Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

8 - 10
نزولِ مسیح اور قرآن کریم
نزولِ مسیح اور قرآن کریم
(۲)

۱- ”وانہ لعلم للساعة فلاتمترن بہا“۔ (زخرف:۶۱)
ترجمہ:․․․․”اور بے شک وہ نشانی ہے قیامت کی ،پس نہ شک کرو اس میں“۔
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ صحابہ کرام میں سے‘ تابعین میں سے ابو العالیہ‘ ابومالک‘ عکرمہ‘ حسن‘ قتادہ‘ ضحاک‘ مجاہد وغیرہ سے آیتِ کریمہ کی صحیح تفسیر یہ منقول ہے کہ: ”انہ“ کی ضمیر حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف راجع ہے ‘ قرآنی سیاق کا تقاضا بھی یہی ہے اور ”علم“ کے معنی نشانی کے ہیں۔ تفسیر ابن جریر‘ تفسیر ابن کثیر‘ تفسیر در منثور میں مجاہد سے مروی ہے:
”قال آیة للساعة خروج عیسی ابن مریم قبل یوم القیامة“۔
ترجمہ:․․․”فرمایا: قیامت کی نشانی ہے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا قیامت سے پہلے تشریف لانا“۔
حافظ ابن کثیر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہی تفسیر صحیح ہے‘ ظاہر ہے کہ کسی صحابی سے اس کے خلاف تفسیر جب منقول نہیں تو ایسی صورت میں حبر امت اور بحر امت ترجمان القرآن حضرت ابن عباس کی تفسیر سے زیادہ راجح کون سی تفسیر ہو سکتی ہے‘ اب ترجمہ آیت کریمہ کا یہ ہوا کہ:
”یقینی یہ ہے کہ نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہے ،پس اس میں شک نہ کرو“۔
تفصیل کے لئے تفسیر ابن جریر (۲۵-۵۴) مطبوعہ میریہ‘ تفسیر ابن کثیر (۹-۱۴۶) مطبوعہ میریہ‘ الدر المنثور (۶-۲۰) طبع مصر‘ عقیدة الاسلام فی حیات عیسی علیہ السلام (ص:۳) ملاحظہ ہو‘ اس لئے عقیدة الاسلام(ص:۵) میں حضرت امام العصر فرماتے ہیں:
۲-”اذا تواترت الاحادیث بنزولہ وتواترت الآثار وہو المتبادر من نظم الآیة فلایجوز تفسیر بغیرہ الخ“۔
ترجمہ:․․․”جب حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کی احادیث وآثار متواتر ہیں‘ اور قرآن کریم کی آیت کا واضح مفہوم بھی یہی ہے تو اس کے علاوہ کوئی اور تفسیر صحیح نہ ہوگی“۔
۳- وان من اہل الکتاب الاَّ لیؤمنن بہ قبل موتہ ،ویوم القیامة یکون علیہم شہیداً“۔ (النساء:۱۵۹)
ترجمہ:․․․”کوئی شخص بھی اہل کتاب میں سے نہ رہے گا مگر وہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ان کی موت سے قبل ایمان لائے گا“۔
