Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۲۹ھ دسمبر ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

7 - 9
وجوہِ اعجازپرمشتمل تفاسیرکابیان
 وجوہ اعجازپرمشتمل تفاسیرکابیان

گذشتہ سطور میں ذکر کردہ مباحث کی وجہ سے میں اپنے مقصد بحث سے بہت دور نکل گیا تھا اور اب اپنے مقصود ومطلوب کی جانب عود کرتا ہوں اور مقصد بحث سے اعتناء کرنا پسندیدہ بھی ہے، قرآن کریم کی وجوہِ اعجاز کے متعلق بحث میرا اہم ترین موضوع ہے، بلکہ یہ موضوع گذشتہ مباحث میں ذکر کردہ تمام موضوعات کی گویا روح اور اصل ہے۔
چنانچہ جان لینا چاہئے کہ گذشتہ مباحث سے یہ بات واضح ہوئی کہ قرآن کریم کی تفاسیر مختلف جہات سے بیان کی گئی ہیں اور بعض مفسر ین نے ان مختلف جہات میں سے ایک حصہ کو لے کر اپنے زمانہ واحوال کے مطابق اس سے متعلق تفسیر تالیف کی ہے۔ بلاشبہ قرآن کریم وہ عالی مرتبہ معجزہ ٴ خداوندی ہے جس کا اعجاز ہمیشہ ہمیشہ برقرار رہے گا ۔ہرزمانہ کے بڑے بڑے خطباء اور فصحاء عرب کو قرآن کریم کے ذریعہ چیلنج کیا گیا اور انہیں قرآن کریم کے مقابلہ ومجادلہ کی دعوت دی گئی چاہے وہ انسان ہوں یاجنات، لیکن ان کے بلند گو ادباء گونگے ہوگئے اور ان کے ادب کی برق انگریزیاں گم ہوگئیں ،اور یہ بات تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ فصاحت وبلاغت میں عرب کے باشندے کتنا بلند مقام رکھتے تھے، ان کے عجیب عجیب قصائد‘ رجزیہ اشعار‘ مختصر ومفصل مختلف قسم کے خطبات ‘ گرجتے مسجع کلام‘ منظم ومرتب نظمیں اور دلنشین نثری کلام موجود ہے ،مگر پھر بھی وہ عاجز اور رسوا ہوئے اور ان کی تمنائیں ختم ہوگئیں ………………اور انہوں نے قرآن پر عملی قولی اور اعتقادی پختہ یقین کرلیااور ان کا عجز اس قدر ظاہر وباہر ہورہا ہے کہ کوئی صاحب فہم وفراست اس میں ہرگز شک نہیں کرسکتا۔
قرآن کریم کی مثال اس بلند گو خطیب کی سی ہے جو برسرعام اپنے حسن ونظم ونسق کا اعلان کرے اور اپنے عمدہ ضبط ووصف کو آشکارا کرے، اسی طرح یہ قرآن حکماء اور فلسفیوں کے سامنے ببانگ دہل نظام دنیا کی اصطلاح کے مطابق قوانین‘ تہذیب واخلاق کے دستور ‘ ارتقاء وترقی کے رموز واشارات‘ سیاست شرعی اور ادارت وامارت کی روح‘ بہترین حکمت ونصیحت سے لوگوں کو دعوت ِحق کی صدا دیتا ہے اور مختلف پیرایوں میں ایسے قطعی دلائل پیش کرتا ہے جس کے بیان کرنے کو فلسفی ودانشمند محال یا مستبعد خیال کرتے ہوں، تاکہ ان حکماء اور فلسفیوں کے سینے ٹھنڈے ہوں اور اگر وہ اپنی عقل کو نظر غائر اور منصفانہ غور وتدبر کرنے کے لئے آزاد کردیں اور ہرقسم کی سرکش والحاد اور حسدوعناد سے اپنے سینوں کو مبرأومنزہ کرلیں تو وہ با آسانی ان دلائل سے طمانینت نفس پاسکتے ہیں۔
