Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

11 - 12
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے

زندگی ایک حقیقت ہے‘ مگر موت اس سے بڑی حقیقت ہے‘ اللہ رب العزت نے اپنے نظام کائنات کی ترتیب ہی اسی طرح رکھی ہے کہ زمین بنائی تو آسمان بھی بناکر دکھایا‘ دن کو تخلیق کیا تو رات بھی بنائی‘ خوشی کے ساتھ غموں کو جوڑا‘ حیات کے ساتھ ممات کا ناتا طے کیا‘ دنیا میں ہرکسی نے موت وحیات کو اپنے اپنے نظریے اور فلسفے سے دیکھا ہے۔ اگر کسی نے موت کو جدائی وبے وفائی کا سبب سمجھا ہے تو کسی نے موت کو زندگی کا وقفہ قرار دیا ہے تو کسی دانشور نے اسے جبر کا ایک سلسلہ کہا ہے کہ اس میں انسان بالکل بے بس ہوتا ہے‘ نہ اپنی خوشی سے آتا ہے‘ نہ اپنی خوشی سے جاتاہے‘ کسی نے اس کو خوف وہراس کی آخری منزلوں تک پہنچادیا ہے کہ موت کی وجہ سے تو نیندیں اڑ جاتی ہیں‘ مگر جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ تو موت کو ”وصالِ یار“ کا نام دیتے ہیں اور اس وصال کے لئے بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں ایسی ہی کیفیت حضرت نفیس شاہ  کی زندگی کے آخری دنوں میں تھی کہ جب انہوں نے اپنے ایک معتقد کو فرمایا کہ بس اب تو یہ دعا ہے کہ میں قبول ہو جاؤں۔حضرت نے اپنی قبولیت تو کروالی‘ مگر اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یتیم کرگئے۔ وہ تو اس جہانِ فانی سے جانا چاہتے تھے اور جانے والوں کو کوئی روک نہیں سکتا‘ کیونکہ یہ عالمی دستور ہے کہ ہرایک کو جانا ہے‘ مگر ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے‘ وہ نہ جانے کیسے پُر ہوگا۔ ان کی کمی تا قیامت محسوس کی جائے گی‘ ان کی ذات کا سائبان ہٹا ہے تو پتا چل رہا ہے کہ ٹھنڈی اور میٹھی چھاؤں کیا ہوتی ہے؟ گہرے بادل کیا ہوتے ہیں؟ اور بارشوں کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟ سمندر کسے کہتے ہیں اور گہرائی کیا ہوتی ہے؟
گزر بسر میں زندگی کے دھارے ریت ہوگئے
سمندروں کے جس طرح کنارے ریت ہوگئے
وہ ایک کیا بچھڑگیا کہ راسستے اجڑ گئے
زمین گرد ہوگئی‘ ستارے ریت ہوگئے
اکابرین کا دنیا سے رخصت ہونا واقعی سانحہ ہوتا ہے جو بڑی مشکل سے بھولتا ہے‘ ایک ایسا دکھ ہوتا ہے جس کا مداوا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ اگر حضرت رائے پوری  ۱۹۶۲ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئے‘ تو یہ سانحہ شاہ صاحب کے لئے (خصوصاً) انتہائی ہولناک تھا اور اب خود حضرت شاہ صاحب کا جہانِ فانی سے چلے جانا ہم سب کے لئے ایک کاری زخم ہے‘ جو بھرتے ‘ بھرتے ہی بھرے گا۔
