Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ - اپریل ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

3 - 12
انسانی حقوق کے علمبردار یا بے گناہ انسانوں کے قاتل !
انسانی حقوق کے علمبردار یا بے گناہ انسانوں کے قاتل


گذشتہ دنوں امریکا نے پاکستان، ایران، سعودی عرب، سوڈان، شام، افغانستان، عراق، لبنان، لیبیا، یمن، صومالیہ، نائیجریا، الجیریااور کیوبا کے باشندوں کی امریکی ایئرپورٹوں پر ان کو برہنہ کرکے ان کی جامہ تلاشی لینے اور ان کے ایکسریز نکالنے کے بعد ان کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے احکامات جاری کئے ہیں۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ نے امریکہ کی جانب سے عائد کردہ ان ذلت آمیز احکامات کی سخت مذمت کی ہے، اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی حکومت سے کہا جائے کہ یہ احکامات ناقابل قبول اور انتہائی توہین آمیز ہیں، اس لئے امریکہ اپنے ان احکامات کو واپس لے ۔اور اگر امریکہ اپنے ان احکامات کو واپس نہ لے تو حکومت پاکستان بھی امریکیوں کے لئے اس قسم کے اقدامات کا اعلان کرے کہ آج کے بعد جو بھی امریکی پاکستان آئیگا اس کی بھی اسی طرح جامہ تلاشی لی جائے گی اور احتجاج کے طور پر کوئی بھی پاکستانی وزیر یا افسر اس وقت تک امریکا نہ جائے، جب تک امریکا اپنے یہ احکامات واپس نہ لے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے شروع کردہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کے خلاف اور اسلام کے خلاف جنگ ہے، اس نام نہاد جنگ میں پاکستان نے اربوں کھربوں کا اپنا نقصان بھی کیا، ہزاروں جوان بھی شہید کرائے، امریکہ کو خوش کرنے اور راضی رکھنے کے لئے اپنے شہروں کو برباد کرایا، اپنے ہم وطنوں کو تہ تیغ کیا، امریکہ کو اڈے دئے، ہر قسم کی سہولیات فراہم کیں، اس کے باوجود بھی امریکہ کی جانب سے پاکستانیوں کی تذلیل اور توہین کے احکامات صادر ہورہے ہیں اور امریکہ کی جانب سے ڈومور (یعنی ابھی آپ نے تھوڑے لوگ مارے ہیں، مزید بے گناہوں کو مارو) کا مطالبہ ہورہا ہے، حکومت پاکستان سوچے کہ امریکہ کی غلامی سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا؟
قرآن مقدس میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ: ”یہودی اور عیسائی اس وقت تک تم سے راضی نہیں ہوں گے، جب تک کہ تم اپنا دین اسلام چھوڑ کر ان کے دین کو قبول نہیں کروگے“ ابھی حال ہی میں پاکستان کی بے گناہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں امریکہ کے ایماندار، عدل وانصاف کے علمبردار اور ہیومن رائیٹس کے چیمپئن جج صاحبان کا فیصلہ بھی آپ حضرات کی نظروں سے گذرا ہوگا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ بندوق اٹھا کر امریکا کے ساتھ جنگ شروع کردیں، بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ آپ امریکا کے ناجائز احکامات کو نہ مانیں۔ چند ڈالروں کے عوض قومی غیرت کو نیلام نہ کریں، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
