Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

8 - 10
قہر الٰہی سے بچنے کا راستہ
قہر الٰہی سے بچنے کا راستہ!

گذشتہ رمضان المبارک ۱۳۹۱ھ کی غالباً ۱۳ یا ۱۴ تاریخ تھی‘ تراویح اور وتر سے فارغ ہو کر راقم الحروف بیت اللہ کے سامنے مطاف کے کنارے حطیم کی جانب رکنِ شامی کی محاذات میں بیٹھا تھا‘ اتنے میں چند احباب ومخلصین بھی آگئے اور ایک بزرگ جو مدینہ کے مہاجر ہیں‘ تیس سال سے حرمین شریفین میں قیام پذیر ہیں‘ بڑی اونچی باطنی نسبت کے مالک ‘ بلکہ اربابِ قلوب کے حلقہ کے ایک فرد ہیں اور ”قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید“ والی جماعت میں شامل ہیں‘ وہ بھی تشریف لائے‘ سلسلہٴ سخن شروع ہوا تو موصوف نے فرمایا:
”پاکستان کے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے‘ یہ ملک شدید ابتلاء میں ہے‘ حق تعالیٰ کے غضب وانتقام کی صورت ہے‘ تمام اربابِ کشوف ومشاہدات پریشان ہیں‘ دعاؤں میں مشغول ہیں‘ لیکن نجات کی صورت نظر نہیں آتی‘ پھر فرمایا: ”شاید آخر میں بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے“
اس قسم کی طویل گفتگو فرمائی جس سے پوری مجلس پر ایک خاص رقت طاری ہوگئی اور تمام حاضرین ِ مجلس نے آبدیدہ ہوکر کعبہ شریف کے سامنے والہانہ انداز میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اورر حق تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعائیں کی۔ شوال میں میری مراجعت ہوئی تو یہاں وہی آگ لگ رہی تھی‘ اورر پھر تو وہ نقشہ سامنے آیا جو کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا‘ مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا‘ لاکھوں جانیں اس بے دردی وبے رحمی سے ضائع ہوئیں کہ عقل حیران ہے‘ پاکستان کی ایک لاکھ بہادر ترین فوج کو قیدی بنا لیا گیا اور لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمان اب بھی تڑپ رہے ہیں اور انہیں تڑپایا جارہا ہے‘ جن کی نہ کوئی آہ وبکا سنتا ہے نہ داد‘ نہ فریاد۔ اور اسی پر بس نہیں‘ وہی آگ اب مغربی پاکستان میں بھڑک رہی ہے‘ مسلمان‘ مسلمان سے وہ سلوک کررہا ہے جس کے تصور ہی سے آدمی کانپ اٹھتا ہے‘ نفرت وبیزاری کے شعلے انسانی اخوت اور اسلامی برادری کو خاکستر کررہے ہیں اور پورا ملک یأس وناامیدی اور پریشانی وسراسیمگی کی تاریک وادیوں کی طرف رواں دواں ہے:
”محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی“
مسلمانوں کا عروج وزوال
ماہِ ربیع الاول ۱۳۹۲ھ کے ”بصائر وعبر“ میں جو کچھ عرض کیا گیا تھا وہ ہمارے نزدیک صورتِ حال کا صحیح مرقع تھا اور نازک دور ہم پر گذرا ہے اور ابھی گذررہا ہے‘ اس کا حقیقی جائزہ تھا۔ ہر صاحبِ بصیرت اس کو پڑھنے کے بعد دل کی گہرائیوں سے اس کی صحت واصابت کا اعتراف کرے گا کہ جس عبرت ناک مقام پر ہم پہنچ گئے ہیں‘ یہ سب کچھ ہمارے اعمالِ بد کا نتیجہ ہے اور یہ تو حق تعالیٰ کی رحمت اور اس کا احسان وکرم تھا‘ ورنہ شاید ہم اس سے پہلے ہی تباہ وبرباد ہوگئے ہوتے۔ بہرحال جو کچھ لکھا گیا تھا وہ اپنی بساط کے مطابق صورتِ حال کی ایک ناتمام تصویر تھی‘اتفاق سے ایک صاحب کا مکتوب اور اس سے منسلک ایک خواب موصول ہوا‘ خواب میں وہی کچھ تھا جو ہم آنکھوں سے دیکھتے اور عقل سے جانتے تھے اور جس کو اربابِ بصیرت اپنی فراست سے اور اربابِ کرامت ومکاشفات دل کی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے‘ بعض مخلصین کی رائے ہوئی کہ جو کچھ ”بصائر وعبر“ میں تحریر کیا گیا ہے ایک رویائے صادقہ سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے‘ لہذا اس کو بھی شائع کردیا جائے‘ یہ خواب میرے ذہن سے نکل کر طاقِ نسیاں کی زینت بن چکا تھا‘ یاد دلانے پر تلاش کیا‘ مل گیا اور شائع ہوا‘ الحمد للہ کہ پڑھنے والوں پر اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور بہت سے احباب نے خطوط میں اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔ جیساکہ ابھی عرض کیا ”بصائر وعبر“ میں جو کچھ عرض کیا گیا تھا اس خواب پر نہیں تھا‘ یہ خواب نہ بھی ہوتا‘ تب بھی صورتِ حال واضح تھی اور خواب وخیال کی سطح سے بالا تر سر کی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ ہورہا تھا‘ اس لئے نہ صورتِ حال کی تکذیب کی گنجائش تھی نہ خواب پر سوءِ ظن کا موقع تھا‘ لیکن بعض ناظرین کو خواہ مخواہ یہ خیال آیا کہ شاید یہ خواب بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے جس طرح کسی زمانہ میں کوئی عیسائی شیطان شیخ احمد کے نام سے جھوٹے خواب شائع کیا کرتا تھا‘ گویا اگر کسی نے کسی زمانے میں کوئی جھوٹا خواب شائع کیا تو اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ ہر سچا خواب بھی جھوٹا سمجھنا چایئے۔اور ایک صاحب کو دوسرے صاحب سے کچھ زیادہ حسن ظن نہیں اور اتفاق سے ان کا ذکر اس مجلس میں دیکھا تو فوراً فیصلہ فرمادیا کہ یہ صحیح نہیں‘ اس لئے کہ اس خواب میں فلاں صاحب کا ذکر ہے گویا اگر کسی میں کوئی عیب ہے (اور وہ بھی ہماری نظرِ قاصر میں) تو اس میں کسی خوبی‘ کسی بھلائی اور کسی کمال کا امکان ہی سرے سے مفقود ہوگیا‘ یعنی ایک یا چند کمزوریوں سے تمام محاسن وکمالات سلب ہوجاتے ہیں‘حق تعالیٰ نے مخلوق پر بڑا ہی احسان فرمایا کہ اسے علمِ غیب سے بے خبر رکھا‘ ورنہ نظامِ عالم تہ وبالا ہوجاتا‘ انسان اتنا کمزور اور کم حوصلہ واقع ہوا ہے کہ اسے کسی کا ایک عیب نظر آجائے تو اس کی خوبی پر اس کی نظر نہیں جاتی‘ سارے محاسن اس کی نظر سے غائب ہوجاتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت میں بے عیب کون ہے بجز ذاتِ حضرتِ حق تعالیٰ شانہ کے اور بجز ان حضرات کے جن کو حق تعالیٰ نے شرفِ عصمت سے مشرف فرمایاہے‘ کمزوریاں سب میں ہیں لیکن حق تعالیٰ کی مرضی اور اس کا حکم یہ ہے کہ انسان اپنے عیب کو دیکھے اور دوسروں کے کمال پر نظر رکھے اور ان کے عیب سے چشم پوشی کرے‘اس سے تواضع ‘ فروتنی‘ باہمی مودت اور اسلامی اخوت پیدا ہوگی‘ اس کے برعکس اگر انسان اپنی خوبیاں اور دوسروں کی کمزوریاں سامنے رکھے تو اس سے کبر ونخوت اور باہمی شقاق ونفاق کی راہ کھلے گی‘ خالق ہی جانتا ہے کہ اس نے اپنی کس کس مخلوق میں کیا کیا خوبیاں رکھی ہیں‘ حق تعالیٰ مخلوق کی خوبیاں دیکھتا ہے اور مخلوق مخلوق کی برائیوں کو دیکھتی ہے‘ حق تعالیٰ جو سب عیبوں سے پاک ہے وہ بندوں کے عیوب سے چشم پوشی اور درگذر فرماتا ہے اور بندہٴ ناتواں جو سراپا عیب ہے وہ دوسروں کی خوبیوں سے اغماض کرتا ہے‘ اگر ایک انسان میں متعدد برائیاں ہوں لیکن ساتھ ہی کوئی خوبی بھی ہو تو چاہیئے کہ اس خوبی کی قدر کی جائے اور برائیوں سے چشم پوشی کی جائے ‘ قرآن کریم اور نبی کریم ا کے یہی ارشاد ہیں۔ بسا اوقات خواب دیکھنے والے کی شخصیت معمولی ہوتی ہے‘ لیکن خواب اونچا دیکھ لیتا ہے‘ بہرحال جب حقائق واضح ہیں اور صورتِ حال کا پورا نقشہ سامنے ہے تو جس خواب وخیال سے اس کی تصدیق ہو اس کی تکذیب کی کیا مجال ہے؟
مسلمانوں کے زوال کا سبب
بہرحال عرض یہ کرنا ہے کہ پاکستان ابھی تک شدید ابتلاء میں ہے اور جس عذاب کا نزول کچھ عرصہ پہلے مشرقی پاکستان سے شروع ہوا تھا وہ ابھی تک نہ مشرق میں تھما ہے نہ مغرب ہیں‘ اس کے ظاہری اور سطحی اسباب خواہ کتنے تلاش کرلئے جائیں مگر اس کا حقیقی اور بنیادی سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے ہماری شامتِ اعمال اور ہماری بدعملیوں پر قہرِ خداوندی کا متوجہ ہونا‘ قرآن کریم میں ایک جگہ قہرِ الٰہی کے نازل ہونے کی تین شکلیں ذکر کی گئی ہیں:
۱- آسمانی عذاب مثلاً پتھر برسنا۔
۲-زمینی عذاب‘ مثلاً زلزلے آنا اورر زمین میں دھنس جانا۔
۳- باہمی گروہ بندی‘ قتل وقتال اور جنگ وجدال‘ چنانچہ ارشاد ہے:
”قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم عذاباً من فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعاً ویذیق بعضکم بأس بعض انظر کیف نصرف الایات لعلہم یفقہون“۔ (الانعام:۶۵)
ترجمہ:․․․”آپ کہیے اس پر وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا تم کو گروہ گروہ کرکے سب کو بھڑادے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزا چکھادے‘ آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح مختلف پہلوؤں سے دلائل بیان کرتے ہیں شاید وہ سمجھ جاویں“۔بیان القرآن
احادیث ِ طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت پر پہلی دو قسم کے عام عذاب اس طرح نازل نہیں ہوں گے کہ بعض پہلی امتوں کی طرح یہ پوری امت نیست ونابود کردی جائے‘ البتہ تیسری قسم کے عذاب میں یہ امت مبتلا ہوگی‘ چنانچہ آج یہ امت بالخصوص ہمارا ملک اس عذاب کی لپیٹ میں ہے‘ طبقاتی منافرت ‘ صوبائی عصبیت اور لسانی منافست کا دیو پوری قوم کو نگل رہا ہے‘ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے‘ افراتفری اور بے اعتمادی کی بدبودار فضاء میں دم گھٹا جارہا ہے۔
قہرِ الٰہی سے بچنے کا راستہ
ہرطرف سے ”انا ولاغیری“ (میں میں اور تو تو) کے نعرے بلند ہورہے‘ اس سے بڑھ کر کسی قوم کے لئے اور کیا سزا ہوسکتی ہے؟ کوئی شک نہیں کہ اس قوم پر قہرِ الٰہی اور غضب خداوندی ٹوٹ پڑا ہے‘ یہ ہزار چیخے چلائے‘ سرپیٹے‘ واویلا کرے‘ لاکھ جتن کرے مگر جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عذاب کو اٹھا لینے کا فیصلہ نہیں ہوگا‘ یہ قوم کبھی گردابِ بلا سے نہیں نکل سکتی‘ ہم اس بھول میں ہیں کہ خدا تعالیٰ کو راضی کئے بغیر محض ہماری تقریروں سے‘ ہمارے نعروں سے‘ ہمارے اخباروں سے‘ ہمارے رسالوں سے‘ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروپیگنڈے سے‘ ہمارے عوامی شعور سے‘ ہمارے قومی تدبر سے فضا بدل جائے گی‘ ہوا کا رخ پلٹ جائے گا‘ طوفان کا دھارا مڑ جائے گا‘ نفرت کا دھواں چھٹ جائے گا‘ انتشار وافتراق کا آتش فشاں سرد ہوجائے گا اور ہم صرف اپنی ناکارہ تدبیروں سے حالات پر قابو پالینے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ اگر ہماری خوش فہمیوں سے حالات بدل جاتے تو اب تک کبھی کے بدل گئے ہوتے‘ مگر حق تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے:
”ان اللہ لا یہدی القوم الفاسقین“
(بے شک اللہ تعالیٰ راہ نہیں سمجھاتا بدکار قوم کو) جب تک معاشرے پر فسق وبدکاری کا عفریت مسلط ہے‘ ہمیں کبھی فلاح وبہبود کا راستہ نہیں مل سکتا‘ بلکہ جو تدبیر ہوگی الٹی ہوگی‘ ہم ان صفحات میں باربار کہہ چکے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اس قہرِ الٰہی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ہم توبہ وانابت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اللہ تعالیٰ سے ہم نے جو معاملہ بگاڑ لیا ہے اس کی اصلاح کریں‘ مگر افسوس اور بے حد افسوس کا مقام ہے کہ عوام تو عوام خواص کو بھی اس صدائے جرس پر کان دھرنے کی فرصت نہیں ہوئی‘ نہ اس کے لئے کوئی تحریک پیدا ہوئی۔
امت کی نجات اور عذاب سے چھٹکارے کی تدبیر
میرے ایک مخلص دوست اور صالح عالم ابھی چند دن ہوئے یہاں تشریف لائے تھے‘ موصوف نے اپنے ایک وارد قلبی کا ذکر فرمایا اور نماز پڑھتے وقت کچھ معمولی غنودگی کی حالت میں ان پر جو کیفیت طاری ہوئی اتفاق سے اس کا ذکر بھی آیا‘ موصوف کی عادت بے حد اخفاء کی ہے مگراتفاقیہ زبان سے کچھ بات نکل گئی اور ہمارے اصرار پر انہیں اس کی تفصیل بیان کرنا پڑی‘ جس سے محسوس ہوا کہ وہ ایک پیغام ہے اور اس میں امت کی نجات اور اس عذاب سے رستگاری کی ایک تدبیر ہے اور اوپر عذابِ الٰہی اس کے اسباب اور ا س کی تدبیر کے سلسلہ میں جو کچھ عرض کیا گیا اس کی مزید تصدیق ہوئی‘ ہماری فرمائش پر موصوف نے اسے قلمبند کردیا ہے‘ ذیل میں ان کی تحریر پیش کرتا ہوں‘ وہ فرماتے ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سقوطِ پاکستان کا صدمہ اتنا شدید تھا کہ آنسو تھمتے نہ تھے‘ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا ہوگیا‘ اسی غم وفکر میں قلب پر وارد ہوا کہ:
”قوم (مسلمانانِ پاکستان) من حیث القوم نقضِ عہد کی مرتکب ہوئی ہے‘ یہ اس کا نتیجہ ہے‘ ہندو پاک کے مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران ۱۹۴۶ء میں پاکستان کی حمایت میں اس لئے ووٹ دیا تھا کہ پاکستان ایک مثالی اسلامی مملکت ہوگی جس میں احکامِ الٰہی کا اجراء اور شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ ہوگا‘ اللہ تعالیٰ نے چوتھائی صدی تک مہلت دی‘ لیکن اس مہلت سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا گیا‘ بلکہ جب ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں قوم نے مشرقی پاکستان میں تقریباً