حضرت شاہ صاحب کی حیات ِ فانی پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی بھر پور زندگی گزاری ہے‘ ان کے بھارت کے اسفار‘ حج کے اسفار اور افغانستان کے اسفار‘ الفاظ کی تنظیم وترتیب‘ کتابوں کی اشاعت ان کے بڑے یادگار اور شاہکار کارنامے ہیں‘ جہاں ان کا دامنِ زندگی خوشیوں اور مسرتوں سے بھرا نظر آتا ہے‘ وہاں ان کے سینے پر غموں کے انمٹ داغ بھی اپنی بہار دکھا رہے ہیں‘ جیساکہ ان کے اکلوتے بیٹے کا سانحہٴ ارتحال ․․․ مگر اللہ والوں کا شیوہ‘ تسلیم ورضا ہوتا ہے‘ وہ منشائے خداوندی کے آگے اف تک نہیں کرتے‘ ایسا ہی حال حضرت شاہ صاحب کا نظر آتا ہے‘ ان کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے‘ وہ سراپا خوبی تھے‘سراپا محبت تھے‘ سراپا ایثار تھے‘ سراپا تسلیم ورضا تھے‘ ان کے بارے میں مولانا نعیم الدین صاحب (فاضل جامعہ مدینہ‘ لاہور) لکھتے ہیں کہ ․․․․”قحط الرجال کے اس دور میں آپ کی ذات بسا غنیمت تھی‘ آپ کو دیکھ کر اکابر واسلاف کی یاد تازہ ہوتی تھی اور آپ کے پاس بیٹھ کر خدا طلبی اور فکرِ آخرت کا جذبہ ابھرتا تھا․․․ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا‘ سادگی ومتانت‘ تواضع ومسکنت‘ خوف وخشیت‘ تقویٰ وللٰہیت‘ ذاتِ رسالت مآب ا سے عشق ومحبت‘ اہلِ بیت کرام کی عظمت وعقیدت اور اکابر علماء دیوبند سے تعلق واردات آپ کے رگ وپے میں بسی ہوتی تھی“۔آیئے حضرت شاہ صاحب کی زندگی پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں:
آپ کی تابندہ زندگی سال بہ سال
اصل نام: سید انور حسین‘ معروف نام: سید نفیس الحسینی‘ ولدیت : سید محمد اشرف علی زیدی (ماہر خطاط ”سید القلم“ کے نام سے معروف) تاریخ پیدائش:۱۱/مارچ ۱۹۳۳ء ‘ پیدائشی گھٹی: از مولانا سید محمد اسلم شاہ صاحب (فاضل دیوبند آپ کے ماموں) مقام پیدائش: موضع گھوڑیالہ‘ تحصیل ڈسکہ‘ ضلع سیالکوٹ‘ جد امجد: حضرت خواجہ گیسودراز  ‘ نسبتی تعلق: حضرت سیدنا زید بن علی بن حسین ۔
ابتدائی تعلیم:
آریہ ہائی اسکول بھوپانوالہ سے ۱۹۴۶ء میں مڈل کیا‘ میٹرک: سٹی مسلم ہائی اسکول ‘ فیصل آباد ۱۹۴۸ء‘ پہلی نعت لکھی( سولہ سال کی عمر میں)۱۹۴۹ء‘ ایف‘ اے: گورنمنٹ کالج فیصل آباد‘ ۱۹۵۰ء‘ لاہور آمد (تاریخی فیصلہ) ۱۹۵۱ء‘ اعلیٰ خطاط کی حیثیت سے خدمات: ۱۹۵۲ء تا ۱۹۵۶ء ‘ منشی فاضل کا امتحان: اورینٹیل کالج‘ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ۱۹۵۳ء
ازدواجی زندگی کا آغاز:
۱۹۵۳ء یا ۱۹۵۴ء۔ مولانا حافظ انیس الحسن صاحب کی پیدائش ۱۹۵۶ء (انیس صاحب سے پہلے ایک فرزند ہوئے‘ مگر وہ فوت ہوگئے)۔خوش نویس یونین کی صدارت: ۱۹۵۶ء تا ۱۹۷۸ء تک۔
بیعت (حاصل زندگی):
حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری ۱۹۵۷ء۔نعمتِ خلافت:۱۹۵۸ء شیخ کا انتقال (غموں کا سال) ۱۹۶۲ء
انڈیا (بھارت) کا سفر وسیلہ ظفر (گنگوہ وغیرہ) ۱۹۶۷ء۔ دیوان غالب کی کتابت از حضرت شاہ صاحب اور اشاعت از مولانا حامد علی خان:۱۹۶۸ء اور ۱۹۶۹ء۔سفر سہارنپور ورائے پور (بھارت) ۱۹۷۰ء۔مسئلہ قادیانیت پر خدمات: ۱۹۷۴ء
خطاطی میں اول انعام: از نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی طرف سے: ۱۹۸۰ء فرزند ارجمند حافظ انیس الحسن کی شادی خانہ آبادی: ۱۹۸۰ء پہلا سفر حج: ۱۹۸۳ء‘ قلم وقلوب کی اصلاح (اپنے موجودہ گھر سے) ۱۹۸۳ء یا ۱۹۸۴ء پرائڈ آف پر فارمنس ایوارڈ: از حکومت پاکستان: ۱۹۸۶ء‘ سانحہٴ وفات ‘ والدہٴ محترمہ: مئی ۱۹۸۷ء
