Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

8 - 10
برطانوی عہدِ حکومت اور مسلمان
برطانوی عہدِ حکومت اور مسلمان


امتِ اسلامیہ کا یہ آخری دور بہت ہی پُر فتن ہے‘ قدم قدم پر فتنے ہی فتنے ہیں‘ برطانوی عہدِ حکومت میں سب سے زیادہ انتقام مسلمانوں سے لیا گیا‘ ہرملک میں نہایت خطرناک فتنے کھڑے کئے گئے‘ متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے قدم جمے تو چونکہ یہ سر زمین اہلِ علم میں پختگی اور دینی بصیرت کے لئے ممتاز تھی‘ اس لئے یہاں کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور دینِ اسلام سے مسلمانوں کا رشتہ منقطع کرنے کے لئے سب سے زیادہ فتنوں کی تخم ریزی کی گئی‘ مثلاََ:
الف: علماء وصلحاء کو چُن چن کر ٹھکانے لگانے کی کوشش گئی‘ مسلمانوں کے مذہبی اوقاف ضبط کر لئے گئے‘ ان کے معاہد ومدارس اجاڑ دیئے گئے‘ دینی راہنماؤں کو عوام کی نظر میں ذلیل کرنے کے لئے طرح طرح کے القاب وضع کئے گئے‘ ملک میں مسیحی مشنریوں کا جال پھیلایا گیا اور لوگوں کو عیسائی بنانے کے لئے ترغیب وترہیب کے تمام ذرائع اختیار کئے گئے۔
ب: اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مغرب کا ملحدانہ نصابِ تعلیم اور طریقہٴ تعلیم رائج کیا گیا اور اس کے ذریعہ اسلامی عقائد پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی‘ نئی نسل کے دل ودماغ کو خالص لامذہبیت میں ڈھالنے کے سانچے تیار کئے گئے اور دین سے نفرت وبیزاری اور اسلام کی ہربات میں تشکیک وتذبذب ہی تعلیم کا سب سے اونچا معیار سمجھا گیا۔
ج: پورے اسلامی معاشرہ پر مغربی تہذیب کی یلغار ہوئی اور وہ تمام گندگی جو تہذیب مغرب کا خاصہ ہے ”غلامانِ ہند“ کا فیشن قرار پائی‘ گویا تعلیم ِ جدید نے ذہن وقلب کو بدلا تھا اور مغرب کے ”تہذیبی تحفہ“ نے یہاں کے مسلمانوں کی صورت وسیرت‘ وضع وقطع‘ اخلاق ومعاشرت‘ تہذیب وثقافت کے تمام زاویئے ہی بدل ڈالے اور تہذیب ِ جدید کے متوالوں کے لئے یہود ونصاریٰ کی نقالی عزت وافتخار کا نشان بن گئی‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
الغرض اس طرح کے بے شمار فتنے کھڑے کئے گئے‘ جن کی تفصیل کے لئے ایک دفتر چاہیے‘ مگر ان تمام فتنوں میں سب سے بڑا اور امت اسلامیہ کے خلاف سب سے بڑی سازش جوبرطانوی حکومت نے کی وہ فتنہٴ قادیانیت اور مرزائیت ہے جو مرزا غلام احمد آنجہانی کے ذریعہ ظہور میں آیا۔
حکومتِ برطانیہ اور فتنہٴ قادیانیت ومرزائیت
انگریزوں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ ہزار کوششوں کے باوجود وہ اس بات میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ امتِ اسلامیہ کا رشتہ محمد رسول اللہ ا کے دامنِ نبوت سے بالکل ہی کاٹ ڈالیں‘ انہیں اس بات کا بھی خوب تجربہ ہوا کہ مسلمان خواہ ایمانی واخلاقی انحطاط کے آخری نقطہ تک پہنچ چکے ہوں لیکن جب محمد رسول اللہ ا کی عزت وحرمت کا سوال سامنے آتا ہے تو امتِ اسلامیہ کے دل میں ایمان کی چھپی چھپائی چنگاری بھی ایک خوفناک آتش فشاں کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور وہ کسی نہ کسی ”غازی علم الدین شہید‘ کو سامنے لاکھڑا کرتی ہے‘ اس لئے انہیں ایک ایسے دین ومذہب کی ضرورت تھی جو دین کے نام پر بے دینی کا مرقع ہو‘ جس کے ظاہر میں دین کا مقدس نام ہو اور باطن میں سراسر کفر پوشیدہ ہو‘ انہیں ایک ایسی تحریک درکار تھی جو محمد رسول اللہ ا کے آستانہ سے ہٹاکر مسلمانوں کو ایک ایسی نئی نبوت سے وابستہ کردے جس کی تمام وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لئے وقف ہوں‘ انہیں سرزمینِ ہند میں ایک ایسا خار دار ”خود کاشتہ پودا“ نصب کرنے کی ضرورت تھی جس کے کانٹوں میں الجھ کر امتِ اسلامیہ کا دامن اتحاد تارتار ہوجائے اور