Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

8 - 12
حضرت مولانا قاری محمد طاہر رحیمی
حضرت مولانا قاری محمد طاہر رحیمی

سعودی مطلع کے مطابق ۲۶/جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ مطابق ۲۹/جولائی ۲۰۰۸ء پیر اور منگل کی درمیانی شب عشاء سے قبل مجدد قراآت حضرت اقدس قاری رحیم بخش پانی پتی کے نامور شاگرد، تلمیذ، فرزند ِنسبتی، ان کے سلسلہ کے وارث و جانشین، فن قراآت میں ان کی تصویر، درس و تدریس میں ان کے ہم مزاج و ہم ذوق، دسیوں کتابوں کے مصنف، سلسلہ پانی پتی کے چشم و چراغ، حدیث و فقہ اور علوم متداولہ کے کامیاب مدرس، ہزاروں شاگردوں کے استاذ، جامعہ قاسم العلوم کے شعبہ حفظ و قراآت کے صدر نشین، شہید ِاسلام حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی  کے عاشقِ صادق اور خلیفہ مجاز حضرت اقدس مولانا قاری محمد طاہر رحیمی مہاجر مدنی قدس سرہ طویل علالت کے بعد راہی عالم عقبیٰ ہوگئے،
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ باجل مسمی۔
حضرت قاری صاحب کی ولادت غیر منقسم ہندوستان کے ضلع جالندھر کے ایک راجپوت گھرانے کے نیک صفت بزرگ جناب شیخ حفیظ اللہ عرف اللہ رکھا کے ہاں ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۳۹ء میں ہوئی، آپ کے اکابر اور بڑوں میں سے جناب عبداللہ صاحب نے ۱۰۰۰ھ میں اسلام قبول کیا تھا۔
تقسیم ملک کے بعد آپ کے والد ماجد نے ابتدائی طور پر لاہور اور پھر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کرلی، ملتان ہی سے آپ کی تعلیم کی ابتدا ہوئی، ابتدائی تعلیم مختلف اساتذہ کرام سے ہوئی، حافظ مولوی عبدالعزیز، قاری محمد ابراہیم ہوشیارپوری، حافظ محمد یامین کرنالوی، وغیرہ حضرات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے ۱۱ سال کی چھوٹی سی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا اور ۱۳۷۲ھ میں ۱۱ سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا قاری رحیم بخش پانی پتی قدس سرہ کی خدمت میں بغرض گردان خیرالمدارس ملتان میں داخل ہوئے اور بہت ہی مختصر مدت میں گردان اور تجوید و قرأت کے اسباق مکمل کرکے درسِ نظامی کی طرف متوجہ ہوگئے، چنانچہ آپ نے جس طرح حفظ، گردان اور اخذ تجوید میں غیر معمولی کارگزاری کا مظاہرہ کیا، اس سے کہیں زیادہ درس نظامی میں اچھوتے کمال کا مظاہرہ کیا۔
حضرت قاری صاحب کی تعلیم، تدریس، شادی بیاہ، اولاد، حج، معمولات ِزندگی اور غیر معمولی واقعات کے بارہ میں اپنی جانب سے کچھ لکھنے کے بجائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی خود نوشت سوانح سے مدد حاصل کرتے ہوئے ان کی خود فراہم کردہ معلومات کو یہاں نقل کردیا جائے، چنانچہ حضرت اپنی کتاب ”سوانح فتحیہ“ کے باب سوم میں ”مختصر نقش حیات طاہری “ میں نام، ولدیت، قومیت، پیدائش اور ابتدائی تعلیم کے بارہ میں رقم طراز ہیں:
