Deobandi Books

ماہنامہ الابرار نومبر 2009

ہ رسالہ

6 - 12
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(November 20, 2009)

از جدید ملفوظات

(گذشتہ سے پیوستہ)

بڑھاپے میں قوت روحانی بڑھ جاتی ہے

فرمایا کہ جب حضرت حاجی صاحبؒ مثنوی پڑھاتے تو خوب زور شور سے تقریر فرماتے اور جب درس ختم ہوجاتا تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے اور فرماتے کہ ارے بھائی کچھ شربت بناﺅ سردبا دو بس یہ حالت تھی

ہر چند پیر خستہ وبس ناتواں شدم

ہرگہ نظر بسوئے تو کردم جواں شدم

خود قومی تر می شود خمر کہن

خاصہ آں خمرے کہ باشد من لدن

بڑھاپے میں قوت روحانی بڑھ جاتی ہے جو کیفیت کہ بڑھاپے میں بھی باقی رہتی ہے تو وہ روحانی ہے اور جو بڑھاپے میں زائل ہوجائے تو سمجھو نفسانی تھی گو محمود ہی ہو پہلے ذوقاً معلوم ہوتا تھا اب بحمدﷲ تحقیقاً سمجھ میں آگیا۔

حضرت مولانا فضل رحمن صاحبؒ مجذوب صاحب حال تھے

فرمایا کہ مولانا فضل رحمن صاحبؒ مجذوب صاحب حال تھے ایک شخص ان کے پاس دعا کو حاضر ہوا ابھی آپ دعا کرنے نہ پائے تھے کہ فریق مخالف بھی دعا کے لیے حاضر ہوا اور ظاہر ہوگیا کہ یہ فریق ہے اب انکار کس سے کریں یہ کیسے معلوم ہو کون حق پر ہے بس فوراً ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ ”اے اﷲ جس کا حق ہو اسے دلوادے“ اب یہ کس کا منہ تھا کہ غیر حق کے واسطے دعا کو کہے ان حضرات کے اندر عقل کامل ہی ہوتی ہے یہ لوگ ہیں عرفاءعقلا حالانکہ مجذوب تھے مگر بات کیسی حکمت کی کہی۔

حضرت حاجی صاحبؒ کے علوم کے سامنے علماءکی کوئی حقیقت نہ تھی

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ نے صرف کافیہ تک پڑھا تھا اور ہم نے اتنا پڑھا ہے کہ ایک اور کافیہ لکھ دیں مگر حضرت کے علوم ایسے تھے کہ آپ کے سامنے علماءکی کوئی حقیقت نہ تھی ہاں اصطلاحات تو ضرور نہیں بولتے تھے۔

مولوی میاں اصغر حسین صاحبؒ کا ایک خواب

فرمایا کہ جس وقت دیوبند کے مدرسہ میں شورش ہوئی ہے تو اس زمانہ میں مولوی اصغر حسین صاحبؒ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک بزرگ موٹر میں سوار آرہے ہیں اور انہوں نے میرے پاس آکر موٹر ٹھہرایا اور وہ بزرگ مشابہ حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوریؒ کے ہیں انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ ان سے (یعنی مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ مہتمم مدرسہ دارالعلوم دیوبند سے) کہہ دینا گھبرائیں نہیں سب خیریت رہے گی۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ کے طب سیکھنے کا واقعہ

فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کی پھوپی بیمار تھیں آپ ان کی تیمارداری میں تھے جس طبیب کے یہاں آپ تشریف لے جاتے تھے وہ بہت نخرے کرتا تھا مولانا کو غصہ آگیا اور طب کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا اور اچھے طبیب ہوگئے جب مولوی مسعود احمد صاحب طب پڑھ کر تشریف لائے ہیں تب آپ نے اس کام کو چھوڑ دیا کہ بھائی اب مسعود آگئے ان سے رجوع کرو۔