”موتہ“ کی ضمیر میں نزاع ہے‘ ابن جریر نے حضرت ابن عباس ‘ مجاہد‘ عکرمہ‘ ابن سیرین‘ ضحاک وغیرہ کی تفسیر کے مطابق اس کی تصحیح وترجیح فرمائی ہے کہ ”موتہ“ کی ضمیر راجع ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف ،اور مقصود یہ ہے کہ نزولِ حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت جتنے اہل کتاب ہوں گے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات سے پہلے سب ایمان لے آئیں گے اور اسی قول کو ابن جریر اپنی تفسیر میں ”اولیٰ ہذہ الاقوال بالصحة“ قرار دیتے ہیں‘ ابن کثیر اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”وہذا القول ہو الحق کما سنبینہ بالدلیل القاطع انشاء الله ․․․ولاشک ان ہذا الذی قالہ ابن جریر ہو الصحیح، لانہ المقصود من سیاق الآیة“۔
ترجمہ:․․”یہی قول حق ہے جیساکہ آگے دلیل قطعی کے ساتھ اس کو بیان کریں گے ‘ انشاء اللہ! لاریب کہ یہ جو کچھ ابن جریر نے فرمایا ہے‘ یہی صحیح ہے‘ کیونکہ سیاقِ آیت سے یہی مقصود ہے“۔
عمدة القاری (۷-۲۵۲) میں اس تفسیر کو اہل العلم کی تفسیر بتلایا ہے۔
بہرحال قرآن کریم کی راجح تفسیر کی بناء پر ان دوآیتوں میں نزولِ مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے، ہاں یہ دو آیتیں اس مقصود میں ظاہر الدلالة ہیں‘ قطعی الدلالة نہیں‘ لیکن چونکہ احادیث صحیحہ نزولِ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق تواتر کو پہنچ گئی ہیں اور تواتر مفیدِ قطعیت ہے‘ اس حیثیت سے یہ آیتیں مفیدِ قطعیت ہوں گی، اگر چہ مقطوع لغیرہ ہوں۔
بہرحال یہ تفصیل ہمارے موضوع سے خارج ہے‘ اس موضوع کی تفصیل وتحقیق نکات ولطائف کو دیکھنے کا اگر شوق ہو تو ”عقیدة الاسلام“ اور ”تحیة الاسلام“ کی مراجعت کی جائے‘ جو امام العصر مولانا انور شاہ قدس سرہ کی اس موضوع پر بے نظیر کتابیں ہیں۔
نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تواتر حدیث
اب رہا دوسرا پہلو: حدیثی اعتبار سے تو یہ پہلے ذہن نشین ہونا چاہئے کہ تواترِ حدیث یا تواترِ احادیث دونوں ایک ہی حقیقت کے دو عنوان ہیں‘ محدثین کی اصطلاح میں اگر ایک ”متن“ مثلاً :دس صحابہ سے مروی ہو تو یہ دس حدیثیں کہلائیں گی‘ اگر عددِ صحابہ درجہٴ تواتر کو پہنچ گیا تو یہی حدیث متن کے اعتبار سے حدیثِ متواتر ہوگی‘ رواة اور کثرتِ طرق کے اعتبار سے احادیثِ متواترہ کی تعبیر زیادہ انسب ہوگی‘ بظاہر جے پوری صاحب اس سے بھی غافل ہیں۔
اب سنیئے! اگر کسی حدیث کے رواة اور طرق بحث وتفتیش کے بعد درجہٴ تواتر کو پہنچ گئے ہیں تو ہر محدث کو اس حدیث کے متواتر کہنے کا حق حاصل ہوگا‘ اگرچہ امت میں سے کسی نے تصریح نہ کی ہو‘ بلکہ ہوسکتاہے کہ محدث نے بغیر بحث وتحقیق کے کسی حدیث کے متعلق فرمادیا ہو کہ یہ ”خبر واحد“ ہے‘ بعد میں تتبع طرق اورکثرة رواة سے کسی کو معلوم ہو کہ متواتر ہے تو وہ متواتر اور مفید للعلم القطعی ہوگی۔