”...راقم الحروف...محمد طاہر رحیمی کے والد ماجد کا اسم گرامی شیخ حفیظ اللہ عرف اللہ رکھا ․․․․متوفی ۶/ جمادی الثانی ۱۴۰۴ھ مطابق ۱۰/مارچ ۱۹۸۴ء بوقت صبح صادق بحالت سجدئہ نمازِ وتر․․․․ اور جد امجد کا نام غالباً عنایت اللہ عرف نتھو، والدہ کا نام رحمت بی بی دختر عبداللہ ․․․․متوفات ۱۷/ ذوالقعدہ ۱۳۹۷ھ مطابق ۳۱/اکتوبر ۱۹۷۷ء بروز سوموار بوقت ۴ بجے دن بمقام نشتر ہسپتال وارڈ نمبر ۱۱، بحالت فالج زدگی․․․․ہے۔قوم راجپوت بھٹی ہے۔
پیدائش ۱۹۳۹ء مطابق: ۱۳۶۰ھ بمقام شہر جالندھر ․․․انڈیا․․․ محلہ علی دابمبا جناح والی گلی میں ہوئی، آٹھویں یا نویں پشت میں ․․․تقریباً ۱۰۰۰ھ میں․․․ہمارے نو مسلم جد اعلیٰ عبداللہ جگرأوں والے پیر․․․سمندری․․․ کے جد اعلیٰ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ․․․جد اعلیٰ کا سابقہ غیر اسلا می نام رام چندر تھا․۔
احقر کی پیدائش سے پہلے والدہ مکرمہ نے خواب میں د یکھا کہ بارش ہورہی ہے اور ایک مسجد کے اندر چراغ جل رہا ہے، کسی نے تعبیر یہ دی کہ: یہ بچہ دین کا چراغ و رحمت ثابت ہوگا․․․مگر بسا اوقات کسی فاسق سے بھی تائید دین کا کام لے لیا جاتا ہے، خدائے قدوس رحمت و عفو و فضل کا معاملہ فرمائیں۔آمین․․․۔
والدین نے بتایا کہ جب تمہاری عمر ۴،۵ برس کی تھی اور تقسیم ملک کی تیاریاں ہورہی تھیں ،اس وقت تم بے اختیار بار بار بستر بوریا باندھ کر کہا کرتے تھے کہ چلو لاہور ،چلو لاہور، آخر تم نے ہمیں لاہور پہنچاکر ہی دم لیا۔
ابتدائی تعلیم اولاً مختلف اساتذئہ کرام حافظ مولوی عبدالعزیز، قاری محمد ابراہیم ہوشیار پوری، حافظ محمد یامین کرنالوی وغیرہم سے بعمر: ۱۱ برس حفظ قرآن کریم کیا، ثانیاً ۱۳۷۲ھ میں بعمر: ۱۱ سال حضرت اقدس قاری رحیم بخش صاحب ․․․خیر المدارس العربیہ ملتان․․․ سے تجوید و ضبط سمیت گردان نکالی، جب حضرت اقدس نے ابتدائی جائزہ لیا تو فرمایا: بہت کچا ہے، دو سال صرف ہوں گے، مگر چند روز کے بعد فرمایا کہ: نہیں، ایک ہی سال میں یہ بچہ فارغ ہوجائے گا ، بہت ذہین ہے، پہلے اساتذہ نے اس پر خواہ مخواہ سختی کی ،وگرنہ یہ بچہ تو مار کھانے والا نہ تھا، ثالثاً مزید دو برس تک بالکلیہ حضرت اقدس ہی کی خدمت میں رہنا ہوا، اس دوران متعدد گردانیں سنائیں، تجوید اخذ کی، مقدمہ جزریہ،متن شاطبیہ وغیرہما حفظ یاد کیا، کچھ قراآت پڑھیں، رابعاً اردو ،فارسی، عربی، درسِ نظامی کی تحصیل و تکمیل کی ۔
شعبان ۱۳۸۴ھ بعمر: ۲۴ برس ہے، اس دس سالہ عرصہٴ تحصیل علوم کے دوران فارغ اوقات، دوپہر، بعد عصر، بعد مغرب یا خالی گھنٹوں میں حضرت اقدس ...قاری رحیم بخش پانی پتی ...کے ہاں حاضری ہوتی رہی اور انہی فارغ اوقات میں قراآت سبعہ و عشرہ کی تکمیل کی اور کتب فن اخذ کیں، نیز قراآت عشرہ بطریق جمع الجمع پڑھیں، تحصیل ہی کے زمانہ میں ۱۳۷۸ھ بعمر: ۱۸ سال ”وضوح الفجر“ سبعہ کے بعد والی تین قراآتوں میں تالیف کی۔ وللّٰہ الحمد۔۔“ (سوانح فتحیہ ص:۶۱۴)
