Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

5 - 10
قولِ مقبول فی حجة حدیث رسول
قولِ مقبول فی حجة حدیث رسول

دین اسلام چونکہ ابدی دین ہے‘ اس لئے اس کا نظام ِ حیات بھی ابدی ہے‘ خداوند تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ان الدین عند اللہ الاسلام“۔
جب یہ بات یقینی ہے کہ اسلام ہی قیام قیامت تک کے لئے رہنے والا دین ِ واحد ہے تو اس کی حفاظت کا انتظام بھی تو قیامت تک کے لئے ہونا چاہئے۔ اللہ جل مجدہ نے خود ہی ارشاد فرمایا کہ: مجھے تمام ادیان میں سے دین اسلام پسند ہے تو خود ہی باری تعالیٰ نے اس دین حق کی حفاظت کا انتظام فرمایا‘ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ ان الفاظوں میں لیا:
”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“
اب قرآن مجید میں اجمالاً احکامات فی الحیات صادر فرمائے‘ ان کی مکمل تفصیل حدیث پیغمبر اہے۔ آپ اسلام کے نظام ہائے زندگی کامطالعہ فرمانے کے بعد دنیا کے تمام مذاہب کا بنظر غائر مطالعہ فرمائیں‘ آپ کو ایسا جامع نظامِ حیات کہیں نہ ملے گا‘ دنیا میں اس وقت جتنے بھی ادیان موجود ہیں‘ ان کی مذہبی کتب تحریف کے عمل سے گذر چکی ہیں اور نہ جانے یہ عمل پیشوایانِ قوم نے کتنی بار دہرایا ہوگا‘ اس وقت صرف دینِ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس میں ایک زبر‘ زیر کی بھی کمی یا بیشی نہیں کی گئی‘ ہر دور میں دین اسلام پر مختلف فتنے تیشہ زنی کرنے کے لئے بڑے زور وشور سے اٹھے‘ لیکن الحمد للہ! محافظانِ دین نے ان کا بروقت تعاقب کیا‘ جس کی وجہ سے وہ فتنے رفو ہوگئے۔ قبل از تقسیم برصغیر میں ایک نیا فتنہ اٹھا‘ یا آپ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ایک مردے کو نیا لباس پہنا کر خوشبوئیں لگاکر منظر عام پر لے آیا گیا‘ ویسے غلامانِ مغرب نے گدھے پہ شیر کی کھال چڑھا کر شیر بنانے کی سعی لاحاصل کی ہے ‘ لیکن ان میں چوہدری غلام احمد پرویز سب سے بڑھ گئے‘ ان کا حلقہ کافی وسیع ہے‘ جناب ایک رسالہ ماہنامہ طلوع اسلام کے نام سے نکالتے تھے جواب بھی اسی نام سے نکلتا ہے‘ جناب کی سب سے زیادہ مشہور ہونے کی کتب درج ذیل ہیں: ۱- معارف القرآن‘ ۲- مفہوم القرآن‘ (پہلے تین جلدوں میں تھی‘ اب ایک جلد میں دستیاب ہے۔ ۳- مطالب القرآن‘ ۴- مقام حدیث (جو اب ہمارے سامنے ہے) ۵- معراج انسانیت‘ ۶- انسان نے کیا سوچا‘ ۷- اسلام کیا ہے؟ ۸- شعلہٴ مستور‘ ۹- کتاب التقدیر ‘ ۱۰- شاہکار رسالت ان کے علاوہ اور بھی چند کتب ہیں۔ چوہدری غلام احمد پرویز کے ماننے والے جب نام پرویز سنتے ہیں تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ چوہدری صاحب سے متاثر ہوکر رکھا گیا ہے‘ اب ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ چوہدری صاحب سے متاثر ہوکر رکھا جاتا ہے یا خسرو پرویز ایرانی سے متاثر ہوکر رکھا جاتا ہے‘ مثلاً جنرل پرویز مشرف صاحب اور چوہدری پرویز الٰہی صاحب کے بارے میں فرقہٴ پرویز یہ کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے چوہدری صاحب سے متاثر ہوکر پرویز کا لاحقہ لگایا ہے‘ بہرحال ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں۔ ہمیں اس وقت یہ ثابت کرنا ہے کہ حدیث رسول ا کے بغیر انسان نابینا ہے‘ وہ دین سے بہت دور ہے اور جو شخص حدیث رسول ا کو حجت نہ مانے‘ اس کا دین اسلام سے کوئی سروکار نہیں۔ عزیزانِ من! ہمیں تو حدیث رسول اکو حرز جان بنانا چاہئے تھا‘ ہمارا اوڑھنا بچھونا قرآن وحدیث کو ہونا چاہئے تھا‘ لیکن افسوس کہ ہم ان دونوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اگر حدیث رسول ا نہ ہوتی تو مسلمان اسماء الرجال جیسے علم وفن کے بانی نہ بن سکتے‘ اگر حدیث رسول ا نہ ہوتی تو مسلمان محدثین کے حافظوں کا تذکرہ کہیں نہ ملتا‘ اگر حدیث رسول انہ ہوتی تو آج کے اس نفسا نفسی کے دورِ بد میں مسلمان دین سے عاری اور بے عمل ہوتے‘ ہمیں محدثین کرام  کا ممنون ہونا چاہئے تھا‘ نہ کہ ہم ان پر عجمی سازش کا لبیل چسپاں کردیں ۔ برادرانِ اسلام! آیئے سب سے پہلے تو ہم دیکھیں کہ حدیث کسے کہتے ہیں:
