Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

7 - 10
فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ
فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ

اللہ جل شانہ کے بے پایاں احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے اس عاجز ہیچ مداں کو محض اپنے فضل سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کے مجموعہ ”فضائل اعمال“ جیسی مقبول ترین کتاب پر ایک بہانے سے کچھ لکھنے کی توفیق مرحمت فرمائی۔
” فالحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات“۔
ہوا یوں کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کے ممتاز شاگرد اور متوسل ،عالم اسلام کے نامور عالم اور محقق حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری مدظلہ نے اپنے قائم کردہ ادارہ ”جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ“ میں حضرت شیخ الحدیث کی شخصیت اور کارناموں پر ایک بین الاقوامی مذاکرہٴ علمی منعقد کرنے کا ارادہ فرمایا۔ مذاکرہ کی تاریخ ۱/۲/صفر ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۴/۲۵ مارچ /۲۰۰۴ء طے پائی۔ مختلف عنوانات پر ملک وبیرون کے علماء سے مقالہ نگاری کی فرمائش کی گئی‘ تمامتر علمی بے بضاعتی کے باوجود ناکارہ راقم الحروف کو بھی حکم ملا کہ ”فضائل اعمال“ پر ناقدین کے اعتراضات کے سلسلہ میں ایک دفاعی مضمون تجھے بھی لکھنا ہے‘ اور وقفہ وقفہ سے تقاضا بھی کیا جاتا رہا۔ موضوع انتہائی مشکل بھی تھا اور نازک بھی‘ اللہ کا نام لے کر علوم الحدیث کی مختلف کتابوں کی مدد سے لکھنے کا کام شروع کردیا گیا اور بفضلہ تعالیٰ فل اسکیپ سائز کے پچیس صفحات پر مشتمل اصولی انداز کی ایک تحریر تیار ہوگئی‘ اور یہ سوچ کر کہ ”مذاکرہ ٴ علمی“ چونکہ عالمی سطح کا ہے‘ ممکن ہے حاضرین میں عرب علماء بھی ہوں بہ عجلت اس کا عربی ترجمہ بھی کرادیا گیا ہے‘ جسے عزیز محترم مولانا عبد الرزاق امروہی نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ مذاکرہ کی تاریخ آپہنچی‘ قلتِ وقت کی بنا پر پورا مقالہ تو نہیں پڑھا جاسکا صرف منتخب اقتباسات ہی پیش کئے جاسکے‘ پھر بھی توقع کے برخلاف حضرات علماء کرام نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا‘ اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔ پھر سہ ماہی مجلہ ”ترجمان الاسلام“ بنارس کے مدیر محترم میرے مشفق وکرم فرما حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی مدظلہ نے از راہ خورد نوازی جولائی تا ستمبر ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں پورا مقالہ (جو ۴۸ صفحات میں آیا) شائع فرمادیا‘ اور عربی ترجمہ دارالعلوم دیوبند کے مجلہ ”الداعی“ میں جمادی الالیٰ تا شعبان (چار اشاعتوں) میں قسط وار شائع ہوا‘ اس طرح مقالہ کو اور بھی بہت سے اہل علم کی نظروں سے گزرنے کی سعادت حاصل ہوگئی․․․․ حضرت مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی مدظلہ نے حوصلہ افزائی