جامعہ خیرالمدارس میں آپ نے کن ، کن اساتذہ سے کون کون سی کتابیں پڑھیں؟ اس کی تفصیلات خود ان کی زبانی یوں ہیں؟
” ۱:․․․مولانا اصغر علی سے :فارسی ،نورالایضاح، قدوری، کنز، شرح وقایہ۔
۲:․․․ مولانا عبدالمنان سے:تعلیم الاسلام، تعلیم الدین، اصلاح الرسوم، سیرت خاتم الانبیاء۔
۳:․․․ مولانا فیض احمدسے:بعض صرف و نحو، اصول الشاشی، مختصر المعانی، شرح جامی، میبذی۔
۴:․․․مولانا محمد صدیق سے :صرف و نحو منطق، جلالین، ترجمہ قرآن مجید بجز منزل۷، مشکوٰة، موٴطین ۔
۵:․․․مولانا غلام مصطفی سے :ملا حسن، مقامات، مراح الارواح۔
۶:․․․ مولانا علامہ محمد شریف کشمیری سے :بعض بیضاوی، مسلم الثبوت، مطول، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد۔
۸:․․․ مولانا مفتی محمد عبداللہ سے :ہدایہ اولین، صحیح مسلم، سنن نسائی۔
۹:․․․ حضرت اقدس مولانا خیر محمدسے :شرح نخبة الفکر، صحیح بخاری۔
۱۰:․․․مولانا عتیق الرحمن سے :بعض بیضاوی، طحاوی۔
۱۱:․․․ مولانا مفتی عبدالستارسے :ہدایہ اخیرین، شرح عقائد، سراجی۔
۱۲:․․․مولانا محمد شریف مرحوم سے :ترجمہ منزل سابع۔
۱۳:․․․مولانا صوفی محمد سرورسے:نورالانوار،
۱۴:․․․ مولانا عبدالحق سے:بعض حصہ گلستان، کریما نام حق، ممکن ہے کہ بعض کتب کی تفصیل میں کچھ سہو ہوا ہو۔“ (سوانح فتحیہ، ص:۶۱۴)
فراغت کے بعد علمی زندگی میں قدم رکھا تو جامعہ قاسم العلوم ملتان آپ کی تدریسی خدمات کی جولانگاہ قرار پائی، آپ نے اس دوران کیا، کیا خدمات انجام دیں؟ کتنا تلامذہ نے آپ سے کسب فیض کیا؟ نکاح، حج، عمرہ کے علاوہ آپ نے جامعہ رحیمیہ کی بنیاد کب اور کیسے رکھی، اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
”علوم سے فارغ ہوتے ہی جامعہ قاسم العلوم ملتان میں درجہٴ حفظ و قراآت میں تقرر ہوگیا، شوال ۱۳۸۴ھ تا شعبان ۱۴۰۳ھ کل انیس سال یہاں حفظ قرآن، گردان، تجوید، قراآت، حدیث اوربعض دیگر علوم کی کتب کی تدریس بفضلہ تعالیٰ توفیق نصیب ہوئی۔
آپ کے تلامذہ کی مجموعی تعداد کیا تھی؟ اس سلسلہ میں حضرت خود فرماتے ہیں:
”جزوی تجوید و مشق :ایک ہزار طلباء۔ کلی ضبط و مشق :دو صد طلبا۔ کتب تجوید: ایک صد طلبا۔ کتب فن: دس افراد، قرأت عشرہ: بیس طلبا، درجہ موقوف علیہ و دورئہ حدیث: ایک ہزار طلبا (کم و بیش) اس انیس سالہ عرصہ میں علاوہ قرآن و قرأت و تجوید کے درج ذیل کتب درس نظامی کی تدریس کا موقع بھی ملا: ترجمہ قرآن مجید از آخر، فصول اکبری، فارسی کتب ․․․کریما، نام حق، تیسیرالمبتدی وغیرہ ذالک․․․ علم الصیغہ، کنزالدقائق، رشیدیہ، ملاحسن، شرح عقائد، مطول، بیضاوی، مشکوٰة، ابن ماجہ، موطا مالک، سنن ابی داؤد، صحیح مسلم، صحیح بخاری ․․․۵ پارے از کتاب الصوم․․․۔
