Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

9 - 10
مولانا سیّد محمد انظر شاہ کشمیری کی رحلت
مولانا سیّد محمد انظر شاہ کشمیری کی رحلت


۱۹/ ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ مطابق ۲۶/اپریل ۲۰۰۸ء بروز ہفتہ محدث العصر حضرت مولانا سیّد محمد انور شاہ کشمیری کے فرزند، علمی جانشین اور دارالعلوم دیوبند وقف کے صدر مدرس و شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمد انظر شاہ کشمیری رحلت فرمائے عالم آخرت ہوئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا سیّد محمد انظر شاہ کشمیری کی رحلت کی سب سے پہلی اطلاع جامعہ فاروقیہ شجاع آباد سے مولانا زبیر احمد صدیقی نے دی اور انہوں نے فرمایا کہ ہانگ کانگ سے برادرم مولانا محمد ارشد صاحب کا فون آیا ہے کہ حضرت مولانا کا انتقال ہوگیا ہے، اسی طرح کچھ دیر بعد دارالعلوم کراچی سے مولانا قاری عبدالملک صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ جدہ سے مولانا قاری عبدالباسط نے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے سیکریٹری کو فون پر اطلاع دی ہے کہ حضرت شاہ صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، کیا آپ کو ایسی کوئی اطلاع ہے؟ چونکہ راقم الحروف اس وقت کراچی سے باہر تھا، اس لئے عرض کیا کہ ایک موہوم سی اطلاع اور خبر آئی تو ہے، مگر ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوسکی، تاہم اسی وقت دارالعلوم دیوبند کے ناظم تعلیمات استاذ حدیث اور جمعیت علماء ہند کے امیر حضرت مولانا سیّد محمد ارشد مدنی دامت برکاتہم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر افسوس کہ رابطہ نہ ہوسکا۔ ازاں بعد دیگر ذرائع سے اس کی تصدیق ہوگئی کہ حضرت اس دنیا سے رحلت فرماکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منہ موڑ گئے ہیں۔ شومیٴ قسمت کہ حضرت مولانا سیّد محمد انظر شاہ صاحب سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا، تاہم ان کی باغ و بہار شخصیت اور تدریسی و علمی خدمات سے راقم الحروف نہ صرف آشنا ہے بلکہ غائبانہ ان کی عظمت کے نقوش دل پر ثبت ہیں۔ حضرت مولانا سیّد محمد انظر شاہ کشمیری قدس سرہ کی تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مرحوم ذہانت و ذکاوت میں اپنے والد ماجد کے عکس تھے اور وہ اردو نثر نگاری میں نہ صرف ماہر تھے بلکہ حروف ، کلمات اور محاوروں سے کھیلنا جانتے تھے، ایسا لگتا ہے کہ علم و ادب ان کے گھر کی لونڈی اور صحافت و تحریر ان کے زر خرید غلام تھے، ان کے لکھنے کا انداز بتاتا ہے کہ وہ علم و تحقیق اور تحریر و انشاء کے بادشاہ تھے، وہ بولتے تو موتی رولتے تھے اور لکھتے تو حروف و کلمات ان کے سامنے پرا باندھے کھڑے نظر آتے تھے، وہ ایجاز و اختصار کے ماہر اور بذلہ سنجی کے بادشاہ تھے۔ آں موصوف ”الولدسرلابیہ“ کی صحیح تعبیر اور اپنے والد ماجد کی سچی تصویر تھے، وہ اپنے اکابر و اسلاف کے ذوق و مزاج کے انسان تھے، وہ علوم ظاہری کے علاوہ باطنی علوم اور سلوک و احسان سے خصوصی دلچسپی رکھتے تھے، ان کا اپنے والد ماجد کی طرح خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف سے روحانی تعلق تھا، ان کے والد ماجد قیوم زماں حضرت مولانا محمد عبداللہ لدھیانوی قدس سرہ، سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ سے بیعت تھے، تو آں موصوف بھی ان کے نقش قدم پر حضرت اقدس مولانا محمد عبداللہ صاحب قدس سرہ کے جانشین اور خانقاہ سراجیہ کے سرخیل خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد کندیاں شریف دامت برکاتہم کے خلیفہ مجاز تھے۔ اسی مناسبت سے آپ نقشبندی نسبت کے امین اور پاسبان تھے۔ شنید ہے کہ انہوں نے اپنے شیخ کی نسبت اپنے شیخ کے فرزندان! صاحبزادہ مولانا خلیل احمد صاحب مدظلہ اور صاحبزادہ مولانا رشید احمد صاحب مدظلہ کو لوٹاتے ہوئے ان کو نہ صرف اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا بلکہ پاکستان کے ایک سفر میں ان ہر دو صاحبزادگان کی دستار بندی کراکے ان پر اظہار اعتماد کیا۔ حضرت مولانا سیّد محمد انظر شاہ کشمیری قدس سرہ ۲۷ سال تک دارالعلوم دیوبند میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اور گزشتہ ۲۸ سال سے دارالعلوم دیوبند وقف سے وابستہ تھے اور تادم آخر وہ اسی ادارہ کے استاذ حدیث، صدر مدرس اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے۔ حضرت مولانا مرحوم بظاہر کوئی خاص بیمار نہ تھے، بلکہ مکمل صحت مند تھے، البتہ گزشتہ چند ماہ سے کچھ علیل تھے، اب ایک دم اچانک اور آناً فاناً طبیعت بگڑی اور راہی عالم آخرت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مرحوم کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے ان کی کمی کوتاہیوں اور بشری کمزوریوں سے صرف نظر فرماتے ہوئے ان کو اعلیٰ علییّن میں جگہ عطا فرمائے ،ان کے پسماندگان کی کفایت و کفالت فرمائے اور دارالعلوم دیوبند وقف کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ حضرت مولانا کی رحلت اور خصوصاً اس دور میں ...جبکہ علم و فن اور ہنر و کمال کے حامل افراد کا ایک قحط ہے ...بہت بڑا سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کی رحلت کے بعد کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے اور ان کی برکات سے محروم نہ فرمائے ۔آمین۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے ہمیں براہ راست حضرت شاہ صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔ اس لئے ان کی ذاتی زندگی، ان کے علم و فضل، کمالات علمیہ اور ان کی باغ و بہار شخصیت پر اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ ”دارالعلوم“ کے مدیر مکرم جناب حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی ادارتی تحریر کو حضرت موصوف کے تعارف کے سلسلہ میں درج کردیا جائے، تاکہ قارئین بینات ان کی زندگی کے مخفی گوشوں سے آشنا و آگاہ ہوسکیں، لیجئے پڑھئے اور حضرت شاہ صاحب کی علمی و تحقیقی زندگی کے مخفی گوشوں سے آگاہی حاصل کیجئے:
”جامعہ امام انور دیوبند کے مؤسس، وقف دارالعلوم کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین، دیوبند مکتب فکر کے ایک لائق و فائق عالم دین حضرت مولانا سیّد انظر شاہ کشمیری تقریباً پانچ چھ ماہ کی علالت کے بعد دہلی کے ایک ہسپتال میں ۱۹/ ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ موافق ۲۶/اپریل ۲۰۰۸ء بروز شنبہ بعمر ۸۲ سال اس دارِ فانی کو چھوڑ کر راہی ٴ عالم جاودانی ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللّٰہم انزل علیہ شأبیب رحمتک، وارفع درجتہ، واجعلہ من عبادک المقربین۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ کی صحت و توانائی قابل رشک تھی، اس پنج ماہی مرض وفات کے پیش آنے سے پہلے ان کے جسمانی قویٰ عمر کے لحاظ سے نہایت اچھے تھے، صبح و شام کی ہوا خوری اور تفریح ان کا ایک قدیم معمول تھا، جس میں شاید و باید ہی کبھی تخلف ہوتا تھا۔ حضرت شاہ صاحب مرحوم نہایت خوش اخلاق، نرم گفتار اور باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے جس مجلس میں ہوتے اپنے لطائف و ظرائف سے اسے زعفران زار بنادیتے تھے، خورد نوازی، بے تکلفی اور احباب پروری ان کی عادت ثانیہ تھی، وہ اگرچہ علمی و دینی طبقہ کے ایک فرد وحید تھے، لیکن ان کے وہ لوگ بھی گرویدہ تھے جو علم دین سے چنداں تعلق نہیں رکھتے ، وہ عوامی حلقہ میں بھی ایسے ہی پیارے تھے جیسے طلبہ و علماء کی جماعت میں، یہ ان کے وسیع حسن اخلاق کی ایک کرامت تھی، ذکاوت و ذہانت میں بلااستثناء اپنے ہم عصروں میں امتیازی شان رکھتے تھے اور اپنے لئے آپ راستہ پیدا کرلینے کی حکمت عملی میں یدطولیٰ کے مالک تھے، وہ بیک وقت ایک کامیاب و مقبول مدرس، اعلیٰ درجہ کے خطیب و مقرر اور بلند پایہ صاحبِ قلم و مصنف تھے، ان کی تحریریں رواں دواں اور ادب کی چاشنی کا نمونہ ہوتی تھیں، اسلامیات میں تفسیر و حدیث ان کا محبوب موضوع تھا، اور ان میں وہ اپنی نمایاں پہچان رکھتے تھے، تعلیم و تدریس اور تالیف و تصنیف کے مشغلہ سے مضبوط و مستحکم وابستگی کے ساتھ ملکی سیاست سے بھی عملاً وابستہ تھے اور سیاسی حلقوں میں ا ن کی مقبولیت اور پذیرائی علمی، دینی دائروں سے کم نہیں تھی۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ فضلاء وفارغین کی تعداد میں کثیر اضافہ کے باوجود کام کے افراد کی قلت اور کمی کا احساس عام ہے، افسوس کہ ملت اسلامیہ ہند اپنے ایک ایسے جامع فضل و کمال اور صاحب فکر و عمل سپوت سے محروم ہوگئی جس کی کمی زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک عرصہ تک محسوس کی جاتی رہے گی۔ حضرت شاہ صاحب مرحوم و مغفور ۱۴/ شعبان ۱۳۴۷ھ مطابق ۲۶/جنوی ۱۹۱۹ء کو محلہ خانقاہ دیوبند میں پیدا ہوئے، آپ حضرت محدث عصر علامہ انور شاہ کشمیری کی آخری اولاد تھے، والد بزرگوار کے سایہ عاطفت میں اس جہانِ بے ثبات کی ابھی چار بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ ۳/ صفر ۱۳۵۲ھ، مطابق ۱۹۳۴ء کو وہ اپنے اس نونہال کو مالکِ کائنات کے حوالہ کرکے خود راہ گیر عالم آخرت ہوگئے، اس طرح بغیر کسی کسب و اختیار کے دربارِ الٰہی سے یتیمی کی سنت نصیب ہوگئی۔ والد ماجد کی وفات کے بعد والدہ اور بڑی بہن کی زیر نگرانی تعلیم و تحصیل کا آغاز کیا، قرآن مجید کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد دارالعلوم دیوبند سے فارسی کے پانچ سالہ نصاب کی تکمیل کی، بعدازاں آپ کے خالہ زاد بھائی حکیم اختر نے آپ کا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں کرادیا، جہاں سے انہوں نے اردو ادیب، عالم، ادیب فاضل فارسی اور منشی فاضل کے امتحانات دیئے۔ اس کے بعد کرنال سینٹر سے انگریزی مضمون کے دو پرچوں کا امتحان دیا، یہ ہندو پاک کی تقسیم کا زمانہ تھا، ہر طرف فسادات اور قتل و خونریزی کا بازار گرم تھا، شاہ صاحب کرنال سے دہلی آگئے، لیکن دہلی میں بھی حالات ایسے نہیں تھے کہ وہاں قیام کیا جاسکے، اس لئے دہلی سے منتقل ہوکر دیوبند واپس آگئے۔ دیوبند کی مراجعت کے بعد شاہ صاحب کے سر پرستوں نے انہیں حضرت محدث عصر علامہ انور شاہ کشمیری کے تلمیذ اور حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی قدس سرہ کے خادم خاص قاری اصغر علی سہس پوری رحمہ اللہ کی تربیت میں دے دیا، قاری صاحب موصوف چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بڑا ستھرا سلیقہ رکھتے تھے، وہ پڑھاتے نہیں بلکہ گھول کر پلاتے تھے، ساتھ ہی بچوں کے مزاج کی رعایت رکھتے ہوئے ان کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے، قاری صاحب کی یہ تعلیم و تربیت شاہ صاحب مرحوم کے حق میں بڑی مفید ثابت ہوئی اور وہ ہر طرف سے یکسو ہوکر پڑھنے لکھنے اور اپنے مستقبل کی تعمیر میں پوری طرح منہمک ہوگئے اور چند ہی سالوں میں متوسطات تک کی کتابوں کی تکمیل کرکے دارالعلوم دیوبند میں باقاعدہ داخلہ لیا اور آگے کی کتابیں اس وقت کے اساتذہ مولانا معراج الحق دیوبندی، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا عبدالفتاح وغیرہ سے پڑھ کر اس وقت کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث حضرت شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی اور شیخ المعقولات علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی وغیرہ اکابر اساتذہ سے دورئہ حدیث کی تکمیل کرکے سند فراغت حاصل کی۔ حضرت شاہ صاحب کی علمی صلاحیتوں کو نکھارنے اور پروان چڑھانے میں حضرت شیخ الادب کا کردار بہت اہم ہے، جس کے معترف شاہ صاحب زندگی بھر رہے اور اس سلسلے کے واقعات کو بڑی دلچسپی سے بیان کیا کرتے تھے۔ تعلیم و تحصیل سے فراغت کے بعد ۱۳۷۲ھ/۱۹۵۳ء میں بحیثیت مدرس مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ہوگیا اور اپنے محسن اساتذہ بالخصوص حضرت شیخ الادب کی نگرانی و رہنمائی میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا جو مسلسل چوبیس سالوں تک جاری رہا، اس مدت میں شاہ صاحب کی قوت حافظہ اور یادداشت نہایت قوی، ذہانت و ذکاوت میں بھی اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے، اسی کے ساتھ زبان و بیان پر انہیں پوری قدرت حاصل تھی، اس لئے ان کا درس طلبہ میں ہمیشہ مقبول اور وہ خود محبوب رہے۔ ۱۹۸۰ء میں دارالعلوم دیوبند سے رسمی تعلق منقطع ہوجانے کے بعد وقف دارالعلوم دیوبندمیں تدریس کا سلسلہ جاری رہا، درس و تدریس کا وہ سلسلہ جو آج سے ۲۷ سال قبل شروع کیا تھا، اگرچہ اس کی جگہ بدل گئی، لیکن وہ بغیر کسی انقطاع کے بدستور جاری رہا، اس مدت میں دیگر کتابوں کے علاوہ صرف بخاری شریف کے طلبہ کی تعداد جنہوں نے دونوں جگہوں میں شاہ صاحب سے پڑھا، سات ہزار سے اوپر ہے۔ ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔ تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف بھی شاہ صاحب کا محبوب ترین مشغلہ تھا، وہ اپنے پرہجوم اور مشغول و مصروف اوقات میں سے ایک وقت اپنے اس ذوق کی تسکین کے لئے ضرور فارغ کرلیا کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنے اس طویل علمی سفر میں تلامذہ کی کثیر جماعت کے ساتھ قرآن، حدیث، تذکرہ و سوانح وغیرہ مختلف موضوعات پر دو درجن سے زائد تصنیفی یادگار بھی چھوڑی ہیں۔ ان خالص علمی مشاغل کے ساتھ شاہ صاحب ملکی سیاست سے بھی دلچسپی رکھتے اور عملی طور پر وہ ہمیشہ کانگریس سے وابستہ رہے، وہ کہا کرتے تھے کہ: کانگریس اگر اپنی قدیم روایت پر عمل پیرا ہوجائے تو وہ اس ملک کو بہت کچھ دے سکتی ہے، کانگریس کا مقابلہ فرقہ پرستی اور علاقائیت سے ہے، جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کانگریس کو نئی طاقت کی ضرورت ہے، کانگریس سے ان کی یہ وابستگی، کانگریسیوں کے غلط کاموں پر تنقید و تبصرہ سے ان کے لئے کبھی مانع نہیں ہوئی۔ غرضیکہ شاہ صاحب کی شخصیت مجموعہ کمالات تھی، زندگی کے ہر میدان میں ان کی خدمات اور جہد و عمل کے نقوش موجود ہیں، جن سے آنے والی نسلیں اپنے ذوق و طاقت کے مطابق روشنی حاصل کرتی رہیں گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ا پنی مرضیات سے نوازے، اعلیٰ علییّن میں انہیں مقام عطا فرمائے اور اپنے مقربین بندوں کے زمرے میں انہیں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔“ (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ) جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مدیر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، نائب مدیر مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوری، اساتذہ کرام، ادارہ بینات اور تمام کارکنان اس سانحہ کو اپنا ذاتی سانحہ تصور کرتے ہیں اور حضرت شاہ صاحب کے متعلقین، پسماندگان اور پورے خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رجب: ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: برطانوی عہدِ حکومت اور مسلمان
Flag Counter