بے شک دنیوی علوم وفنون جس قدر ترقی پذیر ہورہے ہیں، خداوند تعالیٰ کی اس عظیم الشان کتاب کے عجائبات اسی قدر صفحات عالم پر روشن سے روشن تر ہوتے جارہے ہیں۔ نیز قرآن کریم کے ذوقی ووجدانی اور برہانی ویقینی کیفیات کے عجائب وغرائب صفحات عالم پر ثبت ہوتے جارہے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم ہمیشہ ہمیشہ اپنی صفت اعجاز پر برقرار رہے گا،نہ کبھی پرانا ہوگا نہ بوسیدہ، اور قیامت تک یوں ہی معجز رہے گا۔ راقم نے حضور پاک ا کی شان اقدس میں ایک نعتیہ قصیدہ لکھا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
۱- محمد ا قرآنی معجزہ کے ہمراہ تشریف لائے جو ہمارے لئے روشن باغ وبہاراں کے مانند ہے۔
۲- قرآن کریم کے واضح احکامات خلق خداوندکے لئے راہنمائی کا ذریعہ ہیں اور اس کی آیات گویا ستارے ہیں، جن سے انسان راہ یابی پاتاہے۔
۳- الفاظ قرآن بہترین نظم وترتیب پر پروئے موتیوں کے مانند ہیں اور قرآنی لطائف ومعارف اتنے دقیق ہیں جن کے لطف وباریکی کا آپ اندازہ نہیں لا سکتے ہیں۔
۴- گویا قرآن کریم چمکتا چاند ہے اور ابھرتا روشن سورج اور بہتا چشمہ اور خوب برستی بارش ۔
۵- حقائق قرآنی خوب بلند وبالا ہیں اور قرآنی دقائق خوشنما وخوش اسلوب ہیں جو تجھ کو واضح نور کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور دلوں کے لئے شفایابی کا باعث ہیں۔
۶- قرآن کریم کے روحانی ومعنوی باغات کی خوشبو خوب مہکتی ہے او ر اس کے عجائبات وسیع تر ہوتے جارہے ہیں، گویا ایسی زور دار برستی بارش ہے کہ جو سمندر کی موجوں کی مانند کبھی خشک نہ ہوگی۔
۷- ایسا وسیع سمندر ہے کہ جب اگر غور وتدبر کے ذریعے اس میں غوطہ زن ہوں گے تو آپ کو قیمتی لعل وجواہر کے تحفے عنایت کرے گا۔
۸- ا سکی بلاغت وطلاقت بلند وبالا پہاڑوں کی چوٹیوں کو پہنچ گئی ہے، جہاں پہنچ کر بھی عقول اپنی کمزوری کی بناء پر اس بلاغت کے حقائق کے بارے میں متحیر ومتردد رہے۔
گذشتہ مقدمہ کے بعد اب سب سے اول یہ جان لینا چاہئے کہ قرآن کریم کا اعجاز درحقیقت کس جہت سے تھا؟ جس کی بناء پر وہ خدا تعالیٰ کی حجت بالغہ اور معجزہ ٴ ناطقہ بن کر اپنے زمانہ کے شہسوارانِ فصاحت وبلاغت اور راہیان طلاقت وبلاغت پر غالب ہوکر رہا ،قاضی ابوبکر باقلانی ”اعجاز القرآن“ ص:۱۰مطبوعہ مکتبہ سلفیہ پر تحریر فرماتے ہیں:
”صنعت کلام عرب (عربی گرامر) کے ماہرین علمائے عرب وعجم نے جس قدر معانی قرآن کے متعلق مفید کتب تحریر فرمائیں اور مختلف فوائد قرآنی کے متعلق اپنی کاوشیں فرمائیں، اس سے کہیں بڑھ کر اس بات کی ضرورت تھی کہ قرآن کریم کی وجہ اعجاز اور اس کے بلند مرتبہ ومقام کو واضح کرتے اور اس کے متعلق ابحاث تحریر کرتے ۔ نحوی واعرابی تراکیب کی دقیق ابحاث اور جزء لایتجزیٰ وغیرہ مختلف اعراض کے متعلق جو دقیق نکتہ سنجیوں پر مشتمل کتب علمائے کرام نے تحریر فرمائیں، اس سے بڑھ کر ”اعجاز القرآن“ کا موضوع اس قدر مباحث کا حقدار تھا وجوہ اعجاز کو بیان کرنے کی حاجت اور اس کے متعلق فوائد ومقاصد کے استخراج واستنباط میں اشتغال، دیگر فنی ابحاث سے کہیں برتر وبالا ہے ۔