عقد نکاح، ہمراہ دختر حضرت اقدس قاری صاحب شعبان ۱۳۸۶ھ میں بعمر: ۲۶ سال ہوا، جب نکاح کی بات چیت شروع ہوئی تو ابھی احقر زمانہ تحصیل ہی سے گزر رہا تھا، حضرت نے فرمایا کہ: استخارہ کرلو، احقر نے استخارہ کیا تو دیکھا کہ میں خیرالمدارس کے غسل خانہ میں نہا رہا ہوں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ میری کمر پر صابن لگارہے ہیں، حضرت سے یہ خواب عرض کیا تو فرمایا: یہ رشتہ تمہارے لئے موزوں معلوم ہورہا ہے، کیونکہ حضرت علی دروازئہ علم ہیں، یہ اشارہ ہے کہ جس جگہ سے علم حاصل ہوا ہے، وہیں رشتہ مناسب ہے۔ الحمدللہ! کہ بعد کے حالات سے ایسا ہی ثابت ہوا۔
۱۳۹۸ھ مطابق ۱۹۷۸ء میں سرکاری و حکومتی شبینہ منعقدہ لیاقت باغ پنڈی کے اعزاز میں حکومت کی جانب سے سعادت فریضہ حج نصیب ہوئی۔
از ۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۸ء ہر چار سال رجب و شعبان میں نفلی عمرہ کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے، آئندہ بھی اللہ کی ذات سے بلاناغہ ہر سال کے لئے دعاگو ہوں، بلکہ اب تو بار بار ہجرت حجاز مقدس کا تقاضا و خیال ہورہا ہے، ...بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دلی خواہش کی تکمیل فرمائی، چنانچہ گزشتہ بیس سال سے آپ حرم مدینہ میں قیام پذیر تھے اور آپ کو جنت البقیع کی خاک نصیب ہوئی...وبیداللّٰہ ازمة الامور۔
جامعہ رحیمیہ و مسجد باب رحمت کا سنگ بنیاد :۱۹۷۷ء، مطابق ۱۳۹۷ھ․․․بدست حضرت مفتی عبداللہ رحمہ اللہ․․․ مغل آباد، ملتان مورخہ یکم ربیع الاول ۱۴۰۳ھ رکھا گیا، اس مدرسہ کے لئے کوئی مستقل علیحدہ جگہ نہیں، مسجد ہی میں ۲۵، ۳۰ بیرونی ومسافر طلبا کا قیام و طعام ہوتا تھا، اس کا ایک ”شعبہ تعلیم نسواں“ تھا، جس میں محلہ کی ۶۰، ۷۰ طالبات حفظ و ناظرئہ قرآن کریم کی تعلیم پاتی ہیں، باوجود رکاوٹوں اور گوناگوں مشکلات کے محض توکلاً علی اللہ بہ نیتِ خدمت قرآن کریم یہ شعبہ قائم کیا گیا، جو تاحال قائم ہے۔“ (سوانح فتحیہ، ص:۶۱۶)
درس و تدریس کے علاوہ آپ نے تصنیف کے میدان میں قدم رکھا تو آپ نے مختلف موضوعات پر بیش بہا علمی، تحقیقی کتب، رسائل اور حواشی و ضمائم تالیف فرمائے، چنانچہ آپ اپنی تصنیفی کاوشوں کے بارہ میں لکھتے ہیں:
”جامعہ قاسم العلوم کے انیس سالہ عرصہ ․․․۱۳۸۴ھ تا ۱۴۰۲ھ․․․ میں، نیز کچھ اس سے قبل زمانہٴ طالب علمی میں اور پھر بناء جامعہ رحیمیہ․․․۱۴۰۳ھ․․․ کے بعد تاہنوز ․․․۱۴۰۹․․․ چھ سالہ عرصہ، کل تیس سال میں درج ذیل اکیس مستقل کتب و رسائل مدون ہوئے:فہرست تصنیفات سن وار باعتبار سن طباعت:
۱۳۸۱ھ: وضوح الفجر فی القراآت الثلاث المتمّمة للعشر (قراآت)
۱۳۸۵ھ: سلک الَّلٰالی والمرجان فی شرح نظم احکام قولہ اٰلٰن (قراآت)
۱۳۹۱ھ: فیوض المہرہ فی المتون العشرہ (قرأت و تجوید وغیرہما) غیر مطبوعہ،
۱۳۹۳ھ: کاتبانِ وحی (سوانح) ۱۳۹۴ھ کمال الفرقان شرح جمال القرآن (تجوید)
۱۳۹۸ھ: زبدة المقصود فی حل قال ابوداؤد (حدیث)،
۱۴۰۰ھ: عمدة المفہم فی حل مقدمة مسلم (حدیث)،
