Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

7 - 10
تفسیر قرآن میں صوفیاء کے اقوال
تفسیر قرآن میں صوفیاء کے اقوال فرقہ باطنیہ اورصوفیاء کی تفسیری تاویلات میں فرق

مذکورہ ابحاث کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ اہل زیغ وضلال فرقہ باطنیہ کے بارے میں ایک ضروری انتباہ درج کردیا جائے جو بعض صوفیا کرام کے اقوال سے تمسک کرکے دین سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں، جیسے تیر پھینکنے کے بعد کمان سے علیحدہ ہوجایا کرتا ہے اورآیات قرآنیہ میں بغیر علم وفکر کے تحریف کرتے ہیں۔ نیز بغیر دلائل وبراہین کے مقررہ مسائل کو اپنی جگہوں سے تبدیل اور ان کو متغیر کردیتے ہیں ۔ چنانچہ خوب جان لینا چاہئے کہ علامہ نسفی نے اپنی کتاب عقائد میں لکھا ہے کہ: نصوص کو ان کے ظاہر ہی کے موافق رکھا جائے اور ظاہری معانی سے صرف نظر کرتے ہوئے فرقہٴ باطنیہ کے بیان کردہ باطنی معانی ومفاہیم کی طرف عدول الحاد اور زندقہ ہے۔ علامہ تفتازانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں: ملاحدہ کو باطنیہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس بات کے دعوے دار ہیں کہ نصوص اپنے ظاہری معانی کے مطابق نہیں ،بلکہ ان کے ایسے باطنی معانی ہیں جنہیں سوائے معلم خاص کے کوئی شخص نہیں جانتا۔در حقیقت ان کا اصلی مقصد اس دعویٰ سے یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی بالکلیہ نفی کردی جائے اور اسے معدوم ٹھہرا دیا جائے۔ پھر فرماتے ہیں کہ: اس کے بالمقابل بعض محققین کا یہ فرمان کہ نصوص اگرچہ اپنے ظاہری معانی کو ہی بتلاتی ہیں، لیکن ان ظاہری نصوص میں کچھ ایسے چھپے ہوئے باطنی اشارات ہوتے ہیں جو ایسے باریک اور لطیف امور کا پتہ دیتے ہیں جو اہل سلوک ومتصوفین پر واضح ہوتے ہیں۔ نیز ان دقائق اشارات اور ظاہری مرادی معانی میں باہم تطبیق بھی ممکن ہوتی ہے ،یہ بات ایمان کے کمال اور محض معرفت وبصیرت پر منحصر ہے ۔ علامہ تاج الدین بن عطاء اللہ اپنی کتاب ”لطائف المنن“ میں ارشاد فرماتے ہیں :جان لیجئے کہ ان متصوفین کرام سے اللہ اور رسول کے کلام کے بارے میں جو تفاسیر اور معانی غریبہ منقول ہیں یہ ظاہری معنی کو نص کے ظاہر سے پھیرنا نہیں کہلائے گا‘ بلکہ ظاہر آیت سے تو وہ معنی سمجھ آئے گا جس کے لئے آیت ذکرکی گئی ہے اور اہل زبان کا عرف جس کے مفہوم اور مطلب پر دلالت کرتا ہوگا، جبکہ آیت کے باطنی معنی سے مراد جو آیات قرآنی اور احادیث شریفہ کے باطنی اورمخفی حقائق واشارات کی طرف اس شخص کی رہبری ورہنمائی کرتے ہیں جس کے دل کو خدائے پاک نے منشرح فرمایا ہو اور حدیث شریف میں ہی اس مضمون کا باقاعدہ ذکر وارد ہوا ہے :
”لکل آیة ظہرو بطن “
ہرآیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، چنانچہ تم کو ان کے اقوال سے مستفید ومستفیض ہونے سے صاحب جدل واعتراض کا یہ قول نہ روکے کہ: یہ تو اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں تحریف ہے‘ یہ ہر گز تحریف نہیں ہے، تحریف تو اس وقت ہوتی جب یہ حضرات یوں دعویٰ فرماتے کہ: ”اس آیت کے یہی معنی ہیں اس کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں “ اور صوفیہٴ کرام تو یہ دعویٰ ہی نہیں کرتے ‘ بلکہ ظاہر کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے موضوع معانی کو مقصود جانتے ہو ے ان باتوں کا ادراک فرمالیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ ان کو سمجھاتے اور سکھاتے ہیں انتہی منقول از الاتقان۔ راقم الحروف عرض گذار ہے کہ اس مضمون کے متعلق کئی احادیث واررد ہوئی ہیں جو اس بیان کردہ مفہوم کی تائید کرتی ہیں،حضور اقدس ا کا یہ فرمان عالیشان ”لاتتفضی عجائبہ‘ ولاتبلغ غایتہ“ اسی طرح یہ ارشاد پاک کہ