ایک ڈپٹی کلکٹر صاحب نے حضرت مولانا گنگوہیؒ کے لیے

شمس العلماءکے خطاب کی مخالفت کی

فرمایا کہ فرمایا کہ ایک ڈپٹی صاحب مولانا گنگوہیؒ کے پاس حاضر ہوئے مولانا معمولی گفتگو کرکے درس میں مشغول ہوگئے ان کو اس پر رنج ہوا اور دوسروں سے شکایت کی کہ بڑے بُرے اخلاق ہیں (اس پر ہمارے حضرت نے تبسم سے فرمایا کہ الحمدﷲ مولانا کی یہ سنت مجھ کو بھی نصیب ہے اور میں بھی اسی طرح بدنام ہوں سنا ہے کہ سال کے ختم یا شروع پر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ خطابات تقسیم ہوتے ہیں تو مولانا کے لیے بھی شمس العلماءکا خطاب تجویز ہوا تھا اس میں ان ڈپٹی صاحب سے بھی پوچھا گیا چونکہ یہ حاکم پر گنہ تھے تو انہوں نے مخالفت کی کہ مناسب نہیں ہے اس پر ڈپٹی صاحب نے خوش ہوکر مولانا کے آدمیوں سے فرمایا کہ ہم سے مولانا اچھی طرح نہ ملے ہم نے بھی خطاب نہ ملنے دیا مولانا نے سنا تو فرمایا کہ بھائی میں تو ان کا بڑا ممنون ہوں کہ مجھے اس بلا سے نجات دی میں تو دعا کرتا ہوں ہمارے حضرت نے فرمایا کہ جب سنا ہوگا تو بڑا کٹا ہوگا کہ یہ کام کیا تو تھا رنج کے لیے مگر ہوگئی خوشی جیسے سلیمان درانیؒ نے فرمایا ہے کہ اگر شیطان وسوسہ ڈالے تو خوش ہو کیونکہ شیطان دشمن ہے جب تم وسوسہ سے خوش ہوگئے اور وہ تمہاری خوشی چاہتا نہیں تو وسوسہ ڈالنا چھوڑ دے گا۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ حضرت حاجی صاحب کے عاشق تھے

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ پر آج کل کے نوجوان مولوی اعتراض کرتے ہیں اور حضرت مولانا گنگوہیؒ حالانکہ امام وقت تھے مگر کبھی آپ کی زبان سے اعتراض نہیں نکلا اور اعتراض تو کیسا مولانا تو بالکل عاشق فانی تھے ایک دفعہ مولانا گنگوہیؒ مولوی صادق الیقین صاحب سے فرماتے تھے کہ فلاں صاحب نے کیسی بری بات کہی کہ حضرت تو بدعتوں میں مبتلا ہیں ہماری نسبت تو قطع ہوگئی دیکھو کیسی رنج کی بات ہے بھلا ان باتوں سے نسبت قطع ہوتی ہے بھلا حضرت حاجی صاحبؒ بدعتی ہیں۔