سو فیصد اور مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت کے ساتھ ان جماعتوں اور افراد کو ووٹ دے کر جو اصلاً شریعت کے نفاذ اورنظامِ اسلامی کے قیام کے داعی نہ تھے‘ بلکہ نیشنلزم‘ سوشلزم اور دیگر غیر اسلامی نظاموں کے نمائندے تھے کھلا اظہار واعلان کردیا کہ اللہ تعالیٰ سے جس عہد پر ملک لیا گیا تھا وہ اب باقی نہیں رہا اور قوم من حیث القوم اپنے عہد سے پھر گئی ہے تو اس نقضِ عہد کی بنا پر عتاب اور تنبیہِ الٰہی کی مورد بن گئی ہے“۔
اس ”وارد“ کے بعد طبیعت مزید پریشان ومضمحل ہوگئی‘ دل بیٹھاجاتا تھا اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب اس نقضِ عہد پر نازل شدہ عتابِ الٰہی اور تنبیہِ خداوندی کا کیا مداوا کیا جائے‘ اسی پریشانی میں تھا (اور یہ سقوطِ ڈھاکہ کا غالباً دوسرا دن تھا) کہ مغرب کی سنتوں میں تھا‘ یکا یک غنودگی سی (بین النوم والیقظہ کی حالت) طاری ہوگئی اور بارگاہِ رسالت(روحی فداہ) ا سے ارشاد ہوا کہ:
”سوائے توبہ وانابت کے بچنے کی کوئی دوسری راہ نہیں‘ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
”توبوا الی اللہ جمیعاً ایہا المؤمنون“۔
میرے دل میں آیا کہ امت اور مسلمانانِ پاکستان جس غفلت میں ہیں وہ سب کے سب کیسے تائب اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔؟ ارشاد ہوا ”اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ دیندار طبقہ پوری امت کی طرف سے نیابةً توبہ کرے اور ان میں سے ہرشخص اپنے دل کو امت کا دل سمجھ کر دل سے تائب ہو اور انابت اختیار کرے۔ پھر توبہ واستعانت کے لئے دعائے قنوت کے ابتدائی تین الفاظ پڑھے:
”اللہم انا نستعینک ونستغفرک ونؤمن بک“ (واللہ اعلم بالصواب)
جس کا مطلب اسی حالت میں فقیریہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ سے مدد کے لئے استغفارِ حقیقی اور تجدید ِ ایمان کی ضرورت ہے (جس میں اس عہد کی تجدید بھی آجاتی کہ ہم پاکستان میں صحیح اسلامی احکامِ شریعت کا اجراء اور دینی معاشرہ کو بپا کریں گے)۔ بہرحال حاصلِ کلام یہ ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے عتاب کو اسی صورت میں روکا جاسکتا ہے کہ پوری امت یا کم از کم ان کی طرف سے نیابةً دیندار طبقہ انابت وتوبہ کی راہ اختیار کرے اور پھر سے عزم بالجزم کرے کہ جو مملکت اسلام کے نام پر لی گئی ہیں اسے اسلام ہی کے بے مثل وبے مثال نظام کا گہوارہ بنایا جائے گا۔
”واللہ اعلم بحقیقة الحال‘ واللہ اعلم وعلمہ اتم“
توبہ واستغفار کے جو فضائل وبرکات قرآن وحدیث میں آئے ہیں اس وقت ان کا ذکر مقصود نہیں اور الحمد للہ کہ اہلِ دین مسلمان ان سے کچھ ایسے بے خبر بھی نہیں‘ حق تعالیٰ کے غضب وعتاب سے بچنے کے لئے توبہ واستغفار کی اہمیت تو ظاہر ہے لیکن جس طرح اپنے گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے ٹھیک اسی طرح حق تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرنے میں جو امت تقصیر کررہی ہے اس کے لئے بھی استغفار ضروری ہے۔ نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ تمام امت جس غفلت اور غیر اسلامی زندگی میں مبتلا ہے ان سب سے یہ توقع رکھنا کہ سب کے سب غیر اسلامی زندگی اور بدعقیدگی وبدعملی سے تائب ہوجائیں گے صرف حق تعالیٰ کی قدرت میں تو ہے کہ ایک ہی آن میں تمام امت صالح بن جائے (اس کا ایک ادنیٰ سانمونہ ۱۹۶۵ء میں اللہ تعالیٰ نے دکھلا بھی دیا اور اس کی برکات وثمرات بھی دکھلا دے) مگر عالم اسباب میں مشکل ہے‘ البتہ جوصورت ممکن اور آسان ہے وہ یہ ہے کہ اہل دین اور اہل درد تمام امت کا درد لے کر اٹھ کھڑے ہوں اور امت کے فکر کو اپنا فکر بناکر دعوت واصلاح کے کام پر اپنی توانائیاں صرف کردیں اور رورو کر اللہ تعالیٰ سے امت کی ہدایت وفلاح مانگ لیں۔ تو حق تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ امت کی نجات کا فیصلہ فرمادیں گے۔ نیز اربابِ تقویٰ وصالحین اور وہ عام مسلمان جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف موجود ہے اور جو فرائض کی ادائیگی میں تقصیر نہیں کرتے ایسے لوگ تمام امت کی طرف سے نیابةً اور اپنی طرف سے اصالةً انفرادی واجتماعی دونوں طرح استغفار کریں‘ حضرت نبی کریم ا نے حجة الوداع کے موقعہ پر مزدلفہ میں رات گذارنے کے بعد صبح کو حضرت بلال سے ارشاد فرمایا:
”یا بلال اسکت او قال انصت الناس‘ ثم قال: ان اللہ تطول علیکم فی جمعکم ہذا فوہب مسیئکم لمحسنکم واعطی محسنکم ما سأل فادفعوا باسم اللہ“۔
ترجمہ:․․․”اے بلال! لوگوں کو خاموش کراؤ (جب لوگ متوجہ ہوگئے تو) ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر اس مزدلفہ کی وادی میں ایک بڑا انعام واحسان فرمایا کہ تمہارے گنہگاروں کو تمہارے نیکوکاروں کی وجہ سے بخش دیا اور نیکو کاروں نے جو مانگا سو ان کو دیا‘ پس اللہ کا نام لے کر چلو“۔
اس حدیث سے توقع ہوتی ہے کہ راستہ اب بھی کھلا ہے کہ صالحین کی وجہ سے بدکرداروں کو معافی ہوجائے‘ خصوصاً جب صالحین اپنے تقصیر کرنے والے بھائیوں کی طرف سے بارگاہِ قدس میں معذرت پیش کریں اور ان کی طرف سے معافی مانگیں‘ برادرِ موصوف کے مکاشفے میں جو حکم دیا گیا ہے وہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ اور ہمارے شیخ سعدی  تو بہت پہلے فرما چکے ہیں:
”بداں رابہ نیکاں بخشد کریم“۔
اب ضرورت اس کی ہے کہ جس شخص کو حق تعالیٰ نے شب خیزی کی دولت عطا فرماکر ”والمستغفرین بالاسحار“ (سحر کے وقت استغفار کررنے والوں) کی صف میں داخل فرمایا ہے‘ اس کو نہایت تضرع اور عاجزی کے ساتھ گڑ گڑ ا کر آخر شب میں توبہ کو معمول بنانا چاہئے اور جن کو حق تعالیٰ نے پنج وقتہ نماز کی توفیق نصیب فرمائی ہے وہ نمازوں کے بعد اس کو معمول بنائیں اور بہتر ہوگا کہ جمعہ کے مبارک دن نمازِ جمعہ کے بعد اجتماعی طور پر توبہ واستغفار کریں۔
اللہ کے دربار میں عجز وانکساری سے دعا کی ضرورت ہے
بلاشبہ ”دعا“ میں عاجزی‘ تضرع اور حضور قلب مطلوب ہے اور توبہ کے الفاظ ایسے ہوں جن سے دل پر رقت کی کیفیت طاری ہوں اس لئے ان پاکیزہ دعاؤں کے علاوہ‘ جو بارگاہِ نبوت سے ارشاد ہوئی ہیں ہرشخص اپنے ضمیر کے مطابق اپنی زبان میں توبہ واستغفار کے ایسے الفاظ بھی استعمال کرے جن سے دل متأثر ہو اور دل کا سوزوگداز آنکھوں کے آنسوؤں کی شکل میں بہہ نکلے‘ لیکن بسا اوقات عوام کے لئے منضبط الفاظ میں دعاکرنا خصوصاً جب اجتماعی شکل میں دعا کی جائے‘ زیادہ مفید ہوتا ہے‘ اس لئے خیرخواہی کے جذبہ کے پیشِ نظر جو کلمات خیالِ ناقص میں آئے انہیں اخبارات میں شائع کرادیا‘ اور ووبصائر وعبر“ کے صفحات میں بھی شائع کرنا مفید معلوم ہوتا ہے‘ بہتر ہوگا کہ پہلے سورہٴ فاتحہ پڑھی جائے‘ پھر درود شریف اور دعاء قنوت پڑھ کر بارگاہِ ارحم الراحمین میں ہاتھ پھیلا کر نہایت توجہ اور حضورِ قلب کے ساتھ حسبِ ذیل الفاظ میں دعا کی جائے:
”اے ارحم الراحمین! ہم گناہ گارہیں‘ بدکردار ہیں‘ خطاکار ہیں لیکن تیرے بندے ہیں اور تیرے رحمة للعالمین اکے امتی ہیں‘ ہم نے تجھ سے پاکستان اس لئے مانگا تھا کہ تیرے قانونِ رحمت وعدالت کے سرچشمے اس سرزمین میں جاری ہوں اور امتِ مرحومہ اس سے سیراب وشفایاب ہو اور ہم تیرے رسول ا کے بتلائے طریقوں پر عمل پیرا ہوکر اسلام کا بول بالا کریں۔“
”اے اللہ !ہم نے نافرمانی کی‘ بدعہدی کی‘ بغاوت کی‘ مملکت کا ایک بڑا حصہ ہم سے لے لیا گیا‘ اے اللہ! اس پر بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں‘ اب عالم یہ ہے کہ ہم میں نہ اسلامی اخوت ہے اور نہ ہمدردی‘ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا اور جانی دشمن ہے‘ ہم نے وہ کام کئے ہیں‘ جن سے درندے اورر بھیڑیئے بھی پناہ مانگیں۔“
”اے ارحم الراحمین ! تو ہی ہمارا ملجأ اور تو ہی ہمارا مددگار ہے‘ ہم اپنی نافرمانیوں‘ اپنی بغاوتوں‘ اپنی بداعمالیوں سے اور جو کچھ ہم نے کیا ہے اس سے سچے دل سے توبہ کرتے ہیں۔“
”اے ارحم الراحمین! اپنے حبیبِ پاک رحمة للعالمین ا کے صدقہ ہم گناہ گاروں کو معاف فرما اور اپنی مرضیات کی توفیق ارزانی فرما‘ راعی ورعایا دونوں کو دینِ اسلام پر چلنے کی توفیق مرحمت فرما جو تیرا آخری پیغامِ نجات ہے۔“
”یا ارحم الراحمین! ہم سب مسلمانوں کے درمیان الفت ومحبت پیدا فرمایئے اور ہمارے دشمنوں اور بدخواہوں کے شر سے ہمیں نیز ہمارے ملک کو بچایئے۔
”بیدک الخیر انک علی کل شئ قدیر“۔
اس آیت کی تکرار کم سے کم تین بار کی جائے۔ اے ارحم الراحمین تیرا رحم وکرم ہمارے اعمال سے اور تیری مغفرت ہمارے گناہوں سے کہیں زیادہ ہے‘ تیرے کرم کے سامنے ہمارے گناہ بالکل حقیر ہیں“۔
توبہ‘ توبہ‘ اے اللہ! ہمیں معاف فرما ہم تیرے ہی بندے ہیں‘ تجھ ہی پر ایمان رکھتے ہیں اورتجھ ہی سے مغفرت چاہتے ہیں:
”ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا‘ ربنا ولا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنا ما لاطاقة لنا بہ‘ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین“۔
دعا کے بعد الحمد للہ رب العالمین کہہ کر درود شریف تنجینا پڑھا جائے جو درجِ ذیل ہے:
”اللہم صل علی سیدنا ومولانا محمد صلاة تنجینا بہا من جمیع الاہوال والآفات وتقضی لنا جمیع الحاجات وتطہرنا بہا من جمیع السیئات وترفعنا بہا عندک اعلی لدرجات وتبلغنا اقصی الغایات من جمیع الخیرات فی الحیاة وبعد الممات‘ انک علی کل شئ قدیر“
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: تفسیر قرآن میں صوفیاء کے اقوال 
Flag Counter