اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور حقانی صاحب کی بے جا حمایت
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات
اور حقانی صاحب کی بے جا حمایت
گزشتہ دنوں...۱۶/نومبر ۲۰۰۸ء ...اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی جن جدید اور انوکھی تحقیقات پر مشتمل سفارشات پیش کی ہیں، ان پر علمائے کرام نے دینی، ملی غیرت اور دین و مذہب کو مسخ و تحریف سے بچانے کی غرض سے شدید احتجاج کیا ہے، اور قرآن و سنت، اجماع امت اور چودہ صدیوں کے اکابر مجتہدین کے اجتہاد سے متصادم تجاویز و سفارشات کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، بلکہ تاحال اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
بایں ہمہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جہاں پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء اور مذہبی راہنما اسلامی نظریاتی کونسل کے ارشادات کو قرآن و سنت اور دین و شریعت سے متصادم قرار دیتے ہیں، وہاں جناب ارشاد احمد حقانی صاحب جیسے جہاں دیدہ اور کہنہ مشق صحافی کی رائے نہ صرف علماء کے خلاف ہے، بلکہ ان کی تحریر و قلم کی تمام تر قوت و صلاحیت کا وزن اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے چیئرمین کے پلڑے میں نظر آتا ہے۔
چنانچہ موصوف نے ۱۸/نومبر ۲۰۰۸ء کے ادارتی صفحہ میں اپنے کالم کو ان کی تائید و حمایت کے لئے وقف کرتے ہوئے جہاں ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے، وہاں نہایت خیر خواہی سے علماء کرام کو بھی مشورہ دیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے خلاف فیصلہ اور فتویٰ دینے سے قبل غوروفکر کریں۔
بلاشبہ حقانی صاحب کا مشورہ لائق قدر ہے، لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں ہے کہ علماء کرام قرآن و سنت اور اجماع امت کی صریح نصوص سے متصادم دورِ حاضر کے نام نہاد محققین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ”مجتہدین“ کی تجاویز اور فتاویٰ کو بھی ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرجائیں، یا محض اس لئے خاموشی اختیار کرلیں کہ یہ پاکستان کے روشن خیال مجتہدین کی تحقیق ہے، ضرور اس میں ایسی کوئی حکمت پوشیدہ ہوگی جو نہ صرف ہمارے بلکہ صاحبِ قرآن، صاحبِ شریعت اور چودہ صدیوں کے اکابر محققین کے سامنے نہیں تھی، کیا ہم اور کیا ہماری معلومات؟ لیکن گستاخی معاف! حقانی صاحب ہمیں اتنا کہنے کا حق دیں کہ غوروفکر کی ضرورت بدیہات میں نہیں ،نظریات میں ہوتی ہے۔
”چنانچہ انہوں نے حضرت امام ابو حنیفہ کا یہ ارشاد یقینا سنا ہوگا کہ: اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ نبوت کرے، تو اس سے معجزہ طلب کرنے والا کافر ہے۔“
اس لئے کہ قرآن و سنت اور اجماع امت کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عویٰ نبوت کفر ہے اور یہ ایک بدیہی امر ہے، اور کسی بدیہی امر کے خلاف غوروفکر بھی اس عقیدہ میں شک و تردد کے مترادف ہے، اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ کسی بدیہی اور قطعی عقیدہ کے خلاف شک و تردد بھی کفر ہے۔
اس تمہید کے بعد عزت مآب جناب حقانی صاحب سے ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ خود ہی اپنے ممدوح جناب ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کی ایک ایک سفارش کو دیکھیں اور فیصلہ فرماویں کہ وہ قرآن و سنت کے موافق ہیں یا مخالف ؟ مثلاً : خود حقانی صاحب فرماتے ہیں:
۱:… ”شوہر کو طلاق کا تحریری مطالبہ کرنے والی بیوی کو ۹۰ روز کے اندر طلاق دینے کا قانونی پابند بنایا جائے، ایسانہ کرنے کی صورت میں مبینہ مدت کے بعد نکاح فسخ قرار پائے گا۔ کونسل نے نکاح نامے کی طرح طلاق نامہ بھی تجویز کیا ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ نکاح کی طرح طلاق کی رجسٹریشن بھی کی جائے اور بیوی پابند ہوگی کہ مہر اور نان نفقہ کے علاوہ اگر کوئی اموال یا املاک شوہر نے اسے دے رکھی ہیں اور ا س موقع پر وہ انہیں واپس لینا چاہتا ہے تو عورت یا تو اس مال کو واپس کردے اور دوسری صورت میں تنازعے کے فیصلے کے لئے عدالت سے رجوع کرے۔“