کا خط ارسال فرمایا: مخدوم محترم حضرت الاستاذ مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہ نے اس پر نظر ثانی فرماکر اپنے قیمتی مشوروں‘ استدراکات اور ضروری تصحیحات سے نوازا‘ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری نے بھی اپنی قیمتی آرا سے نوازا․․․ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ میں اصلاحی اور دعوتی پروگرام کے تحت راقم الحروف کا آمبور تامل ناڈو کا سفر ہوا‘ دو عشرہ قیام رہا‘ وہاں کی جامع مسجد کے خطیب وامام اور مجلس جامع الخیر کی روح رواں مولانا مفتی صلاح الدین صاحب کے ذاتی کتب خانہ سے مستفید ہوتا رہا‘ ایک روز اچانک ایک رسالہ پر نظر پڑ گئی‘ نام تھا ”مجالس مولانا محمد امین صفدر اکاڑوی“ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا‘ ایک مضمون پر نظر مرکوز ہوگئی‘ اس مضمون کا بیشتر حصہ بھی ”فضائل اعمال“ پر کئے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات پر مشتمل تھا‘ مولانا اکاڑوی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ کی غیبی تائیدشامل تھی‘ مشکل سے مشکل علمی بحث کو آسان سے آسان تمثیلی پیرایہ میں بیان کردینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ انداز بیان دلکش اور مؤثر ہوتا ہے‘ چنانچہ اسی مجلس میں موضوع سے متعلق پورا حصہ پڑھ گیا۔ یہ ایک مکالمہ ہے جو مولانا صفدر اکاڑوی اور مرزا وحید بیگ نامی ایک صاحب کے درمیان ہوا۔ ”فضائل اعمال“ نے وحید بیگ صاحب کی زندگی میں ایک صالح انقلاب پیدا کردیا تھا‘ وہ اس کے انتہائی گرویدہ تھے‘ لیکن سوءِ اتفاق کہ بعض تشکیکی ذہنیت والوں کے ہتھے چڑھ گئے‘ انہوں نے ان کو کچھ ایسے مغالطے دیئے کہ وہ ”فضائل اعمال“ سے نہ صرف برگشتہ ہوئے‘ بلکہ بھر پور مخالفت پر آمادہ ہوگئے‘ اس مکالمہ میں انہوں نے مشہور اشکالات پیش کئے ہیں اور مولانا اکاڑوی نے مدلل اور برجستہ جوابات دیئے ہیں‘ مکالمہ انتہائی دلچسپ ہے‘ ہمارے مقالے میں مذکور بعض پہلوؤں کے علاوہ اس میں کچھ مزید معلومات بھی ہیں‘ خیال ہوا کہ بطورضمیمہ یہ مضمون بھی شامل اشاعت کردیا جائے تو بندگانِ خدا کو زیادہ نفع پہنچنے کی امید ہے۔ اس لئے یہ مضمون بھی مقالہ کے ساتھ شائع کیا جارہاہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں مضامین کو قبولیت سے نوازے‘ جس طرح ان کی اصل ”فضائل اعمال“ سے لاکھوں انسانوں کو راہ یابی اور کامیابی نصیب ہوئی اور ہورہی ہے اللہ تعالیٰ ان مضامین کے ذریعہ بھی ان بندگانِ خدا کو نفع یاب فرمائے جو کسی وجہ سے اصل کتاب ”فضائل اعمال“ کی بابت تشکیک کا شکار ہوئے یا ہورہے ہیں۔ آمین یارب العالمین۔ شیخ الحدیث برکة العصر حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی برد اللہ مضجعہ کی شہرہٴ آفاق ومقبول ترین کتاب ”مجموعہ ٴ فضائل اعمال“ محتاج تعارف نہیں ہے‘ نو قیمتی کتابوں (حکایات صحابہ‘ فضائل نماز‘ فضائل تبلیغ‘ فضائل ذکر‘ فضائل قرآن مجید‘ فضائل رمضان‘ فضائل درود شریف‘ فضائل صدقات‘ فضائل حج) کا یہ مجموعہ ایک گنجینہٴ علم معرفت اور مرقعہٴ درس عبرت ہے‘ دلوں میں شریعت مقدسہ اور اس کے احکام کی عظمت کا سکہ بٹھانے میں ایک لاجواب کتاب ہے‘ دعوتِ اسلامی کا فریضہ انجام دینے والے ہرعالم وغیر عالم کے ہاتھ میں ایک روشن قندیل ہے‘ جس کی روشنی میں راستہ کے نشیب وفراز سے باخبر ہوکر دعوتی سفر تیز رفتاری کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے‘ بالخصوص ایک عالم اور صاحب تحقیق کو تو اس کتاب کے ذریعہ متعلقہ مضامین پر نصوص قرآن وحدیث اور اقوال وآثار کا ایک وافر مواد ہاتھ آجانے کے علاوہ مشکل نصوص کے سمجھنے میں بے حد مدد ملتی ہے‘ کتاب کا ایک ایک لفظ ‘ ایک ایک حرف نہ جانے اخلاص وللہیت کی کس چاشنی میں ڈبو یاہوا ہے کہ جس نے بھی ایک بار چکھا دلدادہ وگرویدہ ہوئے بغیر نہ رہا‘ اور یہ امر واقعہ ہے کہ اس کتاب نے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں انقلاب پیدا کردیا ہے‘ اور بقول حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی۔
”ان (کتب فضائل) سے جو دینی وعلمی نفع پہنچا اس کے بارے میں ایک ممتاز معاصر عالم کا یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں معلوم ہوتا کہ: ان کتابوں کے ذریعہ ہزاروں بندگانِ خدا ولایت کے درجہ تک پہنچ گئے“۔
(ایک عالمی وبین الاقوامی کتاب فضائل اعمال از مولانا محمد شاہد صاحب سہانپوری ص: ۱۴) آخر تو کوئی وجہ ہے کہ نو اعمال کے فضائل پر مشتمل یہ مجموعہ۔
۱- آج دنیا کی اکتیس زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں۔
۲- سعودی عرب ‘ ہندوستان‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ ایران‘ ازبکستان‘ برما‘ ملیشیا‘ انڈونیشیا‘ انگلینڈ‘ افریقہ‘ امریکہ‘ کنیڈا‘ ترکی ‘ جاپان‘ زامبیا‘ سری لنکا‘ فرانس‘ فلپائن‘ کمبوڈیا‘ کینیا‘ پرتگال جیسے تئیس ممالک کے ایک سو پینتالیس محققین اور اہل علم ”فضائل اعمال“ کی علمی وتحقیقی خدمت اور اس کو دیگر زبانوں میں منتقل کرنے میں مصروف کار ہیں ایضاً ص:۲۱)
۳- صرف ہندوپاک کی حد تک چوہتر (۷۴) اشاعتی ادارے اس کتاب کو مسلسل شائع کررہے ہیں۔
۴- اس لئے بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ مختلف زبانوں میں اس کے نسخوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں کیا‘ شمار سے باہر ہے۔
کتب فضائل پر ایک تاریخی نظر
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی اس کتاب کا موضوع کوئی نیا نہیں‘ بلکہ عام کتب حدیث کے علاوہ مستقل طور سے دوسری صدی ہجری ․․․جب کہ حدیث نبوی کی باضابطہ تدوین ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی․․․ میں آداب واخلاق‘ زہد ورقاق اور فضائل وترغیب پر تصنیف کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا‘ اور آج تک قائم ہے‘ کچھ تصنیفات حسب ذیل ہیں:
۱- کتاب الزہد للامام عبد اللہ بن المبارک (ت ۱۸۱ھ)
۲- فضائل القرآن للامام الشافعی (ت-۲۰۴ھ)
۳- فضائل القرآن لأبی عبید (ت-۲۲۴ھ)
۴- کتاب الزہد للامام احمد بن حنبل (ت-۲۴۱ھ)
