Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

2 - 10
انسانی اعضاء کی پیوند کاری
انسانی اعضاء کی پیوند کاری

پچھلے دنوں فیڈرل شریعت میں انسانی اعضاء کی پیوندکاری کے بارے میں ایک درخواست کی سماعت تھی‘ سماعت عدالت کا فل بینچ کررہا تھا‘ درخواست گذار کا موقف تھا کہ ۲۰۰۷ء کے آرڈینینس میں عطیہ کنندہ کے لئے قریبی رشتہ دار ہونے کی شرط غیر اسلامی ہے‘ عدالت مذکورہ نے اس بارے میں شرعی حکم دریافت کیاتھا۔ زیر نظر مقالہ عدالت کی طلب پر وہاں پیش کیا جانا تھا‘ تاہم بعض وجوہات کی بناء پر ایسا نہ ہوسکا‘ اب افادہٴ عام کی غرض سے اسے شائع کیا جارہا ہے۔
اصل مسئلے کی تفصیل سے پہلے چند اصولی مباحث کا ذکر مناسب ہو گا۔
جواز و عدم جواز کا معیار:۔
موجودات میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو ہر لحاظ سے نفع بخش ہو ،اور نہ ہی کوئی چیز ایسی ہے جو تمام وجوہ سے ضرر رساں ہو، ایک چیز اگر ایک شخص کے لئے مضر ہے تو دوسرے کے لئے مفید ہے‘ بلکہ ایک پہلو سے ایک ہی چیز میں اگر ایک شخص کے لئے نفع رکھا گیا ہے تو اسی چیز میں دوسرے پہلو سے اس کے لئے مضرت ہے۔ اس لئے کسی شئی یا قانون کے مفید ہونے کا مطلب ہو گا کہ اس میں منافع کا پلہ نقصانات کے پلے پر بھاری ہے‘خلاصہ یہ کہ دنیوی اشیاء عدم اور وجود دونوں سے مرکب ہیں‘ اس لئے نفع و نقصان دونوں رکھتی ہیں۔
عقل انسانی کی نارسائی
عجلت پسندی انسانی طبیعت کا خاصہ ہے ” وکان الانسان عجولا“ انسان جس چیز میں ” جلدی کا نفع “ دیکھتا ہے فوراً اسی کی طرف لپکتا ہے خواہ اس کا انجام و نقصان کتنا ہی بھیانک کیوں نہ ہو ، عجلت پسندی کے ساتھ ساتھ انسان ظاہر بین بھی ہے کہ وہ معاملات کے صرف ظاہری پہلووٴں کو دیکھتا ہے‘ حقیقت اس سے پوشیدہ رہتی ہے ۔اسی طرح انسان کی یہ بھی کمزوری ہے کہ وہ قانون کو ایک یا چند افراد کی میزان میں تولتا ہے ،انسان اپنی عقل اور اپنے ماحول کو حق وباطل کا معیار سمجھتا ہے‘ یہ نہیں دیکھتا کہ پوری انسانیت پر اس کے کیااثرات مرتب ہوں گے؟ انسان اپنی عقل اور اپنے ماحول کو حق و باطل کا معیار سمجھتا ہے ‘ آج سے ہزار سال بعد انسانی معاشرے کی کیا ضروریات ہوں گی، انسانی عقل اس کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتی اور جب عقل و جذبات کی جنگ ہو تی ہے تو بڑے بڑے دانشوروں کی عقل بھی جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہے۔اس لئے سلامتی کی راہ یہ ہے کہ عقل سے صرف اس کی حدود میں کام لیا جائے اوروحی سے ثابت شدہ احکام میں دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔
حرام انسانیت کے لئے مضرہے
شریعت نے جن چیزوں یا جن کاموں کو حرام قرار دیا ہے‘ وہ صرف اور صرف انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ہے ، بعض کام یا چیزیں انسانی صحت کو تباہ کردیتی ہیں، اور بعض چیزیں ایسی ہیں جن سے جسم کو تو کوئی ظاہری نقصان نہیں پہنچتا مگروہ انسانی روح کے لئے زہر قاتل ہوتی ہیں، جو لوگ روح کے معالج ہیں اور اس کی صحت و مرض کو پہچانتے ہیں ان پر ان باتوں کا انکشاف ہو تا ہے۔
ضرورت و حاجت
بہت سے ایسے کام جو عام حالات میں ناجائز ہوتے ہیں‘ حالت ضرورت میں جائز ہوجاتے ہیں جیساکہ کلمہ کفر سے بڑھ کر کوئی سنگین گناہ نہیں مگر جو شخص زبان سے کلمہ کفر کہنے پر اس درجے مجبور کر دیا جائے کہ نہ بولنے کی صورت میں ہلاکت یقینی ہو تو اس کے لئے زبان سے کلمہ کفر کہنے کی اجازت ہے جبکہ دل ایمان و اسلام پر جما ہو ا ہو۔جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”من کفر باللّٰہ من بعد ایمانہ الاّ من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان“۔