نیز یہ معلوم رہے کہ ہرفن کا مسئلہ اس فن والوں سے لیا جاتا ہے‘ کسی حدیث کی تصحیح یا تحسین یا تضعیف یا خبر واحد یا مشہور ومتواتر ہونے کے لئے محدث کی شہادت پیش کی جائے گی‘ صرف فقیہ کا یہ منصب نہیں اور نہ صرف متکلم یا معقولی کا یہ وظیفہ ہے ۔ایک موقع پر جے پوری صاحب نے ”نزول ِ مسیح“ کی احادیث کو ”اخبارِ آحاد“ کہنے کے لئے تفتازانی کی عبارت پیش فرمائی ہے‘ یہ فن تفتازانی کا نہیں‘ وہ معانی وبیان یا منطق وکلام میں ہزار درجہ محقق ہوں تو ہوں‘ حدیث ان کا فن نہیں ہے‘ یہاں تو غزالی‘ امام الحرمین‘ رازی‘ آمدی جیسے اکابر کے اقوال بھی قابلِ اعتبار نہیں‘ چہ جائیکہ تفتازانی۔ایسے موقع پر تو مغلطائی‘ ماردینی‘ مزی‘ ذہبی‘ عراقی‘ ابن حجر‘ عینی‘ ابن تیمیہ‘ ابن قیم ابن کثیر رحمہم اللہ وغیرہ وغیرہ محدثین امت اور حفاظِ حدیث کی شہادت مقبول ہوسکتی ہے۔
سید جرجانی اور تفتازانی کی احادیث دانی جاننے کے لئے یہ واقعہ کافی ہے کہ چھ ماہ تک ”حب الہرة من الایمان“ میں مناظرہ کرتے رہے کہ یہ حدیث ہے اور ”من“ ابتدائیہ ہے یا تبعیضیہ؟بے چاروں کو اتنی بھی خبر نہیں ہوئی کہ حدیث ”موضوع“ ہے‘ خیر اس بحث کو رہنے دیجئے ،احادیثِ ”نزولِ عیسی“ صحاح کی حدیثیں ہیں اور صحاح ہی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود‘ عبد اللہ بن عمر حذیفہ‘ ابن اسید‘ ابو امامہ باہلی‘ جابر بن عبد اللہ‘ نواس بن سمعان سے مروی ہیں، ان میں سے حضرت ابوہریرہ‘ جابر ‘ حذیفہ ‘ ابن عمر رضی اللہ عنہم کی حدیثیں تو صحیحین کی ہیں‘ اگر اس باب میں صرف شیخین ہی کی حدیثیں ہوتیں تو نمبر (۹) کے مطابق محققین اہلِ حدیث وکبار محدثین کے نزدیک ان کے افادہٴ یقین میں ذرا بھی شبہ نہیں اور صحیح ابن خزیمہ‘ صحیح ابن حبان‘ مسند احمد‘ سنن اربعہ وغیرہ کی حدیثیں ملاکر مرفوعات کی تعداد ستر (۷۰) تک پہنچ جاتی ہے‘ کیا ستر کبار صحابہ جن کی فضیلت میں وحی متلو نازل ہوئی اور روئے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے بعد صدق شعار قوم ان سے زیادہ نہیں گذری‘ اگر لسان نبوت سے ان کی حکایت مفید للعلم نہیں ہوگی تو کس قوم کی ہوگی؟ اگر ہمیں کسی کے صلاح وتقویٰ اور صداقت کا یقین ہو اور بیس بائیس ایسے آدمی آکر ہم سے کوئی بات بیان کریں تو انصاف سے بتایاجائے کہ ہمارے لئے مفید للعلم الیقینی ہوگی یا نہیں؟ حالانکہ ایک صحابی ایک ہزار راویوں پر بھاری ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ساری امت پر بھاری ہے تو شاید مستبعد نہ ہوگا‘ پھر ان ستر صحابہ کی مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً تیس صحابہ وتابعین سے آثار موقوفہ بھی مروی ہیں اور محدثین کا یہ فیصلہ ہے کہ غیر قیاسی وغیر عقلی امور میں موقوف روایت بھی مرفوع کے حکم میں ہے‘ گویاسو مرفوع روایتیں باسانید صحیحہ وحسنہ جمع ہوگئی ہیں‘ کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ جن محدثین نے جن احادیث کے متعلق تواتر اصطلاحی کا دعویٰ کیا ہے وہ کثرت رواة وکثرت طرق اور کثرت مخارج میں اس کا مقابلہ کرسکتی ہیں؟ حدیث ”من کذب علیّ متعمداً فلیتبّوأ مقعدہ من النار“ جو سب سے اعلیٰ ترین متواتر حدیث کی نظیر پیش کی گئی ہے‘ اس کے رواة بھی تقریباً سو ہی تک پہنچتے ہیں‘ حالانکہ مشکل ہے کہ سوکی سو روایتوں کے تمام رجال صحیح یا حسن تک پہنچیں‘ حدیث ”مسح خفین“ باتفاق محدثین حدیث متواتر ہے‘ کتب اصول فقہ وکتب فقہ وشروح حدیث میں متعدد مواضع میں امام ابوحنیفہ کا یہ مشہور قول نقل چلا آتا ہے:
”ماقلت بالمسح علی الخفین الا اذا جاء نی مثل ضوء النہار وانی اخاف الکفر علی من لم یر المسح علی الخفین“۔
ترجمہ:․․․․”میں مسح خفین کا اس وقت قائل ہو ا جب کہ دن کی روشنی کی طرح یہ مسئلہ میرے سامنے ہوگیا اور جو شخص مسح خفین کا قائل نہیں مجھے اس کے حق میں کفر کا اندیشہ ہے“۔
تو ”مسح خفین“ کے انکار سے کفر کا اندیشہ ہے اور تاریخ خطیب بغدادی میں ہے کہ امام ابو حنیفہ سے کسی نے ان کا مسلک پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
”افضِّل الشیخین واحبُّ الختنین وأری المسح علی الخفین“۔
ترجمہ:․․․”میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو سب (صحابہ) سے افضل سمجھتا ہوں‘ حضرت عثمان اور حضرت علی سے محبت رکھتا ہوں‘مسح خفین کا قائل ہوں“۔
گویا سنی ہونے کے لئے مسح خفین کے ماننے کو ضروری معیار قرار دیا ہے‘ بالفاظِ دیگر جواب کا خلاصہ یہ نکلا کہ میں نہ شیعی ہوں نہ خارجی ہوں‘ بلکہ سنی ہوں تو اس لئے کہ امام کے نزدیک مسح علی الخفین کی احادیث متواتر ہیں اور مفید للعلم القطعی ہیں‘ حالانکہ غسل رجلین قرآن کریم کا قطعی حکم ہے اور احادیث غسل رجلین بھی متواترہ ہیں‘ دو قطعی دلیلوں سے فرضیت غسل رجلین ثابت ہوچکی تھی‘ پھر بھی جمہور امت کے نزدیک مسح علی الخفین کا جواز یقینی ہے اور اس قطعی دلیل سے کتاب اللہ اور احادیث متواترہ غسل پر زیادتی صحیح ہوگئی۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ احادیث مسح علی الخفین بتصریح امام احمد بن حنبل مرفوع حدیثیں کل چالیس ہیں‘ حالانکہ صحابہ میں سے بعض اکابر کا خلاف بھی منقول ہے ،پھر یہ بھی مشکل ہے کہ یہ چالیس حدیثیں سب کی سب صحیح یا حسن ہوں، اس کے باوجود اتنی مقدار تواتر قطعی کے لئے کافی ہوئی۔