۵- الادب المفرد للامام البخاری (ت- ۲۵۶ھ)
۶- کتاب الآداب للامام البیہقی
۷- کتاب الزہد للامام البیہقی
۸- وفضائل الاوقات‘ للامام البیہقی (۴۵۸ھ)
۹- الترغیب والترہیب لابن شاہین (۳۸۵ھ)
۱۰- الترغیب والترہیب لأبی القاسم اسماعیل بن محمد الاصفہانی (ت۵۳۵ھ)
۱۱- الترغیب والترہیب للحافظ عبد العظیم بن عبد القوی المنذری‘ (ت۶۵۶ھ)
اذکار اور دعاؤں میں:
۱۲- عمل الیوم واللیلة للنسائی (ت۳۰۳ھ)
۱۳- عمل الیوم واللیلة لابن السنی (ت۳۶۴)
۱۴- کتاب الدعاء للطبرانی (ت۳۶۰ھ)
۱۵- الدعوات الکبیر للبیہقی‘ الاذکار للنوی (ت۶۷۶ھ)
درود شریف اور اس کے مخصوص صیغوں کے فضائل پر حافظ شمس الدین سخاوی (ت۹۰۲ھ) کی ”القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع“ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
اسی سلسلةالذہب کی ایک نمایاں کڑی شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا مجموعہ ”فضائل اعمال“ ہے جو اردو زبان میں اس جامعیت اور شرح وبسط کے ساتھ منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
مجموعہ فضائل اعمال کی تالیف
یہ پوری کتاب جو تبلیغی نصاب یا ”فضائل اعمال“ کے نام سے مشہور ہے‘ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کسی منظم پروگرام کے پیش نظر تالیف نہیں فرمائی ہے‘ بلکہ مختلف ابواب وموضوعات پر یہ مختلف کتابیں ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف حضرات کے تقاضوں اور اصرار کے نتیجہ میں ترتیب دی گئی ہیں‘جماعتِ تبلیغ کے ذمہ داران نے جماعتوں میں نکلنے والے احباب کی دینی تعلیم وتربیت کے واسطے تجویز کردیا‘ اسی لئے اس مجموعہ کو بعض ناشرین نے” تبلیغی نصاب“ کے نام سے شائع کردیا‘ بہت دنوں تک یہ نام چلتا رہا‘ بعد میں اصل موضوع کی رعایت سے ”فضائل اعمال“ کے نام سے طبع ہونے لگا‘ نو کتابوں کے اس مجموعے کے مفردات کی تالیف اور محرکات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
۱-فضائل قرآن مجید
اوائل ذی الحجہ ۱۳۴۸ھ میں اس کی تالیف شروع ہوئی اور ۲۹/ذی الحجہ ۱۳۴۸ھ کو مکمل ہوئی‘ حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی کے ایک خلیفہ تھے شاہ یٰسین صاحب نگینوی‘ انہیں کے ایماء اور خواہش پر یہ کتاب تصنیف فرمائی گئی۔
۲- فضائل رمضان
یہ کتاب حضرت نے اپنے چچا جان مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ‘ بانی تحریک تبلیغ کی فرمائش پر رمضان ۱۳۴۹ھ میں تالیف فرمائی‘ اور تکمیل ۲۷/ رمضان المبارک کو ہوئی۔
۳-فضائل تبلیغ
یہ بھی چچاجان نوراللہ مرقدہ کے ارشاد پر لکھی‘ اور ۵/صفر شب دوشبنہ ۱۳۵۰ھ کو پوری ہوئی‘ اس کی تالیف میں چند روز لگے۔
۴- حکایات صحابہ
صفر ۱۳۵۷ھ میں اجراڑہ جاتے ہوئے شیخ رحمہ اللہ کو میرٹھ میں شدید نکسیر پھوٹی اور دوگھڑے خون بہہ گیا‘ ڈاکٹروں اور حکیموں نے آپ کو چند ماہ تک دماغی کام کرنے سے بالکل منع کردیا‘ ادھر تقریباً چار برس سے حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری نور اللہ مرقدہ کی طرف سے ”حکایات صحابہ“ کی تالیف کا تقاضا تھا‘ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس بیماری کے زمانے کو غنیمت سمجھ کر تعمیل ارشاد میں پڑے پڑے کچھ لکھتا رہا‘ اور ۱۲/شوال ۱۳۵۷ھ کو پوری ہوگئی۔
