Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ - اپریل ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

8 - 12
دین اسلام کامل ترین نظام حیات ہے !
دین اسلام کامل ترین نظام حیات ہے


”بینات،، کے چند مسلسل اعداد میں راقم الحروف نے علماء امت کی خدمت میں جو گذارش کی تھی، اس کا حاصل یہ تھا کہ ”دین اسلام،، کامل ترین نظام حیات ہے۔ ہر عصر کے لئے صالح نظام ہے اور ہر مشکل کا علاج اس میں موجود ہے۔ قرآن کریم وسنت نبویہ دو ایسے سرچشمے ہیں جن کا آبِ حیات قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے حیات بخش ہے اور قیامت تک پیدا ہونے والے امراض کے لئے نسخہ ٴ شفا ہے، انہی دو چشموں سے ”اجماع امت،، اور ”قیاس فقہی،، کی نہریں جاری ہوئی ہیں اور اس طرح سے کتاب وسنت یا قرآن وحدیث اور اجماع امت وقیاس سے فقہ اسلامی وجود میں آئی اور اسلامی قانون مدون ہوا ہے اور فقہاء امت کی مساعئی مشکورہ سے ہزاروں ، لاکھوں مسائل قرآن وحدیث کی روشنی میں مرتب ہوگئے ہیں۔
فقہاء امت نے انہی اسلامی مآخذ کی روشنی میں ہر دور کے نئے مسائل کو حل کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ابدی اور محکم ہے، ہر مرض کی دوا اس میں مل جاتی ہے۔ جس طرح ہمارے سلفِ صالحین نے اپنے اپنے زمانے میں جدید واقعات ومسائل کا حل تلاش کیا اور امت کی رہنمائی کی اور امت کو گمراہی سے بچایا، ٹھیک اسی طرح آج یہ فریضہ عہدِ حاضر کے علماء کے ذمے عائد ہوتا ہے کہ جدید تمدن سے جو جدید صورتِ حال رونما ہوئی ہے، اس کے پیشِ نظر مدون ومرتب ذخیرہ کی روشنی میں ان نئے مسائل کا حل معلوم کرکے جدید نسل کو گمراہی سے بچائیں اور ایک دفعہ پھر اس تاریخی حقیقت کو باور کرائیں کہ دینِ اسلام اور قانونِ اسلامی ہرزمانے کے لئے کافی وشافی ہے اور یہ کہ فقہاء اسلام کی کوششوں سے جو کچھ مرتب ہوا، یہ ہمارا قیمتی سرمایہ ہے۔ امت کبھی اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ اس خیال کے تجزیہ سے بات نہایت یہ واضح ہے کہ جو کچھ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں منصوص احکامِ شرعیہ آگئے ہیں ،وہ امت کے لئے ہرحالت میں واجب الاطاعت ہیں اور ہمارے اجتہاد کے دائرے سے بالاتر ہیں۔ اور اگر احادیث میں کچھ تعارض ہے یا قرآن کریم کی دلالتِ قطعی موجود نہیں ہے تو فقہاء امت اور محدثین کرام نے انہی مشکلات کے تصفیہ کے لئے اصولِ فقہ اور اصول حدیث کے علوم وفنون تدوین کئے ہیں ،اور وہ مسائل وابحاث دائرہ فقہ میں آجاتے ہیں۔ الغرض دین کے احکام تین قسم کے ہیں:۱…احکامِ مخصوصہ اتفاقیہ۔۲…احکام اجتہادیہ اتفاقیہ۔۳…احکام اجتہادیہ خلافیہ۔
پہلی دوقسموں میں جدید اجتہاد کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ تیسری قسم میں بھی اجتہاد کی ضرورت نہیں سمجھتا، البتہ اتنی گنجائش ہے کہ اگر مذہب حنفی میں واقعی دشواری ہے اور امت محمدیہ واقعی تیسیر اور تسہیل کی محتاج ہے اور اعذار بھی صحیح وواقعی ہیں، محض وہمی وخیالی نہیں ہیں تو دوسرے مذاہب پر عمل کرنے اور فتویٰ دینے کی گنجائش ہوگی اور ضرورت کس درجہ میں ہے اور ہے بھی یا نہیں، یہ صرف علماء وفقہاء کی جماعت طے کرے گی۔چوتھی قسم مسائل کی وہ ہے جو جدید تمدن نے پیدا کئے ہیں اور سابقہ فقہ اسلامی کے ذخیرہ میں اس کا ذکر نہیں ہے، نہ نفیاً نہ اثباتاً۔ ان مسائل میں ان جدید تقاضوں کو پورا کرنا اور ان مشکلات کو حل کرنا دورِ حاضر کے علماء کا فریضہ ہے ،یعنی یہ کہ وہ ان مسائل کا قیاس واجتہاد سے قدیم ذخیرہ کی روشنی میں فیصلہ کریں، ان علماء میں حسب ذیل شرائط ہوں:
۱…اخلاص،۲…تقویٰ،۳…قرآن وحدیث وفقہ اسلامی میں مہارت ووسعت، ۴…دقتِ نظر وذکاوت، ۵…جدید مشکلات کے سمجھنے کی اہلیت۔