بعض علمائے کرام کی اس قدر اس موضوع کے متعلق کوتاہی کی بناء پر ایک قوم فرقہ براہمہ کے نظریہ وعقیدہ کی جانب مائل ہوگئی اور یہ رائے قائم کرلی کہ دراصل قرآن کی کوئی وجہ اعجاز قابل بیان والتفات ہے ہی نہیں ،یہ نظریہ اس قوم نے اس وقت قائم کیا جب انہوں نے علمائے عرب کی دقیق فنی نکتہ سنجیوں اور مختلف علوم وفنون کے متعلق کاوشوں کو دیکھا اور پھر اس موضوع کے متعلق لکھی جانے والی کتب پر نظر کی تو ان تصنیفات کو ناقص اور وجہ اعجاز کے بیان سے قاصر پایا اور طرق اعجاز کے بیان اور ان تصنیفات کے مباحث کی ترتیب کو مخل فہم، بلکہ مہمل وبے فائدہ دیکھا“۔ الخ
”اعجاز قرآنی“ کے متعلق لکھی جانے والی کتب :
”اعجاز القرآن“ وہ موضوع ہے جس کے متعلق قدیماً وحدیثاً مستقل کتب لکھی گئیں، میرے علم کے مطابق (یا جہاں تک مجھے معلوم ہے) اس موضوع کے متعلق سب سے پہلے ابوعثمان حاجظ متوفی: ۲۵۵ھ نے کتاب تصنیف کی جو ”البیان والتبین“ ”الحیوان“ البخلاء وغیرہ کئی ادبی قابل قدر کتاب کے مؤلف ہیں، اس کتاب کا نام ”نظم القرآن“ ہے ،قاضی ابوبکر نے ”اعجاز القرآن“ میں اس کتاب ”نظم القرآن“ کا ان الفاظ میں تعارف پیش کیا ہے:
”حاجظ نے بھی نظم قرآنی کے متعلق ایک کتاب تحریر کی، جس میں فقط وہی مباحث ذکر کئے جو متقدمین ‘ متکلمین علماء نے بیان کئے تھے۔ اور اس موضوع کے متعلق جو مختلف آراء ونظریات میں اختلاط والتباس واقع ہوا ہے، اس کی وضاحت نہ کی“الخامام باقلانی کے بیان کردہ اس مبحث پر ہم اس طرح نکتہ چینی تو نہ کریں گے، جس طرح فاضل رافعی جو مشہور عربی ادیب ہیں نے نکتہ چینی کی ہے ،لیکن بہرحال حاجظ کی طرف سے یوں معذرت کریں گے کہ حاجظ اس موضوع کے متعلق سب سے پہلے لکھنے والے ہیں اور ان کو اس موضوع کے متعلق تصنیف کرنے میں تقدم کی فضیلت بہرحال حاصل ہوئی ہے۔
بعد ازاں! شیخ ابو عبد اللہ واسطی معتزلی متوفی: ۳۰۶ھ نے اس موضوع کے متعلق ایک کتاب تصنیف کی، جس کا نام ”اعجاز القرآن فی نظمہ وتالیفہ“ رکھا ۔صاحب ”کشف الظنون“ اور ابن الندیم (صاحب ”الفہرست“) دونوں حضرات نے اس کتاب کا تذکرہ فرمایا ہے، لیکن راقم اب تک اس کتاب پر مطلع نہ ہوسکا ہے، صاحب ”اسرار البلاغة“ اور ”دلائل الاعجاز“ شیخ عبد القاہر جرجانی متوفی :۴۷۴ ھ نے اس کتاب کی دو شرحیں تصنیف فرمائیں ،جن میں سے مفصل اور ضخیم شرح کا نام ”المعتضد“ ہے اور دوسری مختصر شرح کا نام راقم کو معلوم نہیں ہے۔ علامہ جرجانی نے اس کی شرح تالیف فرمائی ،یہی اس کتاب کی فضیلت وشرفیابی کے لئے کافی ہے ،ان حضرات کے بعد ابو الحسن علی بن عیسیٰ الرمانی متوفی ۳۸۲ھ نے ”اعجاز القرآن“ کے متعلق تقریباً تیس صفحات پر حاوی ایک مختصر رسالہ بنام ”اعجاز القرآن“ تصنیف فرمایا، یہ رسالہ حال ہی میں مکتبہ جامعہ ملیہ دہلی (ہند) سے طبع ہوا ہے۔ راقم الحروف نے اس رسالہ کا مطالعہ کیا ہے۔
