Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

10 - 12
طاغوتی قوتوں کی اسلام دشمنی
طاغوتی قوتوں کی اسلام دشمنی

اس پُر آشوب دور میں علمی وعملی فتنوں کا سیلاب ہرطرف سے امڈ رہا ہے‘ کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا جہاں سے کسی نہ کسی فتنہ کا چشمہ نہ ابلتا ہو‘ اور جس طرح اسلامی حکومتوں کے خلاف تمام طاغوتی طاقتیں متحد ہوکر تہیا کر چکی ہیں کہ ان اسلامی دولتوں کو صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کے طرح مٹادیں‘ اسی طرح یہ حکومتیں گمراہ کن افکار کے ذریعہ اس کی جد وجہد میں مصروف ہیں کہ کسی طرح دین اسلام کے کسی بھی خد وخال کو صحیح باقی نہ رہنے دیا جائے‘بڑی بڑی نامور حکومتیں اونچی سطح پر اس تدبیر میں مشغول ہیں کہ کسی طرح اسلامی شعائر اور اسلامی خصوصیات مٹ جائیں‘ بڑی بڑی خطیر رقمیں اس کام کے لئے نکالی جارہی ہیں اور ایسے مشہور ملحدین جو مستشرقین کی تربیت میں اپنے استادوں سے بھی گوئے سبقت لے جاچکے ہیں ان کو منتخب کرکے ان کے ذریعہ یہ کام کیا جارہا ہے‘ ان ملعون طاغوتی طاقتوں کو اصل دشمنی دین اسلام سے ہے‘ اگر وہ اسلامی حکومتوں کو ختم نہ کر سکیں تو پھر اس کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ ان ملکوں سے صحیح اسلام کی روح نکال دیں‘ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے دو محاذوں پر بڑی تیزی کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔
۱:․․․ایک یہ کہ نئی نسل جو دینی اقدار‘ دینی عقائد اور دینی مسائل سے ناآشناہے‘ اس کے سامنے اسلام کی ایسی تعبیر کی جائے کہ اگر کسی کفر صریح پر اسلامی لیبل لگا دیا جائے تو وہ اسی کو اسلام سمجھنے لگے۔
۲:․․․ دوسری طرف اہل حق اور ارباب دین میں مختلف ذرائع سے اتنا شدید اختلاف وانتشار پیدا کردیا جائے کہ ان کی قوت مفلوج ہوکر رہ جائے‘ ظاہر ہے کہ جب ملحدین کو ٹوکنے والے کسی اور دھندے میں مشغول ہوں گے تو اسلام کو ذبح کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں آئے گا۔
اعدائے اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سبب
درحقیقت اعدائے اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سبب تمام اسلامی ممالک میں (پاکستان ہو یا انڈیا‘ مصر ہو یا مراکش والجزائر) مسلمانوں کی غفلت اور اسلام سے تعلق کی کمی ہے‘ کسی جگہ نہ دین اسلام کی علمی روح باقی رہی نہ عملی قالب عالم وباقی رہا‘ پھر برائے نام اسلام کا جو بھی حشر ہو زیادہ مستبعد نہیں‘ پھر ان سب پر مستزاد یہ فتنہ ہے کہ اسلام کے نادان دوست نہ معلوم نادانستہ یا دانستہ کسی خود غرضی کی بناء پر خدمت اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں اکھاڑ رہے ہیں‘ فیاغربة الاسلام!
فتنہٴ انکار حدیث (فتنہٴ پرویزیت)
کسے معلوم نہیں کہ فتنہٴ انکار ختم نبوت کے بعداس سر زمین میں سب سے بڑا فتنہ انکار حدیث کا پیدا ہوا جو عام طور سے فتنہٴ پرویزیت کے نام سے معروف ہے اور جس نے اسلام کے بنیادی اصول تمام مسائل کو مجروح کرنے کی کوشش کی‘ عقائد‘ عبادات‘ اخلاق‘ اعمال‘ شعائر‘ اسلامی معاشرت‘ اسلامی اقتصادی نظام وغیرہ کسی چیز کو بھی نہیں چھوڑا جس کو مجروح نہ کیا ہو اور اپنے زعم باطل میں اسے ختم نہ کیا ہو‘ آخر مجبور ہوکر علماء حق نے اپنی مسئولیت کے پیش نظر ان کفریات سے نقاب اٹھایا اور حق کو واضح کیا۔
سکندر مرزا آنجہانی کے عہدِ حکومت میں ۱۹۵۸ء میں جو کلوکیم لاہور میں ہوا تھا اور تمام اسلامی ملکوں کے اربابِ علم موجود تھے‘ جب پرویز کے مقالات سامنے آئے تو مصری ‘ شامی ‘ مغربی وغیرہ تمام اہلِ علم نے ان کے خلاف متفقہ آواز اٹھائی کہ یہ صریح کفر ہے اور اسلام کے نام پر یہ صریح کفر قابل برداشت نہیں‘ اس موقعہ پر غلام احمد پرویز کی جو رسوائی ہوئی وہ اپنی نظیر آپ تھی‘ جس کی وجہ سے سکندر مرزا کا سارا کھیل ناکام رہا اور اس طرح پاکستان کے لاکھوں روپے غارت ہوگئے‘ اس ناکامی کے بعد امریکن فاؤنڈیشن کمیٹی نے فوراً ہی دوسرا کلو کیم کراچی میں منعقد کرلیا لیکن اس کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘ لیکن افسوس اور صد افسوس کہ آج دوبارہ بعض اربابِ قلم جن پر حسن ظن بھی رہتا ہے نہ معلوم کیوں خامہ فرسائی کررہے ہیں کہ پرویز سے اختلاف فروعی ہے اور علماء کو تکفیر کا فتویٰ واپس لے لینا چاہئے‘ اور کسی جدید تالیف میں چند باتیں اپنے مزاج کی دیکھ کر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوگئے انا للہ۔ پرویز صاحب کی یہ نئی کتاب جس سے متأثر ہوکر ہمارے بعض اربابِ قلم علماء کو فتویٰ واپس لینے کا مشورہ دے رہے ہیں ابھی تک ہماری نظر سے نہیں گذری۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں اسلام کے بارے میں کیا کچھ لکھا گیا ہوگا‘ تاہم فرض کر لیجئے کہ یہ کتاب صحیح حقائق سے لبریز بھی ہو اور کوئی بات اس میں کفر کی نہ بھی ہو لیکن جب تک تمام سابق ریکارڈ کی‘ جو کفریات سے مالا مال ہے‘مسٹر پرویز تردید نہ کریں تو ایک کتاب میں چند اچھی باتیں لکھ دینے کو کیسے رجوع الی الحق سمجھ لیا جائے؟ کیا اربابِ کفر اور دشمنانِ اسلام تمام باتیں کفر کی کرتے ہیں‘ بلکہ بسا اوقات اچھے اچھے حقائق بھی ظاہر کرتے ہیں‘ کائنات اور کونیات ربانیہ کے اسرار ورموز خفیہ ظاہر کرتے ہیں اور اس کائنات کے حقائق ِ باطنیہ سے پردے اٹھا کر تمام عالم کو ان سے روشناس کراتے ہیں‘ لیکن یہ حقائق اپنی جگہ اور ان کا کفر اور کفریہ کارنامے اپنی جگہ‘ کیا ضروری ہے کہ جھوٹا آدمی ہربات جھوٹی ہی کیا کرے؟ ہرگز نہیں تو پھر چند باتوں کے پسند آنے سے سابق کی تمام غلط باتیں کیسے صحیح ہوجائیں گی؟
پرویزی تحقیقات ِ ملحدانہ پر ایک نظر
ہم یہاں مسٹر پرویز کے بحرِ الحاد کے چند قطرے پیش کرتے ہوئے اہلِ عقل وانصاف سے اپیل کرتے ہیں کہ براہ کرم ان ”پرویزی تحقیقات“ پر دوبارہ نظر ڈالیں اور پھر خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ کیا یہ فروعی مسائل ہیں یا اسلام کے بنیادی اصولی اساسی مسائل ہیں؟ جن کی جڑوں پر مسٹر پرویز نے تیشہ چلا کر شجرِ اسلام کو کاٹنے کی کوشش کی ہے‘ حوالہ جات بغرض اختصار نہیں دئے‘ مکمل تفصیلات کے لئے مدرسہ عربیہ اسلامیہ کی شائع کردہ کتاب ”علماء امت کا متفقہ فتویٰ “ پرویز کافر ہے“ کا مطالعہ کیا جائے۔
۱- ”قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول اکا ذکر آیا ہے‘ اس سے مراد مرکز نظامِ حکومت ہے“۔
۲- ”رسول کو قطعاً یہ حق نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے“۔
۳- ”رسول کی اطاعت نہیں کیونکہ وہ زندہ نہیں“۔
۴- ”ختم نبوت“ سے مراد یہ ہے کہ اب دنیا میں انقلاب شخصیتوں کے ہاتھوں نہیں‘ بلکہ تصورات کے ذریعہ رونما ہوا کرے گا‘ اب سلسلہ ٴ نبوت ختم ہوگیا ہے‘ اس کے معنی یہ ہے کہ اب انسانوں کو اپنے معاملات کے فیصلے آپ کرنے ہوں گے الخ“۔
۵- ”اب رہا یہ سوال کہ اگر اسلام میں ذاتی ملکیت نہیں تو پھر قرآن میں وراثت وغیرہ کے احکام کس لئے دیئے گئے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن انسانی معاشرے کو عبوری دور کے لئے بھی ساتھ کے ساتھ راہنمائی دیتا چلا جاتا ہے‘ ورثہ‘ قرضہ‘ لین دین‘ صدقہ خیرات سے متعلق احکام عبوری دور سے متعلق ہیں“۔
۶- ”صحیح قرآنی خطوط پر قائم شدہ مرکزِ ملت اور اس کی مجلسِ شوریٰ کا حق ہے کہ وہ قرآنی اصول کی روشنی میں صرف ان جزئیات کو مرتب کرے‘ جن کی قرآن نے کوئی تصریح نہیں کی‘ پھر یہ جزئیات ہرزمانہ میں ضرورت پر تبدیلی کی جاسکتی ہے یہی اپنے زمانہ کے لئے شریعت ہیں۔
۷- ”جن اصول کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے وہ قانون اور عبادت دونوں پر منطبق ہوگا‘ نماز کی کسی جزئ شکل میں جس کا تعین قرآن نے نہیں کیا‘ اپنے زمانے کے کسی تقاضے کے ماتحت کچھ رد وبدل ناگزیر سمجھے تو وہ ایسا کرنے کی اصولاً مجاز ہوگی الخ“۔
۸- مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے جو سازش کی گئی اس کی پہلی کڑی یہ عقیدہ پیدا کرنا تھا کہ رسول کو اس وحی کے علاوہ جو قرآن میں محفوظ ہے ایک اور وحی بھی دی گئی تھی‘ یہ وحی روایات میں ملتی ہے‘ دیکھتے دیکھتے روایات کا ایک انبار جمع ہوگیااور اسے اتباعِ سنت رسول اللہ قرار دے کر امت کو اس میں الجھا دیا‘ یعنی یہ جھوٹ مسلمانوں کا مذہب بن گیا‘ وحی غیر متلو اس کا نام رکھ کر اسے قرآن کے ساتھ قرآن کی مثل ٹھہرا دیا گیا‘ ان احادیث مقدسہ کے جو حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں محفوظ ہیں اور جو ملاّ کی غلط نگہی اور کوتاہ اندیشی سے ہمارے دین کا جز بن رہی ہیں‘ سلام علیک کیجئے اور ہاتھ ملا لیجئے جنت مل گئی ‘ دو مسلمان جب مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیتا ہے‘ اب مسجد میں چلئے اور وضو کیجئے‘ جنت حاضر ہے الخ“۔
۹- ”اور آج جو اسلام دنیا میں مروج ہے وہ زمانہ قبل از قرآن کا مذہب ہو تو ہو‘ قرآنی دین سے اس کا کوئی واسطہ نہیں الخ“۔
۱۰- ”خدا عبارت ہے ان صفاتِ عالیہ سے جنہیں اپنے اندر منعکس کرنا چاہتا ہے‘ اس لئے قوانینِ خداوندی کی اطاعت درحقیقت انسان کی اپنی فطرتِ عالیہ کے نوامیس کی طاعت ہے“۔
۱۱- ”قرآن ماضی کی طرف نگاہ رکھنے کے بجائے ہمیشہ مستقبل کو سامنے رکھنے کی تاکید کرتا ہے‘ اسی کا نام ایمان بالآخرت ہے“۔
۱۲- ”بہرحال مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں‘ انسانی ذات کی کیفیات ہیں“۔
۱۳- ”ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں‘ ملائکہ کے آدم کے سامنے جھکنے سے مراد یہ ہے کہ قوتیں جنہیں انسان مسخر کرسکتا ہے‘ انہیں انسان کے سامنے جھکا ہوا رہنا چاہئے الخ“۔
۱۴- ”آدم کوئی خاص فرد نہیں تھا‘ بلکہ انسانیت کا تمثیلی نمائندہ تھا‘قصہ آدم کسی خاص فرد کا قصہ نہیں ‘ بلکہ خود آدمی کی داستان ہے‘ جسے قرآن نے تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے الخ“۔
۱۵- ”رسول اکرم اکو قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیا گیا“۔
۱۶- ”واقعہٴ اسراء“ اگر یہ خواب کا نہیں تو یہ حضور کی شب ہجرت کا بیان ہے‘ اس طرح مسجد اقصیٰ سے مراد مدینہ کی مسجد نبوی ہوگی‘ جسے آپ نے وہاں جاکر تعمیر فرمایا“۔
۱۷- ”مجوسی اساورہ نے یہ سب کچھ اس خاموشی سے کیا کہ کوئی بھانپ نہ سکا‘ انہوں نے ”تقدیر“ کے مسئلے کو اتنی اہمیت دی کہ اسے مسلمانوں میں جزء ایمان بنادیا“۔
۱۸- ”اب ہماری صلاة وہی ہے جو مذہب میں پوجا پاٹ یا ایشور بھگتی کہلاتی ہے‘ روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت کہتے ہیں‘ زکوٰة وہی شے ہے جسے مذہب دان خیرات کرکے پکارتا ہے‘ ہمارا حج مذہب کی یا تراہے‘ آپ نے دیکھا کہ کس طرح دین (نظام زندگی) یکسر مذہب بن کر رہ گیا‘ ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق ہے نہ عقل وبصیرت سے کچھ واسطہ الخ“۔
۱۹- ”قرآن کریم نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا‘ بلکہ قیام صلاة یعنی نماز کے نظام کا حکم دیا ہے‘ عجم میں مجوسیوں کے ہاں پرستش کی رسم کو نماز کہا جاتا تھا‘ لہذا صلاة کی جگہ نماز نے لے لی الخ“۔
۲۰- ”زکوٰة اس ٹیکس کے علاوہ اور کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد کرے‘ اس ٹیکس کی کوئی شرح متعین نہیں کی گئی الخ“۔
۲۱- ”حج عالم اسلامی کی بین الملی کانفرنس کا نام ہے‘ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کے خورد ونوش کے لئے جانور ذبح کرنے کا ذکر قرآن میں ہے الخ“۔