جناب حقانی صاحب ہی فرمائیں کہ عورت کی جانب سے طلاق کے تحریری مطالبہ کے ۹۰ دن بعد طلاق کا خودبخود واقع ہوجانا، قرآن و سنت کی کس نص سے ماخوذ و مستفاد ہے؟ یا چودہ صدیوں کے ائمہ تحقیق میں سے یہ کس کا قول ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا دین و شریعت کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں دین و شریعت کی تشریح کرنے والی اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ مشورہ لائق نفاذ ہے؟ یا لائق شرم؟
حقانی صاحب! ہمیں آپ سے یا آپ کے ممدوح سے کوئی ذاتی رنجش نہیں، اور نہ ہی ہمارا ان کے ساتھ کوئی خاندانی جھگڑا ہے اور نہ ہی جائیداد کا تنازعہ! اس لئے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین جناب ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب، جن کا آپ نے بھی ذکر خیر فرمایا ہے، وہ بھی ایک اسکول و کالج کے پڑھے ہوئے تھے اور ان کا تعلق بھی عدلیہ سے تھا، مگر چونکہ ان کی فکر صائب اور ان کی سوچ قرآن و سنت سے ہم آہنگ اور اکابر و اسلاف کی آئینہ دار تھی، اس لئے آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ ہم نے یا پاکستان بھر کے علماء کرام نے ان کی مخالفت کی ہو؟ نہ صرف یہ کہ ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کی تحقیقات کو نہایت ہی تحسین کی نگاہ سے دیکھا، اس سے مزید یہ کہ ان کا مرتب فرمودہ ”مجموعہ قوانین اسلام“ آج بھی اکثر علماء اور طلبا کے زیر مطالعہ رہتا ہے۔
اس کے مقابل اگر ڈاکٹر فضل الرحمن کے خوشہ چین اور ان کی فکر و سوچ کے داعی و مناد جناب ڈاکٹر خالد مسعود کی ملحدانہ سوچ کے خلاف علماء کچھ احتجاج کرتے ہیں تو یہ ان کا دینی، اخلاقی اور ملی فریضہ ہے بلکہ بحیثیت ایک مسلمان اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کے، آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ اپنی تحریر و قلم اور تمام تر صلاحیتوں کا وزن، ان روشن خیال اور قرآن و سنت اجماع امت اور ائمہ مجتہدین سے متضاد و فکر و سوچ رکھنے والوں کے بجائے اسلاف امت کے پلڑے میں ڈالیں۔ ۲:۔اسی طرح حقانی صاحب نے ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کی دوسری سفارش کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
”کونسل نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ خاوند شادی کے وقت اپنی پہلی شادی کی صورت میں اپنے تمام اثاثہ جات کی تفصیل لکھ کر دے اور اگر وہ دوسری شادی کررہا ہے تو اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے بارے میں بھی مکمل تفصیلات نکاح نامے میں درج کرے۔“
حقانی صاحب! ارشاد فرمایئے کہ آنجناب کے ممدوح نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، کیا اس کا کہیں قرآن و حدیث میں تذکرہ ہے؟ نیز اگر کوئی شوہر شرعی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے پہلا یا دوسرا نکاح کرتا ہے، مگر یہ ساری تفصیلات بیان نہیں کرتا تو بتلایا جائے شرعاً اس پر کیا گناہ و عتاب ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو اس غیر ضروری امر کو قانون یا شریعت کا حصہ بنانا کیونکر ضروری ہے؟
بے شک یہ سب کچھ اخلاقیات میں سے ہیں، مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ کوئی شخص یہ سب کچھ بتانے کے باوجود بھی بدعہدی نہیں کرے گا؟ جب اس کا کوئی فائدہ ہی نہیں اور اس کا قرآن و سنت اور اسلاف امت کی تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں اور چودہ صدیوں کے اکابر مجتہدین نے بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تو ایک نئی اُپچ کو شریعت یا قانون کا نام دینا کون سی دین و شریعت کی خدمت ہے؟
۳:۔جناب حقانی صاحب نے اپنے ممدوح ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کی چوتھی سفارش کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
”کونسل نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ موجودہ نکاح نامے میں ایک دفعہ کا اضافہ کیا جائے، جس کے مطابق خاوند واضح طور پر اپنی بیوی کو طلاق کا حق دینے کا اعلان کرے اور موجودہ مبہم صورت حال کو واضح کردیا جائے۔“
مخدوم مکرم !جب اسلام نے خواتین کو ان کی جذباتیت اور کمزوری کی بنا پر حق طلاق نہیں دیا تو آپ کے ممدوح مردوں سے حق طلاق لے کر عورتوں کو کیوں دینا چاہتے ہیں؟ صرف اس لئے کہ پاکستان سے خاندانی نظام کا جنازہ نکل جائے، اور پاکستانی معاشرہ بھی مغرب کی طرح طلاق یافتہ خواتین کی آماجگاہ بن جائے، کیا یہ مداخلت فی الدین نہیں؟ کیا کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول، قرآن و حدیث اور چودہ صدیوں کے اکابر ائمہ مجتہدین کی اس طرف توجہ نہیں گئی تھی؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے تو یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ نعوذباللہ !چودہ سو سال سے اسلام میں یہ نقص چلا آرہا تھا اور شومی ٴ قسمت کہ آج تک کسی نے بھی اس کے ازالہ کی کوشش نہیں کی، بالفرض اگر ڈاکٹر مسعود صاحب یہ کارنامہ انجام نہ دیتے تو اسلام ناقص کا ناقص ہی چلا جاتا، کیا یہ کہنا اور سمجھنا درست ہوگا؟ اگر نہیں تو موصوف کی اس تجویز کا کیا معنی ہے؟
۴:۔ جناب حقا نی صاحب نے اسلامی نظریاتی کونسل کی پانچویں سفارش نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ عورت کو حج پر جانے کے لئے محرم کے ساتھ موجود ہونے کی شرط ختم کردی جائے اور عورت اپنی مرضی سے سفر کرسکے۔ کونسل نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ پاکستان کی قانونی پوزیشن ہے کہ عورت جہاں چاہے اکیلی آجاسکتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا ہے کہ سعودی حکومت کا اپنا قانون ہے جس میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے، اس پر میں تجویز کروں گا کہ حکومت پاکستان سعودی حکومت کو اطلاع دے دے کہ ہمارے ملک میں آئین کے مطابق عورتوں کو ہر جگہ اکیلے سفر کرنے کی آزادی ہے اور سعودی حکومت ہمارے قانون کا احترام کرتے ہوئے پاکستانی خواتین عازمین حج کو محرم کی پابندی سے مستثنیٰ کردے، جس ملک میں عورتیں پڑھنے کے لئے سمندر پار، یونیورسٹیوں میں اکیلی جارہی ہیں، وہاں سفر حج کے لئے محرم کی پابندی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اگر بقول قاضی حسین احمد یہ پابندی عورتوں کے تحفظ کے لئے رکھی گئی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں ملک سے باہر پڑھنے جانے کے لئے بھی محرم کی ضرورت نہ ہو حالانکہ ان ممالک میں جاتے ہوئے اسے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے۔“
حقانی صاحب! آپ جیسے دانا و بینا اور جہاں دیدہ انسان سے یہ بات کیونکر مخفی رہی کہ شارع علیہ السلام جس معاملہ میں اپنا کوئی حکم صادر کردے، اس کی تنسیخ یا اس میں ترمیم کا کسی امتی کو حق نہیں رہتا، اور نہ ہی بدلتے حالات اور زمانے کی تبدیلی کے بہانے سے اس میں کسی اجتہاد کی سعی و کوشش کی جاسکتی ہے، بلکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ اجتہاد ان امور میں ہوتا ہے جہاں شارع علیہ السلام کی جانب سے کوئی واضح حکم نہ ہو، یا اس پر امت کا اجماع نہ ہوا ہو، اب آپ ہی بتلایئے کہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم واضح انداز میں فرماویں کہ: ”کوئی عورت جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر اپنے محرم کے بغیر نہ کرے ۔“ (ابوداؤد، ص:۴۲، ج:۱) بلکہ اس سے بھی واضح تر یہ فرمادیا کہ جب تک کسی خاتون کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو وہ ہرگز حج کو نہ جائے۔ (دارِ قطنی، ص:۲۲۳، ج:۲) اس کے علاوہ فقہائے امت یہ فیصلہ دے دیں کہ جب تک کسی خاتون کے محرم کا انتظام نہ ہو اس پر حج فرض ہی نہیں ہوتا۔(بدائع الصنائع، ص:۱۲۳، ج:۲) وہاں اسلامی نظریاتی کونسل کے نامدار چیئرمین یا اس کے معزز ارکان کی یہ سفارش کہ : عورت کو حج پر جانے کے لئے محرم کے ساتھ موجود ہونے کی شرط ختم کردی جائے“ کیونکر قابل برداشت ہوگا، خواتین کے بغیر محرم کے سفر کرنے کے جواز کے لئے یہ دلیل دینا کہ: ”آج کل خواتین بغیر محرم کے بیرون ملک ملازمت اور تعلیم کے لئے جاتی ہیں تو حج پر کیوں نہ جائیں؟“ نہایت ہی افسوس ناک ہے اور میرے خیال میں کوئی عقل مند انسان آنجناب کی اس منطق کو قبول کرنے کے تیار نہیں ہوگا۔