جس کے سائے میں انگریزی طاغوت کو استحکام نصیب ہو‘ انہیں معلوم تھا کہ ”مہدیٴ موعود“ کا دعویٰ اسلامی تاریخ کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے‘ اس سے پہلے بہت سے طالع آزما دکانِ مجددیت چمکا کر دجل وفریب کا بیوپار کر چکے ہیں‘ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مسلمانوں میں ہرصدی میں ایک مجدد پیدا ہوتا ہے‘ ادھر عوام کالانعام میں جاہلانہ اعتقاد نہ جانے کس شیطان نے پھیلادیا تھا کہ چودھویں صدی ہی بس آخری صدی ہے‘ اس کے بعد کوئی صدی نہیں۔ قیامت سے پہلے جن چیزوں کے وقوع کی خبر احادیث میں دی گئی ہے یعنی ظہورِ مہدی‘ خروجِ دجال ‘ نزولِ عیسیٰ‘ یا جوج ماجوج اور دابة الارض وغیرہ‘ وہ سب اسی صدی میں ہوں گی ۔ ادھر نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے سیاسی حالات نہایت ابتر تھے اور عام لوگ ان حالات کے سامنے بالکل بے بس اور سپر انداز میں نظر آتے تھے‘ ان پر ذہنی حبس اور یأس وقنوطیت کے بادل منڈلارہے تھے اور فطری طور پر ان حالات کے مقابلہ کے لئے ”مردے ازغیب“ کے منتظر تھے‘ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمنوں نے سوچا کہ ان حالات میں مجددیت مہدویت اور مسیحی نبوت کا جعلی سکہ چلایاجائے تو بڑی آسانی سے چل سکتا ہے‘ چنانچہ اس مقصد کے لئے صوبہٴ پنجاب میں قادیان ضلع گور داسپور کے مرزا غلام احمد کو منتخب کیا گیا‘ اس مہم کے لئے پنجاب اور قادیان کا ”حسن انتخاب“ بھی بڑا معنیٰ خیز تھا‘ پنجاب اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے انگریز سرکار کا سب سے زیادہ وفادار صوبہ تھا‘ اسے فوجی کمک سب سے زیادہ یہیں سے میسر آتی تھی اور قادیان میں مرزا صاحب کا خاندان انگریزی عملداری کے آغاز ہی سے انگریز کا سب سے بڑا پشتیبان اور تاجِ برطانیہ کی اطاعت گذاری‘ وفاشعاری اور نمک خواری کا اعلیٰ نمونہ تھا‘ اس لئے ”سیاسی نبوت“ کے لئے اس پشتینی وفادار خاندان کے ایک فرد کا انتخاب نہایت موزوں تھا‘ یوں بھی پنجاب کی زر خیز سرزمین میں پیروں مریدوں کا قحط نہیں تھا‘ یہاں بلاتمیز ہر شعبدہ باز کو مریدوں کی اچھی خاصی تعداد کا میسر آجانا ایک معمولی بات تھی۔
مرزا غلام احمد اور دعوی ٴ نبوت
مرزا صاحب نے مسیحائی کے مراتب طے کرنے کے لئے بڑی محتاط قسم کی تدریجی رفتار اختیار کی‘ پہلے پہل گوشہٴ گمنامی سے نکل کر وہ ایک مناظرِ اسلام کی حیثیت سے قوم کے سامنے آئے اور تمام ادیانِ باطلہ کے مقابلہ میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے ”براہینِ احمدیہ“ کی پچاس جلدیں لکھنے کا اشتہار دیا اورر قوم سے چندہ کی اپیل کی ۔ جب ”وکیلِ اسلام“ کی حیثیت سے ان کی روشناسی ہوئی تو اپنے دعاوی میں علی الترتیب محدث‘ ملہم من اللہ‘ امام الزماں‘ مجدد‘ مہدی موعود‘ مثیلِ مسیح‘ مسیح موعود‘ ظلی نبی کے درمیانی مدارج طے کرتے ہوئے تشریعی نبوت کی بامِ بلند پر پہنچ گئے اور ببانگِ دہل وحی‘ نبوت اور معجزات کا اعلان کردیا اور ”محمد رسول اللہ“ کا مصداق خود بن بیٹھے‘ قرآن کریم کی جو آیات حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ ا کے حق میں تھیں ان کو اپنی ذات پر منطبق کیا‘ اپنے دور کو آنحضرت ا کے دور سے افضل بتلایا‘ اولو العزم انبیاء کرام کی توہین کی‘ انبیاء علیہم السلام سے افضلیت کا دعویٰ کیا‘ اپنی وحی کو قرآن جیسی قطعی وحی بتلایا اور جولوگ ان کی اس خانہ ساز نبوت پر ایمان نہیں لائے انہیں کافر وجہنمی قرار دیا‘ بلکہ انہیں ولد الحرام ذریة الیغایا (کنجریوں کی اولاد) خنزیر اور کتوں کے نام سے یاد کیا‘ نئی شریعت کے ذریعہ محمد رسول اللہ ا کی شریعت کے جن اجزاء کو چاہا منسوخ کر ڈالا‘ برطانوی حکومت کو ”ظل اللّٰہ فی الارض“ کا خطاب عطا ہوا‘ اس کی اطاعت کو فرض