Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ - اپریل ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

5 - 12
حق وباطل میں امتیاز کیجئے !
حق وباطل میں امتیاز کیجئے!


حق اوراہلِ حق ،باطل اوراہلِ باطل کی پہچان اور امتیاز کے لئے چند قواعد کو ذکر کیا جاتا ہے، امید ہے قارئین کو ان کے پڑہنے سے انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔
قاعدہ نمبر:۱
ایک ہوتی ہے علمی غلطی اور ایک ہوتی ہے عملی غلطی ۔ دونوں کا انجام خطرناک ہے۔
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ جن لوگوں کا عمل غلط ہوگیا ہو اور وہ عملی غلطی میں مبتلا ہو گئے ہوں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ان کو کسی وقت غلط عمل کے مقابلہ میں صحیح عمل کا مشاہدہ ہوجائے اور وہ صحیح عمل کی حقیقت کا ادراک کرلیں توتوبہ کرکے اس غلط عمل کو چھوڑ کر صحیح عمل پر آجائیں گے، مثلاً: ایک سیدھا سادا ان پڑھ گمراہی میں مبتلا یا فاسق و فاجر آدمی ہے اور وہ کسی غلط عمل میں پڑا ہوا ہے ، لیکن جب وہ قرآن وحدیث کے مطابق صحیح عمل کو دیکھ لیتا ہے اور اس کی حقیقت کو پالیتا ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرلیتاہے، اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں۔
اس کے مقابل جن لوگوں کا علم غلط ہوگیااور وہ علمی غلطی کا شکار ہوگئے تو وہ گمراہی کی ایسی تاریک وادی میں جاکرپھنس جاتے ہیں کہ وہاں سے ان کا نکلنا مشکل ہوجاتا ہے، بلکہ ان کو راہ راست پر آنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی ۔
قرآن وحدیث اور تاریخی و مشاہداتی واقعات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بہت سے گروہ اسی طرح علمی غلطی کا شکار ہیں۔ اپنے غلط علم کی وجہ سے وہ قرآن کریم اور احادیث مقدسہ کے واضح اور صحیح مطالب کو الٹ پلٹ کرکے اس میں کھینچا تانی کرتے ہیں اور تحریف کی حد تک جاکر ان نصوص کو اپنے غلط علم کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ سینکڑوں آیات واحادیث اور فقہ کی جزئیات میں یہ حضرات تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔لہذا اہل حق طبقہ ، اہل باطل کی قرآن وحدیث کی تحریفات کو اسی تناظر میں دیکھے اور سادہ لوح عوام کو بتائے کہ ان بیچاروں کا علم غلط ہوگیا ہے ،جس کی بنیاد پر وہ غلط عقیدہ پر جم گئے ہیں۔
قاعدہ نمبر:۲
ہر انصاف پسند اور حق کے متلاشی انسان کوچاہئے کہ قبول حق کے لئے پہلے وہ اپنے ذہن کو بالکل خالی رکھے اور پھر حق کو تلاش کرے۔اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ انسان جب اپنے ذہن کو خالی رکھتا ہے اور پھر حق کا متلاشی رہتا ہے تو وہ قرآن وحدیث سے بہت جلدی ہدایت پالیتا ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق راہ راست پر آجاتا ہے۔ لیکن یہی انسان اگر پہلے اپنے ذہن میں ایک غلط عقیدہ بٹھا لے اور اس پر جم کر قرآن وحدیث کا مطالعہ کرے تو وہ ہدایت کو نہیں پاسکتا ہے،بلکہ غلط عقیدہ پر ڈٹ جانے کی وجہ سے وہ قرآن وحدیث کی نصوص اور واضح ارشادات کو قبول کرنے کے بجائے اس میں جوڑ توڑ کرے گا اور صریح تحریف پر اتر آئے گا، گویا ”خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں،،کا مصداق بن جائے گا۔ ہر خاص وعام مسلمان کو سمجھ لینا چاہئے کہ کچھ حضرات نے پہلے ایک خاص عقیدہ اپنے من گھڑت قصوں، کہانیوں اور قوالیوں سے بنایا،پھر وہ قرآن وحدیث کو اس کی طرف موڑ رہے ہیں۔ اہل باطل کاہمیشہ سے اسی طرح کا معاملہ رہا ہے۔