۱۴۰۳ھ: ماینفع الناس فی شرح قال بعض الناس (حدیث)، رسالہ روایت ِقالون عربی ، قرأت، رسالہ روایت شعبہ بطریق طیبہ (قرأت)، دلکش نقش سوانح قاری رحیم بخش (سوانح)
۱۴۰۴ھ: کشف النظر شرح کتاب النشر جلد اول (قرأت)، تحفة المرآة فی دروس المشکوٰة (حدیث)، تعلیمی چارٹ (طریقہٴ تعلیم)،
۱۴۰۵ھ: کشف النظر جلد دوم (قرأت)،
۱۴۰۶ھ: (کشف النظر جلد سوم)، رسالہ رہنمائے مدرسین مع مسائل ارکانِ دین (طریقہٴ تعلیم وفقہ)
۱۴۰۷ھ شیخ الوقت کی وفات حسرت آیات (سوانح)،
۱۴۰۸ھ: رسالہ روایت ِورش بطریق اصبہانی (قرأت)،
۱۴۰۹ھ: کتاب سوانح فتحیہ (زیر نظر) سوانح۔
۱۳۸۲ھ: ضبط و تصحیح و مراجعت رسالہ مجمع البحرین فی القصیدتین الشاطبیة والدرة ،
۱۳۹۱ھ: ضمیمہ کاشف العسر شرح ناظمة الزہر،
۱۳۹۴ھ: تصحیح و نظر ثانی و حواشی، المرآة النیرہ فی حل الطیبہ،
۱۳۹۹ھ: بعض حواشی رسالہ قرأت امام حمزہ کوفی،
۱۴۰۴ھ: حواشی و ضمیمہ و تصحیح تسہیل القواعد حواشی و تصحیح و ضمیمہ عنایات رحمانی جلد اول مع رسالہ: الحاقیہ التحقیق اللطیف فی الوقف علی لام التعریف، تصحیح و نظر ثانی رسالہ قرأت امام ابن عامر شامی
۱۴۰۵ھ: حواشی و تصحیح عنایات رحمانی جلد دوم، ضمیمہ کمال الفرقان
۱۴۰۶ھ: تصحیح و حواشی مع قواعد تجویدیہ مشقی پارہ الم ، و مشقی پارہ عم، حواشی نورانی قاعدہ مع ادعیہ نماز و عقائد حقہ، نظر ثانی مع تتمہ وجوہ طیبہ رسالہ قرأت ثلٰثہ، تصحیح و نظر ثانی مع ضمیمہ رسالہ المہذبہ فی وجوہ الطیبہ، تصحیح و تحشیہ مع ضمیمہ مفتاح الکمال شرح تحفة الاطفال، وصیت نامہ فتحیہ (ترتیب و تسوید)
۱۴۰۷ھ: نظر ثانی رسالہ قرأت امام ابو عمر و بصری،… ان تصانیف و حواشی کے علاوہ متعدد قلمی مسودات غیر مطبوعہ یا غیر مرتبہ بھی موجود ہیں۔ وباللہ التوفیق۔“ (سوانح فتحیہ، ص:۶۱۷)
اس کے علاوہ ”فضائل حفاظ قرآن“ اور تمنا عمادی منکر حدیث کے علم قراآت پر اعتراضات و شبہات اور علم قراآت کو موائی اعجام کی گھڑت قرار دینے کے خلاف ”دفاع قراآت“ جیسی ضخیم کتاب اور علامہ جزری کی ”طبقات القراء“ کا ترجمہ و تشریح بعنوان ”تذکرہ خاصان الٰہ“ جو ماہنامہ بینات ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ سے صفر ۱۴۲۲ھ تک باقاعدہ شائع ہوتا رہا، جس میں ۹۶ ائمہ قرأت کا خوبصورت انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ اے کاش کہ یہ سلسلہ مکمل نہ ہوسکا، تاہم مطبوعہ قسطوں کو یکجا کیا جائے تو ایک مستقل تصنیف بن جائے گی۔
نامناسب نہ ہوگا اگر یہاں حضرت قاری صاحب کے سلسلہ مضامین ”تذکرہ خاصان الٰہ “ کے اس ابتدائیہ کو درج کردیا جائے جو انہوں نے اس سلسلہٴ مضامین کی پہلی قسط کے شروع میں لکھا تھا، چنانچہ حضرت قاری صاحب لکھتے ہیں:
” آج سے تقریباً ۳۵ برس قبل ایک بار حضرت اقدس مجدد القراآت استاذی ووالدی المکرم مولانا قاری رحیم بخش صاحب  کی خدمت بابرکت میں، جب کہ آپ جامعہ خیرالمدارس کے مندر والے مقام پر تدریس قرآن اور قراآت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ احقر کے شیخ طریقت حکیم العصر مولانا محمد یوسف لدھیانوی دامت برکاتہم بغرض ملاقات و زیارت تشریف لائے، اس موقع پر یہ ناچیز بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا، دوران گفتگو حضرت مجدد القراآت نے حکیم العصر حضرت لدھیانوی سے ارشاد فرمایا کہ :کیا ہی خوب ہوتا اگر رسالہ ماہنامہ ”بینات“ میں دیگر موضوعات و مضامین کے ساتھ ناچیز راقم کے قلم سے حضرات قراء کے حالات و واقعات کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے۔ حضرت لدھیانوی نے جواباً ارشاد فرمایا کہ حضرت! آپ خود ہی یہ کام ان (راقم) کے ذمہ لگادیں، یہ مضمون لکھ کر ارسال کردیا کریں۔ غالباً حضرت مجدد القراآت نے ناچیز کے تعلیمی حرج یا کسی اور عذر شفقت کی بنا پر بعد میں یہ کام اس ناچیز کے ذمہ نہ لگایا، لیکن یہ حضرت والا کی دلی خواہش و آرزو بے حد تھی ، اس واقعے سے ۳۵ برس بعد اس سال رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ کو جب حضرت لدھیانوی مدظلہ بغرض عمرہ و زیارت حرمین شریفین تشریف لائے اور مسجد نبوی شریف میں صف اول میں بنفس نفیس ناچیز کے پاس تشریف لاکر ناچیزکو مفتخر و مشرف فرمایا تو اثنائے مکالمہ میں ناچیز نے ۳۵ برس قبل کے اس واقعے کا حضرت اقدس سے یوں ہی تذکرہ کردیا، مگر حضرت اقدس نے غایت شفقت و عنایت سے ارشاد فرمایا کہ :”میں تو اب بھی اس خدمت کے لئے حاضر ہوں، آپ ضرور یہ سلسلہ فی الفور جاری کردیں“ بلکہ حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب مدظلہ کے ذمہ بھی لگادیا کہ آپ ماہ رمضان المبارک کے آخر میں ابتدائی اقساط قاری صاحب سے اپنے ہمراہ لے کر آئیں۔ احقر کے عرض کرنے پر سلسلہ ہذا کے لئے علامہ ابن الجزری کی کتاب ”طبقات القراء“ کا انتخاب ہوا، کتاب ہذا میں علامہ محقق نے اپنے زمانے تک کے نو صدیوں کے تقریباً چار ہزار مشاہیر قرأ کے طبقات و تراجم بترتیب حروف تہجی مدون فرمائے ہیں۔ احقر نے اپنے شیخ القراآت اور شیخ طریقت ہر دو حضرات شیوخ کی توجہات و برکات کے سہارے تعمیلاً للارشاد و توکلا علی اللہ اپنی سعادت سمجھتے ہوئے بحمدہ تعالیٰ یہ سلسلہ جاری کیا ہے، حضرت اقدس کے علاوہ حضرات ناظرین و اہل ِ فن اخوان القرآن سے درخواست ہے کہ سلسلہ ہذا کی مقبولیت و افادیت اور تاحیات کامل باقاعدگی و پابندی کے ساتھ اس کے دائم و قائم رہنے کی دعا فرماتے رہیں۔ واللہ الموفق۔ ناچیز
محمد طاہر رحیمی مدنی
۱۲/رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ“
آپ کی علمی و تحقیقی تصنیفات کی عظمت و جلالت قدر اہل ِ علم پر مخفی نہیں ہے تاہم عوام الناس اور ہم جیسے کوتاہ فہم افراد کی راہ نمائی کے لئے آپ نے اپنی چند کتب کا فن وار تعارف بھی لکھا ہے، چنانچہ آپ کی تصنیفات و تالیفات کا تعارف حسب ذیل ہے:
” ۱:… وضوح الفجر: صفحات ۱۶۴، اس میں سات کے بعد والی تین قراآت: ابو جعفر، یعقوب، امام خلف کے تمام اصول و فروع اور ان کے مخصوص اختلافات کی توجیہات بیان کی گئی ہیں۔
۲:․․․سلک الَّلٰالی والمرجان شرح نظم احکام اٰلٰن ،صفحات: ۱۴۴، یہ علامہ محمد شمس متولی (متوفیٰ ۱۳۱۳ھ) کے قصیدہ ”نظم احکام قولہ تعالیٰ اٰلٰن“ کی شرح ہے، جس میں کلمہ ٰاٰلن کے احکام و مضامین صحیح وجوہ پر مع دلائل و علل روایت ورش (ازرق) کے موافق نہایت محققانہ تفصیلی کلام کیا گیا ہے، اس سے پہلے یہ قصیدہ محض ایک چیستان تصور ہوتا تھا۔
۳:․․․ تاریخ علم قرأت بمعہ تذکرہ ائمہ قراآت ، صفحات: ۳۲، اس مختصر رسالہ میں قراآت کی حقیقت و اہمیت و تاریخ ،اس کا حکم و ماخذ، حدیث سے اختلافِ قراآت کا ثبوت، سبعہ ا حرف کے معنیٰ قراآت کے فوائد، چند شبہات اور ان کے جوابات، قرأ عشرہ اور ان کے راویوں کے نہایت جامع و مستند حالاتِ زندگی، ان تمام امور پر نہایت جامع و عمدہ کلام کیا گیا ہے،
۴:․․․فیوض المہرہ فی المتون العشرہ : (غیر مطبوعہ)، صفحات: ۵۱۲، اس میں تجوید و قرأت، عدد آیات و رسم عثمانی سے متعلق دس مختصر و جامع متون: شاطبیة، نظم احکام اٰلٰن، درہ، الوجوہ، المسفرہ، طیبہ، الفوائد المعتبرہ، رائیہ، ناظمة الزہر، مقدمہ جزریہ، تحفة الاطفال کو مختصر ،جامع ، مطلب خیز و ترکیب انگیز تراجم سمیت یکجا کرکے ایک مجموعہ جامعہ کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے، تاکہ شائقین انتہائی قلیل و مختصر مدت میں ان متون سے بخوبی استفادہ کرسکیں۔
۵:․․․ رسالہ روایت قالون عربی:صفحات:۹۱، یہ رسالہ اردو روایت قالون ،مولفہ: حضرت الاستاذ الشیخ المقری قاری رحیم بخش نوراللہ مرقدہ کی روشنی میں مع اضافات و زیادات متعددہ تالیف کیا گیا ہے۔
۶:․․․ رسالہ روایت امام شعبہ بطریق طیبہ: صفحات: ۳۲، اس رسالہ میں اول اصول مختصرہ بطریق شاطبیہ ،ثانیاً اصول مختصرہ بطریق طیبہ بیان کئے گئے ہیں، پھر از اول تا آخر قرآن تمام اختلافات درج کئے ہیں، آخر میں ضمیمہ وجوہ طیبہ بروایت سیّدنا حفص بھی شامل ہے۔
۷:․․․ کشف النظر شرح اردو کتاب النشر:تین مجلدات، صفحات:۲۶۹۴، یہ علامہ محقق شمس الملة والدین امام ابو الخیر محمد بن محمد الجزری الشافعی․․․متوفی ۸۳۳ھ․․․ کی قراآت عشرہ کی معرکة الاراء شہرئہ آفاق و عظیم المرتبت کتاب ”النشر الکبیر“ کاتین ضخیم جلدوں میں تشریح و توضیح سمیت اردو ترجمہ ہے، معلوماتی کتاب ہے۔
۸:․․․ رسالہ روایت ورش بطریق اصبحانی،صفحات:۱۴۴، روایت سیّدنا ورش بطریق سیّدنا محمد اصبحانی کے اصول و فروع اور پورے قرآن کریم میں بالاستیعاب ان کا اجراء اس رسالہ میں درج ہے، یہ طریق صرف بطریق نشروطیبہ ہے، نہ کہ بطریق تیسیر وشاطبیہ بھی۔
علم تجوید
۱:․․․تاریخ علم تجوید: صفحات:۴۸، اس مختصر رسالہ میں علم تجوید و اوقاف کی ضرورت و اہمیت، فن تجوید کی تدوین، اس کے اہم فوائد و منافع، روایت حفص کی پوری سند، تجوید کے وجوب کے دلائل، قرآن و حدیث ،اجماع و قیاس و اقوال سے منکرین تجوید کے چند شبہات اور ان کے جوابات، تجوید و قرأت سے متعلق چند فقہی مسائل وغیرہ وغیرہ ،ان تمام چیزوں پر نہایت عمدہ طریق سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
