۴۳)
۳… وجنت نعیم (واقعہ:۸۹) جنة (پورے قرآن میں)
۴…لعنت الله علی الکاذبین (آل عمران:۶۱) ان علیہم لعنة الله والملٰئکة والناس أجمعین۔ (آل عمران:۸۷)
ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کلمات کو اسی طرح لکھیں جس طرح یہ منقول چلے آرہے ہیں۔ اگر رسم عثمانی منجانب اللہ نہ ہوتا تو یہ اختلافات موجود نہ ہوتے، بلکہ سب جگہ یکساں طور پر لکھا جاتا۔
علامہ زمخشری کے بقول قرآنی رسم الخط میں بعض الفاظ خلاف قیاس لکھے گئے ہیں، لیکن مسلمانوں نے محض اس وجہ سے کہ رسم عثمانی توقیفی ہے، کبھی ان الفاظ کو درست کرنے اور قیاس کے موافق بنانے کی کوشش نہیں کی ہے، بلکہ جس طرح صحابہ کرام  کا لکھا ہوا پایا تھا، اسی طرح بعد کی نسلوں تک پہنچاتے رہے۔
اس مقام پر اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ قراء ات کا اختلاف قطعی ہے اور قرآن کریم کے کمالات میں سے ہے ۔ آج جتنی قراأ تیں موجود ہیں، یہ ان قراأ توں کے مقابلے جو اسلام کے شروع دور میں موجود تھیں، سمندر کے مقابلے میں قطرے کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن دیگر قرا أ تیں رفتہ رفتہ معدوم ہوتی چلی گئیں۔ اب زمانہ موجودہ میں ہمارے پاس صرف دس قراأ تیں او ہر قراأ ت کی دو، دو، روایتیں متواتر باقی رہ گئی ہیں۔ (از شرح شاطبی مترجم ص:۳۸ تا ۴۲ ط: اوفسٹ لیتھوپریس کراچی) قراأ توں کے اختلاف کی طرح روایتوں کا اختلاف بھی ذاتی رائے کی بناء پر نہیں ہے، بلکہ آنحضرت ا سے سننے کی بناء پر ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ا نے بعض کلمات ایک سے زائد طریقوں پر اُمت کو سکھائے تھے، جس سے قراأ ت کے علم کی بنیاد پڑ گئی تھی، اب جو قراأ تیں متواتر شکل میں موجود ہیں، ان کا قبول کرنا واجب اور ان پر اعتماد لازم ہے۔ خود ائمہ فن کسی قراء ت پر اس وجہ سے عمل نہیں کرتے کہ وہ زبان وبیان اور قواعد ومحاورے کے زیادہ موافق ہے، بلکہ اس وجہ سے عمل کرتے ہیں کہ وہ صحیح سند اور مسلسل واسطوں سے آنحضرت ا سے ثابت ہے۔ جب کوئی قراأ ت اس معیارکے مطابق ثابت ہو جاتی ہے تو پھر لغت کی شہرت اور عربیت کا قیاس اسے رد نہیں کرسکتا ہے۔
اوپر ذکر ہوا کہ متواتر قراأ ت کو قبول کرنا واجب ہے لیکن متواتر قراأ ت کے بیان کے لئے قرآنی رسم الخط تبدیل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اول تو متواتر قراأ ت کے بیان کے لئے قرآنی رسم الخط میں تبدیلی کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیئے، کیونکہ قراأ ت کے قبول کرنے کے لئے اصل کسوٹی اور بنیادی شرط تواتر ہے جو قراأ ت متواتر ہوگی وہ لازماً رسم عثمانی کے موافق ہوگی اور زبان بیان کے قاعدوں کے مطابق ہوگی اور اگر بالفرض ایسی نوبت آجائے تو متواتر قراأ ت کے لئے قرآنی رسم الخط کو بدلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ رسم عثمانی کے لئے چھ قواعد مقرر ہیں یعنی حذف، زیادت، ہمزہ، بدل، فصل، وصل، یہ وہ چھ قواعد ہیں یا وہ چھ تغیرات ہیں جن میں رسم عثمانی عام عربی خط سے مختلف ہے۔ انہی قواعد کے تحت صدر اول سے آج تک قرآن کریم لکھا جاتا رہا ہے،جب کہ دوسری قراأ توں کے لئے اگر رسم کو بدلنا پڑے تو اس کے لئے قواعد وضوابط مقرر نہیں ہیں، جس سے قوی خدشہ ہے کہ بے شمار مفاسد جنم لیں گے ۔