ان صفات کے ساتھ شخصی فیصلہ نہ کیا جائے، بلکہ ان صفات پر متصف جماعت ہو، اور ان کے فیصلہ سے مسائل ِ حاضرہ حل کئے جائیں۔ بہرحال قرآن کریم حجت ہے، احادیث ِ نبویہ اور سنتِ نبویہ دین کی اہم بنیاد ہے، تعامل علماء امت واجماع امت شرعی حجت ہیں۔ فقہاء کرام کے اجتہادی مسائل واجب العمل ہیں، ظاہر ہے جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اجتہاد جدید کی ضرورت ہے یعنی سارا دینِ اسلام کا قدیم ڈھانچہ بدل کر جدید ڈھانچہ تیار کیا جائے یا منصوص اجماعی ومتفق علیہ مسائل کو از نو زیر بحث لایاجائے اور قانونِ اسلامی کے متفقہ مسائل سے خلاصی کی راہ ڈھونڈ نکالیں اور یہ سب کچھ صرف اس لئے کہ عصر حاضر کی خواہشات وتقاضے سابقہ کوششوں سے پورے نہیں ہوتے، اگر کوئی صاحب یہ خیال قائم کریں تو کتنا غلط اور غیر واقعی خیال ہوگا۔ ”سبحانک ہذا بہتان عظیم،، بہرحال میرا یہ منشا قطعاً نہیں کہ فیصلہ شدہ مسائل جو عہد نبوت سے آج تک مسلمہ ہیں اور امت محمدیہ ان پر عمل پیرا ہے خواہ قرآن کریم کی تصریحات سے ہیں یا احادیث نبویہ میں فیصلہ شدہ ہیں یا فقہاء امت نے طے کر لئے ہیں، ان میں ترمیم کی گنجائش ہے یا تبدیلی کا امکان! یہ سب فرق مراتب کے باوجود عملی حیثیت سے سب کے لئے واجب الاطاعت ہیں۔ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب ڈائریکٹر ادارہ ٴ تحقیقات اسلامی کراچی نے اپنی تائید میں میرا جو حوالہ پیش کیا ہے، مجھے اس پر تعجب ہے۔ ڈاکٹر صاحب بینک کے سود کو جائز قرار دیتے ہیں اور موجودہ معاشرے کے لئے بے حد ضروری خیال کرتے ہیں، حالانکہ سود کے جملہ اقسام کی حرمت دین اسلام کا مسلمہ قانون ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ علماء امت دوبارہ اس مسئلہ پر غور کرکے ان کی تائید وتصدیق کردیں گے۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب کے خیال کا دار ومدار ہی اس حقیقت پر ہے کہ انہوں نے حرمتِ ربا کی احادیث نبویہ کو قطعاً نظر انداز کردیا ہے اور حضرت رحمت عالم رسول اللہ ا کی تعلیمات اور قرآن دانی اور منصب نبوت سے سراسر ناواقفیت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ مضمون لکھ کر انہوں نے اپنی ناواقفیت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے ،جس کی تفصیل وتحقیق ڈاکٹر صاحب ہی کی تعمیل حکم کے پیش نظر عنقریب پیش کی جائے گی اور ان کی جدید تحقیق کا تجزیہ کرکے دکھلایا جائے گا کہ ڈاکٹر صاحب سنت نبویہ اور سنت جاہلیہ کی حدود بھی متعین نہ کرسکے۔ ڈاکٹر صاحب احادیث نبویہ کو ایک حدیثی تحریک کی حیثیت ہی سے جانتے ہیں جو بعد کی پیداوار ہے، وہ اس کی تشریعی حیثیت کے بالکل منکر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مجلہ ”فکر ونظر،، میں جو اپنے مضامین شائع فرمارہے ہیں، ان سے یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ ان کے اصول موضوعہ کے پیش نظر دین اسلامی کے اساسی مسائل سب زیر بحث آسکتے ہیں، نماز، روزہ،زکوٰة، حج، شراب، زنا، سود سب میں تأویل وتحریف کرکے اچھاخاصا اسلام کا جدید ڈھانچہ تیار ہوسکتا ہے اور شاید جدید معاشرے کے لئے یا اسلام کے جدید ایڈیشن کی تیاری کی تدبیر ہو رہی ہے،قرآن کریم کے متن کی تشریح کے لئے اگر تعلیمات نبوت سے روشنی حاصل نہ کی جائے تو پورے کفر کا دوسرا نام اسلام ہوسکتا ہے، جیساکہ آج تک ہر دور کے ملاحدہ باطنیہ کرتے رہے، پھر مسٹر پرویز کرتے رہے اور یہی کام خاکسار تحریک کے بانی نے کیا، کیونکہ خاکسار تحریک کی بنیاد بھی اسی انکار حدیث پر تھی اور نبی کریم ا کی اطاعت بحیثیت امیر کے مانتے تھے ،نہ بحیثیت نبوت،، اس لئے ان کے نزدیک وفات کے بعد پیغمبر کے اقوال واجب الاطاعت نہیں رہتے، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں، ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