اللہ رب العزت نے مملکت خداداد پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، بہت سارے ممالک میں آپ کو اتنے وسائل نظر نہیں آئیں گے جتنے اللہ رب العزت نے ہمیں دیئے ہیں۔ تیل، گیس کے ذخائر، کوئلے کے ذخائر، معدنیات کے ذخائر، سونے اور چاندی کے ذخائر، دریا، سمندر، بہترین نہری نظام، آباد زمینیں، سرسبز اور شاداب چراگاہیں، ہرقسم کی فصلیں، اناج، پھل فروٹ، جھیلیں، آبشاریں، خوبصورت پہاڑ، عظیم الشان وادیاں وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے حکمران اگر ایمانداری کے ساتھ اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں، کشکول اٹھانے کے بجائے سادگی اور کفایت شعاری کو اپنائیں، بھیک مانگنا چھوڑدیں، کاسہٴ گدا گری کو سمندر میں پھینک دیں، عیاشیاں چھوڑدیں، اپنے ہم وطنوں کو رعایتیں دیں، ملکی صنعت کاروں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھیں، تو تھوڑے ہی عرصے میں ملک کی کایا کو پلٹا جاسکتا ہے، اور ہم خیرات لینے کے بجائے خیراتیں دینے والے بن سکتے ہیں۔لیکن اس کے لئے ہمت، جرأت، استقامت اور توکل علی اللہ کی اشد ضرورت ہے۔خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
امریکا نے ہمارے اوپر جو پابندیاں لگائی ہیں اور اپنے ایئرپورٹوں پر پاکستانیوں سمیت جن چودہ ممالک کے باشندوں کی سخت ترین چیکنگ کے جو احکامات جاری کئے ہیں، میرے خیال میں اس کے دو سبب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کے ان ممالک میں جنگی جنون زیادہ ہے ۔اور دوسرا یہ کہ شاید ان ممالک میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ مذکورہ بالا دونوں اسباب کے بارے میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھوں، تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ جنگی جنون مسلمانوں میں زیادہ ہے یا کفار میں؟ اور جرائم کی شرح کن ممالک میں زیادہ ہے، مسلمان ممالک میں یا کافروں کے ملکوں میں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا میں کوئی بھی ملک جنگی جنون کے حوالے سے امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ویسے تو دوسرے کفار کے ممالک بھی اس حوالے سے کچھ کم نہیں۔
امریکہ آج سے نہیں، بلکہ ۵۲۔۱۹۵۱ء سے ایسی مذموم حرکتیں کررہاہے جس سے اس کا بھیانک چہرہ کھل کرسامنے آرہا ہے ۔شروع سے امریکہ کے عزائم استعماری اور توسیع پسندانہ رہے ہیں۔ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۳ء تک کورین وار میں امریکہ نے تین لاکھ ۲۶ ہزار ۸۶۳ فوجی بھجوائے، جن میں سے ۳۶ ہزار ۵۴۴ مارے گئے، اس جنگ پر امریکہ نے ۳۲۰ ارب ڈالر خرچ کئے، اور اس جنگ میں ۱۵ لاکھ انسان قتل کئے گئے۔
ویٹ نام وار میں ۱۹۶۴ سے ۱۹۷۳ تک امریکا نے پانچ لاکھ ۴۹ ہزار فوجی بھجوائے ، ان میں سے ۴۸ ہزار ۲۰۹ فوجی مارے گئے، اس جنگ پر امریکہ نے ۶۸۶ ارب ڈالر خرچ کئے ،اور اس جنگ میں ۱۳ لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ۹۱۔۱۹۹۰ء میں فرسٹ گلف وار میں امریکہ نے چھ لاکھ ۹۶ ہزار ۵۵۰ فوجی بھجوائے، جن میں سے ۳۸۲ مارے گئے، اس جنگ پر امریکہ نے ۹۶ ارب ڈالر خرچ کئے، ۲۰۰۳ء میں دوسری گلف وار میں امریکہ نے پہلی مرتبہ ایک لاکھ ۱۵ ہزار فوجی بھجوائے اور دوسری مرتبہ ۲۰۰۹ء میں اڑھائی لاکھ فوجی بھجوائے، جن میں سے ۴۳۶۷ فوجی مارے گئے، اس جنگ پر امریکہ نے ۶۴۸ ارب ڈالر خرچ کئے اور گلف وار میں مجموعی طور پر تقریباً ایک لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا۔