قاعدہ نمبر: ۳
کسی نبی کا معجزہ اس نبی کی نبوت کے لئے دلیل ہوتا ہے، اس کی الوہیت کی دلیل نہیں ہوتا۔
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھوں بے شمار معجزات ظاہر ہوئے ہیں اور ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی اکے سینکڑوں معجزات ظاہر ہوئے ہیں، یہ معجزات آنحضرت ا کی نبوت کے اثبات کے لئے تھے کہ آپ نبی ہیں۔ کچھ حضرات نے معجزات کو دیکھ کر نبی پاک ا کو ایسے اوصاف سے متصف کردیا جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں،مثلاً: آنحضرت ا نے بطور معجزہ مستقبل کی کوئی خبردی تو انہوں نے کہا کہ دیکھو! آنحضرت ا کس طرح غیب دان ہیں، یا آنحضرت ا کے ہاتھ سے بطور معجزہ کسی کا زخم ٹھیک ہوگیایا کنویں میں پانی بھر گیا یا انگلیوں سے پانی جاری ہوا یا کھانا بڑھ گیا تو ان حضرات نے کہہ دیا کہ دیکھو! آنحضرت ا کس طرح مشکل کشاہیں، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے معجزات تھے جو آنحضرت ا کے رسول برحق ہونے کے دلائل ہیں۔اگر یہ مشکل کشائی ہے تو جناب حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں بطور معجزہ مردے زندہ ہوئے تو کیا وہ خدا ہوگئے؟ ہر خاص وعام کو چاہئے کہ وہ اس نا سمجھی کو سمجھیں۔
قاعدہ نمبر:۴
قرآن وحدیث کی وہی تشریح معتبر ہے جو سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین سے منقول چلی آئی ہے، کسی نئے شارح کی تشریح کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ جتنے نئے فتنے پیدا ہوئے ہیں یا آئندہ پیدا ہوں گے، اس کی بنیاد اس پر ہے کہ ہر فتنہ انگیز آدمی اپنی ذہنی اختراع اور ذہنی خلفشار کے مطابق قرآن وحدیث کی خود ساختہ تشریح کرنے لگتا ہے اور اس پر ایک فرقہ کی بنیاد قائم کرتا ہے۔بہت سے گروہ اسی نامناسب راستے پر گامزن ہیں، ذرا بھی کسی سے بات کرو تو فوراً قرآن کی آیات سے ایک خانہ ساز، اختراعی اور من گھڑت تشریح پیش کردے گا یا اپنا مطلب نکالنے کے لئے قرآن و حدیث میں تحریف کردے گا۔ ان سے گزارش ہے کہ بھائی! ذرا سوچو تو سہی کہ سلف صالحین ایک آیت سے وہ کچھ نہیں سمجھ سکے جو آج آپ سمجھ رہے ہیں؟ نزول قرآن سے چھ سوسال بعد آنے والے شیخ القادر جیلانی کی گیارہویں کو فوراً قرآن سے ثابت کردیتے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہرگلی اور ہر محلہ میں کوئی نہ کوئی مجتہد بیٹھا ہوا ہے جو اجتہاد کررہا ہے اور قرآن وحدیث میں تحریف کا گناہ کررہا ہے، آج کل تو دین سے بالکل آزاد طبقہ اجتہاد پر مسلسل زور دے رہا ہے اور خود بھی اجتہاد کرتا چلا رہا ہے۔
قاعدہ نمبر: ۵