”آنحضرت اساسی طور پر بنی نوع انسان کے اخلاقی مصلح تھے، وقتاً فوقتاً کچھ انفرادی فیصلوں کو چھوڑ کر جن کی حیثیت محض ہنگامی واقعات کی ہوتی تھی، آپ نے اسلام کی ترقی کے لئے بہت ہی کم عام قانون سازی کی طرف توجہ فرمائی ہے، خود قرآن مجید میں بھی اسلامی تعلیمات کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے ،جس کا تعلق عام قانون سازی سے ہے، الخ،،۔
ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے۔
”آنحضرت ا جو وقت ِ وفات تک اہلِ مکہ اور عرب کی اخلاقی اصلاح کی شدید جد وجہد میں مصروف اور اپنی قومی ریاست کی تنظیم میں مشغول رہے، ان کو اتنا وقت ہی نہ مل سکتا تھا کہ وہ زندگی کے جزئیات کے لئے قوانین مرتب فرماتے الخ،،۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق ہے۔
”کہ اوقات ِ نماز اور ان کی جزئیات کے بارے میں آنحضرت ا نے امت کے لئے کوئی غیر لچکدار اور جامد انداز نہیں چھوڑا۔ ”یعنی لچکدار انداز چھوڑا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تائید میں اپنے فہم کے مطابق موطأ مالک کی پہلی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں صراحتاًپانچ نمازیں آپ نے پڑھی ہیں، لیکن اس میں راوی نے پانچ اوقات کی تصریح نہیں کی، حالانکہ دوسری روایات میں ان پانچ وقتوں کی تصریح بھی آگئی ہے، جہاں تک ڈاکٹر صاحب کی نگاہ نہیں پہنچی، بلکہ خود اسی روایت میں ”وقت الصلوٰة،، کا ذکر ہے۔ آگے خود موطأ مالک ہی میں فجر،، ظہر عصر، مغرب، عشاء سب ہی اوقات کی احادیث موجود ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب کی تحقیق ملاحظہ ہو:
”بعد ازاں حدیث میں جب کبھی نماز پر زور دیا جاتا ہے تو ”صلوٰة،، کے ساتھ ”علی میقاتہا،، بھی شامل کردیا جاتا ہے یعنی نماز اپنے صحیح وقت میں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نمازوں کے لئے ایک معیاری وقت قائم کرنے کی مہم چلائی گئی تھی،،۔ (مجلہ فکر ونظر شمارہ نمبر ۱ جلد نمبر ۱)
دیکھا آپ نے کس صفائی کے ساتھ اب اعتراض فرمایا گیا کہ پانچ نمازیں بعد کی پیداوار ہیں، گویا نہ نبی کریم ا نے پانچ نمازیں پانچ اوقات میں پڑھی ہیں نہ حکم دیا ہے۔ انا للہ۔ جب ڈاکٹر صاحب کی تحقیقات یہاں تک بے نقاب ہوکر آگئیں تو آئندہ کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔
قیاس کن ز گلستان من بہار مرا
ڈاکٹر صاحب نے مجلہ ”فکر ونظر،، کے تین اعداد وشمار میں تقریباً ستر صفحات کا جو مضمون تحریر فرمایا ہے، وہ سب اسی انداز کا ہے، اس سے چند جملے بلاتبصرے کے پیش کئے گئے ،تاکہ ناظرین مفصل تبصرے کے انتظار میں زیادہ زحمت نہ اٹھائیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کافی عرصہ قبل یہ ”بارود،، تیار کر رکھی تھی، جو اب دفعتاً موصوف نے چھوڑ دی، نہ معلوم ڈاکٹر صاحب کے بارود خانہ میں تباہ کاری کے اور کتنے سامان پنہاں ہیں، یہ تو محض بسم اللہ ہے، یہ ہے پاکستان کا مرکزی ادارہ ٴ تحقیقات اسلام !! شاباش زندہ باد! ادارہ تحقیقات اسلام! ہم تو ایک پرویز کی مرثیہ خوانی کررہے تھے، کیا معلوم تھا کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے
اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو صحیح اسلام اور اسلامی حقائق کی صحیح فہم عطا فرمائے اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے کوئی غیبی سامان فرمائے۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۱ھ - اپریل: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: صحابہ کرام  کی نبی کریم ﷺسے محبت !
Flag Counter