۵-فضائل نماز
یہ بھی چچا جان نور اللہ مرقدہ کے حکم کی تعمیل میں لکھی گئی اور ۷/محرم ۱۳۵۸ھ شب دوشنبہ کو پوری ہوئی۔
۶- فضائل ذکر
یہ بھی چچاجان قدس سرہ ہی کی تعمیل ارشاد میں لکھی گئی اور ۲۶/ شوال ۱۳۵۸ھ شب جمعہ میں پوری ہوئی۔
۷-فضائل حج
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب علیہ الرحمة کے شدید اصرار اور تقاضے پر یہ کتاب تالیف فرمائی‘ ۳/شوال ۱۳۶۶ھ کو اس کی ابتداء ہوئی اور ۱۴/جمادی الاولیٰ ۱۳۶۷ھ بروز جمعہ اس سے فراغت ہوئی‘ اصل کتاب کی تالیف مرکز نظام الدین میں ہی رہ کر ہوئی‘ کیونکہ سنہ ۴۷ء کے قیامت خیز ہنگامہ کی وجہ سے شیخ کو چار ماہ مرکز نظام الدین میں محبوس ہونا پڑا تھا‘ شیخ فرماتے ہیں:”نفس رسالہ سے تو فراغت شوال ہی میں ہوگئی تھی‘ لیکن کچھ حکایات کا اضافہ سہارن پور واپسی پر ہوا‘ اس رسالہ کی مقبولیت وافادیت اتنی بڑھی کہ شیخ فرماتے ہیں“ ہزاروں خطوط اس نوع کے پہنچے کہ اس رسالہ سے حج وزیارت میں بہت لطف آیا۔
۸- فضائل صدقات
حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ کی جانب سے دو اور کتابوں کے لکھنے کا تقاضا اور تاکید تھی‘ ایک فضائل زکوٰة‘ دوسری فضائل تجارت‘ چنانچہ فضائل حج کی تکمیل کے بعد مرکز نظام الدین ہی میں شیخ نے فضائل صدقات کی بسم اللہ کردی جو ۲۲/صفر ۱۳۶۸ھ کو سہارن پور میں مکمل ہوئی۔
۹-فضائل درود
فضائل کے سلسلہ کا یہ آخری رسالہ ہے اسے بھی شیخ نے شاہ یٰسین صاحب نگینوی کی فرمائش اور خواہش کی تکمیل میں رقم فرمایا‘ شاہ صاحب کا انتقال تو ۳۰/شوال ۱۳۶۰ھ میں ہی ہوگیا تھا‘ لیکن آپ نے وصیت کی تھی کہ میرے انتقال کے بعد بھی مولانا محمد زکریا سے اس کتاب کے لکھنے کا تقاضا جاری رکھا جائے‘ شیخ فرماتے ہیں :
”مگر بداعمالیوں نے مہلت نہ دی‘ لیکن ۱۳۸۳ھ میں مدینہ پاک حاضری پر شدت سے اس کا تقاضا شروع ہوا‘ واپسی پر بھی تساہل ہوتا رہا‘ اور ۲۵/رمضان ۱۳۸۴ھ کو بسم اللہ کر ہی دی‘ اور ۶/ذی الحجہ ۱۳۸۴ھ کو دفعتاً ختم کردی“۔ (آپ بیتی نمبر ۲ص:۱۷۸)
اللہ تعالیٰ نے ان کتب فضائل کو وہ مقبولیت عطا فرمائی کہ محتاج بیان نہیں‘ اور موافق ومخالف ہرایک کو تسلیم ہے کہ کوئی بھی دینی کتاب اس کثرت سے نہیں پڑھی جاتی‘ جتنی کہ یہ رسائل پڑھے اور سنے جاتے ہیں ‘ جس کی کچھ تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ دنیا کی روایت ہے کہ ہر پھل دار درخت پر ڈھیلے مارے جاتے ہیں ‘ سورج جو اپنی بھر پور ضیا پاشی سے عالم کو منور کرتا ہے شپرہ چشم کو اس کی تابانی یکسر ناقابل برداشت ہوتی ہے‘ چنانچہ اس کتاب پر بھی مختلف حلقوں کی جانب سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی‘ طرح طرح کی نکتہ چینیاں کی گئیں‘ ہمیں اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کہ روے زمین پر خدا کی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نقص وخلل سے محفوظ نہیں‘ بڑے بڑے اصحاب علم سے ان کی گراں قدر تصنیفات میں کچھ نہ کچھ فروگذاشتیں ہوئی ہیں۔ جو کتاب کی گوناگوں خوبیوں کے بالمقابل نہ کچھ حیثیت رکھتی ہیں اور نہ ہی علمی حلقوں نے کوئی حیثیت دی ہے۔