(النحل،الآیة:۱۰۶،)
ترجمہ:۔ ”جو کوئی منکر ہو اللہ سے یقین لا نے کے پیچھے مگر وہ نہیں جس پر زبردستی کی گئی اور اس کا دل برقرار ہے ایمان پر“ ۔ (تفسیر عثمانی)
اسی طرح جو بھوک و پیاس سے مر رہا ہو‘ اس کے لئے حرام و نجس سے جان بچانا بعض شرائط و قیود کے ساتھ نہ صرف جائز بلکہ لازم ہے۔جیساکہ قرآن کریم میں ہے: ”فمن اضطر فی مخمصةغیر متجانف لاثم“۔ (مائدہ،الایة۔ ۳)
ترجمہ:۔” پھر جو کوئی لا چارہو جائے بھوک سے،لیکن گناہ پر مائل نہ ہو“ ۔
قرآن کریم نے جس حالت میں حرام و نجس کے استعمال کی اجازت دی ہے وہ ضرورت کا درجہ ہے ،ضرورت ہی سے اضطرار نکلا ہے ، یہ دونوں حالتیں خطرہٴ جان کے لئے مخصوص ہیں، جن حالات میں جان کا خطرہ یقینی نہ ہو‘ قرآنی اصطلاح کے مطابق وہ ضرورت و اضطرار نہیں‘ اسے حاجت کہہ سکتے ہیں، جس میں مشکل اور دشواری تو شدیدہوتی ہے، مگر جان کا خطرہ یقینی نہیں ہو تا۔ اس لئے ایک حاجتمند انسان ”شرعی ضرورت“ کے تحت ملنے والی رعایتوں اور سہولتوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، اکثر لوگ ضرورت اور حاجت میں غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ہر انسانی حاجت کو ”ضرورت اور اضطرار“ کا درجہ دے دیتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ضرورت و اضطرار کی حالت میں بھی ہر حرام کام جائز نہیں ہو جاتا ، ایک شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ کسی دوسرے کو قتل کردے‘ ورنہ خود اسے قتل کر دیا جائے گا ، یہ حالت اضطرار کی ہے‘ مگر اس حالت میں بھی جان بچانے کے لئے دوسرے کو قتل کرنا جائز نہیں‘ اسی طرح حالت اضطرار میں بد کاری کا ارتکاب کرنا بھی جائز نہیں ہو جا تا ، فقہاء نے اضطرارکے بیان میں وہ صورت بھی بیان کردی ہے جو زیر بحث مسئلے پر مکمل فٹ آتی ہے‘ بزازیہ میں ہے:
”مضطر لم یجد میتة وخاف الہلاک فقال لہ رجل: اقطع یدی وکلہا او قال اقطع منی قطعة فکلہا‘ لا یسعہ ان یفعل ذلک‘ ولا یصح امرہ بہ کما لا یصح للمضطر ان یقطع قطعة من لحم نفسہ فیاکل“۔
(بزازیہ ،حاشیہ ہندیہ:۳/۴۰۴)
ترجمہ:۔” بھوک سے نڈھال آدمی اگر کوئی مردار جانور بھی کھانے کو نہ پائے اور اسے موت کا خوف ہو، ایسی حالت میں ایک شخص اسے کہے کہ:” میرا ہاتھ کاٹ لو اور اس کو کھاوٴیا کہے کہ مجھ سے کوئی ٹکڑا کاٹ کر کھالو “ تو اس نڈھال آدمی کے لئے اس کا ہاتھ یا کوئی عضو کاٹنا یا کھانا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی اس طرح کی پیشکش کرنا درست ہے ، جس طرح کہ خود اس نڈھال آدمی کے لئے اپنے جسم کا گوشت کاٹ کر کھانا جائز نہیں۔“
مقاصد شریعت( مصالح خمسہ)
شریعت کے ہر حکم کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے، ہزاروں احکام ہیں اور اس کی لاکھوں حکمتیں ہیں مگر قرآن کریم نے سب کو سمیٹ کر ایک لفظ ” قسط “ میں جمع کردیا ہے‘ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”وانزلنا معہم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط“(الحدید،الآیة:۲۵)
ترجمہ:۔”اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور ترازو‘ تاکہ لوگ سیدھے رہیں انصاف پر“۔
”قسط “سے مراد انصاف ہے مگر صرف ظاہری اور قانونی انصاف نہیں بلکہ حقیقی اور مکمل انصاف مراد ہے ،یہی حقیقی و مکمل انصاف مطلوب ہے ، اس مقصد کے حصول کے لئے دین، جان، عقل نسل اور مال کا تحفظ ضروری ہے، ان پانچوں کا تحفظ ”مقاصد خمسہ“ کہلا تا ہے۔