میرے مخدوم! یہاں دو الگ الگ چیزیں ہیں، ایک ہے قانون اور دوسرا ہے اس پر عمل درآمد، لہٰذا اگر خدانخواستہ کوئی بے راہ رو معاشرہ ملکی قانون شکنی کرنے لگے، تو اس کا یہ معنی نہیں کہ ملکی قانون کی منسوخی کی سفارش کی جائے، کیا آنجناب اس کی اجازت دیں گے کہ چونکہ آج کل لوگ چوری ڈکیتی کرتے ہیں، چونکہ آج کل زنا کاری اور بدکاری عام ہے، چونکہ آج کل لوگ نماز روزہ نہیں کرتے، چونکہ آج کل لوگ دوسروں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ان قوانین کو ہی تبدیل کردیا جائے یا ان کو منسوخ کردیا جائے، تاکہ ان کا عمل قانون کے مطابق ہوجائے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو اسلامی اور شرعی قوانین کی مخالفت کرکے بغیر محرم کے سفر کرنے والی خواتین کے فعل کو سند جواز فراہم کرنے کے لئے بغیر محرم کے سفر نہ کرنے کے قانون کو تبدیل کرنا یا اس میں ترمیم و تنسیخ کا مشورہ دینا کیونکر جائز ہوگا؟
۵:۔ جناب حقانی صاحب نے اسلامی نظریاتی کونسل کی چھٹی سفارش نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”کونسل یہ قانون بھی پاس کرانا چاہتی ہے کہ صاحب حیثیت لوگوں کو اپنے غریب اعزئہ کی کفالت کرنے کا قانوناً پابند بنایا جائے۔“
حضور گستاخی معاف! اتنا تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ ناداروں کی کفالت حکومت اور بیت المال کی ذمہ داری ہے، نہ کہ مال دار رشتہ داروں کی، تاہم یہ دوسری بات ہے کہ اخلاقی طور پر مال دار اعزہ اپنے غریب و نادار رشتہ داروں کی مالی مدد کریں۔ بلاشبہ اسلام نے اس کی ترغیب ضرور دی ہے، مگر اس کو ان کے فرائض میں شامل نہیں کیا۔
کیا اسلامی نظریاتی کونسل کی اس سفارش سے حکومت کو اپنے فرائض سے فرار اور پہلوتہی میں معاونت نہیں ملے گی؟ بتلایا جائے کہ اسلامی نظریاتی کونسل حکومت کا بوجھ عوام پر ڈال کر مسلم عوام اور اسلام کی کون سی خدمت انجام دے رہی ہے؟
جناب حقانی صاحب! مانا کہ ڈاکٹر مسعود صاحب آپ کے دوست ہوں گے اور آپ ان کی علمیت اورعبقریت کے قائل اور مداح ہیں، لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ حبک الشیٴ یعمی ویصم... کے مصداق کسی شخص سے محبت کی بنا پر اس کی غلط بھی صحیح نظر آنے لگے، لہٰذا حضرات علماء کرام نے جو کچھ کیا ہے، اپنا فرض نبھایا ہے۔ اسی طرح آپ کا یہ فرمان کہ کسی زمانہ میں جب عائلی قوانین کا ملک میں غلغلہ تھا تو علماء بھی اس کی مخالفت میں پیش پیش تھے، مگر حکومت نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود وہ تمام احکام نافذ کردیئے اور علماء بھی خاموش ہوگئے۔
میرے حضور! آپ ہی بتلائیں کہ اس میں علماء کا کیا قصور ہے؟ اس لئے کہ علماء بھی تو آپ ہی کی طرح اس ملک کی عوام ہیں اور جس طرح آپ ملک و ملت کو درپیش خطرات پر لکھتے رہتے ہیں مگر چونکہ آپ کے پاس قوت نافذہ نہیں ہے، تو آپ بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کراکر خاموش ہوجاتے ہیں، ٹھیک جس طرح آپ حکومت سے نہیں لڑتے اور خاموش ہوجاتے ہیں ،اسی طرح اگر علماء بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرادیں اور حکومت نہ مانے تو ا س پر علماء کا کیا قصور ہے؟بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر علماء اتنا بھی نہ بولتے یا احتجاج نہ کرتے تو لادین طبقات کب کا دین و مذہب اور اسلامی قانون کا مثلہ کرچکے ہوتے، بجائے اس کے کہ آپ کو ان سرپھرے اور شدت پسندوں کا شکر گزار ہونا چاہئے ،الٹا ان کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ فیا اسفیٰ علی ذلک۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ: ۱۴۲۹ھ دسمبر:۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 12
پچھلا مضمون: دینی مدارس اور طلباء کرام