خلاصہ بحث
اس مقالہ میں اعتراضات کی بنیادی طور پر تین قسمیں قرار دی گئی ہیں:
۱- اشکالات جو کسی طالب حق کو پیش آتے ہیں‘ اور اہل علم سے رجوع کرنے پر تھوڑی بہت وضاحت سے ختم ہوجاتے ہیں‘ ظاہر ہے یہ اشکالات مستقل موضوع بحث بنانے کے لائق نہیں اور نہ ہی ان اشکالات کا کوئی دیرپا اثر ہوتا ہے۔
۲- وہ اعتراضات جن کا تعلق اس عقلیت پسندانہ رجحان سے ہے جو تمام ہی نصوص حدیث کو اپنی نام نہاد عقل سلیم کے خلاف قرار دے کر یا اپنی عقل نارسا کے بموجب قرآن سے معارض قرار دیتے ہوئے ٹھکرا دینے کا قائل ہے‘ خواہ ثبوت واستناد کے اعتبار سے ان کی حیثیت کتنی ہی مضبوط ہو‘ اور خواہ علماء امت نے اس کی کتنی ہی معقول توجیہات کی ہوں‘ چنانچہ اس کی کئی ایک مثالیں دے کر اختصار کے ساتھ مدلل طور سے اعتراض کو رفع کیا گیا ہے۔
۳- وہ تنقیدات جن کی حیثیت علمی ہے‘ اور ان میں بعض پہلوٴوں سے وزن بھی محسوس کیا جاتاہے‘ ان تنقیدات کا محور یہ ہے کہ مجموعہٴ ”فضائل اعمال“ میں شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کثرت سے ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کو داخل کردیا ہے جس سے اصل دین کی شبیہ مسخ ہوکر رہ گئی ہے۔
اس طرح کی تنقیدات کے جواب کو اصولی طور پر تین نکتوں پر تقسیم کیا گیا ہے:
۱- مجموعہٴ فضائل اعمال کی معتبریت اس کے مصادر ومآخذ کے آئینے میں کیا ہے؟
۲- حدیثوں سے استدلال واستشہاد کے وقت کیا اصطلاحی اعتبار سے ان کا صحیح ہونا ضروری ہے یا اس سے کم تردرجہ کی حدیثیں بھی کافی ہیں؟ اگر ہیں تو کس حد تک؟ علماء امت کا کیا معمول رہا ہے؟
۳- ترغیب وترہیب کے باب میں نصوص قرآن وسنت کے علاوہ بزرگوں کے اقوال‘ افعال حکایات اور منامات ومبشرات کا سہارا لینا درست ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس حد تک؟
پہلے نکتے میں ثابت کیا گیا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ نے جن کتابوں اور مآخذ کی مدد سے یہ رسائل مرتب فرمائے ہیں‘ وہ علاوہ چند ایک کے سب بجائے خود قابل اعتماد اور اہل علم کے درمیان مقبول ومستند قرار دی جاتی رہی ہیں‘ اور جو مآخذ غیر مستند ہیں‘ ان سے استفادہ کی نوعیت بھی واضح کردی گئی ہے جس سے ”فضائل اعمال“ کی معتبریت متأثر نہیں ہوتی۔