بلا شبہ جان کا تحفظ انتہائی ضروری ہے اور سوائے تین صورتوں کے انسانی جان لینا جائز نہیں‘ مگر دین کا تحفظ جان کے تحفظ سے مقدم ہے، مسلمانوں کا میدانِ جہاد میں جان دینا اور صحابہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو جانا اسی اصول کی بناء پر ہے۔
آمدم برسرمطلب
کسی انسان کا کوئی عضو بطو ر علاج دوسرے انسان کے جسم میں استعمال کرنا جائز نہیں، جس کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱- اعضاء کی پیوند کاری کر امت انسانی کے خلاف ہے۔
انسان قدرت کی دست صناعت کا بہترین نمونہ اور شاہکار ہے۔
”لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“۔ (التین،۴)
ترجمہ:۔”ہم نے بنایا آدمی خوب سے اندازے پر“۔ (تفسیر عثمانی)
انسان علم و ادراک میں تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہے۔جیساکہ ارشاد ہے:
”علم الانسان ما لم یعلم۔ (العلق‘۵)
ترجمہ۔”سکھلایا آدمی کوجو وہ نہ جانتا تھا“۔ (تفسیر عثمانی)
اور اسے تمام مخلوقات پر فضیلت اور شرافت بخشی گئی ہے۔جیساکہ ارشاد الٰہی ہے:
”ولقد کرمنا بنی آدم“۔ (الاسراء،:۷۰)
ترجمہ:۔ ”اور ہم نے عزت دی ہے آدم کی اولاد کو“۔ (تفسیر عثمانی)
انسان اپنی بقاء کے لئے حیوانا ت، نباتات اور جمادات کو کاٹ پیٹ کر، کوٹ پیس کر اور ملا جلا کر استعمال کرسکتاہے، مگر کسی زندہ یا مردہ انسان کے عضو یا جزء کو اس مقصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتا‘چاہے دوسرا انسان رضامندہی کیوں نہ ہو۔درحقیقت اس معاملہ میں رضامندی کا سوال ہی غیر اہم ہے، کیونکہ جس طرح فریقین کی رضامندی سے سود اور جوا جائزنہیں ہوسکتا، اسی طرح باہمی رضامندی سے اعضاء کا عطیہ یا تبادلہ بھی جائز نہیں‘فریقین کی رضامندی کے باجود شریعت راضی نہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے:
”کسر عظم المیت ککسرہ حیا“۔ (ابو داوٴد ،ص:۱۰۴)
ترجمہ:۔” مردہ انسان کی ہڈی توڑنے میں ایسا ہی گناہ ہے جیسا کہ زندہ انسان کی ہڈی توڑنے میں ہے“۔
ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:۔
”قولہ ککسرہ حیا یعنی فی الاثم کما فی روایة‘ قال الطیبی: اشارة الی انہ لا یھان میتاً کما لا یہان حیاً ، قال ابن ملک الیٰ ان المیت یتألم‘ وقال ابن حجر ومن لازمہ انہ یستلذ بما یستلذبہ الحی ۔۔۔۔ وعن ابن مسعود قال: اذی الموٴمن فی موتہ کاذائہ فی حیاتہ۔ (مرقات ۴/۱۹۵ ۔:رشیدیہ )
ترجمہ:۔” نبی علیہ الصلاة والسلام کے فرمان”ککسرہ“ کا مطلب یہ ہے کہ زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا جس طرح معصیت ہے‘ اسی طرح مردہ کی ہڈی کو توڑنا بھی معصیت ہے ،یعنی حکم میں دونوں برابر ہیں۔ طیبی شارح مشکوٰة نے کہا کہ حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح زندہ انسان کے اعضاء کو نقصان پہنچا کر اس کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی‘ اسی طرح مردے انسان کی قطع وبرید کرکے اس کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ابن الملک نے کہا کہ: جس طرح زندہ انسان کو ایذا دینے اور قطع و برید سے اس کو تکلیف ہو تی ہے‘ اسی طرح مردہ کوبھی ہوتی ہے۔ ابن حجر نے کہا کہ: اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ انسان زندگی میں جس چیز سے لذت حاصل کرتا ہے اور محظوظ ہو تا ہے‘ اسی طرح مرنے کے بعد بھی اسی چیز سے لذت حاصل کرتاہے اور محظوظ ہو تاہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ آپ نے فرمایا ” مردے کو موت کے بعد تکلیف دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں اس کو تکلیف دینا“۔