احادیث غسل رجلین کو متواتر اصطلاحی کہا گیا ہے‘ حالانکہ بمشکل اکتیس حدیثیں منقول ہیں‘ احادیث معراج جسمانی کو متواتر اصطلاحی کہا گیا ہے‘ حالانکہ کل رواة بیس تک پہنچتے ہیں‘ احادیث حوض کوثر کو متواتر اصطلاحی کہا گیا ہے‘ حالانکہ کل احادیث پچاس تک پہنچتی ہیں‘ احادیث ”رفع یدین عند التحریمہ“ کو متواتر اصطلاحی کہا گیا ہے‘ حالانکہ کل حدیثیں بمشکل پچاس تک پہنچیں گی۔
حدیث ”من بنیٰ مسجداً للّٰہ“ الخ متواتر ہے‘ باوجودیکہ صحابہ روایت کرنے والے بیس سے متجاوز نہیں‘ ایسے ہی حدیث ِشفاعت‘ حدیث ِعذاب قبر‘ حدیث ِسوال منکر ونکیر‘ حدیث ”المرء مع من احب “ حدیث ”کل میسر لما خلق لہ“ حدیث ”بدأ الاسلام غریباً“ الخ وغیرہ وغیرہ ،ان سب حدیثوں کو اصطلاحی تواتر کے اعتبار سے متواتر کہا گیا ہے ۔ حافظ ابن تیمیہ نے تو کئی رسائل میں احادیث ِ شفاعت ‘ حوض کوثر‘ عذابِ قبر کو سنت ِ متواترہ سے تعبیر کیا ہے‘ باوجودیکہ ان کے رواة وطرق احادیث نزولِ مسیح کو نہیں پہنچتے۔
اب نہیں معلوم جے پوری صاحب کے یہاں وہ کون سی شرط ہے جو حدیث ِ متواتر اصطلاحی کے لئے موجود ہونی چاہئے‘ محدثین نے جن متواتر حدیثوں کو جمع کیا ہے وہ سب اصطلاحی متواترات ہیں نہ کہ لغوی۔ نہ معلوم جے پوری صاحب کو تواتر کے لفظ سے کیوں چڑ ہے کہ جہاں ”تواترت الاخبار“ کا لفظ دیکھ لیا‘ فرمانے لگے: ”یہ تواتر لغوی ہے‘ مراد کثرت ہے“ نہ معلوم یہ ”ججی“ کا منصب آپ کو کس نے دیا ہے ۔ہاں یہ صحیح ہے کہ بعض مواقع پر لغوی تواتر مراد ہوتا ہے ،لیکن خارجی قرائن اور بحث وتحقیق سے یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ یہ تواتر اصطلاحی ہے یا لغوی‘ جن کا یہ فن ہے اور شب وروز اس کی مزاولت کرتے ہیں اور حدیث ان کی صفتِ نفس بن گئی ہے‘ و ہی اپنی بصیرت سے اس کا فیصلہ کرتے ہیں‘ ہر عمر ووزید کا یہ منصب نہیں۔ اب سوچئے کہ صحابہ میں سے احادیثِ نزول کو اتنے روایت کرنے والے اور صحابہ سے نقل کرنے والے یقینا اس سے کہیں زائد ہیں اور کم سے کم اتنے تو ضرور ہیں اور باتفاق امت رواة بڑھتے ہی گئے‘ کم نہیں ہوئے‘ اسی وجہ سے متواترات کی مشہور احادیث کی تعداد بھی بڑھ گئی کہ قرن ثانی میں نقل کرنے والے بڑھ جاتے ہیں اور قرن ثالث میں تو اخبار آحاد بھی مشہور ومتواتر کی کثرت طرق اور کثرت رواة کو پہنچ جاتی ہیں ،جو جے پوری صاحب کو خود بھی تسلیم ہے، اب ایسی صورت میں اگر کوئی محدث بھی تصریح نہ کرتا کہ یہ حدیث متواتر ہے ،جب بھی کوئی مضائقہ نہ تھا۔
لیکن باوجود اس کے جب حافظ ابن کثیر ان کو ”اخبار متواترہ“ سے تعبیر کرتے ہیں‘ حافظ جلال الدین سیوطی ان کو ”متواتر“ کہتے ہیں‘ قدماء محدثین میں سے ”ابو الحسن السجزی الآبری“ اس کو متواتر مانتے ہیں اور خارجی بحث وتحقیق سے بھی یہ بات ثبوت کو پہنچ چکی تو خدارا !انصاف کیجئے کہ ایسی صورت میں کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ بے دلیل محض اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے یہ کہے کہ تواتر سے لغوی تواتر مراد ہے۔