فی زمانہ جبکہ علم بلاغت ومعانی میں لکھی گئی کتاب کی بہتات ہے، اس کے پیش نظر اس رسالہ کا کچھ خصوصی مقابلہ ومعیار شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ علامہ رافعی کو اس رسالہ کے مصنف کے بارے میں مغالطہ ہوا ہے اور انہوں نے مصنف کا نام ”ابوعیسیٰ الرمانی“ ذکر کیا ہے، لیکن درست نام ابو عیسیٰ کے بجائے ابن عیسیٰ ہے ،ابن الندیم اور ابن خلکان وغیرہ علماء نے یوں ہی ذکر کیا ہے۔
بعد ازاں شیخ ابو بکر الباقلانی متوفی :۴۰۳ھ جو مشہور محقق ومتکلم شیخ السنة، لسان الامة اور گویا علم کے بحر بیکراں تھے نے ”اعجاز القرآن“ کے نام سے مشہور کتاب تصنیف فرمائی۔ شیخ رافعی نے اگرچہ موصوف باقلانی کی اس کتاب کی مدح وستائش کی ہے لیکن ساتھ ساتھ کچھ ناکچھ اس کتاب پر طعن زنی بھی کی ہے راقم عرض کرتاہے کہ اس کتاب کا بے شک تمام امت پر بڑا احسان ہے، خصوصاً شیخ رافعی پر اس لئے کہ علامہ باقلانی نے ہی تو ”اعجاز القرآن“ کے متعلق دلائل پیش فرمائے ،طریق استدلال کو واضح کیا ہے اور امت کے لئے وجوہ اعجاز کو سمجھنے کا راستہ آشکارا کیا ہے ،اس کتاب کو تصنیف ہوئے آج ہزار سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے، لیکن یہ کتاب اب تک تروتازہ معلوم ہوتی ہے اور آج جبکہ اس موضوع کے متعلق کئی کتب اور علوم وضع ہوچکے ہیں ،علمائے زمانہ بھی اس کتاب سے مستغنی نہیں ہو سکتے ہیں ،پھر اس زمانہ میں جب کہ مختلف علوم وفنون کو اس حد تک ترقی وترویج حاصل نہ تھی ،آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ کتاب کس حد تک نافع ثابت ہوگی ۔
خاص طور پر اس زمانہ میں علوم بلاغت جس کے نقص وعیب کا ازالہ اور بلاغت وفصاحت سے متعلق اصول وضوابط کی ترتیب وتدوین کو اس فن بلاغت کے امام شیخ عبد القاہر جرجانی نے مکمل فرمایا،ان علوم کو خاطر خواہ رواج حاصل نہ تھا اور وجوہ اعجاز کا فن تو اب تک ظاہر بھی نہ ہوا تھا ،پھر کیسے اس کے متعلق علامہ باقلانی نے اتنی قابل قدر مباحث تحریر فرمائیں (واقعی یہ ایک بڑا احسان تھا) اسی بناء پر تمام علماء نے تقریباً اس کتاب کی اسی عبارات میں تعریف وتوصیف فرمائی ہے کہ قدم وقلم جھوم جھوم جاتے ہیں اور عقول وافہام عش عش کر اٹھتے ہیں۔
صاحب ”الاتقان“ اور صاحب ”کشف الظنون“ وغیرہ حضرات نے ذکر فرمایا کہ مشہور محدث امام احمد بن محمد الخطابی البستی الشافعی متوفی ۳۸۸ھ جو ”معالم السنن“ کے مصنف ہیں نے بھی اس موضوع میں ایک کتاب تصنیف کی۔ ابن سراقہ اوررؤیانی (جو شاید ابو المحاسن الرؤیانی ہی ہیں) متوفیٰ: ۵۰۶ھ جو اکابر علمائے شوافع میں سے ہیں اور ”بحر المذہب“ ”مناصیص الشافعیة“ وغیرہ کے مصنف ہیں، انہوں نے بھی اس موضوع کے متعلق تالیف فرمائی ‘ بعدازاں امام رازی متوفی: ۶۰۶ھ ابن ابی الاصبغ متوفی :۶۵۴‘ شیخ زملکانی متوفی: ۷۲۷ھ نے بھی اس موضوع کے متعلق کاوشیں صرف کیں ،ممکن ہے کہ آخر الذکر علماء کی تصنیف جیساکہ امام رافعی  نے تحریر فرمایا ،ایک دوسرے کی شرح اور مستفاد تھیں۔