امام طحاوی مشکل الاثار میں اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”وحاصلہ ان عظم المیت لہ حرمة مثل حرمة عظم الحی“۔
(حاشیہ موطا مالک ص:۲۲۰ ط:قدیمی)
ترجمہ:۔” خلاصہ یہ ہے کہ مردہ انسان کی ہڈی کا احترام ایسا ہی ہے جیسا کہ زندہ انسان کا ہے“۔
مسلم شریف کی روایت میں ” واصلة او مستوصلة“ پر لعنت آئی ہے ،یعنی وہ عورت جو اپنے بال دیتی ہے او وہ عورت جو ان بالوں کو اپنے بالوں کے ساتھ استعمال کرتی ہے، حالانکہ بال کاٹنے سے نہ تکلیف ہو تی ہے اور نہ ہی جسم کی کار کردگی پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
۱:- ہدایہ میں ہے کہ” انسانی جسم سے منفعت حاصل کر نا اس کے احترام کے پیش نظر حرام ہے “۔
۲:-ہندیہ میں ہے کہ:” یہی صحیح علت ہے۔
۳:- سیر کبیر میں ہے کہ جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے احترام اور عظمت کی بناء پر اس کے کسی عضو کو بطور علاج و معالجہ استعمال کرنا جائز نہیں‘ اسی طرح اس کے کسی عضو کا مرنے کے بعد بھی دواء کے طور پر استعمال جائز نہیں“۔
ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ انسانی اعضاء کی قطع و برید او رچیر پھاڑ انسان کے احترام اورکرامت کی بناء پر ناجائز ہے، اعضاء کی چیر پھاڑ انسانیت کی توہین اور بے احترامی ہے ، زندہ اور مردہ دونوں کا حکم اس بارے میں یکساں ہے۔جیسا کہ حدیث اور اس کے تحت شارحین کے کلام سے معلوم ہوا،مزید بحث اگلے عنوان کے تحت آتی ہے۔
انسان بعد از مرگ
مرنے کے بعد بھی انسان محترم و مکرم ہے، عزت و احترام کے ساتھ اسے نہلانا‘ کفنانا ، گہری قبر کھودنا اس کے ستر کی طرف نہ دیکھنا ،عیوب نہ گنوانا‘ قبروں پر نہ بیٹھنا اسی احترام کے پیش نظر ہے۔
سیر کبیر میں ہے کہ: انسان مرنے کے بعد بھی اسی طرح قابل احترام ہے جیسا کہ مرنے سے پہلے تھا۔(۱/۸۸)
بعض صورتوں میں مسلمان میت کا احترام زندوں سے بھی زیادہ ہے اور اگر میت مسلمان عورت کی ہو تو اس کے ستر کا حکم زندگی سے بھی زیادہ سخت ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اب اس کا شوہر بھی اس کے ننگے جسم کو ہاتھ نہیں لگا سکتا،احترام میت یہاں تک ہے کہ میدان جنگ میں کافر کی لاش بھی ”مثلہ“ نہیں کی جاسکتی، اور اگر یہودی کی ہڈیاں بھی قبر ستان میں مل جائیں تو انسانیت کی بنا پراس کی ہڈیوں کا احترام بھی مسلمان میت کی ہڈیوں کی طرح ہے۔جیساکہ حدیث میں ہے:
”اذی المومن فی موتہ کاذائہ فی حیاتہ“۔ ( ابو داوٴد و مالک)
ترجمہ:۔”مردے کو تکلیف دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ زندہ کو تکلیف دینا“۔
”والادمی محترم بعد موتہ علی ماکان علیہ فی حیاتہ۔“
(شرح سیر الکبیر :۱/۸۸،۸۹)
ترجمہ: ۔”آدمی مرنے کے بعد بھی اسی طرح قابل احترام ہے جیسا کہ مرنے سے پہلے تھا“۔
۳:-”انہ یستلذ بما یستلذ بہ الحی“ (رواہ مالک و ابوداوٴد )
ترجمہ:۔”مردہ ان چیزوں سے لذت حاصل کرتا ہے جن سے زندہ لذت حاصل کرتاہے“۔
۲- انسان یا تجارتی جنس
ابن نجیم حنفی  نے الاشباہ میں مال کی جو تعریف نقل کی ہے‘ وہ سب سے عمدہ سمجھی جاتی ہے۔ جیساکہ بحر الرائق میں ہے:
”المال اسم لغیر الآدمی خلق لمصالح الآدمی وامکن احرازہ والتصرف فیہ علی وجہ الاختیار“۔ (البحر الرائق:۵/۲۷۷)
ترجمہ:۔” مال انسان کے علاوہ ہر اس شئی کا نام ہے جو انسان کی مصالح کے لئے تخلیق ہوئی اور اسے تحویل میں لینا اور اختیار کے ساتھ اس میں تصرف کرنا ممکن ہو“۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے:
”قال اللّٰہ تعالیٰ ثلاثہ انا خصمہم یوم القیامة ۔۔ رجل ،باع حرا فاکل ثمنہ“۔ (بخاری:۱/۲۹۷)
