Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ - اپریل ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

10 - 12
تصویر شیخ !
تصویر شیخ


دنیائے تصوف کے سالکین کو منزل مقصودتک پہنچنے کے لئے مختلف ریاضتوں ،مجاہدوں اور مشقوں سے واسطہ پڑتا ہے، انہی مشقوں میں تصور شیخ بھی شامل ہے، جس سالک کی استحضاری اور تصوراتی قوت مضبوط ہو، اسے ان مراحل میں رسوخ کے ساتھ پیش قدمی نصیب ہو تی ہے ،اس تصور کی صفائی اور پختگی جہاں سلوک کے لطیف مراحل کے لئے لطیف زینے کا درجہ رکھتی ہے، وہاں اس کے ظاہری اثرات بسا اوقات عالم بصارت میں مادی آنکھوں سے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
یہ مظاہر، سالک کی عادات و اطوار ، اخلاق و آداب ، کردار واعمال سے لے کر شکل و شباہت تک دیکھے جاسکتے ہیں ، جو سالک اپنے تصور میں پایہٴ کمال کے جتنا قریب ہوگا ،اتنا ہی یہ مظاہر اس کے وجود پر ظہور پذیر ہوں گے۔چنانچہ جن لوگوں نے شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کو دیکھا ہے یا ان سے تلمذ، ارادت ، بیعت اصلاح یا قربت کا تعلق انہیں نصیب ہوا ہے وہ بخوبی بتا سکتے ہیں کہ حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کے متوسلین اور مریدین نے اپنے اپنے ظرف کی وسعت کے مطابق مقدور بھر استفادہ کیا ،آپ کاتربیت یافتہ اورہر ایک مجاز ایک نہر جاری بن کر دنیا کو فیض یا ب کرتا رہا ۔
حضرت لدھیانوی شہید رحمة اللہ کے خلفاء میں سے اگر صرف۳ ہستیوں کی دینی، تعلیمی ، تربیتی اور غلبہٴ اسلام کے لئے تحریکی خدمات کو پیش نظررکھ کر یہ کہا جائے کہ امت مسلمہ کا یہ ایک ایک فرد ایک پوری جماعت کا کردار ادا کرتاتھا تو بے جا نہ ہوگا۔
یہ تین ہستیاں جنہوں نے حضرت لدھیانوی شہید کے ساتھ عقیدت و احترام سے ارادت و بیعت تک اور اجازت و خلافت سے برزخ کے دروازے ( قبر ) یعنی آخرت کی پہلی منزل تک اپنے شیخ کے نقش پا کی بھر پور پیروی کی، بلکہ شیخ کا روپ اختیار کرنے کے لئے اپنے جسموں کو اپنے خونوں سے رنگین کرتے ہوئے دنیائے اسلام کو ہمت و شجاعت اپنی منزل اور مشن پر ثابت قدم رہنے کا سبق دے گئے۔
حکیم العصر حضرت لدھیانوی شہید کے قصر خلافت کے جانشینوں میں امام المجاہدین حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید اور حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید رحمہم اللہ تین ایسی ہستیاں تھیں جو انسانی کمال کی معراج کو چھوچکے تھے، ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں ایک ادارہ، ایک انجمن بلکہ ایک امت و جماعت کا مصداق تھا۔ہر ایک نے اپنے اندر حضرت لدھیانوی شہید کی جامعیت کو جذب کرکے متابعت شیخ کی قابل تقلید مثال قائم کی تھی۔
حضرت لدھیانوی شہید کے بعد ان کے پہلے دو خلفاء میں اپنے شیخ کی ہر نوع متابعت کے مظاہر دیکھنے والوں نے خوب دیکھے ، یہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کا نتیجہ ہے کہ صلحأ کے صلحأ پسماندگان کو ان کے ساتھ ملا دیتے ہیں ( والحقنا بہم ذریتہم) اسی حسن الحاق کا تازہ منظر ہمار ے مخدوم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اہم راہنما ہفت روزہ” ختم نبوت “اور ماہنامہ” بینات کراچی “کے مدیر، گلشن بنوری کے نامور سپوت حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید رحمة اللہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
حضرت لدھیانوی شہید ،گلشن بنوری میں مراد بن کے آئے ،دنیا ان کی مرید ہوئی ۔حضرت جلال پوری شہید بھی حضرت لدھیانوی کی شہادت کے بعد ان کے منصب پر مراد بن کے آئے۔ خلق خدا ان کے حلقہ ارادت میں آئی۔ حضرت لدھیانوی کے قلم میں اللہ تعالیٰ نے باطل کے دفاع کی بے پناہ قوت رکھی تھی، آپ کے قلم کازور اپنے حسن کے ساتھ حضرت جلال پوری کے حصے میں آیا ، حضرت لدھیانوی کا ناصحانہ و واعظانہ انداز بھی حضرت جلال پوری کی نصیحت و وعظ میں منعکس ہوا تھا۔ حضرت لدھیانوی کی علمی و عملی جو لا نگاہ اصلاح و ارادت، بنوری ٹاوٴن اور بینات سے لیکر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تک پھیلی ہوئی تھی۔حضرت جلالپوری شہید کا وظیفہٴ زندگی بھی یہی مشاغل رہے۔
حضرت لدھیانوی کو تحفظ ختم نبوت اور عوام پر گہرے دینی اثر و رسوخ کی پاداش میں جام شہادت پلایا گیا اور حضرت جلال پوری بھی اسی دینی فریضہ کی بجا آوری کے ”مجرم “قرار پائے اور ۲۵ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ بمطابق ۱۱ مارچ ۲۰۱۰ء کی شب حضرت لدھیانوی اور ان کے پہلے دو خلفاء کے پہلو میں ہفتہ وار مجلس ذکر سے فراغت کے بعدواپسی پر خاتم النبین مسجد گلشن لدھیانوی سے چندگزکے فاصلے پر تقریباً ۴۵:۹ بجے شب اپنے صاحبزادے حذیفہ، مولانا فخر الزمان اور مرید خاص بھائی عبدالرحمٰن (آف سری لنکا) کے ہمراہ شہید کر دیئے گئے۔ قدرت ایزدی نے ان کا خمیر چونکہ وہیں سے اٹھا یا تھا، جہاں سے حضرت لدھیانوی کاخمیرہ اٹھایا تھا۔ اس لئے وہیں پر جا کر حضرت لدھیانوی اور ان کے قافلہٴ شہداء میں اسی طرح شامل ہو گئے جس طرح زندگی میں علم و عمل کا ایک قافلہ کسی زمانے میں شاد باد تھا۔
اس لئے یہ کہا جاسکتاہے کہ تصور شیخ کی پختگی کے ساتھ نما یاں طور پر تصویر شیخ کے مظہر و منظر کی جہاں بھی مثال پیش کی جائے گی، وہاں حضرت لدھیانوی اور حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری رحمہما اللہ کی مثال بھی نمایاں ہوگی۔خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۱ھ - اپریل: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: آفتاب علم و عمل غروب ہوگیا !
Flag Counter