ممکن ہے کہ ان مختلف کتب میں مختلف خوشنما اسلوب وطرز پر اور مختلف مگر واضح تعبیرات، نیز وجوہ اعجاز کو واضح سے بڑھ کر واضح تر خوب اسلوبی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ لیکن افسوس کہ امت نے ان کتب میں پھیلے بیش بہا معادن وخزائن سے قابل قدر فائدہ نہ اٹھایا، شاید کہ اب خدا تعالیٰ کو ئی معاملہ پیدا فرمادیں (کہ لوگ ان کتب سے نفع مند ہوں)
ابن الندیم نے ”الفہرست“ میں ان مذکورہ کتب کے علاوہ دو اور کتابوں کا ذکر کیا ہے ،ایک ابن اخشید کی ”نظم القرآن“ اور دوسری ابو علی حسن بن علی بن نضر کی ”نظم القرآن“ نیز علامہ قاسم بن فیرة شاطبی شافعی کا رسالہ ”اعجاز القرآن“ اور مطرزی کے رسالہ ”اعجاز القرآن“ کا بھی تذکرہ فرمایا ہے ۔
متقدمین ومتأخرین علماء میں سے جن علمائے کرام نے اس موضوع کے متعلق جو کتب تحریر فرمائی وہ میرے علم کے متعلق دس سے کچھ اوپر تھیں جو میں نے ذکر کردیں بعد ازاں صدیاں گذرنے کے بعدان متقدمین ائمہ کرام کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد مصر کے نابغہٴ روزگار اور معاصر علماء نے ادب میں لائق تحسین شخصیت فاضل ادیب مصطفی صادق رافعی مرحوم جو بلاشبہ رواں صدی کے ادباء میں سرفہرست ہیں نے اس میدان میں قدم رکھا اور ایک کتاب بنام ”اعجاز القرآن“ لکھی جس میں آج کل کے بہترین مروجہ ادبی اسلوب کی رعایت رکھی۔ چنانچہ مقدمین علماء نے جو مباحث پر اجمالی طور پر بیان فرمائی تھیں ان کی تفصیل وتوضیح کی اور جن مباحث کی طرف متقدمین علماء نے اشارے فرمائے تھے ان کو نمایاں فرمایا، نیز موجودہ زمانہ میں ارتقاء پذیر علمی وفنی ابحاث اور ان کے مطابق اعجاز قرآنی کے پہلوؤں کو آشکارا فرمایا اور مختلف لطائف ونکات جو متقدمین کی کتب میں موجود تھے ان کو واضح انداز میں تحریر فرمادیا لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ موصوف کی طبیعت جیساکہ انہوں نے باقلانی کے بارے میں فرمایا کی طبیعت کے مانند تھی کہ:
”وہ اپنی عبارات میں حیلہ سازی اور تفنن کو راہ دیتے ہیں اور مختلف ابحاث میں کہیں بعید پہلوؤں کے متعلق بحث کرتے ہیں اور اپنی تحریر میں عمدہ اسلوب بیان پر مکمل قدرت میں نیز قابل قدر مباحث کے متعلق بصیرت افزوز تصرفات میں حاجظ اور اس کے ادبی مقلد ابن عمید کی راہوں کہ راہرو ہیں“ الخ
فاضل رافعی حاجظ کا اسلوب بیان رکھتے ہیں،تحریر وتقریر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور میدان تحریر میں ان کا قلم جب حرکت کرتا ہے تو گویا خوب رقص وطرب کے مناظر دکھلاتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ قاری کو بلاغت قرآنی سے روشناس کرنے سے قبل اپنی بلاغت کا قدر دان بنانا چاہتے ہیں ان کی عبارت کی انتہائی سلالت وسلاست کبھی کبھی ان کے مقصود کلام کو داغدار کر دیتی ہے ۔
موصوف رافعی نے اپنی اس کتاب میں ابن الاثیر کی ”المثل السائر“ سے خوب استفادہ کیا ہے لیکن اس کی تصریح نہ کی باوجود اس کے بہرحال میں موصوف کے ادبی فضل وکمال کا ہرگز انکار نہیں کرسکتا ہوں اور ان کے اسلوب تحریر وانشاء کی جو قلوب می وقعت ومنزلت ہے اس کا بھی میں ہرگز منکر نہیں ہوں لیکن میں چاہتاہوں کہ کوئی معاصر ادیب ہمت فرماکر اس کتاب کو اس کے حجم کے مقابلہ میں ایک تہائی میں تلخیص واختصار پیش کردے اور تہائی بھی بہت نافع ہوگا اور پھر اس تلخیص کو علوم بلاغت کے نصاب میں موجود کتب میں شامل کردیا جائے تو طالبین بلاغت کے لئے انتہائی نفع مند ثابت ہوگی ان شاء اللہ۔اس موضوع ”اعجاز القرآن“ کے متعلق گذشہ مؤلفات جو محض اس موضوع کے متعلق بحث کرتی ہیں کے علاوہ امت محمدیہ ا کے کبار علماء نے جو منتشر لعل جواہر بکھرے ہیں ان کو اگر اکٹھا کردیا جائے تو علم بلاغت کے گلے کے لئے ایک قیمتی ہار تیار ہوجائے گا اور وہ تالیف ادب عربی کی کتب میں نمایاں مقام ومرتبہ حاصل کریگی ۔
ان دیگر کتب میں شیخ جرجانی کی دو گرانقدر تالیفات ”اسرار البلاغة“ اور ”دلائل الاعجاز“ قابل بیان ہیں ،مختلف مباحث کے ضمن میں علامہ جرجانی نے ”اعجاز القرآن“ کے متعلق بیش بہا فوائد ذکر فرمائے ہیں ،اسی طرح امیر یمانی نے اپنی کتاب ”الطراز“ امام رازی نے ”نہایة الایجاز“ میں ایسے کئی فوائد ذکر کئے ہیں امام رازی کی ”نہایة الایجاز“ اگرچہ شیخ جرجانی کی ان دو کتب کا جن کا گذشتہ سطور میں ذکر کیا گیا کا خلاصہ ہی ہیں ،لیکن اس کو اختصار وتلخیص کہنا ہی گویا مجاز ہے ۔
انہی علماء کرام کے مانند ابن قیم الجوزیة نے بھی ”بدائع الفوائد“، مدارج السالکین“ اور ”کتاب الفوائد“ نیز اپنی دیگر مؤلفات میں بھی قرآنی اعجاز کے متعلق مختلف لطائف نکات تحریر فرمائے ہیں ۔
مزید یہ کہ اکثر متأخرین مفسرین نے ان مباحث کی تفسیر کی جن میں صاحب ”الکشاف“ علامہ زمخشری جو مفسرین میں نمایاں مرتبت ومنزلت رکھتے ہیں، گویا بلند وبالا مینار کے روشن چراغ ہیں ،اسی طرح امام رازی نے ”تفسیر کبیر“ میں ابن اثیر نے ”المثل السائر “میں ،ابو سعود نے اپنی تفسیر ”ارشاد العقل السلیم “میں اور علامہ آلوسی نے ”روح المعانی“ اور دیگر ماہرین علوم وفنون اور ادبی شغف رکھنے والے علماء متقدمین نے اس موضوع اعجاز القرآن کے متعلق گرانقدر معارف ذکر کئے ہیں۔
 
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ: ۱۴۲۹ھ دسمبر:۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور حقانی صاحب کی بے جا حمایت
Flag Counter