”فیہ نبأ ماقبلکم وخبر ما بعدکم“
اور یہ فرمان گرامی کہ
”ان القرآن ذوشجون وفنون وظہور وبطون“
اور دیگر کئی مرفوع وموقوف روایات اس مضمون کی تائید کرتی ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان مقدس:
”او فہم اعطیہ رجل مسلم“
جسے امام بخاری نے” کتاب العلم“ میں نقل فرمایا ہے یہ اس باب میں واضح ترین حجت ہے اور امام شافعی کا قول ماقبل میں گذر چکا اور ابن عمر نیز مجاہد اور دیگر حضرات کے فرامین بھی میں نے ماقبل میں ذکر کردیئے جن کو دوبارہ دیکھ لیا جائے۔ اور اگر قرآنی علوم ومعارف صرف اس کے ظاہری الفاظ کے حصار میں منحصر ہوتے اور دقائق ولطائف کے متعلق اہل حقائق کے لئے کچھ نہ ہوتا اور مخفی اشارات اور دلالات سے جن پر قرآنی مفہوم دلالت کرتا ہے اور قرآن کریم کی بلاغت ان کاپتہ دیتی ہے، قرآن کریم میں نہ پائے جاتے تو کسی عالم کو دوسرے عالم پر نہ کسی پیش رو کو پس رو پر اور بعض متأخرین کو بعض متقدمین پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہوتی اور حضرات ابن مسعود کے اس ارشاد کا کہ: ”واعمقہم علماً “ کا کیا مقصد ہوتا؟ ان دلائل کے پیش نظر دعویٰ واضح طور پر ثابت ہے، معاملہ واضح اور ان ہر دونوع کی تاویلات میں فرق منکشف ہوگیا اور باوجود اس کے کہ اہل حقائق ان لطائف ومعارف کو جن کو وہ باطنی مفاہیم سے سمجھتے بوجھتے ہیں ،کسی ایک کے بارے میں بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے ظاہری معانی پر عمل اور اعتقاد چھوڑا ہو ،پھر صبح روشن کی فجر کے مانند یہ معاملہ کیونکر ان معترضین پر ملتبس ہوا؟ حالانکہ صوفیا کرام تو علم الٰہی میں رسوخ اور کمال رکھتے ہیں اور اعمال میں سچے اور مخلص ہوتے ہیں بخلاف ان ملحد فرقہٴ باطنیہ والوں کے جوشریعت اسلامیہ کے منکر،آیت کے ظاہری معانی سے تحریف کرنے والے، اپنے علم میں کج رو اور گمراہ اور اپنے عمل میں جھوٹے ہیں،ان اولیاء وصوفیاء کرام کی کیا شان اور ان باطنیوں کا کیسا گرا ہوا درجہ؟ ان میں ہرایک کو واضح علامات سے تم پہچان لوگے ۔اللہ رب العزت نے انہی باطنیہ گروہ والوں ہی کے متعلق ارشاد فرمایا:
﴿واما الذین فی قلوبہم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنة وابتغاء تاویلہ﴾
تلاش حق اور فتنہ پروری میں کیا نسبت؟ اور حق طلبی کا مقابلہ باطل جوئی سے کیونکر ہو؟
﴿أفمن یمشی مکبا علی وجہہ أھدی أم من یمشی سویا علی صراط مستقیم﴾
کیا وہ شخص جو اپنے منہ اوندھا چلے وہ وہدایت یافتہ ہے یا وہ جو سیدھا چلتا ہے سیدھی راہ پر۔مزید تفصیلات کے لئے الاتحاف شرح الاحیاء جزء رابع کی طرف مراجعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی حق کی طرف رہبری کرنے والے ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: مکالمہ بین المذاہب اور اس کا تصور
Flag Counter