اور اسلام کے دوحصوں میں سے ایک حصہ قراردیا‘ کافروں سے جہاد کا حکم منسوخ ہوا‘ اور انگریزوں کے مقابلہ میں جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر ہوا‘ دین کے قطعی عقائد کا مذاق اڑایا‘ احادیثِ متواترہ کی تکذیب کی‘ قرآنِ کریم کی بے شمار آیتوں میں کھلی تحریف ہوئی‘ صحابہ ٴ کرام کوغبی کے خطاب سے نوازا‘ مسلمانوں سے شادی بیاہ کرنا‘ ان کے جنازے میں شریک ہونا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا ممنوع اور حرام قرار پایا‘ الغرض ایسے صریح ترین دعوے کئے کہ ان میں سے ہربات مستقل کفر کی بات تھی اور ان میں کسی طرح بھی تاویل کی گنجائش نہیں تھی‘ اس لئے علمائے امت نے متفقہ طور پر مرزا صاحب اور ان کی امت کے کافر ومرتد ہونے کا فتویٰ دیا اور ان کی کتابوں سے ایک سو کے قریب صریح کفریات جمع کئے‘ اگر پوری طرح استقصاء کرکے تمام کفریات وہذیانات کو جمع کیا جائے تو ایک ہزار کفریات سے کم نہ ہوں گے‘ خدا کا غضب ہے کہ ظل وبروز کے پردے میں اسلام کی تمام اصطلاحات کو مسخ کیا گیا‘ مرزا صاحب کی اہلیہ کے لئے ”ام المؤمنین“ کی اصطلاح استعمال ہوئی‘ ان کے ہاتھ پر کفر وارتداد قبول کرنے والوں کو ”صحابی“ کہا گیا اور ان کو محمد رسول اللہ ا کے صحابہ سے افضل بتایا گیا‘ قادیان کو حرم اور مرزا کی قبر کو”گنبدِ بیضاء“ قرار دے کر مکہ اور مدینہ کے بجائے یہاں کے حج وزیارت کی دعوت دی گئی اور اسے مکہ ومدینہ کے حج وزیارت سے افضل بتایا گیا:تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو! اور شخصی زندگی ایسی کہ ان صفحات پر اس کا ذکر کرنا بھی باعثِ شرم ہے۔
انگریزی دربار ،مرزا غلام احمد اور اس کی امت
انگریزی دور میں مرزا غلام احمد اور ان کی امت کا مشن صرف دو چیزیں تھیں:امتِ مسلمہ میں تفریق وانتشار کے بیج بونا اور مسلمانوں کو انگریزوں کی وفاداری کی تلقین کرنا‘ ان کی دعوت یہ تھی کہ برطانوی حکومت ”ظل اللّٰہ فی الارض“ ہے‘ اس کی حمایت وحفاظت ہرمسلمان کا فرض ہے اور اس کے خلاف جہاد حرام ہے‘ گویا اس طور میں قادیانی نبوت پر ایمان لانے کے معنی انگریزوں کی وفاداری پر ایمان لانے کے تھے‘ خود مرزا صاحب کے لفظوں میں: ” باعتبار مذہبی اصول کے گورنمنٹ کا اول درجے کا وفادار اور جان نثار یہی ”نیا فرقہ“ ہے‘ جس کے اصول میں سے کوئی اصول گورنمنٹ کے لئے خطرناک نہیں“اور یہ کہ” میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے‘ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے“۔ ایک طرف اگر انگریز کو مسلمانوں میں انتشار پھیلانے‘ انہیں دین سے برگشتہ کرنے اورانگریز کا وفادار بنانے کے لئے اس خانہ ساز نبوت کی ضرورت تھی تودوسری طرف مرزا صاحب او ران کی امت کو بھی اس امر کا بجا طور پر احساس تھا کہ جعلی نبوت کا یہ سکہ انگریز کی اندھیر نگری ہی میں چل سکتا ہے اور اسی کے سایہٴ عاطفت میں جھوٹی نبوت کا یہ شجرہٴ خبیثہ پرورش پاسکتا ہے‘ کوئی گھٹیا سے گھٹیا اسلامی حکومت بھی اس کفر وارتداد کو برداشت نہیں کرسکتی‘ اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ قادیانیت اور انگریز بہادر کے مفادات باہم متحد نہیں‘ قادیانیت کی ترقی انگریزی حکومت کے استحکام کی ضامن ہے اور انگریزی استعمار کی توسیع قادیانیت کے پھلنے پھولنے کی کفیل ہے۔
تاجِ برطانیہ کا خود کاشتہ پودا
مرزا صاحب اور ان کی امت نے جس طرح خود کو تاجِ برطانیہ کا ”خود کاشتہ پودا“ بتایا‘ ملکہٴ برطانیہ اور دیگر اعلیٰ وادنیٰ حکام کے ”حضور میں“ جس طرح نیاز مندانہ خطوط لکھے‘ ان کے مراسم خسروانہ کے حصول کی خاطر تملق اور خوشامد کا جو پست اور گھٹیا انداز اختیار کیا اور گورنمنٹ برطانیہ کے حق میں مسلمانوں کی رائے کو ہموار کرنے کے لئے فتویٰ حرمتِ جہاد کی پچاس پچاس الماریوں کے جو حوالے دیئے‘ وہ آج بھی ان کی مطبوعہ کتابوں میں محفوظ ہیں‘ یہاں ان کے نقل کرنے کی نہ گنجائش ہے اورنہ ضرورت ہے۔