ترجمہ:۔”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،تین افراد ایسے ہوں گے جن کے خلاف قیامت کے دن میں خود مدعی ہونگا، ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے آزاد شخص کو بیچا اور اس کی قیمت کو استعمال میں لایا“۔
جس طرح آزاد آدمی کی بیع جائز نہیں‘ اسی طرح اس کے اعضاء کا فروخت کرنا بھی جائز نہیں اور یہ اصول ہے کہ جس چیز کی بیع جائز نہیں اس کا ہبہ و عطیہ بھی جائز نہیں۔
مشرکین نے دس ہزار درہم پیش کرکے ایک شخص کی لاش نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدنے کی کو شش کی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔جیساکہ ایک روایت میں ہے:
”عن ابن عباس ان المشرکین ارادوا ان یشتروا جسد رجل من المشرکین فابی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یبیعہ۔” قال ابن ہشام: بلغنا انہم بذلوا فیہ عشرة آلاف۔“ (اعلاء السنن :۱۴/۱۱۳۔)
معلوم ہوا کہ انسان بکاوٴ مال نہیں‘ اسے تجارت کی جنس نہیں بنایا جاسکتا‘ اگر انسان کے کسی ایک عضو کو فروخت کردینا جائز قرار دیا جائے تو پھر پورے انسان کو فروخت کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اگر یہ بند دروازہ ایک مرتبہ کھول دیاجائے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب انسانی خرید وفروخت کی منڈیاں قائم ہو جائیں اور انسانیت کے سودا گرانسانوں کی سودا گری کرنے لگیں ، افسوس! کہ مسئلہ غلامی پرتو اعتراض ہے مگر انسان کو بھیڑ بکری کی طرح مال تجارت بنانے پر اعتراض نہیں ،غربت کے ہاتھوں تنگ آکر جو لوگ خود کشی کرسکتے ہیں‘ اپنی بیٹیوں کو بیچ سکتے ہیں وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنی اولاد کے اعضاء بھی بیچ سکتے ہیں‘ پھرسخت سے سخت قانون بھی ایسے مفاسد کا انسداد نہیں کر سکے گا، قتل اور ڈکیتی کی سزائیں بھی کچھ کم سخت نہیں مگران سخت سزاؤں کے خوف سے کتنے مجرم جرائم سے باز آئے ؟مجرم تو دندناتے پھررہے ہیں اور مظلوم کی قسمت میں سوائے آہوں اور سسکیوں کے کچھ نہیں۔
کیا عجیب منظر ہو گا!کہ جب آدم کا بیٹا بستر مرگ پر درد کی شدت سے پنڈلیوں پر پنڈلیاں پٹخ رہا ہوگا اورگدھ نما انسان اس پر منڈلا رہے ہوں گے اور جلد باز قصائی کی طرح جانور ٹھنڈا ہو نے سے پہلے چھری کا نٹے لیکر اس کی آنکھیں نوچ رہے ہوں گے اور دل گردے نکال رہے ہوں گے۔
۳- انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں
انسان اور مال کے درمیان موجود شرعی تعلق کا نام ملکیت ہے ،ملکیت سے انسان کو مالکانہ تصرف کا حق ملتا ہے، لیکن اعضاء چونکہ مال نہیں اس لئے انسان اس میں مالکانہ تصرف بھی نہیں کرسکتا، حافظ ابن حجررحمہ اللہ خود کشی کی حدیث پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ویوخذمنہ ان جنایة الانسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ فی الاثم‘ لان نفسہ لیس ملکا لہ مطلقا‘ بل ہی للّٰہ تعالیٰ فلا یتصرف فیھا الا بما اذن لہ فیہ“ ۔ (فتح الباری:۱۱/۵۳۹)
ترجمہ:۔”اس سے یہ بات بھی معلوم ہو تی ہے کہ خود کشی کرنا اور اپنے آپ کو ہلاک کرنا ایسا گناہ ہے جیسا کہ دوسرے کو ہلاک کرنا گناہ ہے۔کیونکہ انسان کا جسم و جان اس کی ملک نہیں ہے کہ جب چاہے اسے ہلاک کرے بلکہ انسان کے جسم و جان خالص اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں۔انسان کو بطریق اباحت صرف اس سے اپنے لئے کام لینے اور اس سے اپنے لئے نفع حاصل کرنے کی اجازت ہے اور انتفاع بھی صرف اس حد تک جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہو۔
