Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ - اپریل ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

11 - 12
حضرت مولانا سعید احمد جلال پوریاور آپ کے رفقاء کی شہادت !
حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری اور آپ کے رفقاء کی شہادت!


۱۱/مارچ ۲۰۱۰ء بعد از عشاء گلزار ہجری کالونی نزد مسجد خاتم النبیین کراچی میں مولانا سعیداحمد جلال پوری اپنے تین رفقاء سمیت شہید کردئیے گئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون!
حضرت مولانا سعیداحمد جلال پوری کے والد گرامی کا نام شوق محمدصاحبتھا۔ یہ جام برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ جلال پور پیروالا تحصیل شجاع آباد ضلع ملتان میں ایک موضع کا نام نورا جابھٹہ ہے۔ جام شوق محمدصاحب اس موضع کے نمبردار تھے۔ آپ حضرت مولانا محمدعبدالله بہلوی سے بیعت تھے اور اپنے دور کے تمام معروف صوفیائے کرام وبزرگان عظام کے خوشہ چین تھے۔ جام شوق محمدصاحب کے گھر میں ۱۹۵۶ء میں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام سعید احمد رکھا گیا۔ جو بعد میں مولانا سعیداحمد جلال پوری کے نام سے جانے پہچانے گئے۔
مولانا سعیداحمد جلال پوری نے ابتدائی تعلیم گھر کے قریب مولانا عطاء الرحمن ومولانا غلام فرید سے حاصل کی۔ ۱۹۷۱ء میں مدرسہ انواریہ حبیب آباد میں داخل ہوئے۔ مدرسہ انواریہ حضرت مولانا حبیب الله گمانوی کا قائم کردہ ہے۔ مولانا گمانوی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری کے شاگرد تھے اور بہت بڑے عالم تھے۔ اتنے بڑے عالم کہ حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری نے ایک بار ان سے ملاقات کے لئے گمانی بستی طاہروالی نزد چینی گوٹھ کا سفر کیا۔ مولانا حبیب الله نے اپنے شیخ سید محمد انور شاہ کشمیری کے نام پر مدرسہ انواریہ قائم کیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں مولانا سعیداحمد جلال پوری یہاں پڑھتے رہے۔ حضرت مولانا منظور احمد نعمانی اور ان کے شاگرد مولاناقاری الله بخش بھی یہاں مدرس تھے۔ مولانا جلال پوری نے ابتدائی کتب کی ایک سال یہاں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۴ء تک تین سال گویا ثانیہ سے رابعہ تک کی تعلیم مولانا سعید احمد جلال پوری نے مدرسہ احیاء العلوم ظاہر پیر میں استاذالعلماء حضرت مولانا منظور احمد نعمانی سے حاصل کی۔
(طاہروالی اور ظاہرپیر کے دونوں اساتذہ کا نام منظور احمد نعمانی تھا۔ طاہروالی والے مولانامنظور احمد کا انتقال ہوگیا ہے۔ بہت بڑے عالم دین تھے۔ معقول ومنقول کے نامور استاذ تھے۔ مولانا منظور احمد نعمانی ظاہرپیر والے بھی بہت ہی فاضل یگانہ عالم دین ہیں۔ زندہ سلامت ہیں۔ الله تعالیٰ انہیں سلامت باکرامت رکھیں۔)
۱۹۷۵ء میں مولانا سعیداحمد جلال پوری دارالعلوم کبیروالا میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ۱۹۷۶ء اور ۱۹۷۷ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں پڑھتے رہے اور یہیں سے دورہ حدیث شریف مکمل کیا۔ کراچی بورڈ سے میٹرک، ایف اے اور فاضل عربی کے امتحان پاس کئے۔
جامعة العلوم الاسلامیہ کی شاخ مدرسہ معارف العلوم پاپوش نگر کے نگران اور مدرس رہے۔ جامعة العلوم الاسلامیہ میں ابتدائی مدرس بھی رہے۔ اس زمانہ میں جامعة العلوم الاسلامیہ کے ترجمان ماہنامہ بینات کے مدیر حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی تھے۔ جامعہ ہی کی طرف سے مولانا سعید احمد جلال پوری کو بینات کے کام کے لئے مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا معاون مقرر کیا گیا۔ تب حضرت لدھیانوی کا جامعہ کے دارالافتاء کے ساتھ والے کمرہ میں دفتر قائم تھا۔ مولانا منظور احمد الحسینی، مولانا سعید احمد جلال پوری دونوں حضرات کی جوڑی بھی یہاں بنی۔ تب بینات کا کام مولانا سعید احمد جلال پوری اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا کام مولانا منظور احمد الحسینی حضرت لدھیانوی کی زیر سرپرستی انجام دیتے تھے۔
حضرت مولانا حبیب الله مختار کے دور اہتمام میں جب جامعہ میں ایک ایک کلاس کے کئی کئی سیکشن بنے تو حضرت مولاناخواجہ خان محمدصاحب دامت برکاتہم کے حکم پر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں اپنا دفترقائم کیا۔ تصنیف وتالیف، دارالافتاء، ختم نبوت، بینات، تمام شعبوں کا کام یہاں ہونے لگا۔ مولانا سعیداحمد جلال پوری کو بھی حضرت لدھیانوی کی بغل میں نشست مل گئی۔ اب مولانا سعیداحمد جلال پوری کے شب روز حضرت لدھیانوی کی زیر تربیت گزرنے لگے۔ الله رب العزت گواہ ہے کہ مولانا جلال پوری نے اپنے شیخ کی اطاعت میں بھی وہ کمال دکھایا کہ اگر اس مجاہدہ پر کوئی ڈگری جاری کی جاتی ہوتی تو مولانا پی ایچ ڈی کے اعزاز کے مستحق تھے۔ اپنے شیخ کے چشم و ابرو کے اشارہ پر اس طرح سراپا تعمیل ہوتے کہ رشک آتا تھا اور حضرت لدھیانوی نے بھی جس اعتماد وشفقت کا معاملہ کیا۔ اسے دیکھ کر بھی اب منکشف ہوتا ہے کہ دونوں طرف سے یعنی طلب ورسد دونوں میں کوئی کمی نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت لدھیانوی نے جام شہادت نوش کیا تو بلاشرکت غیرے اور بغیر کسی اختلاف کے سب نے حضرت شہید کی مسند پر مولانا سعید احمد جلال پوری کو مسند نشین بنادیا۔ خوب یاد ہے کہ فقیر اس مجلس میں موجود تھا جس میں حضرت قبلہ سید نفیس الحسینی صاحب  نے مولاناجلال پوری کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ حضرت شیخ الہند کی نسبت، خدمت و اطاعت کے باعث الله تعالیٰ نے حضرت مدنی میں منتقل فرمادی تھی۔ مولانا جلال پوری نے وارفتگی کے عالم میں عرض کیا کہ: حضرت میرے لئے بھی دعا فرمادیں کہ ایسے ہو جائے۔ شاہ صاحب نے فرمایا: مولوی صاحب ایسے ہوچکا۔ یہی تو کہہ رہا ہوں۔ زہے نصیب جلال پوری۔پھر دنیا نے دیکھا کہ فتنوں کے تعاقب، قادیانیت کے استیصال، درس وتدریس، وعظ وتبلیغ، ذکر وفکر، خانقاہ ومدرسہ، جامعہ ودارالافتاء، ماہنامہ بینات، ہفت روزہ ختم نبوت، مجلس تحفظ ختم نبوت مرکز ملتان و کراچی و لندن، حج وعمرہ، اعتکاف وخطابت، قبولیت وہردلعزیزی میں محبوبیت کے ہر زینہ پر اپنے شیخ حضرت لدھیانوی کی سی جامعیت وپرتو کا مظہر اتم مولانا سعیداحمد جلال پوری بن گئے۔
علامہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے مسلم کی شرح فتح الملہم لکھنی شروع کی۔ نامکمل رہ گئی۔ مولانا تقی عثمانی نے تکمیل فرمادی۔ شیخ الاسلام حضرت بنوری نے ترمذی کی شرح لکھنی شروع کی۔ نامکمل رہ گئی تو اہل علم حضرات نے کہا کہ :مولانا عثمانی صاحب کو مولانا تقی مل گئے۔ حضرت بنوری کی شرح کے لئے کوئی تقی مل نہ سکا۔ بعینہ یہی کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا مفتی محمدجمیل خان کے خلاء کو پر کرنے کے لئے تو مولانا سعید احمد جلال پوری مل گئے۔ اب مولاناجلال پوری کے خلاء کو کون پر کرے گا؟ تاریخ ہی اس کا فیصلہ کرے گی۔ ابھی تو تصفیہ طلب ہی ہے۔
مولانا سعید احمد جلال پوری جب حضرت لدھیانوی کی زیرنگرانی جامعة العلوم الاسلامیہ میں واقع حضرت لدھیانوی کے دفتر میں کام کررہے تھے، تب ۱۴۰۰ھ میں فقیر نے بحری جہاز سے حج کا سفر کیا۔ اس زمانہ میں مولانا سعیداحمد جلال پوری سعودی عرب میں تقسیم کے لئے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے خلاف ایک ہینڈبل عربی میں لکھا ہوا دینے کے لئے سی پورٹ پر تشریف لائے۔ پھر تو پاکستان، برطانیہ، حجاز مقدس، سری لنکا، کئی اسفار میں ساتھ رہا۔ عمرکے علاوہ باقی ہر بات میں بڑے وہ تھے۔ اتنے بڑے کہ ان کی گرد راہ کو فقیر نہیں پاسکتا۔ ۲۰/فروری سے ۲۷/فروری۲۰۱۰ء تک کے فقیر کے کراچی میں پروگرام تھے۔ ان پروگراموں میں ساتھ رہا۔ منظورکالونی مسجد مریم میں حضرت حافظعبدالقیوم نعمانی صاحب کے ہاں ختم نبوت کا جلسہ تھا۔ مولانا سعیداحمد جلال پوری نے فقیر سے قبل بیان کیا۔ آخر میں فقیر کا اعلان کیا۔ وہ قدرے طویل تھا۔ مولاناجلال پوری اسٹیج سے اترے تو فقیر بھی ساتھ اتر آیا۔ حافظ عبدالقیوم نعمانی، مولانا جلال پوری، فقیر، مسجدمریم کے ہال میں جمع ہوگئے۔ فقیر نے عرض کیا کہ: مولانا جلال پوری صاحب! آپ نے جس خوبصورتی سے میرا تعارف کرایا، اسے سن کر تو مرنے کو جی چاہتا ہے۔ تاکہ آپ خوبصورت تعزیتی مضمون لکھ دیں، جس کا ابھی متن بیان کیا۔ تینوں ہنسی خوشی ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ فقیر کی یہ آخری ملاقات تھی۔ اگلے روز شام کو فون پر بتایا کہ گڈو پہنچ گیا ہوں۔ فقیر نے عرض کیا کہ آپ تو ٹنڈوالہ یار خان گئے تھے۔ فرمایا :وہاں حاضری تھی۔ پھر خانقاہ سراجیہ حضرت قبلہ سے ملاقات زیارت و دعا کے لئے جارہا ہوں۔ گڈو پہنچا ہوں۔ اس سے اگلے روز فرمایا کہ: فلاں ساتھی کا فون چاہئے۔ فقیر نے مولانا ساقی بہاولپور کے ذمہ لگایا۔ انہوں نے آپ کو نمبربتایا۔ پھر تھوڑی دیر بعد فون آیا کہ نمبرمل گیا۔ فون پر بات ہوگئی اور کام بھی ہوگیا۔ شہادت والے دن قبل از ظہر فون کیا۔ یہ آخری بات تھی۔ عشاء کے بعد دفتر ختم نبوت گمبٹ میں اپنی تقریر کی باری کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ برادر انوارالحسن کا فون آیا اور پھر اندھیرا چھا گیا۔ اگلے دن جنازہ ہوا۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب مدظلہ نے جنازہ پڑھایا۔ لیجئے! مولانا سعیداحمد جلال پوری پورے قافلہ کے ساتھ اپنے شیخ کے قدموں میں ابدی نیند سوگئے: ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل الله اموات۰ بل احیاء ولکن لاتشعرون!
جمعرات کو شہادت، جمعہ کو جنازہ وتدفین۔ ہفتہ کو جامعة العلوم الاسلامیہ میں تعزیتی ریفرنس کے لئے جامعہ و عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں بالخصوص وفاق المدارس کے صدر جامعہ فاروقیہ کے شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان و حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کا خطاب۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید لدھیانوی، مولانا منظور احمدنعمانی شیخ التفسیر، مفتی محمد ظفر اقبال، شیخ الحدیث مولانا محمد رفیع عثمانی، شیخ الحدیث مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف مہتمم جامعہ خیرالمدارس، قاری محمد عثمان، قاری شیر افضل، مولانا عبدالقیوم نعمانی، مولانا زبیراحمدصدیقی شجاع آباد، مولانا تنویر الحق تھانوی اور دیگر سینکڑوں علماء ومشائخ کا دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تشریف لاکر مولانا شہید کے عزیزان، برادران، عالمی مجلس کے رہنماؤں سے اظہار تعزیت۔ مولانا زاہد الراشدی، مولانا سید عبد المجید ندیم، مولاناعبدالحفیظ مکی، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا قاری محمد ادریس ہوشیار پوری، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، سید کفیل بخاری، جناب عبداللطیف چیمہ ایسے سینکڑوں حضرات کا فون سے اظہار تعزیت۔ بس مجنوں جو مرگیا تو جنگل اداس ہے کا منظر ہے۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے رئیس ،نائب رئیس اورتمام اساتذہ ،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ مولانا عزیزالرحمن جالندھری، مولانامحمداکرم طوفانی، مولانا رب نواز، مولانا محمداعجاز، مولانا محمدانس، حافظ احمد، مولاناقاضی احسان احمد، جناب راناانور صاحب اپنے رفقاء سمیت تعزیت کے مستحق ہیں۔
بھاری جسم، بھرپور گھنی اور کنڈل بالوں والی داڑھی، کھلا کتابی چہرہ، پکارنگ، ہنس مکھ چہرہ، متوسط قد، اجلا لباس، چلنے میں، بولنے میں علم وفضل کی چھاپ، پہلے ایک حادثہ میں پاؤں پر چوٹ لگی تو لاٹھی رکھنی شروع کی۔ اب وہ بھی چھوڑ دی تھی۔ چاک وچوبند، معمولات پر کاربند، بیسیوں حج وعمرہ کی سعادتیں دامن میں سمیٹے ہوئے، کامیاب وبامقصد زندگی گزار کر خود سرخرو ہوگئے اور پسماندگان کو غمزدہ کرگئے۔ یہ تھے مولانا سعیداحمد جلال پوری !
مولانامفتی فخرالزمان شہید:
مولانا مفتی فخرالزمان، نوجوان عالم دین، جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فارغ التحصیل، متعدد دینی اداروں میں تدریس کا فریضہ سرانجام دینے والے، نوجوان مجاہد، بھرپور پھرتیلا، متحرک، ذہین وفطین نوجوان، زیرک و معاملہ فہم، بے پناہ کارکن، انکساری کا پیکر، محنت کے خوگر، بڑوں کا احترام ، چھوٹوں پر رحم کرنے کا عادی، قددرمیانہ، جسم ہلکا، آنکھوں پر عینک، سادہ لدھیانوی ٹوپی سرپر، فاقہ مست، درویش صفت۔
یہ تھے مولانا فخرالزمان جو تحصیل تونسہ کے معروف قصبہ وہواء کے رہنے والے تھے۔ دوسال ہوئے بڑی سج دھج سے شادی ہوئی۔ کئی بار گھر امید ہوئی۔ لیکن اسقاط ہوگیا۔ علاج جاری، دعاؤں کا سلسلہ ساری۔ لیکن شہادت پر راز کھلا کہ وہ اولاد کے لئے نہیں ،جنت کے لئے تخلیق کئے گئے تھے۔
حضرت مولانا سعیداحمد جلال پوری کا وہ بے پناہ احترام کرتے تھے۔ مولانا جلال پوری بھی انہیں اپنی اولاد کی طرح عزیز گردانتے تھے۔ گھر کے اکثر امور ان سے وابستہ کر رکھے تھے۔ صبح وشام کا ساتھ رہا اور ایسا کہ اب قیامت کو بھی ساتھ اٹھیں گے۔ زہے نصیب فخرالزمان واقعی تو اسم بامسمّٰی ہی نکلا۔ یہ بھی مولانا سعید احمد جلال پوری کے ساتھ ۱۱/مارچ کو شہادت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون!
جناب حافظ محمد حذیفہ:
حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری کے ساتھ مرتبہ شہادت پر سرفراز ہونے والے تیسرے آپ کے صاحبزادہ حافظ محمد حذیفہ تھے۔ ماشاء الله اٹھتی جوانی، قد کاٹھ قابل دید، بھرواں جسم، سانولا من بھانولا معصوم پھول جیسا چہرہ، عقابی، آنکھوں پر چشمہ کی سجاوٹ، خوب بھولی بھالی ادائیں، جامعة العلوم الاسلامیہ سے حفظ مکمل کیا۔ حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری نے اسے جامعہ باب العلوم کہروڑپکا میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی دامت برکاتہم کی زیرنگرانی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا۔ فقیر نے عرض کیا کہ مولانا! آپ کراچی، بیٹا سینکڑوں میل دور دیہاتی شہر کہروڑپکا۔ یہ کیا فیصلہ کیا؟ تو فرمایا کہ: یہ بڑا ہورہا ہے۔ اٹھتی جوانی ہے۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث عبدالمجید صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔ امید ہے کہ پڑھ جائے گا۔ ورنہ آپ کی صحبت کے فیض سے انسان تو یقینا بن جائے گا۔ یہی چاہئے اور بس۔
فقیر راقم کی ۴/مارچ کو ختم نبوت کانفرنس کہروڑپکا پر اپنے اس عزیز محمد حذیفہ سے اسٹیج پر ملاقات ہوئی۔ جب شہادت کی خبر ملی تو بات سمجھ نہ آتی تھی کہ وہ کہروڑپکا، وقوعہ کراچی؟۔ معلوم ہوا دوروز قبل مولانا جلال پوری نے بیٹے کو کراچی بلوایا۔ پہلے وہ کراچی آنے کی اجازت مانگتا، نہ دیتے تھے۔ اب کے خود بلوالیا۔ شہادت کے روز دفتر سے مسجد جانے لگے تو حذیفہ کو گھر سے ساتھ لیا۔ مسجد خاتم النبیین سے واپسی پر بلاکر پھر ساتھ بٹھایا۔ آگے چلے تو باپ بیٹے کا ایک ساتھ ایسے سفر ہوا کہ یادگار وقابل رشک۔ لیجئے! حذیفہ اس نوعمری میں نہ زیادہ پڑھا نہ پڑھایا۔ نہ کمایا نہ کھایا۔ لیکن جنت نشین ہوگیا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی مدظلہ نے اگلے دن تعزیت کے لئے کراچی کا سفر کیا۔ اپنے عزیزشاگرد حذیفہ کی قبر پر کھڑے تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ پھر دوسری بار تذکرہ ہوا تو اتنے روئے کہ دل کی تکلیف شروع ہوگئی۔ لیجئے! حذیفہ کی سعادت مندی، اس سج دھج سے جانے پر اساتذہ کے استاذ بھی دل گرفتہ۔ لیکن یہ راز بھی کھل گیا کہ استاذ کو اپنے شاگرد سے اپنی اولاد کی طرح محبت ہونی چاہئے۔ جیسے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کو عزیزی حذیفہ سے۔
جناب عبدالرحمن سری لنکن شہید
حضرت مولانا سعیداحمد جلال پوری کے ساتھ شہید ہونے والے چوتھے جناب عبدالرحمن صاحب تھے۔ یہ عمر کے اعتبار سے انتالیس، چالیس کے پیٹے میں ہوں گے۔ دراز قد، تیزوتیکھے خدوخال، حسن کی تمام رعنائیوں پر نیکی کی گہری چھاپ، معصوم وخوبصورت ادا، سانوالاچمکیلا رنگ، اصلاً سری لنکا کے پیدائشی، کراچی امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار، کبھی سری لنکا کبھی کراچی، یہی حال بال بچوں کا بھی۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ بچے تعلیم کے لئے سری لنکا، اہلیہ بھی ان کے ہمراہ سری لنکا۔ بھائی عبدالرحمن اپنے دفتر سے فارغ ہوتے تو مولانا سعید احمد جلال پوری کے ساتھ اور ایسے ساتھ کہ اب قیامت و جنت کا بھی ساتھ ہوگیا۔
شہادت کے روز مولانامفتی رضوی نے فقیر کو فون کیا کہ کیا خبر ہے۔ تفصیل بتاکر معلوم کیا کہ عبدالرحمن صاحب کے جنازہ و تدفین کا کیا کرنا ہے، کراچی یا سری لنکا؟ تو فرمایا کہ میں عبدالرحمن صاحب کے گھر بیٹھا ہوں، ان کے والد گرامی میرے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عبدالرحمن اس دفعہ کراچی جاتے ہوئے اہلیہ کو کہہ گئے تھے کہ اگر مولانا سعید احمد جلال پوری کے ساتھ میری شہادت ہو جائے تو ان کے ساتھ دفن کردینا۔ چنانچہ ایسے ہوا۔ فرمائیے! اسے حسن اتفاق کہیں گے یا قدرت کی دین۔ جو بھی فرمائیں بہرحال جو سنا وہ عرض کردیا ہے اور بس، تو پھر بس ہی بھلی۔ الله تعالیٰ ان حضرات پر اپنی رحمتوں کی موسلادھار بارش نازل فرمائیں۔ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو۔ پسماندگان کو صبرجمیل عطافرمائیں:
”رفتند ولے نہ از دل ما“
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۱ھ - اپریل: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: تصویر شیخ !
Flag Counter