قادیانی انگریزوں کے ایجنٹ
الغرض قادیانی جہاں جاتے اور جس ملک میں ہوتے وہ انگریز کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتے‘ کیونکہ دونوں کے ”مفادات“ متحد تھے اور ان ”مفادات“ کا تحفظ جبھی ممکن تھا جب کہ ان کا الگ قومی تشخص ہو‘ اس لئے وہ انگریزی دور میں بھی مسلمانوں سے الگ اپنے قومی تشخص پر زور دیتے تھے‘ چنانچہ تقسیم ملک کے وقت باؤنڈری کمیشن کے سامنے انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک قوم ہیں‘ ا س لئے انہیں ایک الگ خطہ دیا جائے‘ لیکن ان کے اس مؤقف کا فائدہ ہندوستان کو ملا‘ کیونکہ ملک کی تقسیم مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر ہورہی تھی اور جب مرزائیوں نے خود اپنے کو ”غیر مسلم“ ظاہر کردیا تو جس خطے کا وہ مطالبہ کررہے تھے وہ ہندوستان کا حق قرار پایا اور یوں مسلمانوں کے جو علاقے پاکستان کے حصہ میں آتے تھے‘ ہندوستان کا استحقاق ان پر ثابت ہوگیا۔قیامِ پاکستان کے بعد وہ اپنے روحانی مرکز کو چھوڑ کر پاکستان چلے آئے اور یہاں آکر انہوں نے طے کیا کہ:
الف: پاکستان میں ایک ”عارضی مرکز“ قائم کیا جائے‘ چنانچہ ایک مستقل علاقہ پنجاب میں کوڑیوں کے مول لیا گیا اور وہاں ”ربوہ“ کے نام سے خالص مرزائی شہر آباد کیا گیا‘ وہاں سے ریلوے لائن بچھائی گئی‘ وفاتر قائم کئے گئے‘ کالج اور اسکول کھولے گئے‘ اخبارات جاری ہوئے ”الفرقان“ کے نام سے ایک اسپیشل فوج تیار کی گئی‘ اب ”ربوہ“ پاکستان میں ایک مستقل ”ریاست“ کی حیثیت رکھتا ہے‘ جہاں عملاً حکومت خلیفہٴ قادیان کی ہے‘ پاکستان کے ہر خطہ میں مرزائی آباد ہوسکتے ہیں‘ لیکن کیا مجال کہ اس ”قادیانی ریاست“ میں کوئی مسلمان رہ سکے؟ حکومت ِ پاکستان نے تمام اسلامی وغیر اسلامی اوقاف پر قبضہ کیا‘ لیکن ان کے کروڑوں کے اوقاف کو نہیں چھیڑا۔
ب: خلیفہ ٴ ربوہ کی ہدایت کے مطابق سول سروس‘ فوج اور بیرونی سفارت خانوں میں زیادہ سے زیادہ مرزائیوں کو کھپانے اور کلیدی آسامیوں پر انہیں مسلط کرنے کی اسکیم تیار کی گئی‘ بدقسمتی سے پاکستان کا سب سے پہلا وزیر خارجہ سر ظفر اللہ قادیانی ہوا‘ اس نے اپنے اثر ورسوخ سے اندرون وبیرون ملک قادیانیت کی جڑیں خوب مضبوط کیں‘ یہاں تک کہ پاکستان کے ہر دور میں اس فتنہ کی آبیاری ہوتی رہی‘ آج اعداد وشمار ہی بتا سکتے ہیں کہ قادیانیوں کی کل تعداد کتنی ہے اور وہ تمام محکموں میں کتنے بڑے حصے پر قابض ہیں۔
ج: مذہبی طور پر اگرچہ مرزائیوں نے اپنا الگ تشخص باقی رکھنا ضروری سمجھا‘ مگر مسلمانوں کو کافر کہنے کی پالیسی میں لچک پیدا کرلی اور ۱۹۵۳ء میں منیر عدالت میں مرزا محمود نے اعلان کردیا کہ: ہم غیر احمدی مسلمانوں کو کافر نہیں کہتے‘ مگر یہ سب دجل اور نفاق تھا ‘ دراصل ہوا کا مخالف رخ دیکھ کر مرزائیوں نے محسوس کرلیا تھا کہ اب مسلمانوں کو کافر کہنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انہیں ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے گا اور مسلمانوں میں شامل رہ کر جن کلیدی اسامیوں پر وہ فائز ہیں‘ اس استحصال کے دروازے بند ہوجائیں گے‘ یہ مرزائیوں کا ایسا دجل تھا جس نے گذشتہ دور کے سارے حکمرانوں کو تاریکی میں رکھا۔
د: اندرون ِ ملک مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوششیں تیز کردی گئیں اور اپنی سیاسی طاقت پیدا کرنے کے لئے کم از کم بلوچستان کے صوبہ کو احمدی بنانے کی خوفناک تحریک کی گئی۔(الفضل ۱۳/اگست ۱۹۴۸ء خلیفہٴ ربوہ کا خطبہ)