دوسرے نکتے میں ٹھوس دلائل کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے کہ حدیثوں سے استدلال کے لئے ان کا اصطلاحی اعتبار سے صحیح یا حسن ہونا ہی ضروری نہیں‘ بلکہ ضعیف حدیث کافی ہوتی ہے‘ باب احکام میں بھی اور فضائل‘ مناقب سیر‘ اور ترغیب وترہیب میں بھی‘ پھر باب احکام میں اس کا اعتبار کئے جانے پر چاروں مذاہب کے فقہاء کرام‘ محدثین اور ظاہریہ سب کی تصریحات پیش کی گئی ہیں۔ باب احکام کے علاوہ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے اور بیان کرنے کے جواز پر امت کا اجماع اہل علم کی عبارتوں اور ان کے طرزِ عمل سے ظاہر کیا گیا ہے‘ حتی کہ جن بڑے اہل علم کی جانب اس سلسلہ میں اختلاف منسوب کیا جاتاہے‘ ان کی آراء بھی جمہور کے مطابق ہیں اور اس پر مضبوط ثبوت پیش کئے گئے ہیں‘ مثلاً امام بخاری‘ امام مسلم‘ یحیی بن معین‘ ابوبکر بن عربی ‘ ابوشامہ مقدسی‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ‘ ان حضرات کا مذہب بھی جمہور کی طرح غیر احکام میں ضعیف حدیث کے قابل قبول ہونے کا ہے۔ خصوصیت سے امام بخاری ومسلم کے صحیحین میں ان کے طرزِ عمل سے بھی یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے اور ا س کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث سے استدلال وعمل کے شرائط پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور محدثین وفقہاء امت کے طرزِ عمل سے واضح کیا گیا ہے کہ ضعیف حدیث کی استدلالی حیثیت پر گفتگو کے وقت فضائل اعمال کا اطلاق یہ حضرات ایسے موقع پر کرتے ہیں جہاں کوئی مخصوص عمل کسی دلیل صحیح یا حدیث حسن سے ثابت نہ ہو‘ بلکہ صرف کسی ضعیف حدیث میں اس کی فضیلت یا ترغیب وارد ہوئی ہو‘ چنانچہ چند شرائط کے ساتھ اس عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں اور ترغیب وترہیب کا اطلاق ایسے موقع پر کرتے ہیں جہاں کوئی عمل پہلے سے دلیل صحیح سے ثابت ہو‘ البتہ کسی ضعیف حدیث میں اس کی مخصوص فضیلت وغیرہ وارد ہوئی ہو تو اس میں ضعیف سے ضعیف حدیث بیان کرنے میں حرج نہیں سمجھتے‘ بشرطیکہ موضوع نہ ہو۔ اس کے بعد باب ترغیب وترہیب میں ضعیف ․․․․بلکہ بعض وہ حدیثیں جن پر بعض حضرات نے موضوع تک کا حکم لگایا ہے․․․․ کے بیان کرنے اور استدلال کرنے کا تعامل مشہور ائمہ ٴ محدثین اور ناقدین کے حوالہ سے دکھایا گیا ہے‘ ان میں خصوصیت سے ابن جوزی‘ منذری‘ نووی‘ ذہبی‘ ابن حجر عسقلانی‘ سیوطی‘ ابن قیم رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں‘ جنہوں نے ترغیب وترہیب کے لئے انتہائی درجہ کی ضعیف حدیثوں کو اپنی کتابوں میں بطور استدلال پیش کیا ہے‘ اس کی چند ایک مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں‘ لہذا اگر شیخ نے بھی انتہائی ضعیف حدیثیں اس مقصد کے لئے پیش کردیں تو طریقہٴ محدثین سے جداگانہ کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ تیسرے نکتے میں واضح کیا گیا ہے کہ عبرت پذیری کے لئے قصے کہانیوں کا بیان کرنا کوئی قبیح عمل نہیں ہے جس کے شیخ مرتکب ہوئے ہوں‘ بلکہ شریعت ِ مطہرہ اور حدیث نبوی کی روشنی میں ان قصوں کا ذکر کرنا دائرہ ٴ جواز میں آتا ہے‘ ضمناً بعض قصوں کے استبعادی پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رجب: ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: جو قومیں تاریخ پہ نظر نہیں رکھتیں ․․․․ مٹ جاتی ہیں
Flag Counter