فقہاء کرام نے شریعت کے احکام کو جس طرح اپنی کتابوں میں پیش کیا ہے، ان کواسی طرح قبول کرنا چاہئے، تاکہ تمام تنازعات کا آسانی سے فیصلہ ہوجائے۔اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ یہ شریعت کسی خفیہ راستے سے آکر رات کی تاریکی میں ہم تک نہیں پہنچی ہے، بلکہ اس کے کھلے احکامات ، کھلے راستے سے غیر مبہم انداز میں ہم تک پہنچے ہیں۔ قرآن کریم متن اور دستور ہے، احادیث اس کی شرح ہے اور امام ابوحنیفہ کا اسلامی فقہ اس کے دفعات ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ احناف کے فقہ کے دفعات میں تمام مسائل کا حل تلاش کریں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو فیصلے تک بآسانی پہنچ جائیں گے، مثلاً: ”ہدایہ،، کے ”باب الاذان،، میں اذان کے جو تمام مسائل بیان کئے گئے ہیں، آیا اس میں اذان سے پہلے ایک خود ساختہ درودپڑھنا ہے یا نہیں؟ اسی طرح جمعہ کے تمام مسائل میں کیا جمعہ کی نماز کے بعد دائرہ کی شکل میں کھڑے ہوکر لاؤڈاسپیکر میں ایک خاص اردو، درود لکھا ملتا ہے یا نہیں؟ کیا فقہ کی کتابوں میں عید میلاد النبی کا لفظ کہیں ملتا ہے یا عید میلاد النبی کے جلوسوں کاکہیں ذکر ہے یا گیارہویں کا ذکر ملتاہے یا تیجے اور چالیسویں کا ذکر کہیں ملتا ہے؟ اگر نہیں تو یہ حضرات ان چیزوں کو کہاں سے لاتے ہیں؟ فقہاء احناف نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو عالم الغیب ماننے سے آدمی کافر ہوجاتاہے۔ یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاضر ناظر ماننے سے آدمی کافر ہو جاتاہے ۔ اسی طرح واضح دفعات سے انحراف کرکے ان حضرات نے تنازعات واختلافات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اہل حق کوسمجھ لینا چاہئے کہ ان حضرات نے جب اتنے بڑے فقہاء اور فقہ کی اتنی واضح دفعات کو نظر انداز کردیا ہے تو وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ بعض گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ امت میں تنازع فقہ کی وجہ سے ہے، میں کہتاہوں کہ فقہ کو چھوڑنا تنازعات کی جڑ ہے۔
قاعدہ نمبر:۶
قرآن کریم میں کچھ نصوص متشابہات کے قبیل سے ہیں اور کچھ محکمات کے قبیل سے ہیں، متشابہات کو محکمات کی روشنی میں سمجھنا چاہئے، نہ یہ کہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑا جائے۔ اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ مثلاً: قرآن کریم میں بشر کا لفظ محکمات میں سے ہے ،جو جنس انسان کے لئے مخصوص ہے، جس سے فرشتوں اور جنات کی جنس اس سے الگ ہوجاتی ہے۔انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے قرآن وحدیث میں بار بار بشر کا اطلاق کیا گیا ہے، آنحضرت ا سے متعلق بھی قرآن وحدیث میں جگہ جگہ بشر کا ذکر ہے۔ اسی طرح آپ پر نور کا اطلاق بھی کیا گیا ہے، نور کے نام سے یاد کیا گیا ہے، ہدایت اور قرآن کو بھی نور کہا گیا ہے۔ لہذا نور کے اس محتمل اور متشابہ لفظ کو بشر کے مقابلے میں نہیں لانا چاہئے، بلکہ عمل اور عقیدہ کے اعتبار سے لفظ بشر کو اپنا نا چاہئے اور اس محکم کی روشنی میں اس متشابہ کو سمجھنا چاہئے۔ اس قاعدہ سے بہت ساری الجھنیں دور ہوسکتی ہیں۔ آنحضرت ا ہدایت کے چراغ اور نور تھے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
قاعدہ نمبر: ۷
بہت ساری بدعات وشرکیات کا ارتکاب معاشرتی اختلاط اور اردگرد کے حالات کو دیکھنے اور سننے سے ہوتا ہے۔اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ ہندوستان کی ہند واقوام کی ہندوانہ رسومات سے بعض بے علم متاثر ہوئے اور انہوں نے ان رسومات کو اپنی معاشرتی، اخلاقی اور عباداتی زندگی میں داخل کردیا۔ اسی طرح جو مسلمان آتش پرست پارسیوں کے پڑوس میں رہتے تھے، وہ ان کے معاشرتی رسم ورواج میں پھنس گئے۔ اسی طرح کچھ حضرات نے ان تمام رسومات اور بدعات کو اپنا لیا جو دوسری قوموں کی زندگی کا حصہ تھا، چنانچہ جشن عید میلاد النبی عیسائیوں کی کرسمس کی نقل ہے اور تیجا، چالیسواں، برسی اور گیارہویں ہندو پنڈتوں کی رسومات کی نقل ہے، تحفة الہند کتاب کا مطالعہ فرمائیں تو ساری بدعات اور رسومات کی بنیاد کا پتہ چل جائے گا، بشرطیکہ انصاف کا دامن ہاتھ میں ہو۔
قاعدہ نمبر:۸
”توجیہ القائل بمالایرضی بہ قائلہ،، یعنی قائل کے قول کی ایسی تاویل کرنا جس سے وہ راضی نہیں۔اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک صحیح العقیدہ عالم اپنی تقریر یا تحریر میں کوئی علمی بات کہہ دیتا یا لکھ لیتا ہے، جو شریعت کے موافق ہے مگر اس صاحب ِتحریر کے علاوہ ایک اور صاحب آتا ہے اور ان کی عبارت اور تحریر سے کوئی ایسا مطلب نکال لیتا ہے جو شریعت کے خلاف ہوتا ہے اور پھر اس کو بنیاد بناکر فتویٰ لگاتا ہے اور پروپیگنڈہ کا ایک طوفان کھڑا کردیتا ہے، اس تقریر وتحریر اور تصنیف وتالیف کا ذمہ دار عالم اگر زندہ ہوتا ہے تو وہ اس کی تردید بھی کر لیتا ہے یا اس کے پیروکار اور معتقدین اس عبارت کا صحیح مطلب بھی بتادیتے ہیں اور اس غلط مطلب کو گمراہی بھی سمجھتے ہیں، مگر غلط پروپیگنڈہ کرنے والا کسی کی نہیں سنتا اور کہتا پھرتا ہے کہ نہیں ،اس کا مطلب تو یہ ہے اور یہ شخص ایسا ہے، ویسا ہے یعنی دشمن خدا ہے اور گستاخ رسول ہے۔ اس کی مثال علماء دیوبند اور اکابر دیوبند کی بعض عبارات ہیں جن کو بریلوی حضرات اپنے مطلب کے غلط معانی پہنا دیتے ہیں یا سیاق وسباق سے توڑ مروڑ کر غلط انداز سے پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام میں شور مچاتے ہیں کہ دیکھو یہ علماء دیوبند کی کتابوں کی عبارات ہیں، اس کا یہ مطلب ہے اور اس مطلب کی وجہ سے یہ لوگ گستاخ رسول ہیں اور فلاں ہیں اور فلاں ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو علماء دیوبند اس وقت زندہ ہیں، یہ حضرات ان سے پوچھتے کیوں نہیں کہ بھائی !یہ عبارت ہے، اس کے متعلق تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اگر وہ غلط عقیدے کا اقرار کرتا ہے تو پھر بے شک یہ صاحب پروپیگنڈہ کریں، لیکن اگر وہ یہ کہہ دیں کہ بھائی! اس عبارت سے تم نے جو مطلب نکالاہے ،یہ عقیدہ ہمارے ہاں بھی غلط ہے اور یہ مطلب ہمارے نزدیک بھی غلط ہے، لیکن اس عبارت کا مطلب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے ۔ اس وضاحت کے باوجود پھر بھی یہ حضرات اپنی مسجدوں میں اور منبروں پر غلط بیانی کرتے ہیں کہ علماء دیوبند کا یہ عقیدہ ہے اور وہ یہ کہتے ہیں۔ یہی ”توجیہ القائل بمالایرضی بہ قائلہ،، کا مطلب ہے۔ ایک شاعر نے خوب فرمایاہے:
وہم نقلوا عنی الذی لم اقلہ بہ
وما اٰفة الاخبار الا رواتہا
ترجمہ:…مخالفین نے مجھ سے وہ بات نقل کی جو میں نے نہیں کہی ہے اور غلط خبر دینے کی آفت راویوں کی گردن پر ہے،،۔
قاعدہ نمبر: ۱۰
اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں جو کسی مخلوق میں نہیں ہوسکتی ۔
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں، وہ کسی مخلوق کے لئے استعمال نہیں کی جاسکتی ،مثلاً:
۱…اللہ تعالیٰ کی ایک صفت خالقیت ہے تو کسی مخلوق کو صفت تخلیق کے ساتھ متصف کرنا جرم عظیم کے ساتھ ساتھ شرک بھی ہے، چنانچہ قوم نوح علیہ السلام نے تخلیق کی یہ صفت اپنے پانچ معبودوں میں سے ”ود،، کو دی تھی اور کہا تھا کہ: ”لاتذرنّ وداً،، یعنی ”ود،، کو ہر گز نہ چھوڑو۔ انہوں نے ایک طاقتور مرد کی شکل میں ”ود،، کا مجسمہ بنایا تھا اور اس کی پوجا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تخلیق ِ کائنات کا مالک ہے۔اہل ہنود بڑے پیمانے پر اس شرک میں مبتلا ہیں جو اپنے بہت سارے اوتاروں کو تخلیق کا عہدہ دیتے ہیں، ہندوؤں کے ہاں ان کے بڑے اوتاروں میں سے ایک دیوتا کا نام ”بشن،، ہے۔ ہندو لوگ ”بشن،، کو تخلیق کی صفت سے متصف کرتے ہیں، ہمارے زمانے کے اہل بدعت اور اہل باطل اولیاء کو غیر شعوری طور پر یہ درجہ دیتے ہیں۔
۲…اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ میں سے ایک صفت معبود کی ہے کہ ہر قسم کی عبادت، قولی، مالی اور بدنی اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے ”ایاک نعبد،، میں اس کا ذکر ہے، لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر عبادت خاص اللہ تعالیٰ کے لئے کرے۔ کچھ حضرات اس صفت میں بہت نقصان کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے سوا غیروں کے لئے روزہ بھی رکھتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، نذر ونیاز بھی دیتے ہیں، قبروں پر چڑھاوے بھی چڑھاتے ہیں، اس کا طواف بھی کرتے ہیں، اس کے سامنے سجدے بھی کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، حالانکہ عبادت اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔
۳…اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ میں سے اللہ تعالیٰ کا عالم الغیب ہونا ہے۔ اس صفت میں فلاسفہ نے غلو کیا اور اپنے بڑوں کو عالم الغیب کی صفت سے متصف کیا۔ مشائین اور اشراقیین جو فلاسفہ کے دو طبقے ہیں، اسی گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ شیعہ حضرات نے اپنے بارہ اماموں کے ساتھ یہی معاملہ کیا کہ سب کو عالم الغیب قرارا دیا اور پھر بریلوی حضرات نے انبیاء کرام اور اولیاء عظام کو اس صفت کے ساتھ متصف کیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے: ”قل لایعلم من فی السموات والارض الغیب الا الله،، لہذا اس صفت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کرنا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔
۴…اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ میں سے اللہ تعالیٰ کا ہرجگہ حاضر ناظر ہونا اور ہرجگہ اپنے علم کے ساتھ موجود ہونا ہے، اس صفت میں بھی لوگوں نے بہت نقصان کیا ہے۔
روافض نے یہ عہدہ اپنے بارہ اماموں کو دیا ہے اور بریلوی حضرات نے نبی کریم ا کو اس صفت سے متصف کیا ہے جو بہت بڑا جرم ہے، ان کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص مانیں۔ اب یہ وبا عام ہونے لگی ہے کہ اس عقیدے کے اظہار کے لئے سڑکوں، چوراہوں اور دیواروں پر ”لبیک یا رسول اللہ،، کا نعرہ لکھنے لگے ہیں۔نعوذ بالله من ذالک۔
۵…اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفات میں سے رزاق ایک صفت ہے یعنی مخلوق کو رزق دینے والا۔
کچھ لوگوں نے اس صفت کے ساتھ نبی کریم ا کو متصف کیا اورکچھ نے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو اس صفت کے ساتھ متصف کیا ۔ میں نے گوجرالہ میں ان کے ایک واعظ سے سنا جو کہہ رہا تھا کہ ہم کو غوث اعظم روزی دیتا ہے، نعوذ باللہ۔
۶… اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفات میں سے ایک صفت مدد کرنا ہے ، یعنی ما فوق الاسباب امور میں صرف اللہ سے مدد مانگنا ہے۔یہود حضرت عزیر علیہ السلام اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہر معاملہ میں مدد مانگتے ہیں۔ ہندو اور مجوس تو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سینکڑوں دروازوں پر ہاتھ پھیلاتے ہیں، ہندو ۳۳ کروڑ دیوتاؤں کو مددکے لئے پکارتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو ”یا علی مدد،، کے نعرہ کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے، اور کچھ نے” المدد یا رسول الله!،،کے نعرہ کو اپنا خاص شعار بنالیا ہے ،تعجب اس پر ہے کہ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں اوروہ نماز میں ”وایاک نستعین،، بھی پڑھتے ہیں، جس کا ترجمہ ہے کہ: ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، یہ کہہ کر پھر غیروں سے مافوق الاسباب امور میں بھی مدد مانگتے ہیں:
بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بو العجبی است۔
۷…اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفات میں سے ہے کہ مصیبت کے وقت غائبانہ حاجات میں صرف اسی رب کو پکارا جائے۔ کچھ لوگ ہر مصیبت کے وقت حضرت علی کو مشکل کشا بناکر غائبانہ حاجات میں پکارتے ہیں اور اپنے بارہ اماموں کو بھی پکارتے ہیں اور کچھ لوگ حضرات انبیاء کرام کے علاوہ شیخ عبد القادر جیلانی کو ہرمصیبت کے وقت پکارتے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ ہر پیر وفقیر کو غائبانہ حاجات میں پکارتے ہیں اور مزارات پر جاکر مشکل کشائی کے لئے نعرے لگاتے ہیں اور اپنے جلسے بھی انہیں نعروں سے گرماتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”ومن اضل ممن یدعو من دون الله،، یعنی اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا غیروں کو پکارتاہے۔ شیخ عطار نے اس کا ترجمہ اپنے شعر میں پیش کیا ہے:
ہرکہ خواند غیر حق را اے پسر
کیست در عالم ازو گمراہ تر
بہرحال ہرمسلمان کو چاہئے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص رکھے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے اپنی عاقبت کو خراب نہ کرے اور اپنے عقیدہ کو صحیح رکھنے کے لئے ان دس قواعد کو مد نظر رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت پر استقامت عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۱ھ - اپریل: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: دنیا کی بساط لپٹنے کو ہے !
Flag Counter