ہ: انگریزوں کی ایجنٹی کا کام نہایت ہی منظم اور خفیہ طریقہ سے جاری رکھا اور مغربی ممالک کے علاوہ اسلامی اور عربی ممالک میں سازشیں پھیلانے کے لئے وہاں مشن کھولے‘چنانچہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان سمیت اسلامی ممالک کے تعلقات نہیں ہیں‘ مگر قادیانیوں کے ان سے باقاعدہ روابط ہیں اور انگریزوں کو ان پر یہاں تک اعتماد ہے کہ ایک حکمراں نے اس امر کا اظہار کیا کہ اگر فلاں قادیانی کو ہٹادیا جائے تو ہماری بیرونی امداد بند ہوجائے گی‘ غالباً یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کو قیام پاکستان سے لے کر اب تک کلیدی عہدوں پر تفوق حاصل رہا ہے‘ ایوب خان نے تمام سابق سیاست دانوں کو ملک کا غدار کہا‘ مگر بقول ان کے: غداروں کے دور میں جو قادیانی جن بڑے عہدوں پر فائز تھے ایوب خان صاحب نے انہیں ان سے الگ نہیں کیا‘ بلکہ انہیں مزید ترقی دی اور مزید قادیانی بھرتی کئے‘ موجودہ دور میں ایوب خان کو جلی کٹی سنائی جاتی ہیں‘ لیکن قادیانی‘ ایوبی دور سے بھی اب بلند عہدوں پر فائز ہیں۔ الغرض ہردور میں اس فتنہ کی آبیاری ہوتی رہی‘ انہیں تبلیغِ اسلام کے نام پر غیر ملکوں میں مشن کھولنے کے لئے زرمبادلہ کی خطیر رقمیں مہیا کی گئیں‘ لیبیا‘ انڈونیشیا وغیرہ اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے نام سے قادیانی ڈاکٹر‘ انجینئر اور دیگر ماہرین بھیجے گئے اور اب تو پانی سر سے گذرگیا ہے اور تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور جب عربی اسلامی حکومتوں اور وہاں کے علماء ومشائخ کو اس مکروہ صورتِ حال کا علم ہوا تو وہ چیخ اٹھے‘ انہیں اس مہیب خطرے کا احساس ہوا توا انہوں نے علماء ہند وپاک کی موافقت کی اور اس فرقہٴ کافرہ کی تکفیر کی‘ اس کے عقائد ونظریات اور عزائم ومقاصد پر رسالے لکھے اور مضامین ومقالات شائع کئے اور پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر ان حقائق سے پردہ اٹھا اور عالمی اسلامی تنظیموں نے تمام اسلامی ممالک سے اپیل کی کہ مرزائیوں کو ”غیر مسلم اقلیت“ قرار دیا جائے‘ کیونکہ وہ عالم اسلام میں اسرائیل کے ایجنٹ ہیں‘ یہ سب کچھ اخبارات ورسائل میں چھپ چکا ہے تو اب مرزائیوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے موجودہ خلیفہ مرزا ناصر نے ”الفضل“ میں پاکستان کی موجودہ حکومت کو بھی دھمکی دے ڈالی‘ یہ ملک کی بدنصیبی ہے کہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ۱۳‘۱۴ مرزائی پہلی مرتبہ مرکزی اسمبلی کے لئے مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہوئے‘ انا للہ! انسان ان دردناک حقائق کو کہاں تک شمار کرائے‘ بہرحال عالم اسلام میں بیداری کی کچھ لہر پیدا ہوئی تو امتِ مرزائیہ کو بھی اپنی فکر ہوئی اور مرزا غلام احمد آنجہانی کے دعویٴ نبوت میں تاویلات کرنے لگے‘ مرزائیوں کے طرز عمل سے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ ظاہری سطح پر بدل رہے ہیں اور مرزا آنجہانی کو ”مجدد“ ماننے کی طرف آرہے ہیں‘ جس طرح لاہوری پارٹی ان کو مجدد مانتی ہے۔ پہلے بھی اسلامی ممالک میں جہاں ان کو ابتلاء پیش آیا تو تقیہ کرکے مرزا آنجہانی کی نبوت سے انکار کرنا شروع کردیا‘ ان کی اس تبدیلیٴ رخ کا مقصد صرف یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ان کے خلاف جو ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی ہے وہ ذرا دب جائے اور طوفان کا یہ ریلا نکل جائے‘ اس لئے اس صورت حال کے پیش نظر چند گذارشات پیش کرنا ضروری ہے۔
کفر وارتداد سے توبہ کا طریقہ
۱- اگر کوئی کافر یا مرتد اپنے کفر وارتداد سے تائب ہوکر مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اسلام کی وسیع اور عالمگیر رحمت کے دروازے اس کے لئے بند نہیں ہیں‘ وہ صاف وصریح توبہ کرکے اسلام میں داخل ہوسکتا ہے اور اسلامی برادری کا معزز فرد بن سکتا ہے۔ ”چشم ماروشن دلِ ماشاد“ مگر اسے اپنے تمام سابقہ کفریہ عقائد سے اجمالاً وتفصیلاً توبہ کرنا ہوگی اور اپنے سابقہ عقائد سے برأت کا اعلان کرنا ہوگا۔