۲۲- ”یہ عقیدہ کہ بلا سمجھے قرآن کے الفاظ دہرانے سے ثواب ہوتا ہے‘ یکسر غیر قرآنی عقیدہ ہے‘ یہ عقیدہ درحقیقت عہدِ سحر کی یادگار ہے“۔
یہ چند کفریات ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ذکر کئے گئے‘ ان کے حوالہ جات اور پوری تفصیل اور ان کے جوابات اور جوابات کی تصدیق پر علماء امت کے دستخطوں کے لئے مکمل اور مفصل کتابی صورت میں فتویٰ ملاحظہ فرمائیں‘ خدارا! مسٹر پرویز کی ان تصریحات کو سامنے رکھ کر بتایئے کہ اللہ ورسول ‘ اطاعتِ اللہ ورسول‘ جنت‘ دوزخ‘ یوم آخرت‘ ختم نبوت‘ نماز‘ روزہ‘ زکوٰة‘ حج‘ تلاوت قرآن‘ قربانی اور تقدیر سے انکار‘ شریعت اسلامیہ کے منسوخ ہونے کا دعویٰ‘ احکام قرآنی محض عبوری دور کے لئے تھے‘ اب ان کا حکم باقی نہیں‘ وراثت‘ خیرات وصدقہ وغیرہ تمام احکام وقتی تھے‘ اب مرکز ملت کو اختیار ہے کہ جوفیصلہ صادر کرے۔ حق ہے‘ انا للہ۔ آخر اسلام کی کون سی چیز باقی رہ گئی‘ جس پر مسٹر پرویز نے ہاتھ صاف نہ کیا ہو‘ حدیث عجمی سازش ہے‘ حدیث کا انبار بے معنی چیز ہے اور اب جو اسلام مسلمانوں کے پاس ہے وہ سب ”افسانہ ٴ عجم“ ہے‘ وغیر ذلک من الہفوات والاکاذیب۔
بتایئے کیا یہ مسائل فروعی مسائل ہیں؟ اور اگر یہ فروعی مسائل ہیں تو اصولی مسائل کیا ہوں گے اور کیا تکفیر کبھی بھی فروعی مسائل کے انکار سے ہوتی ہے؟ قرآن ‘ حدیث‘ تمام عبادات‘ تمام احکام شرعیہ‘ بیک جنبش قلم ختم کردیئے گئے پھر بھی ”سب اچھا“ ہے اور اسلام بخیر ہے؟ اسلام کی قریبی تاریخ میں مرزا کے سوا آج تک اتنا بڑا ملحد پیدا نہیں ہوا جس نے بیک وقت تمام شریعت کی اس طرح تحریف کی ہو‘ گویا مرزا غلام احمد قادیانی کی روح چوھری غلام احمد پرویز میں آگئی ہے‘ ڈاکٹر فضل الرحمن سابق ڈائرکٹر مجلس تحقیقات اسلامی یہ سب ایک طرح کے دین اسلام کو مسخ کرنے والے ہیں‘ افسوس کہ اسلام اتنا غریب الدیار بن گیا ہے کہ جو بے رحم زندیق وملحد آئے اسلام کو ذبح کرے‘ جس طرح چاہے اس کی شہ رگ پر کند چھری چلائے‘ کوئی چھڑانے والا نہیں؟ ہاں ! ان ملاحدہ کو ٹوکنے والے ظالم ہیں؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تصور بھی اس کا نہیں ہوسکتا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر ایسے گمراہ وملحد اس آزادی کے ساتھ اسلام کی گردن پر چھری چلائیں گے کہ کوئی آہ بھی نہ کر سکے گا“‘ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور اس مملکت پاکستان کی سرزمین کو صحیح اسلام کا نمونہ بنادے اور ایسی مثالی حکومت قائم فرمائے جو تمام عالم اسلام کی دینی وسیاسی قیادت کرسکے۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال: ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: درس ختم بخاری شریف 
Flag Counter