حدیث کے لفظی معنی: بات اور گفتگو کے ہیں۔علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں: ”الحدیث: الکلام قلیلہ وکثیرہ“ حدیث بات کو کہتے ہیں جو مختصر ہو یا مفصل‘ حضور اکی تعلیمات بیان کے پہلو سے ذکر کی جائیں تو حدیث کہلاتی ہیں‘ عمل کے پہلو سے حضور ا کی تعلیمات کو سنت کہتے ہیں۔ سنت: عربی میں طریقے اور راہ کو کہتے ہیں‘ حضور ا کی تعلیمات (قول‘ فعل‘ اور تقریر) معرض بیان میں ہوں تو حدیث ہیں اور معرض عمل میں ہوں تو سنت کہلاتی ہیں ۔ حدیث میں بیان کی نسبت غالب ہے‘ اور سنت میں عمل کی نسبت غالب ہے‘ صحابہ کرام جب اس طریق کی نشاندہی کرتے تھے جس پر حضور اکرم انے انہیں قائم کیا تو کہتے تھے: سن رسول اللہ ا ‘ حضورانے اس امر کو ہمارے لئے راہ عمل بنایا ہے اور جب وہ حضور ا کی بات کو نقل کرتے تو کہتے تھے:
حدثنا رسول اللہ ا ‘حضور ا نے اسے ہمارے لئے بیان کیا۔“ (آثار الحدیث جلد اول ص:۳۴‘۳۵ از علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب)
حافظ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:
”واما الحدیث: ضد القدیم‘ وقد استعمل فی قلیل الخبر وکثیرہ‘ لانہ محدثا شیئاً فشیئاً“
یعنی حدیث قدیم کی ضد ہے اور حدوث سے مأخذ ہے‘ اس کا اطلاق خبر قلیل اور خبر کثیر دونوں پر ہوتا ہے اور خبر یک بارگی صادر نہیں ہوتی ‘ بلکہ شیئا فشیئاً یعنی تدریجاً اس کا ظہور ہوتا ہے اور خبر ہونے کی یہ شان حضور اکرم اکی احادیث میں موجود ہے‘ اس لئے اس کو حدیث کہتے ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بخاری کی شرح میں فرمایا ہے:
”المراد بالحدیث فی عرف الشرع : ما یضاف الی النبی ا وکأنہ ارید بہ مقابلة القرآن لانہ قدیم“۔ (کشف الباری ج:۱‘ ص:۸‘۹ )
یعنی عرف شرع میں حدیث وہ چیز ہے جو حضور ا کی طرف منسوب ہو اور جو چیز حضور ا کی طرف منسوب ہو اسے قرآن کے تقابل کی وجہ سے جوکہ قدیم ہے‘ حدیث کہتے ہیں۔ اس لئے کہ حضور اکرم ا خود حادث ہیں تو ان کا کلام بھی حادث ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ خود قدیم ہیں، اس لئے ان کا کلام بھی قدیم ہے۔ عزیزانِ من! آپ جان چکے کہ حدیث کسے کہتے ہیں۔ حدیث سے کیا مراد ہے؟ یہ بات بھی آپ ذہن میں رکھیں کہ قول رسول ا سے مراد حضور ا کی بات ہے۔ فعل رسول ا سے مراد‘ حضور ا کا عمل ہے اور تقریر رسول ا سے مراد حضور ا کے سامنے کسی صحابی نے کوئی عمل کیا‘ اس پر آپ ا نے سکوت فرمایا اور نکیر نہ فرمائی ہو اسے تقریر رسول ا کہتے ہیں۔ اس ابتدائی بحث کے بعد ہم قرآن مجید اوراحادیث رسول اکرم ا سے ثابت کریں گے کہ حدیث نبوی دین میں حجت ہے اور فرامین رسول ا پر عمل کرنے کا حکم باری تعالیٰ نے دیا ہے ‘ خداوند تعالیٰ فرماتے ہیں:
”کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلو علیکم اٰیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمة ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون“۔ (سورہٴ بقرہ:۱۵۱)
ترجمہ:۔”جیساکہ تم لوگوں میں ہم نے ایک رسول بھیجا جو تم ہی میں سے ہے وہ ہماری آیات پڑھ پڑھ کر تم کو سناتا ہے اور تمہاری صفائی کرتا ہے اور تم کو کتاب کی اور دانائی کی باتیں سکھاتا ہے اور تم کو ایسی باتیں تعلیم کرتا ہے جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی“۔