۲- جس شخص کا کفر وارتداد ثابت ہوجائے اور اس کے کفریہ عقائد میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو‘ اس کو امام‘ مقتدا‘ مصلح اور مجدد ماننا بھی کفر ہے‘ کیونکہ ایسے شخص کو امام اور مجدد ماننے کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ شخص اس مرتد کے عقائد ونظریات اور اس کے تمام دعوؤں کو تسلیم کرتا ہے‘ ایک مسلمان کومسلمان کہنا اور سمجھنا جس طرح ضروری ہے‘ ٹھیک اسی طرح ایک دجال کافر ومرتد کو کافر کہنا بھی ضروری اور فرض ہے‘ چنانچہ مرزائیوں کی لاہوری جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد آنجہانی مجدد تھے‘ نبی نہیں تھے‘ مگر علمائے امت نے اسی نکتہ کی بنیاد پر بھی ان کو کافر ہی سمجھا ‘بلکہ انہیں قادیانی مرزائیوں سے بھی زیادہ خطرناک سمجھا گیا۔
۳- مرزائیوں کو اگر واقعی اپنی گمراہی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ تہہ دل سے مسلمان ہونا چاہتے ہیں اور پاکستان کے سچے بہی خواہ بن کر اسلامی برادری میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو مرزائی امت کو (خواہ قادیانی‘ ربوی ہوں یا لاہوری) صاف صاف اپنے عقائد کفریہ سے توبہ کا اعلان کردینا چاہیے اور اس امر کا اقرار واعتراف کرنا چاہیے کہ مرزا غلام احمد آنجہانی اپنے تمام دعاوی میں واقعةً جھوٹا تھا‘ مفتری تھا‘ کذاب تھا‘ دائرہ اسلام سے خارج تھا‘ اگر وہ ایمانی جرأت سے کام لے کر اپنے نفاق اور تاویلات سے توبہ کرنے پر آمادہ ہیں تو ما شاء اللہ کیا کہنا‘ وہ ہمارے بھائی ہوں گے اور اخوت اسلامیہ کی عالمگیر برادری میں شامل ہوجائیں گے۔ اپنے سالہا سال کے عقائد کو غلط کہنا اور باپ دادا کے مذہب کو خیر باد کہنا بڑے دل گردے کا کام ہے‘ آدمی اس میں طبعاً خفت محسوس کرتا ہے مگر حق بات کا ماننا اگرچہ مشکل اور بے حد مشکل ہے‘ لیکن اس سے آدمی کی عزت وقار کو ٹھیس نہیں لگتی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے‘ ہم مرزائیوں کو اطمینان دلاتے ہیں کہ مرزا آنجہانی کی ”سیاسی نبوت“ سے چپکے رہنے کے بجائے محمد رسول اللہ ا کے دامنِ نبوت سے وابستہ ہوجائیں تو ان کے کسی سابقہ قول وفعل پر کوئی مسلمان عار نہیں دلائے گا‘ بلکہ تمام مسلمان انہیں سر آنکھوں پر بٹھانے کے لئے تیار ہوں گے۔ نیز اگر وہ دین مرزائیت سے تائب ہونا چاہتے ہیں تو انہیں مرزا غلام احمد آنجہانی کی تمام کتابوں سے دست کش ہوجانا چاہیے اور غلام احمد کی ”احمدی“ نسبت ترک کردینی چاہیے اور اندرون وبیرون ملک مرزائیت کے تمام اڈوں کو ختم کردینا چاہئے۔ مرزائی امت تقریباً سو سال سے تاویل درتاویل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے‘ عبد اللہ آتھم عیسائی کی موت اور احمدی بیگم کے آسمانی نکاح کی پیشگوئی ہو یا مرزا آنجہانی کے عجیب وغریب دعوے ہوں‘ مرزائیت کی تو کوئی کل بھی سیدھی نہیں ‘ مرزائی امت کے صنا دید سو سال سے تاویل کے نیشوں سے اس کی تراش خراش میں مصروف ہیں‘ مگر جسے خدانے ٹیڑھا پیدا کیا ہوا سے کون سیدھا کرسکتا ہے: ”ولن یصلح العطار ما افسدہ الدہر“ یقینا مرزائی دوست سوسال تک مرزا آنجہانی کے ہذیانات کی الٹی سیدھی تاویلیں کرتے کرتے تھک چکے ہوں گے‘ خود ان کا ضمیر بھی انہیں ملامت کرتا ہوگا کہ وہ صریح غلط بیانیوں کو خواہ مخواہ تاویل کے رندوں سے تراش تراش کر سچ ثابت کرنے کی عبث کوشش کیوں کررہے ہیں‘ کاش وہ جس جال میں پھنسے ہوئے ہیں ایک جھٹکا دے کر اسے توڑ ڈالتے اور حیص بیص اور گو مگو کی جو کیفیت ان پر سوسال سے طاری ہے‘ اس سے ان کی گلو خلاصی ہوجاتی۔