عالمی مقابلہٴ خطاطی میں بحیثیت جج کے طور پر شرکت (بغداد میں): ۱۹۸۸ء دوسرے عالمی مقابلہٴ خطاطی میں بحیثیت جج کے طور پر شرکت (استنبول میں) ۱۹۸۹ء
سفر حج: ۱۹۸۹ء ۔ سفر افغانستان (خوست وغیرہ) ۱۹۹۰ء جناب زید الحسینی (پوتے) کی پیدائش: مارچ/۱۹۹۱ء سفر افغانستان (ہرات وچشت وغیرہ) ۱۹۹۴ء سانحہٴ وفات والد محترم: اگست ۱۹۹۵ء ۔ سفر بلتستان (گلگت وسکردو) ۱۹۹۶ء۔
سفر حج:۱۹۹۶ء عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا عہدہ (نائب امیر) ۲۰۰۰ء سفر حج: ۲۰۰۰ء۔
زوجہٴ محترمہ کی وفات حسرت آیات: مئی ۲۰۰۱ء۔
فرزند ارجمند‘ مولانا حافظ انیس الحسن کی وفات حسرت آیات: اکتوبر ۲۰۰۱ء ۔
جناب زید الحسینی (پوتے) کی دستار بندی (جانشین کی حیثیت سے) ۲۰۰۱ء آخری سفر حج (جناب زید الحسینی کے ساتھ) ۲۰۰۲ء۔
خانقاہ سید احمد شہید کا آغاز: ۲۰۰۵ء‘ ازبکستان کا سفر: ۲۰۰۷ء (اسی سفر میں کان کی تکلیف شروع ہوئی‘ جوکہ موت کا سبب بنی)
وفات حسرت آیات: ۵/فروری ۲۰۰۸ء (منگل صبح کے وقت) نماز جنازہ: بادشاہی مسجد لاہور کے زیر سایہ عتیق اسٹیڈیم میں‘ پہلے جنازے کی امامت (وصیت کے مطابق) مولانا سید جاوید شاہ صاحب ‘ دوسرے جنازے کی امامت (خانقاہ سید احمد شہید میں) شیخ الحدیث مولانا عبد المجید صاحب کہروڑپکا (دوسرے جنازے میں آپ کے پوتے جناب زید الحسینی نے شرکت کی)قبر مبارک: خانقاہ سید احمد شہید‘ پل سگیاں‘ شیخوپورہ روڈ ‘ لاہور ۔
جنازے میں شرکا کی تعداد: تقریباً ایک لاکھ۔ پسماندگان: بیوہ ‘ بہو‘ دوپوتے ‘ پانچ پوتیاں‘ شاعری میں نام کا استعمال: انور زیدی (پہلے) سید نفیس الحسینی (بعد میں) اخبارات کی خدمت (بحیثیت خطاط) روزنامہ انصاف‘ روز نامہ احسان‘ روزنامہ آزاد‘ روز نامہ نوائے وقت۔ اہل علم ودانش کی طرف سے ملنے والے خطابات: رئیس الخطاطین‘ عمدة الصالحین‘ امام المجاہدین والسالکین‘ مرشد العلماء‘ مخدوم الصلحاء‘ سلطان القلم‘ قطب الارشاد‘ پیکر محبت ومعرفت‘ امام طریقت‘ عارف کامل‘ عاشق صادق ‘ خطاطی میں آپ کے تلامذہ: جناب عبد الرشید قمر‘ جناب جمیل حسن‘ جناب خالد نفیسی‘ جناب الٰہی بخش‘ جناب منصور الحق‘ جناب سید جمیل الرحمن اور آپ کے فرزند انیس الحسن ۔
تصنیفات وتالیفات کی خدمت: نفائس النبی ا‘ شجرة الاشراف‘ شمائم گلبرگہ‘ شمائم گیسودراز‘ سادات گیسودراز‘ قطب سوات‘ حضرت سید احمد شہید سے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے روحانی رشتے‘ حکایاتِ مہرو وفا‘ قاسم العلوم والخیرات‘ شعر الفراق‘ مقالات خطاطی‘ نفائس القلوب‘ تاریخ حبیبی وتذکرہٴ مرشدی‘ ریحان عترت‘ گلدستہٴ کریم‘ مکاتیب سید احمد شہید‘ مکاتیب شیخ الحدیث‘ تلخیص سیدنا علی وحسین‘ وقائع سید احمد شہید اور معرکة الآراء مجموعہ کلام ”برگ گل“ (کلیات)۔ مشہور مرقعات: الاسماء الحسنیٰ‘ اربعین صلوٰة وسلام‘ نفائس اقبال‘ نستعلیق نامہ‘ ارمغان نفیس۔ خلفائے کرام: تعداد ایک سوسے زائد ۔آپ کی ذات بابرکات سے وابستہ چند واقعات