ان آیات مبارکہ میں اللہ جل شانہ نے نبی کریم اکی چار بڑی ذمہ داریوں کے متعلق بتایاہے:
۱- ہماری آیات پڑھ کر تمہیں سناتاہے۔۲- تمہارے نفس کا تزکیہ کرتا ہے یعنی جاہلانہ رسوم ورواج اور دل کو زنگ سے تمہاری صفائی کرتا ہے۔۳- کتاب الٰہی کی باتیں بتاتاہے۔۴- دانائی (حکمت‘ فہم) کی باتیں سکھاتاہے۔
اس آیت مبارکہ کو ایک بار پھر پڑھئے اور توجہ فرمایئے کہ کیا کوئی شخص حضور کریم ا سے بڑا دانا ہوسکتا ہے؟ حضور ا سے بڑا فہم والا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔تو بس پھر اس دانائے سبل ختم الرسل ا کی باتیں از روئے قرآن حجت ہوئیں۔ سورہٴ نجم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ“ ۔ (النجم:۳‘۴)
یعنی آپ ااپنے تیں کوئی بات نہیں کرتے بلکہ آپ ا وہی فرماتے ہیں جو آپ پر وحی بھیجی جاتی ہے۔ ان آیات سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ حضور کریم اکی باتیں وحی الٰہی ہیں‘ فلہذا آپ کی باتیں دین میں حجت ہوئیں‘ قرآن مجید میں ہے:
”یآیہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم“ ۔ (نساء:۵۹)
اس آیت کریمہ میں بھی اللہ کی اور رسول اللہ کی اطاعت کا حکم دیا جارہا ہے اور جو ان کی اطاعت کرنے والا حاکم ہو“ جب حضور اکا حکم ماننے کا حکم قرآن مجید دے رہا ہے تو ارشادات نبوی ا دین میں حجت ہوئے ۔ ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب آیت ہذا کے تحت لکھتے ہیں:
”یہاں تین اطاعتیں فرض بتلائی گئیں : ۱- اللہ کی اطاعت‘ ۲- رسول اللہ کی اطاعت‘ ۳- اولی الامر کی اطاعت‘ مگر لفظ اطیعوا صرف دو بار لائے‘ الرسول کے لئے لفظ مستقل طور پر وارد ہوا مگر اولی الامر کی اطاعت اسی اطیعوا کے ماتحت رکھی گئی جو الرسول پر داخل تھا ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ اولی الامر کی اطاعت میں تو شرط ہے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی نہ ہو‘یعنی ان کی اطاعت کے تابع ہو‘ لیکن رسول اللہ ا کی اطاعت میں یہ شرط نہیں لگائی گئی‘ کیونکہ اس کی ہربات اللہ کے حکم سے ہوگی اس کے خلاف نہیں ہوسکتی‘ رسول اللہ کی ہرہر ادا اور ہرہر بات پر خدا کی حفاظت کا پہرہ ہوتا ہے“۔ (آثار الحدیث جلد ال ص:۲۹۵)
عزیزانِ من! قرآن حکیم کی بے شمار آیات حدیث نبوی کی حجت پر دال ہیں‘ مگر بخوف طوالت یہ تین آیات ہی درج کی ہیں‘ عاقل کے لئے تو یہ بھی کافی ہیں اور ضدی اور ہٹ دھرم کے لئے پورا قرآن مجید ہی ناکافی ہے۔ چوہدری غلام احمد پرویز لکھتاہے:
”احادیث نبی اکرم ا کے اقوال واعمال کے مجموعے کا نام ہے‘ اگر یہ جزو دین تھیں تو جس طرح آپ انے قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کو لکھوایا ‘ زبانی یاد کرایا‘ لوگوں سے سنا‘ دہرایا اور ہرطرح سے اطمینان فرمالیا کہ اس کا ایک ایک حرف محفوظ کردیا گیا ہے‘ احادیث کے متعلق بھی یہی انتظام فرمانا چاہئے تھا‘ اس لئے کہ منصبِ رسالت کا یہی تقاضا تھا اور بہ حیثیتِ رسول حضورا کا یہ فریضہ کہ دین کو محفوظ ترین شکل میں امت کے پاس چھوڑتے‘ لیکن حضور ا نے جہاں قرآن کریم کے متعلق اس قدر حزم واحتیاط سے کام لیا‘ احادیث کے متعلق کوئی انتظام نہیں فرمایا‘ برعکس اس کے خود کتب احادیث میں یہ روایت موجود ہے کہ حضور ا نے فرمایا کہ:”مجھ سے قرآن کے علاوہ اور کوئی چیز نہ لکھو‘ جس نے قرآن کے علاوہ اور کوئی چیز لکھی ہو اسے مٹا دے“۔ (جامع ترمذی جلد دوم اردو بحوالہ مقام حدیث قسم دوم ص:۴‘۵)
آیئے پرویز صاحب کی اس تحقیق انیق کی حقیقت جانیں:!