۴- بہرحال اگر مرزائی صاحبان دین مرزائیت سے تائب ہونا چاہیں تو اسلام کی آغوش ان کے لئے اب بھی کشادہ ہے اور مسلمان انہیں گلے لگانے کے لئے تیار ہیں‘ لیکن اگر انہیں اپنے عقائد پر اصرار ہے اور وہ مرزا آنجہانی کو بدستور مسیح موعود اور مہدی معہود یا مصلح اور مجدد مانتے ہیں اور صرف ہوا کا رخ دیکھ کر از راہ تقیہ اپنے نظریات کو تاویلات کے نئے غلاف میں پیش کرکے مسلمانوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں تو انہیں یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دینی چاہیئے کہ وہ دجل وتلبیس کے راستہ سے مسلمانوں کی صفوں میں ایک بار پھر گھس آئیں گے‘ ۔”من جرب المجرب حلت بہ الندامة“۔ کتے‘خنزیر‘ کافر‘ جہنمی اور ولد الحرام کے وہ سینکڑوں خطابات مسلمانوں کو اب تک بھی خوب یاد ہیں اور ہمیشہ یاد رہیں گے جن سے مرزائے آنجہانی نے مسلمانوں کو نوازا تھا‘ مسلمانوں کو مرزائیوں کے خلیفہٴ دوم کے وہ بیسیوں اعلانات بھی خوب یاد ہیں جن میں بڑے غرور اور تحدی سے کہا جاتا تھا:
”کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے‘ خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کافر اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں“۔ (آئینہ صداقت مصنفہ مرزا محمود)
”حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا (یعنی مسلمانوں کا) اسلام اور ہے ہمارا اور‘ ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور ‘ ہمارا حج اور ہے اور ان کا اور‘ اسی طرح ہربات میں ان سے اختلاف ہے“۔ (مرزا محمود کی تقریر)
”یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے‘ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ رسول کریم ا ‘ قرآن‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰة‘ غرض آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے ہمیں اختلاف ہے“۔
کیا ان واضح اعلانات کے بعد بھی اس کا امکان ہے کہ مرزا آنجہانی کے واضح کفریات کی تصدیق کرنے کے باوجود مرزائیوں کو مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے کی اجازت دی جائے گی؟ مرزائی امت نے مسلمانوں کو آخر ایسا بے حس کیوں سمجھ لیا ہے کہ وہ مرزائیوں کی صد سالہ تاریخ کو یکسر بھول جائیں گے‘ مرزائی آنحضرت ا کی عزت وحرمت پر حملہ کریں‘ مرزا آنجہانی کو نہ صرف آنحضرت ا کی جگہ لاکھڑا کریں‘ بلکہ آپ سے بھی اونچا مقام دیں‘ انبیاء کرام کی توہین وتذلیل کریں‘ مسلمانوں کو جنگل کے سور اور ذریة البغایا جیسی ”مقدس گالیاں“ دیں مگر مسلمان ان تمام چیزوں کے باوجود انہیں امت اسلامیہ کی صف میں جگہ دیں؟ الغرض مرزائیوں کے لئے صرف دو ہی راستے ہیں یا تو اپنے عقائد کفریہ سے ہاتھ جھاڑ کر مسلمان ہوجائیں یا پھر مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے کا سودائے خام اپنے ذہن سے نکال دیں۔ انہیں خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ مرزا آنجہانی کی نبوت کو ہزار ظل وبروز کے پردوں میں لپیٹیں یا مجدد ومہدی کے رنگ میں پیش کریں‘ لیکن امت اسلامیہ کا معدہ اسے کبھی ہضم نہیں کرسکتا‘ علاوہ ازیں مرزائی صاحبان کو اپنے ”مسیح موعود“ کی وصیت یاد رکھنی چاہیئے کہ:
”تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٴ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا“ (حاشیہ تحفہ گولڑویہ)
”خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ایک جماعت تیار کرے‘ پھر جان بوجھ کر ان لوگوں میں گھسنا‘ جن سے وہ الگ کرنا چاہتا ہے منشأ الٰہی کی مخالفت ہے“۔ (الحکم ۷/فروری ۱۹۰۳ء)