ابو الحسن آبری قدماء محدثین میں سے ہیں‘ ابن خزیمہ صاحب الصحیح سے روایت کرتے ہیں ۳۶۳ھ میں وفات پاچکے ہیں‘ ان کا قول حافظ ابن حجر نے فتح الباری (۶-۳۵۸) مطبوعہ میریہ میں یوں نقل کیا ہے: وقال ابو الحسن الخسعی الآبدی۔
یہ ناسخین کی تصحیف ہے‘ صحیح السجزی الآبری ہے‘ سجستانی کی نسبت غیر قیاسی سجزی آیا کرتی ہے، کما فی القاموس‘ السجستی نہیں آتی‘ جیسا جے پوری صاحب فرماتے ہیں:
”فی مناقب الشافعی وتواتر الاخبار بان المہدی من ہذہ الامة‘ وان عیسی یصلی خلفہ الخ“۔
ترجمہ:․․․”مناقب شافعی میں ہے کہ اس مضمون کی احادیث متواتر ہیں کہ مہدی اس امت سے ہوں گے اور عیسی علیہ السلام ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے“۔
اصل غرض اس عبارت سے چاہے ابن ماجہ والی حدیث کا رد ہی ہو‘ جس میں ”ولامہدی الا عیسی“ آیا ہے‘ لیکن اس سے تین باتیں نکل آئیں۔
الف: احادیث مہدی متواتر ہیں۔
ب: احادیث نزولِ مسیح متواتر ہیں ۔
ج: مہدی کا حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے امام ہونا متواتر ہے۔
لیجئے! بجائے ایک دعویٰ کے اب تین دعوے ہوگئے‘ جے پوری صاحب کا یہ فرمانا کہ” لازم آتا ہے ،غرض یہ تو نہ تھی“ بالکل بے معنی بات ہے‘ کیونکہ لازم بین ہے‘ لزوم صریح ہے اور قائل کا غیر مراد نہیں‘ بلکہ یہ مراد بالاولیٰ ہے اور اس کا التزام ہے ،تو کیا یہ لازم ہونا ان کے خلافِ مقصود ہے‘ کیا ”دلالة بالاولیٰ“ یا ”ظاہر النص“ کی بحث اصولِ فقہ میں محض بیکار ہے‘ حقیقت میں خروجِ مہدی‘ نزولِ مسیح‘ خروجِ دجال ‘ تینوں متشاکل ومتقارب امور ہیں اور شرعی حیثیت میں تقریباً ان تینوں میں تلازم ہے‘ اس لئے اکثر احادیث میں تینوں کا ذکر ساتھ ساتھ آتا ہے‘ فرحم اللّٰہ من انصف‘ اب صرف ایک دو محدثین کا ضعیف قول کہ متواتر عزیز الوجود کیسے قابلِ وثوق ہوسکتا ہے‘ کیا مثبت کا قول راجح ہے یا نافی کا؟ اکثریت کس طرف اور اقلیت کس طرف ہے؟ خارجی ثبوت کس کی شہادت دیتا ہے‘ اثباتِ متواترات کی یا نفی کی؟ اور کثرت کی یا قلت کی؟ کیا کسی نے ان کے قول کو قبول بھی کیا۔
احادیث کا ذخیرہ متواترات سے بھر پڑا ہے، اگر کسی کو نظر نہ آئے تو اس کا کیا علاج؟