اولاً:۔ جب پرویز صاحب حدیث ظنی اور قیاسی سمجھتے ہیں اور دین میں حجت تسلیم نہیں کرتے تو حدیث رسول اکا حوالہ کیوں دے رہے ہیں۔یہ بات انہیں قرآن کریم سے ثابت کرنی چاہئے تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہو: اے نبی ! اپنے صحابہ سے کہو کہ آپ ا سے قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھیں‘ لیکن پورے قرآن کریم میں یہ بات نہیں ہے اور نہ پرویز صاحب کو ملی۔
ثانیاً:۔ اب ہم چند احادیث مبارکہ درج کرتے ہیں:
۱- حضرت عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت انے فرمایا:
”نضر اللہ عبد اً سمع مقالتی فحفظہا ووعاہا واداہا فرب حامل فقہ غیر فقیہ الحدیث “۔ (مشکوٰة:۱۳۵)
ترجمہ:․․․” اللہ تعالیٰ اس بندہ کو تروتازہ رکھے (یعنی خوش وخرم) جس نے میری بات سنی اور خوب یاد کرلی اور وہ دوسروں تک پہنچادی‘ سو بسااوقات ہوسکتا ہے کہ فقہ پر مشتمل حدیث کسی شخص کو یاد ہو مگر وہ فقیہ نہیں“ (معرفت علوم الحدیث ص:۲۶۰ بحوالہ شوق حدیث ص:۱۱‘ ۱۲ ا)
۲- اسی طرح حضور کریم انے ارشاد فرمایا ”حدثوا عنی“ میری حدیثیں دوسروں کو پہنچاؤ۔
۳- آپ اکا ارشاد تھا کہ: ”لیبلغ الشاہد الغائب“ جو حاضر ہے وہ غائب تک پہنچادے۔
۴- ایک اور حدیث نبوی ابھی ملاحظہ فرمایئے:
”نضر اللہ امرا سمع منا شیئاً فبلغہ کما سمعہ“ ۔
ترجمہ:․․․”اللہ اس شخص کو شاداب رکھے‘ جس نے ہم سے کچھ سن کر لوگوں تک اس طرح پہنچادیا جس طرح سنا تھا“ ۔ جناب پرویز صاحب کو یہ احادیث کیوں نظر نہ آئیں‘ ان احادیث کو انہوں نے کیوں نظر انداز کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ذات رسول اکو بے وقعت ثابت کرنے کے لئے انہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ دراصل وہ آلہ کار بنے مسیحی مشنریوں کے اور انہوں نے کوئی خود اتنا مطالعہ نہیں کیا‘ بلکہ مستشرقین کی کی ہوئی تحریف کو نیا جامہ پہنا کر پیش کردیا‘ گویا مکھی پہ مکھی ماری ہے۔ عزیزان من! اگر زندگی نے وفا کی تو انشاء اللہ پرویز کے اعتراضات کے جوابات بھی آپ ماہنامہ بینات کے صفحات میں پڑھیں گے۔ اس عجمی اور وہ بھی مغرب کی فریب کاریوں میں مبتلا شخص کی‘ کتب علمأ اسلام میں کی گئی تحریفات ملاحظہ فرمائیں گے‘ ویسے تو علمأ اسلام نے اس موضوع پر بہت زیادہ کام کیا ہے‘ احقر تو حضرات علمأ اسلام کی کتب سے صرف نقل کررہا ہے‘ اگر پرویزی مطمئن نہیں ہوتے تو یہ ان کی بدقسمتی ہے‘ ہم یہ کہنے پر مجبور رہیں۔
وفاؤں کے ہزاروں دے چکے امتحان اب تک
مگر وہ ہیں کہ اس پر بھی ہیں ہم سے بدگمان اب تک
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: پولیو قطرے‘ تشنج اور خسرہ ویکسین دوا یا زہر؟
Flag Counter