اسلامی فلسفہ قانون پر امام شاطبی کی” الموافقات “سب سے بہترین کتاب سمجھی جاتی ہے ۔ مصنف موصوف (الموافقات :۲/۲۷۷۔) پرلکھتے ہیں:
”اسلامی قانون کا تقاضہ یہ ہے کہ آدمی کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ اپنے نفس پر کسی کو مسلط کردے‘ تاکہ وہ اسے قتل کردے یا اس کے اعضاء کو کاٹ دے“۔
۴- اعضاء امانت خدا وندی
انسانی اعضاء نعمت بھی ہیں اور امانت بھی۔ نعمت کا تقاضہ ہے کہ ہم میں جذبہ شکر پیدا ہو اور امانت کا تقاضہ ہے کہ ہم امانت رکھنے والے کی مرضی کے مطابق اس میں تصرف کریں۔اور جب ہم ایسا کریں گے توتب امین کہلائیں گے۔قرآن کریم میں ہے:
”ان اللّٰہ یأ مرکم ان توٴدوا الامانات الیٰ اہلہا“ (نساء،:۵۸)
ترجمہ:۔ ”بے شک اللہ تعالیٰ تم کو فرماتا ہے کہ پہنچادو امانتیں امانت والوں کو“۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت میں ہر قسم کی امانت مراد ہے۔ کشف الاسرار‘ج: ۱‘ص:۱۱۷ میں ہے: انسان کے پاس اس کے حواس امانت ہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو کان اور آنکھ پر رکھا، مقصد یہ تھا آنکھ کان وغیرہ سارے اعضاء اللہ کی امانت ہیں۔
بہرحال امانت پر حق ملکیت قائم نہیں ہو سکتا،ہبہ ،بیع اور وصیت وغیرہ مالکانہ تصرفات ہیں، اعضاء میں انسان کی ملکیت معدوم ہے، یہ ناممکن ہے کہ انسان کسی دوسرے کو اس چیز کا مالک بنادے جس کا وہ خود مالک نہیں ، تملیک مالیس بمملوک محال۔
۵- حق استعمال یاحق ملکیت؟
جو چیزاپنی ملکیت میں ہو انسان اسے جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے خواہ خود فائدہ اُٹھائے یا کسی اور کو عارضی یا مستقل استعمال کے لئے دیدے۔ لیکن جو چیز ملکیت میں نہ ہو بلکہ مالک نے صرف استعمال کی اجازت دی ہو ، انسان وہ چیز کسی دوسرے کو منتقل نہیں کرسکتا اور نہ ہی دوسروں کو اپنے ساتھ فائدہ اُٹھانے میں شریک کرسکتا ہے، فقہ کی زبان میں اسے اجازت ،سہولت اور اباحت کہتے ہیں۔الاباحة ھی الترخیص والاذن۔( مجلہ،دفعہ نمبر:۸۳۶)
اعضاء انسان کے پاس صرف ذاتی استعمال کے لئے ہیں اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان پراپنے مالکانہ حق جتلاتے ہوئے کسی کو اجرت ‘قیمت یا مفت میں یوں ہی کسی کو مالک بنادے۔
حق اللّٰہ اورحق العبد
امام شاطبی موافقات میں لکھتے ہیں :
”عقول انسانی اور اجسام انسانی اللہ تعالیٰ کا حق اور اس کی ملکیت ہیں‘ یہ خالص بندوں کی ملکیت نہیں‘ لہٰذا کسی انسان کو اس بات کا اختیار نہیں کہ حقوق اللہ کو ساقط کردے“۔ (موافقات:ملخص ‘ کتاب المقاصد السئلة اسعہ ص:۲۸۵ بیروت)
انسان کی مثال اس اجازت یا فتہ تاجر غلام کی ہے جسے کاروبار کا آزادانہ اختیارتو ہو تا ہے مگر وہ یہ اختیار نہیں رکھتا کہ اپنے آپ کو فروخت کردے یا کسی کو مفت بخش دے یا اپنے کسی عضو کو ضائع کردے۔ اسی طرح آزاد انسان اللہ کے غلام اوربندے ہیں‘ انہیں اپنے جسم میں جائز تصرفات کا حق تو ہے مگر وہ اپنے جسم اور جان کے مالک نہیں ۔ جیسے بندوں کے اموال اور حقوق ان کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا یا ایک کی امانت دوسرے کے سپرد کرنا‘ ظلم ہے اسی طرح خدا کا حق کسی اور کو دینا اس سے بھی بڑا ظلم ہے۔
اصول موضوعہ
گذشتہ مباحث سے درج ذیل نکات واضح ہوئے :
۱:۔ایک انسانی جسم سے (خواہ زندہ ہو یا مردہ) دوسرے انسانی جسم میں اعضاء یا اجزاء کی منتقلی ناجائز ہے‘ خواہ ایسا انتقال مفت میں ہویا معاوضہ کے ساتھ ہو۔کیونکہ اس مقصد کے لئے انسانی جسم کی چیڑ پھاڑ اس احترام اور کرامت کے خلاف ہے جو قرآن و سنت نے بنی آدم کو بخشا ہے۔