۲:․․․کمال الفرقان شرح جمال القرآن،صفحات: ۲۹۲ یہ مجموعہ درحقیقت صرف جمال القرآن ہی کی نہیں بلکہ پورے کے پورے فن تجوید کی انتہائی مفصل و مبسوط قیمتی اور پیش بہا شرح و توضیح ہے، اس ایک ہی کتاب کا مطالعہ فن تجوید کی بہت سی کتابوں کی ورق گردانی و مراجعت سے بے نیاز کرسکتا ہے۔
عدد آیات
ہدیہ طاہریہ فی الآیات القرآنیہ: صفحات ۳۲، اس رسالہ میں پورے قرآن کریم کی اختلافی اور اتفاقی آیات کا خلاصہ نہایت مختصر پیرایہ میں درج کیا گیا ہے ، اگر عدد آیات کے فن کے طلباء اس رسالہ کو یاد کرلیں تو انہیں پورے فن کے سمجھنے اور ضبط کرنے میں کافی سہولت میسر آسکتی ہے۔
سوانح
۱:۔ رسالہ کاتبان وحی،صفحات: ۱۰۳، یہ رسالہ ۵۶ صحابہ کاتبانِ وحی کے حالات پر مشتمل ہے، بہت محنت و کوشش سے یہ مواد جمع کیا گیا ہے،
۲:۔ دلکش نقش سوانح قاری رحیم بخش:صفحات: ۱۱۱،یہ مجدد القراآت حضرت اقدس قاری رحیم بخش پانی پتی  کا اجمالی خاکہ سوانح عمری ہے۔
۳: شیخ الوقت کی وفات حسرت آیات: صفحات: ۶۸، آپ کی وفات کے چشم دید حالات و واقعات کے علاوہ شیخ الوقت کا مختصر تعارف و ترجمہ ،نیز حضرت مجدد القراآت کا مختصر ذکر خیر اس رسالہ میں درج کیا گیا ہے،
۴: سوانح فتحیہ: صفحات: ۶۴۰، زیر نظر خود مطالعہ فرماکر تبصرہ کیجیے، کتاب آپ کے سامنے موجود ہے۔
حدیث:
۱:۔زبدة المقصود فی حل قال ابوداوٴد:صفحات:۱۰۴، اس مختصر رسالہ میں سنن ابی داؤد کے اقوال ابی داؤد کے متعلق ضروری تشریحات اور بالاحتیاط شروح کے منتخب خلاصے درج کئے گئے ہیں، جو سنن ہذا کے اساتذہ اور طلبہ کے لئے نادر تحفہ ہے۔
۲:۔عمدة المفہم فی حل مقدمة مسلم،صفحات:۱۶۰، صحیح مسلم شریف کے مقدمہ کے حل کی بابت دورئہ حدیث کے طلبا کے لئے بحیثیت معاون ایک گرانقدر تحفہ ہے جس میں ضمیمہ حل سوالات مشکلہ بھی شامل ہے۔
۳:۔ماینفع الناس فی شرح قال بعض الناس: صفحات: ۳۷۰، درجہٴ موقوف علیہ کے طلبا گرامی قدر کے لئے ایک گرانقدر نادر علمی ہدیہ ہے۔ طریقہ تعلیم وفقہ:
۱:۔ تعلیمی چارٹ: اس میں درجات حفظ و تعلیم قرآن مجید کے لئے تعلیمی و انتظامی ضوابط و قوانین ظاہری مرتب کئے گئے ہیں، چند ضروری ہدایات و قواعد و اصول، نیز تجوید کے چند ضروری قواعد کے علاوہ قراآت پڑھنے والوں کے لئے خصوصی ہدایات درج ہیں۔
۲:۔رسالہ رہنمائے مدرسین مع مسائل ارکانِ دین: صفحات: ۲۰۵، جو چار صد ضوابط و قوانین ہدایت بابت تدریس قرآن و حفظِ قراآت اور تین صد ضروری احکام و مسائل بابت نماز روزہ ،زکوٰةو حج پر مشتمل ہے۔“ (سوانح فتحیہ، ص:۶۱۹)
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال: ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ
Flag Counter