ا سکے بعد افغانستان میں ۲۰۰۱ء میں امریکہ نے ۷۱ ہزار فوجی بھجوائے اور ۱۷۱ ارب ڈالر خرچ کئے اور اس کے بعد مزید ۳۰ ہزار فوجی بھجوائے اور ۳۰ ارب ڈالر کا خرچ کیا۔ افغانستان میں ۱۹۷۹ء سے لے کر اب تک یعنی روس کی جانب سے مسلط کردہ جنگ سے لے کر اب امریکا کی جانب سے لڑی جانے والی جنگ تک مجموعی طور پر دس لاکھ سے زائدانسانوں کو لقمہ اجل بنایا گیا ہے، جبکہ لاکھوں لوگ اب تک اپنے گھروں سے محروم ہیں اور در بدری کی زندگی گذار نے پر مجبور ہیں۔
ویسے بھی اگر آپ کفار کی تاریخ کھولیں گے تو آپ ان کی درندگی دیکھ کر لرز جائیں گے، یہ لوگ جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہلواتے ہیں، اگر آپ ان کے کرتوت دیکھیں گے تو یہ آپ کو وحشی درندے نظر آئیں گے، یہ اسلام کے دشمن، انسان ذات کے دشمن ،امن وامان کے دشمن اور اللہ اور اللہ کے رسول ا کے باغی، انسانی حقوق کے علمبردار نہیں، بلکہ یہ مظلوم انسانوں کے قاتل ہیں۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ فرانس میں جب جمہوریت کے نام پر انقلاب برپا کیا گیا تو اس موقع پر ۶۲ لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا تھا، ۱۹۱۴ء کی خطرناک جنگ عظیم میں جب یورپین ممالک کا جرمنی کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا تو اس جنگ میں روس کے ۱۷ لاکھ، فرانس کے ۱۳ لاکھ ۷۰ ہزار، اٹلی کے ۴ لاکھ ۲۰ ہزار، آسٹریلیا کے ۸ لاکھ ، بریطانیا کے ۷ لاکھ ۲۰ ہزار، بلغاریہ کے ایک لاکھ، رومانیا کے ایک لاکھ اور امریکا کے ۵۰ ہزار انسان قتل ہوئے تھے، مجموعی طور پر اس جنگ عظیم میں ۷۳ لاکھ ۳۸ ہزار لوگ قتل ہوئے تھے۔
دوسرے جنگ عظیم کے موقع پر بھی کفار نے اربوں کھربوں ڈالر اور پونڈ جنگ پر خرچ کئے تھے، دوسری جنگ عظیم میں روس کے ۷ لاکھ ۵۰ ہزار، امریکا کے ۳ لاکھ، بریطانیا کے ۵ لاکھ ۵۰ ہزار، اٹلی کے ۳ لاکھ، چین کے ۲۲ لاکھ اور جاپان کے ۱۵ لاکھ انسان مارے گئے تھے، ان تمام انسانوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ ۶ لاکھ بنتی ہے جب کہ لاکھوں لوگ ان جنگوں کی وجہ سے معذور اور اپاہج بن گئے تھے۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت کی حیثیت سے برداشت نہ کرنے والے امریکا نے جنگ عظیم دوم کے موقع پر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کے ۲ لاکھ ۷۵ ہزار بے گناہ انسانوں کو لقمہ ٴ اجل بنایا تھا، امریکا نے ان شہروں پر ۱۲ ہزار ٹن وزنی بم برسا کر شہری آبادیوں کو بھسم کیا تھا۔
یہ حقائق ہیں، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا جنگی جنون میں کافر ممالک اور خاص طور پر امریکہ کا دنیا کا دوسرا کوئی ملک مقابلہ کرسکتا ہے؟ امریکیوں کی خواہش ہے کہ ساری دنیا ان کی نوکری کرے ،وہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے سب کو لوٹتا رہے، کوئی اس کی حکم عدول نہ کرے، پوری دنیا کے انسان اس کی چوکھٹ پر جھکتے رہے۔
جنگی جنون کے علاوہ دیگر جرائم کے حوالے سے بھی کافر ممالک سب سے آگے ہیں۔مجموعی جرائم کے حوالے سے ٹاپ کرنے والے ٹاپ ٹین کنٹریز میں آئس لینڈ، سویڈن، نیوزلینڈ، گرینیڈا، ناروے، برطانیہ، ڈنمارک، فنلینڈ، اسکاٹلینڈ اور کینیڈا شامل ہیں۔ جن ممالک میں خودکشیاں زیادہ ہورہی ہے، ان میں نیوز لینڈ، فنلینڈ، سوئزرلینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، آسٹریا، امریکا، بلجیم، فرانس اور سوئیڈن سرفہرست ہیں۔ جن ممالک میں قتل زیادہ ہورہے ہیں، ان میں انڈیا، روس، کولیمبا، ساؤتھ افریقہ، امریکا، میکسیکو، وینزویلا، فلپنیز، تھائی لینڈ اور یوکرائن ٹاپ پر ہیں۔