۲:۔اسلام نے تمام انسانوں کو رنگ و نسل اور صنف و عقیدے میں امتیاز کئے بغیر احترام بخشاہے، اورانسان کابحیثیت انسان موت کے بعد بھی احترام باقی رہتا ہے، اس لئے مردہ انسان کے اعضاء بھی زندہ انسان کے جسم میں علاج معالجے کے طور پر استعمال نہیں کئے جاسکتے ۔
۳:۔انسانی اعضاء میں مالیت مفقود ہے،اور جو شئے مال نہ ہو وہ بذریعہ ہبہ یا وصیت یا بیع دوسرے انسان کو منتقل نہیں کی جاسکتی،انسان مالک بنتا ہے‘ اس لئے ممکوک نہیں ہو سکتا۔اور استعمال کنندہ ہو تاہے، اس لئے انسان کو استعمال میں نہیں لا یا جاسکتا۔
۴:۔انسانی بدن اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں او ر انسان ان کا محافظ اور نگران ہے،امین کو ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو ۔
۵:۔جو تصرفات شرعاًممنوع اور کالعدم ہوں‘ وہ آپس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں ہو سکتے۔اعضاء کا انتقال شرعاً ممنوع ہے‘ اگر انسان راضی بھی ہو تو اسلام راضی نہیں۔
۶:۔ انسان کو اپنے اعضاء میں حق منفعت اور حق استعمال حاصل ہے ، مگر حق ملکیت حاصل نہیں، جن اموال و منافع پر انسان کو حقِ مالکانہ حاصل نہ ہو‘ انسان ان اموال یا منافع کی ملکیت کسی دوسرے کو منتقل نہیں کرسکتا۔
۷:۔انسانی جسم میں بندے کا بھی حق ہے، مگر اللہ تعالیٰ کا حق غالب ہے ۔انسان کی اس مغلوب حیثیت کی بناء پر انسان مجاز نہیں کہ خدائی حق سے دستبردار ہو جائے یا کسی دوسرے کو اس کا مالک بنادے۔
۸:۔ جسم کا جو حصہ جسم سے علیحدہ ہو جائے وہ نجس اور ناپاک ہو جاتاہے‘ اب صرف اسی جسم میں اس کا استعمال ہو سکتا ہے جس جسم سے علیحدہ ہو ا ہے، دوسرے جسم میں اس کا استعمال ناپاک اور حرام کا استعمال ہے، اور حرام میں موٴمن کے لئے شفاء نہیں۔
۹:۔ضرورت کے مواقع میں شرعی قوانین میں بہت نرمی اور سہولت ہے، مگر ضرورت سے اردو محاوے میں استعمال ہو نے والی ”ضرورت“ مراد لینا غلط ہے‘ ضرورت کے لئے خاص قیود اور شرائط ہیں جو مسئلہ زیر بحث میں نہیں پائی جاتیں۔ بالفرض زیر بحث مسئلہ میں ضرورت اپنی تمام شرائط کے ساتھ موجودبھی ہو،تب بھی انسانی اعضاء کی پیوند کاری ان چند مسائل میں سے ہے جن میں شریعت نے ضرورت کے موقع پر بھی لچک نہیں دکھا ئی ہے۔
۱۰:۔ہمدردی یا بیدردی؟
محبت و اخوت‘ ایثار اور ہمدردی بلا شبہ اچھی صفات ہیں اور اسلام میں اس کی بہت ترغیب ہے مگر ہر صفت کے اظہار کا ایک موقع اور محل ہو تا ہے اور اس کے استعمال کی کچھ حدود اور قیود ہو تی ہیں‘ جیسا کہ فلسفہٴ اخلاق پرنظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر کسی صفت کو اس کی حدود میں استعمال نہ کیا جائے ،تو اس کا نتیجہ کسی نا کسی صورت میں ظلم کی صورت میں نکلتا ہے۔ ”انسانی اعضاء کا عطیہ ‘ ہبہ یا اس کی خرید وفروخت‘ ایثار وہمدردی کے حدود سے باہر ہے‘ سچائی ایک اچھی صفت ہے‘ مگر سچ ہونے کی ایک حد مقرر ہے‘ مٹھی بالکل بند رکھنا بھی منع ہے‘لیکن ہاتھ بالکل کھلا رکھنے کی بھی اجازت نہیں۔جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”ولاتجعل یدک مغلولةً الی عنقک ولاتبسطہا کل البسط فتقعد ملوما محسورا“۔
صحیحین میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اپنا دوتہائی مال صدقہ کرنا چاہتے تھے مگر آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا اور صرف ایک تہائی کی اجازت دی ۔ اسلام میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے‘ اگر اعتدال سے کام نہ لیا جائے تو انسان افراط یا تفریط کا شکار ہوجاتا ہے‘ معمولی سا فرق نظر انداز کرنے سے شجاعت‘ دیوانگی میں۔ تواضع‘ ذلت میں اور حکمت‘ بزدلی میں بدل جاتی ہے۔ جب ہمدردی کی حدود کا خیال نہ رکھا جائے توپھر ہمدردی‘ ہمدردی نہیں رہتی۔