مولوی صادق الیقین صاحب کو حضرت مولانا گنگوہیؒ کی وصیت

فرمایا کہ جب مولوی صادق الیقین حضرت حاجی صاحبؒ کی خدمت میں جانے لگے تو مولانا گنگوہیؒ نے وصیت فرمائی (دیکھئے ان بزرگوں کو نورباطن تو ہوتا ہی ہے مگر اﷲ تعالیٰ نور ظاہر بھی اس قدر عطا فرماتے ہیں کہ جس کی انتہا نہیں) کہ میاں مولوی صادق الیقین جیسے جارہے ہو ویسے ہی چلے آئیو اپنے اندر کوئی تغیر پیدا نہ کیجﺅہمارے حضرت نے فرمایا کہ اس سے حضرت مولانا کا یہ مطلب تھا کہ وہاں جاکر حضرت حاجی صاحبؒ کے افعال میرے خلاف دیکھوگے اگر مجھ سے عقیدت رہی تو حاجی صاحبؒ کو چھوڑ دوگے اور اگر حاجی صاحب سے عقیدت رہی تو مجھے چھوڑ دوگے چنانچہ انہوں نے مسلک مولانا کا رکھا اور حضرت حاجی صاحبؒ کے بھی نثار تھے مجھ سے مولوی صادق الیقین کہتے تھے کہ حضرت حاجی صاحب کے یہاں اور مولانا کے یہاں تو زمین و آسمان کا فرق ہے کوئی تطبیق ہو ہی نہیں سکتی میں نے عرض کیا کہ فاتحہ: حلف الامام ایک حرام کہتے ہیں ایک فرض کہتے ہیں اس میں بھی تو کوئی تطبیق نہیں ہوسکتی پھر ہم دونوں کو حق پر مانتے ہیں اور تقلید کرتے ہیں ایسے ہی یہاں سمجھو۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ کے نزدیک مولود کی ممانعت مشروط ہے

فرمایا کہ مولوی صادق الیقین صاحب کے والد اچھے بزرگ تھے اور ہر روز ایک قرآن شریف ختم کرتے تھے اور جو تاریخ کسی بزرگ کی وفات کی ہوتی تو اس روز دو قرآن شریف ختم فرماتے ایک ان بزرگ کی روح کو ایصال ثواب کے لیے اور ایک اپنے معمول کا مگر مولود کے بڑے معتقد تھے اور اس میں مولوی صاحب سے کشمکش رہتی میں نے اس باب میں ان کو ایک مکتوب محبوب القلوب لکھا تھا جس سے آپس میں اتفاق ہوگیا تھا وہ مکتوب چھپ بھی گیا ہے۔ مگر مجھے یہ یقین نہ تھا کہ اس مکتوب کو مولانا گنگوہیؒ پسند فرمائیں گے کیونکہ اس میں کسی قدر توسع ہے مگر ایک مرتبہ جب میں گنگوہ حاضر ہوا تو قصائیوں کے یہاں مولانا کی دعوت تھی میں بھی شریک تھا ایک شخص نے وہاں مولانا سے دریافت کیا کہ مولوی صادق الیقین اور ان کے والد کے معاملات کی کیا حالت ہے مولانا نے فرمایا کہ اب ان میں اتفاق ہے اور یہ سب ان (حضرت مرشدی مدظلہم) کی برکت ہے۔

ہمارے حضرت نے فرمایا کہ مولود کی ممانعت یہ مولانا کی شان انتظامی تھی اور تعلیمی شان یہ ہے کہ جائز ہے بشرط عدم منکرات اور ناجائز ہے بشرط منکرات چونکہ لوگ حدو د کے اندر نہیں رہتے اس لیے منتظمین مطلقاً منع کرتے ہیں۔

حضرت حاجی صاحبؒ کا حسن ظن بے مثال تھا

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ کے اندر اس قدر حسن ظن تھا کہ اتنا کسی کے اندر نہیں دیکھا جن لوگوں کو ہم کافر سمجھتے تھے حضرت ان کو صاحب حال فرماتے۔ حاجی …. کو فرماتے تھے کہ صاحب باطن ہے مگر غلطی ہوگئی…. کی بابت فرماتے تھے کہ کچھ غلطی ہوگئی ہے۔ ہمارے حضرت نے فرمایا کہ جس قدر نظر وسیع ہوتی جاتی ہے اسی قدر اعتراض کم ہوتا جاتا ہے۔ عبدالوہاب شعرانیؒ نے زمخشری کی بابت لکھا کہ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ زمخشریؒ کو عذاب کریں گے اور یہ جو اس کا خلق افعال کا عقیدہ ہے اس کا منشا صرف تنزیہ باری تعالیٰ ہے گو غلطی ہوگئی۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter