Deobandi Books

ماہنامہ الابرار نومبر 2009

ہ رسالہ

10 - 12
سوانح حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(November 20, 2009)

مرتبہ: سید عشرت جمیل میر

(گذشتہ سے پیوستہ)

شیخ العرب والعجم محبی ومحبوبی سیدی وسندی وسیلة یومی وغدی الی یوم الدین عارف باﷲ حضرت مرشدنا و مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب ادام اﷲ ظلالہم علینا ہندوستان کے شہر پرتاب گڈھ صوبہ یوپی کی ایک چھوٹی سی اٹھیہہ نامی بستی کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ حضرت کے والد ماجد جناب محمد حسین صاحب ایک سرکاری ملازم تھے۔ حضرت اپنے والد صاحب کے اکلوتے فرزند تھے اور آپ کی دو بہنیں تھیں اس لیے والد صاحب حضرت سے بہت محبت فرماتے تھے۔

بچپن ہی میں آثار جذب الٰہیہ کا ظہور

حضرت والا میں بچپن ہی سے آثارِ ولایت ظاہر ہوگئے تھے۔ حضرت والا نے احقر کو خود یہ واقعہ سنایا کہ میرے والد صاحب کا بہ سلسلہ ملازمت جب ضلع سلطان پور میں قیام تھا اس وقت میری عمر پانچ سال تھی اور میری بڑی ہمشیرہ جو اس وقت بچی تھیں مجھے گود میں اٹھا کر امام صاحب سے دم کرانے کے لیے لے جاتی تھیں تو جب میںنے امام صاحب کو دیکھا تو ان کی وضع قطع اور ڈاڑھی مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی اور مسجد کے درودیوار اور مسجد کی زمین کی خاک مجھے بہت اچھی لگی اور مجھے اب تک یاد ہے کہ مسجد کی زمین کا میںنے بوسہ لیا۔ جب ذرا اور ہوش سنبھالا تو اﷲ کے نیک بندوں کی محبت اور زیادہ معلوم ہونے لگی اور ہر حافظ و عالم اور نیک بندوں کی وضع وقطع رکھنے والوں کو دیر تک محبت سے دیکھا کرتے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت دن بدن دل میں بڑھتی جاتی تھی یہاں تک کہ درجہ چار پاس کرنے کے بعد والد صاحب سے درخواست کی کہ مجھے دیوبند بھیج دیا جائے لیکن والد صاحب نے مڈل اسکول میں داخل کرادیا۔ والد صاحب کے حکم پر بادل ناخواستہ تین سال مڈل تک پڑھا اور بہت اصرار کیا کہ ان دنیاوی تعلیمات میں میرا دل بالکل نہیں لگتا مگر والد صاحب کے حکم کے آگے مجبور تھے۔

حضرت نے فرمایاکہ ابھی میں نابالغ ہی تھا تو معلوم ہوا کہ مسجد کے امام صاحب جن کا نام حافظ ابو البرکات صاحب تھا جو بچپن میں دعا پڑھ کر دم کیا کرتے تھے وہ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمةاﷲ علیہ کے خلیفہ مجاز بیعت ہیں۔ ایک دن ان سے جا کر عرض کیا کہ مجھے بیعت کرلیجئے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اس وقت میں مڈل میں پڑھ رہا تھا لیکن حافظ صاحب کو مجھ میں نہ جانے کیا نظر آیا کہ فرمایا کہ حضرت حکیم الامت نے مجھے عوام کے لیے مجاز بیعت بنایا ہے اور آپ عوام میں نہیں ہیں اور فرمایا کہ آپ کو کوئی خاص بندہ بیعت کرے گا۔

اس دور نابالغی میں گھر سے دور جنگل میں ایک مسجد تھی حضرت وہاں جا کر عبادت کیا کرتے تھے، اس مسجد میں خوب دل لگتا تھا۔ مسجد سے کچھ فاصلے پر چند گھر آباد تھے لیکن وہ لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے حضرت نے ان کو نماز کی دعوت دی جس کی برکت سے وہ نمازی ہوگئے اور اس مسجد میں اذان اورجماعت بھی ہونے لگی اور لوگ تعریفاً حضرت کو مسجد کے نمازیوں کا پیر کہنے لگے۔

حضرت والا کے تقویٰ کی ایک مثال

حضرت کا چونکہ بچپن تھا اس لیے یہ مسئلہ معلوم نہیں تھا کہ نابالغ کی اقتداءمیں نماز نہیں ہوتی اس لیے ان لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے کیونکہ وہ لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ ۰۰۰۲ءمیں جب حضرت والا کو فالج کا حملہ ہوا تو ایک دن خیال ہوا کہ اس زمانے میں جو نمازیں پڑھائی تھیں تو نابالغ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی نماز واجب الاعادہ ہے لہٰذا حضرت والا نے سلطان پور کی اس مسجد کے امام صاحب کو رجسٹرڈ خط بھیجا کہ پچاس سال پہلے جب میں نابالغ تھا تو مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میںنے وہاں کے نمازیوں کی امامت کی ہے ان کی وہ نمازیں واجب الاعادہ ہیں لہٰذا ان میں سے اگر کوئی نمازی زندہ ہو تو اس کو بتا دیں کہ اس زمانے کی نمازوں کو دہرا لیں۔ دس پندرہ دن بعد اسی مضمون کا دوسرا خط بھی رجسٹری سے روانہ فرمایا۔ اب نہ معلوم وہ امام صاحب اور وہ لوگ زندہ بھی تھے یا نہیں لیکن جتنا اختیار تھا وہ حضرت نے استعمال فرمایا۔

وہ مسجد بالکل ویرانے میں تھی اور رات کو دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں آتا تھا حضرت آدھی رات کے بعد اس مسجد میں جا کر تہجد پڑھتے تھے حالانکہ ابھی بالغ بھی نہیں ہوئے تھے۔ حضرت کی والدہ ماجدہ منع فرماتیں کہ اتنی رات کو اکیلے مت جایا کرو۔ حضرت کے والد صاحب چونکہ سرکاری ملازم تھے اس لیے ان کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ سرکاری ملازمت کی وجہ سے بہت سے دوست اور بہت سے دشمن ہوتے ہیں لہٰذا ان کو رات کو اکیلے مسجد میں نہ جانے دیں لیکن حضرت کے والد صاحب نے براہ راست منع نہیں فرمایا بلکہ حضرت نے فرمایا کہ ایک رات کے آخر میں جب میں مسجد سے تہجد پڑھ کے نکلا تو والد صاحب مع چند دوستوں کے مسجد کے باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے اور فرمایا کہ تم میرے ایک ہی بیٹے ہو اور یہاں بہت سے دوست اور بہت سے دشمن ہوتے ہیں لہٰذا تم گھر ہی پر تہجد پڑھ لیا کرو۔ اس کے بعد سے حضرت گھر پر تہجد پڑھنے لگے۔ والد صاحب کے دوست حضرت کو فقیر اور درویش کہتے تھے اور خود والد صاحب نام لینے کے بجائے مولوی صاحب کہتے تھے۔

بچپن ہی میں نامحرم عورتوں سے پردہ کا اہتمام

اسی بچپن کے زمانے میں حضرت نے نامحرم عورتوں سے پردہ شروع کر دیا۔ جب کوئی عورت آتی تو حضرت دوسرے کمرے میں چلے جاتے۔ حضرت کی والدہ صاحبہ کی خدمت میں ایک ہندو عورت آیا کرتی تھی جو پڑوس ہی میں رہتی تھی ایک بار اس نے حضرت کے متعلق پوچھا کہ بھیا کہاں ہیں؟ حضرت کی والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ عورتوں سے پردہ کرتے ہیں تو اس عورت نے کہا کہ اتنا چھوٹا بچہ اور ابھی سے پردہ کرتا ہے میں ان کا پردہ چھڑاوں گی۔ ایک دن حضرت والا مسجد سے نماز پڑھ کر گھر واپس آرہے تھے تو اس عورت نے بہانے سے کہا کہ بیٹا ذرا یہ خط پڑھ کر سنا دو۔ جب حضرت نے خط لینا چاہا تو اس نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ کاہے پردہ کرتے ہو ابھی تو بچے ہو۔ حضرت اس سے ہاتھ چھڑا کر روتے ہوئے گھر آئے اور والدہ صاحبہ سے کہا کہ اب میں گھر سے باہر بھی نہیں جاوں گا۔

حضرت فرماتے ہیں کہ جب میں ذرا اور بڑا ہوا تو قلب خدائے تعالیٰ کے لیے بے چین رہنے لگا رات کی تنہائیوں میں آسمان اور چاند ستاروں کو دیکھ کر بہت سکون ملتا اور دیر تک محبوب حقیقی کی یاد میں مشغول رہتے اور یہاں تک کہ تھک کر سو جاتے اور کبھی آسمان کی طرف دیکھ کر بار بار حق تعالیٰ سے عرض کرتے کہ

اپنے ملنے کا پتہ کوئی نشاں

تو بتادے اے مرے رب جہاں

بچپن کے اسی زمانے میں مثنوی رومی کے چند اشعار پڑھ کر حضرت کو مولانا روم سے محبت ہوگئی اور مثنوی سمجھنے کے لیے فارسی پڑھنا شروع کردیااور مثنوی کے اشعار پڑھ پڑھ کر رویا کرتے اور حضرت کے استاذ جو قرآن شریف پڑھاتے تھے بہت خوش الحان تھے، قرآن شریف پڑھنے کے بعد ان سے مثنوی سنانے کی درخواست کرتے وہ بہت درد ناک آواز سے مثنوی پڑھتے تو دل اﷲ کی محبت میں تڑپ جاتا ۔ رات کی تنہائیوں میں حضرت مثنوی کے اشعار پڑھ کر اﷲ کی یاد میں رویا کرتے خصوصاً یہ اشعار

آہ را جز آسماں ہمدم نبود

راز را غیر خدا محرم نبود

ترجمہ: میری آہ کا سوائے آسمان کے کوئی ساتھی نہیں اور میری محبت کے راز کا سوائے خدا کے کوئی محرم نہیں

سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق

تابگویم شرح از درد ا شتیاق

ترجمہ: اے خدا آپ کی جدائی کے غم میں چاہتا ہوں کہ میرا سینہ پارہ پارہ ہو جائے تا کہ آپ کی محبت کی شرح نہایت درد سے بیان کروں

ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد

او ز حرص وعیب کلی پاک شد

ترجمہ: جس کا سینہ اﷲ تعالیٰ کے عشق سے چاک ہوگیا وہ جملہ امراض باطنی اور اخلاق رذیلہ سے پاک ہوگیا۔

پانچ سال کی عمر میں جبکہ ہوش حواس صحیح نہیں ہوتے اﷲ تعالیٰ کی طرف جذب محسوس ہونا جبکہ جو ان ہونے کے بعد بھی یہ حالات نصیب نہیں ہوتے یہ دلیل ہے کہ حضرت والا اولیاءاخص الخواص میں ہیں اور مادر زاد ولی ہیں ۔

مثنوی شریف کے شوق میں حضرت نے جامع مسجد سلطان پور کے خطیب حضرت مولانا قاری صدیق صاحب سے فارسی پڑھنا شروع کی۔ بہت بعد میں جب حضرت شیخ پھولپوری سے تعلق ہوا اور حضرت شیخ کے مدرسہ بیت العلوم میں داخلہ لیا وہاں حضرت حکیم الامت تھانوی کے مرید مدرسہ میں فارسی کے استاذ تھے ان سے ہی حضرت نے فارسی پڑھی لیکن وہ بہت تیز بولتے تھے جو طلباءکی سمجھ میں نہیں آتا تھا اور طلبہ اساتذہ سے ان کی شکایت کرتے تھے اور بہت سے ان کو چھوڑ کر چلے گئے لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے ہی پڑھا اور ادب کی وجہ سے کبھی ان کی شکایت نہیں کی۔ اس کی برکت ہے کہ جب حضرت نے معارف مثنوی تالیف کی اور ہندوستان تشریف لے گئے اور اپنے استاذ کی خدمت میں معارف مثنوی پیش کی تو انہوں نے فرمایا کہ میرے علاوہ بھی کیا تم نے کسی سے فارسی پڑھی ہے؟ حضرت نے عرض کیا کہ نہیں حضرت آپ کے سوا کسی سے نہیں پڑھی۔

معارف مثنوی پر یا د آیا کہ جب معارف مثنوی چھپی تھی تو مولانا حسین بھیات صاحب رحمةا ﷲ علیہ نے جو اس وقت نیوٹاون کے طالب علم تھے معارف مثنوی حضرت مولانا یوسف بنوری رحمة اﷲ علیہ کو پیش کی اور بتایا کہ یہ کس کی تالیف ہے تو مولانا بنوری رحمة اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اچھا میں دیکھتا تھا کہ حضرت پھولپوری کی خدمت میں ایک نوجوان رہتا تھا، پرانی سی لنگی اور بوسیدہ سا کرتا پہنے ہوئے اشرفی تیل اور معجون بنایا کرتا تھا میں سمجھتا تھا کہ یہ حضرت کا خادم نہیں بلکہ نوکر ہے اور فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ اتنے بڑے عالم ہیں اور معارف مثنوی پر جو تقریظ لکھی اس میں لکھا کہ مولانا حکیم محمد اختر صاحب کی تالیف لطیف معارف مثنوی پڑھ کر مجھ کو موصوف سے اتنی عقیدت ہوئی جس کا میں تصور نہیں کرسکتا تھا اور ایک بار حضرت اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمة اﷲ علیہ کے ساتھ حضرت بنوری رحمةا ﷲ علیہ کی خدمت میں تشریف لے گئے اور مولانا کو معارف مثنوی پیش کی جس کے آخر میں حضرت کی فارسی مثنوی بھی ہے۔ حضرت کی مثنوی کے چند اشعار پڑھ کر مولانا بنوری نے فرمایا ” لاَ فَرقَ بَینَکَ وَبَینَ مَولاَ نَا رُومٍ“ یعنی آپ میں اور مولانا روم کے کلام میں کوئی فرق نہیں ۔اور اسی زمانے میں ایران کے ایک بہت بڑے عالم نے حضرت کی فارسی مثنوی پڑھ کر تحریر فرمایا کہ ” ہر کہ مثنوی اختر را بخواند او را مثنوی مولانا روم پندارد، حقا کہ مولانا حکیم محمد اختر صاحب رومی عصر اند“ یعنی جو بھی مثنوی اختر کو پڑھتا ہے اس کو مثنوی مولانا روم سمجھتا ہے بے شک مولانا حکیم محمد اختر صاحب اس زمانے کے رومی ہیں۔

معارف مثنوی ایک بالکل منفرد شرح ہے جو محض لفظی ترجمہ نہیں بلکہ حضرت رومی کے منتشر اور وسیع علوم کو جمع کرکے دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے جس میں حضرت والا کی آتش عشق اور درد دل سے ایک منفرد اور دل آویز اسلوب بیان دلوں میں اﷲ کی محبت کی آگ لگا دیتا ہے۔ معارف مثنوی کے متعلق بعض امتیازی خصوصیات حضرت والا نے ترجمة المصنف میں خود تحریر فرمائی ہیں وہ یہاں افادہ قارئین کے لیے پیش ہیں۔

معارف مثنوی کے متعلق چند ضروری معلومات اور امتیازی خصوصیات

(۱)حصہ اول حکایات ناصحانہ، حصہ دوم منظومات حکیمانہ، حصہ سوم مناجات متضرعانہ پر مشتمل ہے۔

(۲) حصہ اول میں ضروری ضروری اور نہایت مفید حکایات کا انتخاب اس طرز پر کیا گیا ہے کہ ہر حکایت کو مع اس کے مفید نتائج ونصائح مکمل کر دینے کے بعد دوسری حکایت کا آغاز کیا گیا ہے جبکہ حضرت رومی کے زمانہ سے لے کر آج تک سات سو برس کے اندر اس انداز کا کوئی انتخاب مع شرح منصہ شہود پر نہ تھا۔ چنانچہ سابقہ تمام شروح میں ایک حکایت کے اندر متعدد حکایات داخل ہوجانے سے ان کو سمجھنے اور ان سے سبق حاصل کرنے میں بہت دقت اور دماغی تعب ہوتا تھا نیز وقت بھی بہت لگتا تھا حکایات کے اندر جگہ جگہ احقر کے اشعار اور مثنوی کی تضمین نے حکایات کو مزید پر لطف وپر کیف کردیا ہے اور انداز بیان سے ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ یہ لفظی ترجمہ نہیں بلکہ خود اپنا مستقل طرز تحریر ہے جو حضرت شیخ پھولپوری رحمة اﷲ علیہ کی غلامی کے صدقہ میں محض عطاءحق ہے اور جس کے لطف سے میرے اہل علم احباب بہت محظوظ اور متاثر اور مسرور ہیں۔

(۳) حصہ دوم میں مختلف عنوانات کے تحت مثلاً صبر۔ شکر۔ عشق۔ تواضع۔ اخلاص۔ ادب۔ خشیت وتقویٰ۔ شہوت ۔ غصہ تکبر وغیرہ جیسے تمام ضروری مضامین پر اشعار کا انتخاب مع شرح اس زاویہ نظر سے کیا گیا ہے کہ علمائے واعظین کو اپنی تقاریر کے لیے اور مشایخ طریقت کو اپنی مجالس ارشاد کے لیے اور مصنفین کو اپنی تصانیف کے لیے ہر مضمون پر قلیل وقت میں بآسانی مواد فراہم ہوجائے جبکہ سابقہ شرحوں میں ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار سے ان اشعار کا تلاش کرنا بے حد مشکل تھا۔

(۴)تیسرے حصہ میںمولانا رومی رحمة اﷲ علیہ کی مناجات اور دعائیہ اشعار کو مع شرح تحریر کیا ہے تاکہ ہر روز عاشقان الٰہی مولانا کی زبان سے دعا مانگ کر اپنی آہ کو مولانا کی آہ کے طرز پر حق تعالیٰ تک رسا کر سکیں۔

(۵) سالکین کی نشاط طبع کے لیے احقر نے اپنی فارسی مثنوی کے اشعار جو مختلف دینی مضامین پر مشتمل ہیں منسلک کر دئیے ہیں۔ غرض احقر کے درد دل نے کہیں نثر کی صورت اختیار کر لی ہے کہیں نظم کی بعض دوستوں نے احقر کے یہ فارسی اشعار رومی کے سمجھ کر اپنے پاس نوٹ کرلیے بعد میں احقر نے ان کو بتایا کہ یہ اشعار مولانا رومی کے نہیں احقر کے ہیں اس لیے بعض دوستوں کا اصرار اورتمنا تھی کہ ان اشعار کو شائع کردیا جائے جکہ بہت سے طبائع کے لیے یہ مزید باعث نشاط وسرور ہوگا۔

(۶) اس معارف مثنوی کے مطالعہ سے ناظرین خود اس فیصلہ پر مجبور ہوں گے کہ حضرت رومی رحمة اﷲ علیہ کے وصال سے آج تک سات سو برس کے اندر ایسی شرح اور ایسا انتخاب نہ ہوا تھا۔

ذٰلِکَ مِمَّا خَصَّنِیَ اﷲُ تَعَالٰی بِفَضلِہ وَرَحمَتِہ رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا

اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیعُ العَلِیمُ

مثنوی مولانا روم سے حضرت والا کا شغف سارے عالم میں معروف ہے چنانچہ رمضان المبارک ۸۱۴۱ھ مطابق ۸۹۹۱ءمیں تقریباً آٹھ ملکوں کے علماءخانقاہ میں تشریف لائے اور انہوں نے درس مثنوی کے لیے حضرت والا سے درخواست کی ۔ چنانچہ روزانہ بعد فجر حضرت والا نے مثنوی کا درس دیا جو ”آشوب وچرخ وزلزلہ“ کا مصداق تھا ایک ایک لفظ عشق ومستی میں ڈوبا ہوا لیکن عشق کی یہ تیز و تند شراب جام سنت وشریعت میں محصور تھی، مجال نہیں کہ عشق و مستی حدود شریعت سے باہر قدم رکھ دے جس سے علماءکو وجد آیا۔ الحمد ﷲ یہ درس، درس مثنوی مولانا روم کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور الحمد ﷲ اس کے لیے ایک بشارت عظمیٰ بھی ہے ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صاحب سے خواب میں فرمایا کہ درس مثنوی بہت اچھی کتاب ہے تم یہی پڑھا کرو۔

اور مثنوی کے متعلق حضرت والا کی تیسری تالیف فغان رومی ہے جس میں مثنوی کے دعائیہ اشعار کی والہانہ، عاشقانہ اور الہامی تشریح ہے اور یہ بھی درس ہے جو ری یونین سے آنے والے علماءاور سالکین کے محضر میں دیا گیا۔
Flag Counter