بہرحال حدیثی ابحاث میں محض اٹکل سے یا محض عقلی احتمالات سے کام نہیں چلتا‘ نہ اس قسم کے وساوس سے خدا کے ہاں نجات ہوسکتی ہے۔ محدثین میں سے جن محدثین نے یہ فرمایا تھا کہ متواتر حدیث قلیل الوجود ہیں‘ وہ یہ بھی تو فرماتے ہیں کہ بخاری ومسلم کی اخبار آحاد بھی مفید للعلم الیقینی ہیں ،تو ان کے یہاں تو ”ضرورتِ دین“ کے لئے صحیحین کی اخبار آحاد بھی کافی ہیں‘ آپ بتلایئے کہ آپ کے نزدیک قرآن کریم کے سوا ”ضروریاتِ دین“ کے لئے کیا ثبوت رہ جاتا ہے؟ کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کے بغیر کوئی بھی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ قطعیت کے لئے سوا قرآن کے متواتر حدیث ہونی چاہئے اور وہ ہے نہیں؟ اللہ اللہ کیسے کام ہلکا ہوگیا‘ یہی تو فرقہٴ اہلِ قرآن والے کہتے چلے آئے ہیں اور تقریباً کل منکرین حدیث کا منشأ بھی یہی نکلتا ہے۔ بہرحال بقیہ ضروریاتِ دین کے لئے یا تو صحیحین کی اخبار آحاد کو مفید للعلم مان کر ان کو قطعی ماننا ہوگا یا احادیث ِ متواترہ کو تسلیم کرکے ان ”ضروریاتِ دین“ پر ایمان لانا ہوگا‘ تیسرا قول کہ نہ تو احادیث ِ صحیحین مفیدِ قطعیت ہیں اور نہ کوئی حدیث متواتر موجود ہے جو مفید قطعیت ہو‘ مرکب باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فہم وانصاف عطا فرمائے۔ یہی تو وہ پرانا فتنہ ہے جو جہمیہ کی میراث رہ گئی ہے‘ گویا آج کل اس فتنہ کی تجدیدہورہی ہے‘ کیونکہ ”عقائد قطعیہ“ کے لئے ان دلائل کی ضرورت ہوگی جن کا مفید علم ہونا قطعی طور پر مسلم ہو اور وہ صرف قرآن کریم کی وہ نصوص ہوں گی جو قطعی الدلالة ہوں یا حدیث متواتر قطعی الدلالة ہو اور وہ ہے نہیں‘ یہی تو حمد ان قرمطی اور ان کے اتباع ”قرامطہ“ کا مسلک ہے‘ اب بتلایئے کہ بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جائے گی؟
پس خلاصہ یہ ہوا کہ احادیث ِ نزولِ مسیح صحیحین کی حدیثیں ہیں‘ محققین محدثین اور اکثر اشاعرہ کے مذہب کے موافق تو افادہٴ علم ویقین کے لئے یہ بھی کافی ہے‘ اور اگر مدار تواتر پر بھی ہو تو قرنِ اول میں ان احادیث کی تلقی بالقبول ہوچکی ہے تو یہ چیز بھی ان احادیث میں موجود ہے‘ اگر خواہ مخواہ اسی کی ضد ہے کہ تواتر اصطلاحی کی مشہور تعریف کی بناء پر متواتر احادیث چاہئیں تو لیجئے گذشتہ تحقیق وتفصیل سے یہ بات بھی بحمد اللہ! ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ احادیث ِ نزولِ مسیح اصطلاحی تواتر سے متواتر ہیں اور متواتر بھی قطعی الدلالة ہیں‘ احادیث ِ متواترہ قطعی الثبوت اور قطعی الدلالة ہونے کے بعد عقیدہٴ نزولِ مسیح کی فرضیت وقطعیت میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ اور حجود وانکار کا جو نتیجہ ہے وہ بھی ظاہر ہے‘یقین واذعان کی ان مختلف جہات اور حیثیات کے بعد بھی اس کے ضروریات ِ دین ہونے میں کوئی شبہ باقی رہتا ہے؟ واللّٰہ یقول الحق وہو یہدی السبیل۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: چند اہم اسلامی آداب
Flag Counter