۱…رسم عثمانی میں ایک ہی کلمہ بقدر امکان متعدد قراأ توں پر دلالت کرتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم میں نہ صرف یہ کہ اعراب نہ تھے، بلکہ نقطے بھی نہ تھے۔ ایسا اس لئے کیا گیا تھا کہ قرآنی رسم میں ابتداء ہی سے دیگر قراأ توں کی گنجائش رہے۔ اگر حرکات اور نقطے لکھ دئے جاتے تو دیگر قراأ تیں ظاہر نہیں ہو سکتی تھیں۔ مثلاً ”یقبل،، پہلے پہل یوں لکھا ہوا تھا ”یقبل،، اب اگر ”یاء،، کے نیچے دو نقطے لگا دیئے جاتے تو ”تاء،، والی قراء ت ”تقبل،، ظاہر نہیں ہو سکتی تھی۔
”ھَیتَ،، سورہٴ یوسف میں، چار متواتر قراأ تیں ہیں:
۱…”ھَیتَ،، بصری وکوفی کی۔
۲…”ھَیت،، مکی کی۔
۳…”ھِیتَ،، مدنی وابن زکوان کی۔
۴…”ھِئتَ،، ہشام کی قراء ت۔ یہ چاروں ”ھیت،، کے لغت ہیں اور چاروں قراأ تیں ایک ہی رسم سے نکلتی ہیں۔لیکن جن موقعوں پر ایک ہی رسم سے دوسری قراأ تیں نہیں نکل سکتی تھیں ان کا رسم مختلف کرایا جیساکہ ”قل سبحان،، میں ابن کثیر اور ابن عامر شامی کی قراأ ت ”قال،، ہے تو اسی اعتبار سے مکی اور شامی مصحف (عثمانی) کی رسم بھی الف ہی کے ساتھ ہے جو رسم عثمانی کے مطابق ہے، خلاف نہیں ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے لغت قریش کے علاوہ باقی تمام لغات کو منسوخ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ علی الاطلاق درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ روایت حفص ہی کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لغت قریش کے علاوہ بعض دوسری لغات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت حفص کے لئے مجریہا (ہود پارہ ۱۲ رکوع ۴) ”راء،، اور اس کے بعد والے ”الف،، کا امالہ ہے، حالانکہ امالہ اہل نجد کی لغت ہے ”تمیم،، اور ،،قیس،، کی لغت بھی یہی ہے، فتح اہل حجاز کی لغت ہے اور حفص کی روایت میں دونوں ہی ہیں یعنی ”مجریہا ومرسٰہا،،۔
۱…اس میں ظاہر معنیٰ کے اعتبار سے مختلف معانی ومطالب کا احتمال موجود رہتا ہے جو صرف اسی رسم کی پابندی سے ممکن ہے، جیسے ”ام من یکون علیہم وکیلا،، اور ام من یمشی سویا علی صراط مستقیم،، اگر اس کو ”امن،، کی طرح ادغام کے ساتھ لکھ دیں تو پہلے والا ”ام،، جو بلکہ کے معنیٰ میں ہے اور دوسرے والے ”ام،، میں جو پہلے سے مختلف ہے، کیا فرق باقی رہے گا؟
۲…حرف ”یا،، کی زیادتی جو معنیٰ خفی پر دلالت کرتی ہے۔ مثلاً : ”والسماء بنینٰہا بأید،، ”یا،، کے ساتھ اس میں اللہ تعالیٰ کی قوت کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے۔