۱:-کتاب وعلم سے آپ کی محبت
برادر فہیم الدین کا دیوبندجانا ہوا واپسی پر وہ سہارنپور سے حضرت کے لئے اخروٹ کے چھلکے کی بنی ہوئی لاٹھی لے آئے۔ جب انہوں نے حضرت کو یہ پیش کی تو آپ نے فرمایا: ”تو یہ کیوں لے آیا‘ اس سے بہتر تھا کہ کوئی کتاب لے آتا“ میں نے کہا: آپ فرمادیں کہ کونسی کتاب چاہئے‘ وہ منگوا دیتے ہیں“ فرمایا: ”میں چاہ رہا تھا کہ کہہ دوں تفسیر عثمانی ہندی والی لے آتا“ میں نے پوچھا: حضرت آ پ ہندی جانتے ہیں؟ فرمایا: ”ہاں میں جانتاہوں“ پھر آپ نے ہندی کے کئی الفاظ ذکر کئے اور ان کے معنیٰ بتلائے۔ (مضمون: آہ‘ حضرت شاہ صاحب بھی چل بسے از مولانا نعیم الدین صاحب۔ انوار مدینہ لاہور)
۲:- اہل علم ودانش کی اعانت وقدردانی
میرے حمدیہ اور نعتیہ اشعار اکثر ماہنامہ ”الخیر“ اور کبھی کبھی ماہنامہ ”انوار مدینہ“ لاہور میں شائع ہوجاتے ہیں‘ اس لئے میرے اشعار پر حضرت کی نظر بھی پڑجاتی تھی‘ ایک مرتبہ فرمایا کہ: اپنا کلام اکٹھا کرلو‘ بندہ نے عذر کیا کہ میں نے تو اپنے اشعار نہ ہی محفوظ رکھے ہیں اور نہ ہی کبھی ان پر دوسری نظر ڈالی ہے‘ اس لئے میرے لئے یہ کام بہت مشکل ہے‘ اس کے بعد بھی حضرت نے دو مرتبہ یہی مشورہ دیا تو مجبور ہوکر بندہ نے اپنا کلام اکٹھا کرلیا اور اس فن کے دو ماہر اساتذہ سے اس کی اصلاح کرائی‘ پھر مسودہ حضرت کی خدمت میں پیش کردیا‘ آپ نے چند نظمیں مجھ سے سنیں اور باقی مسودے پر خود ہی طائرانہ نظر ڈالی ‘ پھر میرے کہنے پر اس کے لئے کچھ تحریر بھی فرمادیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے مجھ جیسے ہیچمداں کو کس طرح صاحب کتاب بنادیا۔ (مضمون: اٹھ گیا ناوک فگن‘ مارے گا دل پر تیرکون؟ از مولانا میاں محمد افضل صاحب الخیر ملتان)۔
۳:- استغناء اور توکل علی اللہ
مسجد نبوی کی تزئین وآرائش کے لئے حکومت سعودیہ نے ایک فرم کو ٹھیکہ دیا‘ فرم نے مسجد نبوی پر کچھ لکھوانے کے لئے حضرت شاہ صاحب کا انتخاب کیا اور حضرت سے رابطہ کیا تو حضرت نے لکھنے کی حامی بھری‘ لیکن دوشرطوں کے ساتھ‘ ایک یہ کہ صرف دن کو لکھوں گا‘ رات کو نہیں۔ دوسری یہ کہ معاوضہ نہیں لوں گا‘ فرم نے ان شرطوں پر پورا نہ اتر سکنے کی وجہ سے رابطہ منقطع کردیا۔ (مضمون :سراپا نفیس از مولانا خدا بخش صاحب ”الخیر“ ملتان)
۴:- مزاح کی لطیف حس
ایک مرتبہ حضرت شاہ صاحب جامعہ خیر المدارس ملتان تشریف لائے تو معمول کے مطابق سب سے پہلے دفتر ماہنامہ ”الخیر“ میں قدم رنجہ فرمایا‘ دیگر زائرین کے علاوہ ”الخیر“ کے خوش نویس یوسف جاوید مرحوم نے حضرت سے مصافحہ کیا‘ یوسف جاوید مرحوم مختصر قدوقامت کے نہایت نحیف اور دبلے پتلے آدمی تھے‘ جب انہوں نے مصافحہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ ”میں الخیر کا خوش نویس ہوں“ تو حضرت نے مسکرا کر فرمایا: ”اصل نفیس تو آپ ہیں“۔(مضمون: وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے از مولانا محمد ازہر صاحب روز نامہ اسلام‘ ملتان)
۵:- فراخ دلی اور خلوص کی فراوانی
مجھے اور نٹئیل کالج میں بارہا ڈاکٹر عبادت اور علامہ عابدی کمروں میں قبلہ شاہ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی‘ وہ ان بزرگوں سے نسبت رکھنے والوں سے خصوصی شفقت فرماتے تھے‘ میں اس دن کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا‘ جب سابق ایرانی صدر‘ آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں پیش کی جانے والی میری مذکورہ بالا کتاب کے سرورق کی کتابت کے لئے کریم پارک میں ان کے آستانہ پر حاضر ہوا تھا‘ میرے انتہائی عزیز شاگرد‘ شیخ نوازش علی مرحوم میرے ہمراہ تھے‘ جو ڈاکٹر عبادت صاحب اور اپنے محترم اساتذہ علامہ عابدی اور ڈاکٹر بشیر حسین کے خطاطی اور خوش نویسی اور جلد سازی سے متعلق فرمائشات کی انجام دہی کے لئے اکثر وبیشتر شاہ صاحب کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے رہتے تھے‘ جب شاہ صاحب کو معلوم ہوتا کہ کوئی سائل ان کے محبوب اساتذہ ‘ ڈاکٹر عبادت اور علامہ عابدی کا محبوب نظر ہے تو انہیں اس سے بھی الفت ہوجاتی تھی‘ میرے ساتھ ان کے ربط خاطر کا غالباً کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ (مضمون: رئیس الخطاطین‘ سید نفیس الجسینی‘ نفیس رقم از پروفیسر ڈاکٹر آفتاب اصغر ماہنامہ الحمراء لاہور۔
۶:- ”وصالِ یار“ کی تڑپ اور بے قراری
سانحہ اسلام آباد‘ جامعہ حفصہ کی ہزاروں طالبات کی مظلومانہ شہادت‘ مولانا عبد الرشید غازی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت جیسے سانحات کے بعد حضرت شاہ صاحب انتہائی دلبرداشتہ ہوگئے تھے اور واصل بحق ہونے کے لئے بے قرار تھے۔ ازبکستان سے واپسی کے بعد مرض کی شدت کے دوران بوقت ملاقات بندہ نے جب بھی یہ کہا ”اللہ تعالیٰ آپ کو شفائے کاملہ سے نوازے“ تو بسا اوقات آپ نے فرمایا: ”دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اب قبول فرمالے“۔ (مضمون: اٹھ گیا نازک فگن‘ مارے گا دل پر تیر کون؟ از پروفیسر مولانا میاں محمد افضل ”الخیر“ ملتان)
استفادہ
۱- روزنامہ اسلام‘ ملتان ۲- ہفت روزنامہ ضرب مومن کراچی ۳- ماہنامہ ”الخیر“ ملتان ۴- ماہنامہ ”الحمراء“ لاہور ۵- ماہنامہ وفاق المدارس ملتان ۶- ماہنامہ ”نصرة العلوم“ گوجرانوالہ ۷- ماہنامہ ”انوار مدینہ“ لاہور ۸- ماہنامہ ”بینات“ کراچی ۹- ماہنامہ ”القاسم“ نوشہرہ ۱۰- ماہنامہ ”نقیب ختم نبوت“ ملتان ۱۱- ماہنامہ ”علم وعمل“ لاہور۔ براہ راست رابطہ ۱- جناب زاہد الحسینی لاہور ‘ ۲- جناب اظہار گیلانی صاحب لاہور‘ ۳- جناب جلیل الرحمن صاحب مکتبہ سلطان عالم گیر اردو بازار لاہور‘ ۴- نفیس منزل کریم پارک لاہور۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال: ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: طاغوتی قوتوں کی اسلام دشمنی
Flag Counter