جن نصوص میں ہمدردی کی ترغیب ہے وہ ایک عمومی اخلاقی ترغیب کے لئے ہیں‘ جب کہ اعضاء کی منتقلی کا عدم جواز شریعت کا خاص قانون ہے۔ ایک طرف تو اصول افتاء کی رو سے جزئیہ‘ کلیہ پر فضیلت رکھتا ہے اور اصول قانون کی رو سے خاص قانون عام قانون پر مقدم ہے‘ دوسری طرف خالص عقلی قوانین کی رو سے عمومی قاعدے سے خاص حالت کے متعلق نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں۔
ٹھیک ہے حدیث میں ہے کہ: ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے“ مسلمان دوسرے مسلمان کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا“ لیکن خالص علمی اور سنجیدہ مباحث میں ہمیں اس قسم کے جذباتی اور سطحی دلائل پیش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
درخواست گذار اس قسم کے دلائل سے ایک عوامی مجمع کے جذبات تو ابھار سکتا ہے لیکن فنِ خطابت کا زور‘ قانون سازی کے میدان میں نہیں چلتا ‘یہاں موضوع سے متعلق ٹھوس اور براہ راست دلائل چاہئیں‘ ان عمومی دلائل سے اعضاء کی منتقلی کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
ایک انسانی عضو کا دوسرے انسانی جسم میں استعمال ایثار و ہمدردی کی حدود سے باہر ہے۔
بعض لوگ ” دیت“ کو معاوضہ قرار دیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر انسانی اعضاء کے تبادلے کو جائز کہہ دیتے ہیں‘ حالانکہ ایسا سمجھنا غلط ہے ۔ کیونکہ :
۱:۔دیت، انسان کے جسم یااعضاء کا معاوضہ نہیں‘ بلکہ تاوان اور جرمانہ ہے۔ اگر مجر م پر دیت واجب نہ کی جائے تو انسانی جان کا مفت میں ضائع ہو نا لازم آئے گا۔ جیساکہ فتح القدیر میں ہے:
” الدیة اسم لضمان یجب بمقابلة الآدمی او طر ف منہ“۔(فتح القدیر:۸/۲۰۱)
۲:۔در اصل انسانی اعضاء کا کوئی معاوضہ ہوہی نہیں سکتا ،اس لئے حدیث میں آتا ہے:
”قال الصادق والمصدوق: لیس لابدانکم ثمن الا الجنة،فلا تبیعہا الا بہا“ (تفسیر کبیر:۶/۱۹۹)
ترجمہ:۔”یعنی نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جنت کے علاوہ تمہارے جسموں کی کوئی قیمت نہیں ہے‘ اس لئے اپنے بدنوں کو جنت کے سوا کسی چیز کے بدلے میں فروخت نہ کرو“۔
۳:۔اگر دیت معاوضہ ہو تا تو شریعت اسے فریقین کی رضامندی پر چھوڑ دیتی‘ جیسا کہ عام معاملات میں شریعت کا مزاج ہے،حالانکہ اس کے برعکس شریعت نے دیت کی مقدار متعین اور مقرر کی ہے۔
۴:۔اگر دیت انسانی اعضاء کی قیمت ہو تی تو آزاد لوگوں کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اس میں فرق ہو تا،حالانکہ آزاد لوگوں کے مراتب کے فرق سے دیت میں فرق نہیں آتا۔ ۶:۔ دیت صرف قاتل پر آتی ،اس کے متعلقین پر نہ آتی ۔
۷:۔انسان کو اپنے مملوکہ اموال کی طرح اپنے اعضاء فروخت کرنے کا اختیار ہو تا ، حالانکہ ایسا نہیں۔
مزید تفصیل مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی کی تصنیف ”انسانی اعضاء کی پیوند کاری اور اس کے شرعی احکام“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
نتیجہ بحث:
حاصل کلام یہ کہ ملکی قوانین میں اعضاء کے تبادلے کی جس قدر گنجائش ہے‘ وہ بھی اسلامی اصولوں کے مخالف ہے‘ اس لئے اس میں مزید وُسعت کا مطالبہ از روئے شرع ناقابل سماعت ہے۔ پہلے سے موجود قانون کو اگر کالعدم نہیں کیا جاسکتا تو اس میں مزید وسعت بھی نہیں دینی چاہئے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: قادیانی دجل و فریب!
Flag Counter