۳… حرکات اصلیہ زبر، زیر، پیش کا پتہ چلتا ہے اور یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ کون سے حروف منقلب ہوتے ہیں، اسی طرح بعض لغات فصیحہ کافائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: ہائے تانیث، تائے مفتوحہ (لغت طی) مثلاً:”یوم یأتی لاتکلم نفس الا باذنہ،، اس میں ”یأت،، بحذف ”یا،، لغت ہذیل پر دلالت کرتی ہے۔
۴…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی سند متصل حضور اکرم ا سے ملتی ہے۔
اب تک جو تفصیل عرض کی گئی اس سے بخوبی درج ذیل نکات واضح ہوجاتے ہیں۔
۱… رسم عثمانی کے تحت جس لفظ کو جیسے اور جہاں لکھا گیا ہے، آج تک اس کو بدلنے کی جسارت نہیں کی گئی ہے۔قراء ت متواترہ اور روایات مختلفہ ہر دور میں پڑھی اور پڑھائی جاتی رہی ہیں، اگر مصحف کے رسم میں ان قراأ توں کے مطابق ترمیم وتبدیلی کی اجازت ہوتی تو علم قراأ ت کے علماء ضرور اس جانب اپنی توجہ مبذول فرماتے، کیونکہ نیکیوں کی حرص ان کو ہم سے زیادہ تھی، ہمتیں ان کی مضبوط تھیں، قلوب ان کے پاکیزہ تھے اور قرآن کریم کی نشر واشاعت کے فریضے کو وہ ہم سے بہتر سمجھتے تھے۔طباعتی اٰلات کی کثرت وسہولت اور ان کی جدت وترقی سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے۔ بڑے بڑے نامور خطاط ہر دور میں موجود رہے ہیں جنہوں نے کئی کئی نسخے عمدہ خطوں میں تحریر کئے مگر مصحف امام کی پیروی اور اقتداء سے انہوں نے سر مو انحراف نہیں کیا،کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ یہ اقدام تحریف لفظی کا دروازہ کھول دے گا۔
۳… رسم عثمانی توقیفی ہے۔ سلفاً وخلفاً، شرقاًوغرباً، اولاً وآخراًاسے قبولیت عامہ حاصل ہے۔ ہزارہا صحابہ کا اجماع اس پر قرون مشہود لہا بالخیر میں منعقد ہو چکا ہے۔ نیز ائمہ مجتہدین اس پر متفق ہیں۔ اس لئے رسم عثمانی میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔
۴…امت نے اپنے عمل سے کسی دوسرے اسلوب تحریر کو مسترد کردیا ہے۔ تعامل امت قوی ترین دلیل شرعی ہے، جس کی مخالفت ناجائز ہے۔
”والتعامل المتوارث أقوی حجة،، (معارف السنن باب رفع الیدین ۲/۴۶۶،ط: )
۵… رسم عثمانی کے قواعد مقرر ہیں۔ اس کے جملہ تغیرات چھ اشیاء میں منحصر ہیں، جب کہ دیگر قراأ توں کے لئے ایسے ضابطے نہیں ہیں، کما مر۔
۶… رسم عثمانی کئی فوائد پر مشتمل ہے جن کا ذکر گزشتہ سطور میں ہوچکا ہے۔
یہ تمام تفصیل اس صورت میں تھی کہ جب رسم عثمانی کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن کریم کے نسخوں کی طباعت کی جائے۔
اس مقام پر اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا مناسب ہے کہ ان مطبوعہ نسخوں کا بغور معاینہ کیا جائے جو دیگر قراأ توں اور روایتوں کی رموز واشارات کے ساتھ طبع کئے گئے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ رسم عثمانی سے کہاں کہاں اور کیسے انحراف کیا گیا ہے۔
اگرمجوزہ نسخوں کی چھپائی میں رسم عثمانی کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ علم رسم، علم ضبط اور علم الفواصل اور دیگر فنی تفصیلات کی رعایت رکھتے ہوئے مجوزہ نسخوں کی طباعت کی جائے تو اس کے فقہی اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں مجوزہ نسخوں کی طباعت سے درج ذیل مفاسد جنم لیں گے:
۱…برصغیر پاک وہند اور بنگلہ دیش میں مصاحف عثمانیہ کے جو صحیح ترین نسخے مروج ہیں، اس خطے کے مسلمان ان ہی نسخوں میں تلاوت کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں، لہذا ان نسخوں میں یا جدید طبع کرائے جانے والے نسخوں میں قراأ توں اور روایتوں کے اعتبار سے کسی قسم کی تبدیلی مسلمانوں کے لئے نت نئے مسائل جنم دینے کا سبب بنے گی۔ صدیوں سے یہ نسخے یہاں مروج ہیں، طبیعتیں ان سے مانوس ہیں، اصح المطابع پوری ذمہ داری اور احتیاط سے انہیں چھاپتے ہیں، کہیں کوئی فروگذاشت رہ جاتی ہے تو امت کو اس سے آگاہ کرنے اور اس کے ازالے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔
۲…عام مسلمان تلاوت میں سخت دقت محسوس کریں گے۔ یہ خیالی مفروضہ نہیں بلکہ امر واقعہ ہے، جس کا اندازہ بلاد مغرب میں شائع شدہ نسخوں سے ہوسکتا ہے کہ عام مسلمان ان نسخوں میں سہولت اور سرعت کے ساتھ بلا تأمل تلاوت نہیں کرسکتے، حالانکہ وہ مصاحف بھی رسم عثمانی کے مطابق ہیں۔ یہاں اور وہاں کے نسخوں میں فرق صرف ضبط کا ہے۔ عام آدمی جو علم قراء ت سے ناواقف ہو، وہ ضبط کوبآسانی نہیں سمجھ سکتا ۔مثلاً: اہل مشرق ”فاء،، کے لئے ایک اور ”قاف،، کے لئے دو نقطے اوپر لگاتے ہیں، جبکہ اہل مغرب ”فاء،، کے نیچے اور قاف کے اوپر صرف ایک ایک نقطہ لگاتے ہیں۔ اس قاعدے کی رو سے امام عاصم کی قراء ت بروایت امام حفص سورہ ٴ بقرہ کی درج ذیل آیت اس طرح لکھی جاتی ہے:
”الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلوٰة ومما رزقنٰہم ینفقون،،۔
لیکن قراء ت ورش میں یہی آیت اس طرح لکھی گئی ہے:
”الذین یومنون بالغیب ویفیمون الصلوٰة ومما رزفنٰہم ینبفوں،،۔
اگرآپ غور کریں تو دونوں آیتوں میں کئی جگہ فرق محسوس کریں گے۔ مثلاً:پہلی قراء ت میں ”یؤمنون،، میں ہمزہ منفردہ ساکنہ ہے، دوسری میں نہیں۔ قاف اور فاء کے نقطوں میں اسی طرح ”ینفقون،، کے آخری نون کے ضبط میں فرق ہے۔
اس ایک مثال سے دوباتیں بخوبی واضح ہیں:
(۱)بلاد مغرب کے نسخوں اور یہاں کے مروجہ نسخوں میں فرق صرف ضبط کا ہے۔
(۲) قراأ توں کا فرق نہ ہو بلکہ صرف ضبط کا ہو تو بھی عوام کے لئے اس کا سمجھنا دشوار ہے۔
۳… مستند تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ حضرت عثماننے جو نسخے مرتب فرمائے تھے، ان مصاحف کو ٹھیک اور درست طریقے سے پڑھنے کے لئے قراء ت کے ماہرین کا بھی بندو بست کیا تھا۔
آج حکومتی سطح پر کسی ایسے اقدام کی توقع نہیں، علماء ایسے ماہرین تیار کرلیں گے مگر ہمتیں کمزور ہیں، دینی علوم سے بے رغبتی عام ہے، دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈالنے والے پوری طرح مسلح اور مستعد ہیں، وہ زہر کے انجکشن ناواقفوں کے بدن میں بھرنا شروع کردیں گے۔ نتیجتاً عام مسلمان نہ صرف یہ کہ قراء توں کے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہ جائیں گے، بلکہ ان کے اس اعتماد اور اعتقاد میں بھی کمی آجائے گی جو وہ قرآن کریم کے متعلق رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ خیر خواہی کے نام پر اس سے بڑی بدخواہی اور دین کے نام پر اس سے بڑی بے دینی اور کوئی نہ ہوگی کہ قرآن کے نام پر قرآن کریم کے متعلق لوگوں کے اعتمادکو متزلزل کردیا جائے اور اعداء دین کو زہر افشانی کاموقع فراہم کیاجائے۔ بالفرض ایسا ہوا تو اپنوں کے شکوک وشبہات کا ازالہ اور غیروں کے اعتراضات کا دفعیہ حاملین علوم نبوت کا اہم دینی فریضہ ہوگا مگر اس کی نوبت ہی کیوں آنے دی جائے؟ جان بوجھ کرکیوں فتنوں کو دعوت دی جائے! پہلے سے موجود فتنے کچھ کم ہیں کہ نیا محاذ کھولا جائے!؟
۴…تمام شرطوں کی رعایت رکھتے ہوئے کسی دیگر قراء ت میں قرآن کریم کی اشاعت زیادہ سے زیادہ مباح کے درجے میں ہے۔جبکہ امت کو انتشار اور افتراق سے بچانا واجب ہے۔ امت کو یکسو اور متحد رکھنے کی خاطر شریعت بسا اوقات واجب درجے کے حکم سے بھی صرف نظر کرلیتی ہے، مثلاَ نماز میں ترک واجب کی بناء پر سجدہ سہو واجب ہے، لیکن اگر بڑی جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جارہی ہو اور سجدہ سہو کرنے سے نمازیوں کے انتشار کا خدشہ ہو تو سجدہ سہو چھوڑ دینا بہتر ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
”(قال فی التنویر وشرحہ: والسہو فی صلاة العید والجمعة والمکتوبة والتطوع سواء) والمختار عند المتأخرین: عدمہ فی الاولین لدفع الفتنة، کما فی جمعة البحر۔ قال المحقق فی الرد: الظاہر أن الجمع الکثیر فیما سواہما کذلک، کما بحثہ بعضہم ط، وکذا بحثہ الرحمتی وقال خصوصاَ فی زماننا وفی جمعة حاشیة أبی المسعود عن الہزیمة: أنہ لیس المراد عدم جوازہ بل الاولیٰ ترکہ! لئلا یقع الناس فی الفتنة الخ،،۔ (باب سجود السہو ۲/۹۲، ط:سعید)
اب غور کر لیا جائے کہ جس مقصد کے حصول کے لئے واجب کو چھوڑنا گوارہ کیا جاسکتا ہے، اگر وہ مقصد مباح کے ارتکاب سے فوت ہوتا ہو تو کیا مباح کے ارتکاب کی اجازت دی جائے گی؟
۵…اصول بالا سے ملتا جلتا اصول ، فلسفہ شریعت کی کتابوں میں درج ہے کہ ”دفع المفاسد اولیٰ من جلب المصالح،، یعنی مفاسد کا تدارک مصالح کے حصول پر مقدم ہے۔
امام عز الدین بن عبد السلام نے ”قواعد الاحکام،، میں امام شاطبی نے ”الموافقات،، میں، شیخ ابو حامد الغزالی نے ”احیاء،، میں اور ہر رنگ کے جامع شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ”حجة الله البالغة،، میں اس پر پُر مغز اور جامع بحث کی ہے۔
مذکورہ اصول کے پیش نظر ہر قراأ ت کی باقاعدہ مصحف کی شکل میں عمومی اشاعت ناجائز نظر آتی ہے۔
۶… صحابہ کرام مزاج نبوت سے آشنا تھے۔ جس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے ایک ہی رسم پر اتفاق کیا تھا، اس کی روح امت کو انتشار واختلاف سے بچانا تھا، مجوزہ نسخوں کی طباعت اس اجماع کی روح کے منافی اور اس سے متصادم ہے۔ بخاری شریف میں ہے:
”أن أنس بن مالک حدثہ: أن حذیفة بن الیمان قدم علی عثمان وکان یغازی أہل الشام فی فتح إرمینیة وأذر بیجان مع أہل العراق، فافزع حذیفة اختلافہم فی القراء ة، فقال حذیفة لعثمان بن عفان: یا أمیر المؤمنین! أدرک ہذہ الأمة قبل أن یختلفوا فی الکتاب اختلاف الیہود والنصاری ، فأرسل عثمان الی حفصة: أن أرسلی إلینا بالصحف ننسخہا فی المصاحف ثم نردہا إلیک، فأرسلت بہا حفصة إلی عثمان، فأمر زید بن ثابت وعبد الله بن الزبیر وسعید بن العاص وعبد الرحمن بن الحارث بن ہشام: أن ننسخوہا فی المصاحف وقال عثمان للرہط القرشیین الثلاثة إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی شئ من القرآن، فاکتبوہ بلسان قریش، فإنما نزل بلسانہم، ففعلوا حتی إذا نسخوا الصحف فی المصاحف، رد عثمان الصحف الی حفصة وأرسل الی کل أفق بمصحف مما نسخوا وأمر بما سواہ من القرآن فی کل صحیفة أو مصحف: أن یحرق،،۔ (کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن ۲/۷۴۶ ط:قدیمی کراچی، فتح الباری کتاب فضائل القرآن ۹/۲۰،۲۱ ط: دارالکتب العلمیة بیروت)
مذکورہ اقدام کے اعلان کے ساتھ ہی مسلمانوں کے پُر سکون ماحول میں اضطراب پیدا ہو چکا ہے۔ سوالات کی کثرت اس آنے والے طوفان کی خبر دے رہی ہے۔ جب یہ طوفان در ودیوار کے ساتھ ٹکرائے گا اس وقت اس کی شدت کو ہر کس وناکس جان لے گا۔ کاش کہ ہم اس کی آمد سے قبل بادلوں کے بدلتے ہوئے تیور اور سمندر کی مضطرب موجوں سے اس کا اندازہ لگا سکیں۔ کچھ بعید نہیں کہ یہ کوشش وجسارت آگے چل کر کتاب اللہ کی ابدی حفاظت کے وعدے کو غیر مؤثر بنانے کی اسکیم کا حصہ ہو۔ ۷… بعض افعال بذات خود مفاسد ہوتے ہیں، جبکہ بعض افعال گو بذات خود تو مفاسد نہیں ہوتے لیکن مفاسد کے مقدمات اور وسائل ہوتے ہیں، یہ مقدمات ہی ہیں جو مفاسد تک پہنچاتے ہیں۔ شریعت میں اسی لئے ممنوع لعینہ اور ممنوع لغیرہ کی تقسیم ہے ۔ قرآن کریم کی طباعت واشاعت بذات خود ام الحسنات ہے لیکن مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پرمجوزہ نسخوں کی طباعت ممنوع لغیرہ ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔ جو نسخے مصاحف عثمانیہ کی رسم کے خلاف تھے مصاحف عثمانیہ کی اشاعت کے بعد ان کو تلف کرا دینا اسی قبیل سے ہے، جبکہ وہ بھی قرآن کریم ہی کے مجموعے تھے اور ان میں قرآن کے علاوہ کچھ شامل نہ تھا۔
آج مروجہ قراء ت کے علاوہ دیگر قراء توں کے تلف کرنے کا فتویٰ نہیں دیا جارہا بلکہ ان کی طباعت کو خلاف مصلحت قرار دیا جارہا ہے۔ ہر عاقل تلف کرنے اور عدم طباعت کے فرق کو بخوبی جانتا ہے۔ فقط واللہ اعلم۔

الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری

کتبہ

شعیب عالم

دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۱ھ - اپریل: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: زید حامد جھوٹا ہےیا پوری پاکستانی برادری ؟
Flag Counter