ہم بھی مرزائی صاحبان سے یہی درخواست کرتے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کو ”بکلی ترک کرنا پڑے گا“ اور مسلمانوں میں گھس کر انہیں منشاء الٰہی کی مخالفت کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ الا یہ کہ وہ اپنے دین مرزائیت سے تائب ہوکر نئے سرے سے اسلام میں داخل ہوجائیں۔
۶- ہم اپنی حکومت سے بھی گذارش کرنا چاہتے ہیں کہ ۲۶/ سال تک پاکستان میں مرزائیت نوازی کی سرکاری مہم جاری رہی‘ انہیں مسلمانوں کے حقوق دیئے گئے اور ان کو مصنوعی طور پر مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ انہیں اندرون وبیرون ملک سازشوں کا موقعہ ملتا رہا مگر اب یہ صورت حال تبدیل ہوجانی چاہئے‘ مستقبل میں مؤقف کی نزاکت کا احساس کریں‘ اسلامی ممالک جو پاکستان کے تحفظ کا ذریعہ ہیں اور جن سے صحیح ہمدردی کی توقع کی جاسکتی ہے‘ صرف اربابِ کفر کی خوشنودی کے پیش نظر ان کی ہمدردی اور دوستی وتعاون سے چشم پوشی نہ کریں‘ آخرت کے غضبِ الٰہی سے قبل دنیا کے عذاب اور ذلت سے بچنے کی تدبیر کریں اور بحالت موجودہ سیاسی واقتصادی مشیر اور ہوائی اور بری وبحری قیادت کی جو صورت حال ہے اس کو فوراً ختم کریں اور سابق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں جو تباہی نازل ہوچکی ہے‘ اس سے کچھ تو عبرت حاصل کریں‘ اسلامی وعربی ممالک جن کے ساتھ ہمارے اخوتِ اسلامی کے مضبوط رشتے ہیں اور جو ہر آڑے وقت میں پاکستان کے بہترین دوست ثابت ہوئے ہیں‘ افسوس ہے کہ انہیں بھی ہماری اس داخلی کمزوری اور ارتداد نوازی کا علم ہوچکا ہے اور ان ممالک میں قادیانی اسرائیل گٹھ جوڑ پر بحثیں ہورہی ہیں‘ اس کے اثرات ہمارے حق میں کیا ہوں گے؟ یہ دانشمندی کے ساتھ سوچنے کی بات ہے۔ یہاں ہم یہ شکایت بھی اربابِ اقتدار کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ ایک طرف تویہ حالت کہ جب مسلمانوں کی جانب سے قادیانیوں کا ذرا بھی تعاقب کیا جائے تو فوراً امنِ عامہ کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے‘ فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر نکل آتا ہے اور قانون اپنے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے بڑی تیزی سے حرکت میں آجاتاہے‘ زبانیں بند اور جلسہ جلوس اور اجتماع پر پابندی۔ اور دوسری طرف مرزائی ہیں کہ کھلے بندوں گلی گلی اور گھر گھر ”حضرت مسیح موعود“ کا پر چار کررہے ہیں اور یہاں تک جرأت کہ مسلمانوں کی مسجدوں اور دینی اداروں میں جاکر بڑے معصومانہ انداز سے مرزائے آنجہانی کی رسالت ونبوت کی تشریح کرتے ہیں‘ ہم صاف صاف کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ صورت حال مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت ہے‘ مرزا آنجہانی ہفوات وہذیانات کے تیروں سے مسلمانوں کے سینے چھلنی ہوچکے ہیں‘ دانشمندی کا تقاضایہ ہے کہ قادیانیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے‘ انہیں محمد رسول اللہ ا کے تاجِ ختم نبوت پر ہاتھ ڈال کر اشتعال دلانے سے روکا جائے اور ان کی تحریکِ ارتداد پر پابندی عائد کی جائے اور اگر اصرار ہو کہ مرزائی بھی امت اسلامیہ کا ایک حصہ ہیں تو ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ واقعةً یہ امت کا ایک ایسا گلا سڑا حصہ ہے جسے جسم امت سے الگ کردینا ہی اس کا صحیح علاج ہے‘ ورنہ اس ناسور کا زہر ملت اسلامیہ کے پورے دھڑ میں سرایت کرجائے گا اور اس کا نتیجہ موت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا‘ اس مسئلہ کا حل کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ ایک معمولی اقلیت کی خوشنودی کے لئے ایک بڑی اکثریت کو ناراض کرنا آخر کون سی سیاست ہے؟ حق تعالیٰ صحیح فہم نصیب فرمائے۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رجب: ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ
Flag Counter