جن ممالک میں منشیات کا کاروبار زوروں پر ہے، ان میں جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، ساؤتھ افریقہ، سوئرزلینڈ، بلجیم، سوئیڈن، اٹلی، پولینڈ اور جاپان سرفہرست ہیں ۔مذکورہ بالا حقائق جو آپ کے سامنے پیش کئے گئے ہیں، یہ بین الاقوامی ڈیٹا سے لئے گئے ہیں، جن کو ترتیب دینے والے مسلمان نہیں، بلکہ کافر ہیں، ان حقائق سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں کافروں کے ملک بدامنی، قتل وغارتگری، افراتفری کے حوالے سے سب سے آگے ہیں۔
لیکن ان ممالک کامیڈیا اپنے ممالک کے گناہوں کو چھپاتا ہے، اور بین الاقوامی سطح پر ان ممالک کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے، اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ان ممالک میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی، اور ان ممالک میں شاید سارے فرشتے رہتے ہیں۔
عوام الناس کو یہ حقیقت معلوم ہونی چاہئے کہ کفار ایک دوسرے کے دوست ہیں اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں، ان سے خیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔
اگر ہمیں یہ ممالک کوئی امداد دیتے ہیں تو اس امداد کے پیچھے بھی ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کریں، کافروں کی چوکھٹ پر جھکنے کے بجائے اللہ رب العزت کے دروازے پر جھکیں، اللہ سے مدد مانگیں، ہمارے میڈیا کو چاہئے کہ وہ کفارکے گیت گانے اور ان کے راگ الاپنے کے بجائے اللہ اور اللہ کے رسول کے پیغام کو عام کریں۔ ہمارے دانشوروں کو چاہئے کہ وہ مغرب کی تقلید کے بجائے قوم کو غیرت کا سبق پڑھائیں۔ ہماری عدلیہ کو چاہئے کہ وہ قرآن وسنت کے مطابق فیصلے صادر کرے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے۔ ہماری پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے جس کے نتیجے میں امت میں وحدت پیدا ہو اور قانون کی حکمرانی ہو۔ ہمارے افسران کو چاہئے کہ وہ رشوت اور ناجائز سفارش کے بجائے ایماندارانہ انداز میں کام کریں۔ ہمارے منتخب نمائندوں کو چاہئے کہ وہ میرٹ کا قتل عام رکوائیں۔ حقداروں کو ان کا حق دلوائیں اور غریب مسکین، بے بس اور بے کس لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کروائیں۔ہماری فوج کو چاہئے کہ وہ اپنے ماٹو پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ پاک فوج کا ماٹو ہے: ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ۔
اگر ہماری قوم بے ایمانی کو چھوڑ کر ایمانداری کا راستہ اختیار کرے، شیطان کی اطاعت کو چھوڑ کر تقویٰ اور پرہیزگاری اور خوف خدا کو اپنائے اور بزدلی اور بے غیرتی کی چادر کو پھینک کر جہاد فی سبیل اللہ کے فلسفہ پر عمل کرلے تو ہم آج بھی دنیا میں باعزت مقام حاصل کرسکتے ہیں، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہماری ذلت اور غلامانہ ذہنیت سمجھ سے بالا تر ہے۔ ہماری قوم کو چاہئے کہ وہ مخلص اور منافق میں، دوست اور دشمن میں، اپنے اور پرائے میں، اللہ کے بندوں شیطان کے بندوں میں فرق کرے اور وقت آنے پر ایماندار قیادت کو آگے لائے۔
اللہ رب العزت ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ فرمائے، آمین
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۱ھ - اپریل: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: اختلاف قرأت کی بنا پر قرآن کے الگ الگ نسخے چھاپنے کا حکم !
Flag Counter