Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۲۹ھ دسمبر ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

2 - 9
تبدیلئی جنس کا مسئلہ
تبدیلئی جنس کا مسئلہ
ایک اشکال کا جواب

راقم کو ایک مسئلہ در پیش ہے جس کے کے بارے میں وہ تسلی وہ چاہتاہے‘ امید ہے کہ جامعہ کے مفتی صاحبان مسئلہ حل فرماکر تسلی فرمائیں گے۔
ماہنامہ بینات‘ شمارہ: مارچ ۲۰۰۸ء میں ایک فتویٰ جو کسی سائل کے جواب میں شائع ہوا ہے‘ فتویٰ یہ ہے کہ:” آپریشن کے ذریعہ جنس کی تبدیلی اور اس کا حکم“۔ اس سائل کے سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ اس کو باوجود جنس کی تبدیلی کے نماز‘ روزہ وغیرہ مردوں کی طرح ادا کرنا ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ آپریشن کے ذریعے جنسی تبدیلی کے باوجود حسب سابق مردوں کی طرح تمام فرائض ادا کرنا ہوں گے‘ جب کہ شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے آپ کے مسائل اور ان کا حل‘ ج:۸‘ص:۴۰۳ شائع کردہ مکتبہ لدھیانوی پر ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں جس کا عنوان ہے ”جنس کی تبدیلی کے بعد شرعی احکام“ ”جواب: جنسی تبدیلی اگر حقیقت واقعہ ہے تو اس کا مشابہت کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں‘ بلکہ جنس تبدیل ہونے کے بعد وہ جس صنف میں شامل ہوا ہے اسی صنف کے احکام اس پر جاری ہوں گے‘ اگر لڑکی کی جنس تبدیل ہوگئی اور وہ واقعتاً لڑکا بن گئی تو اس پر مردوں کے احکام جاری ہوں گے الخ․․“
راقم یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ آیا ان دونوں مسئلوں میں کوئی فرق ہے کہ ان کے جواب مختلف ہیں یا دونوں جوابوں میں سے کوئی ایک غلط ہے؟ برائے مہربانی مسئلہ حل فرماکر تشفی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء۔ والسلام:شاہ خالد زیدوی
الجواب باسمہ تعالیٰ
اس سوال کے جواب سے قبل اگر چند تمہیدی باتیں ذہن نشین فرمالی جائیں توانشاء اللہ جواب سمجھنا آسان ہوگا:
۱- تخلیق الٰہی پر صابر وشاکررہنا مسلمانی کا اولین تقاضہ اور لازمی امر ہے‘ ورنہ صرف ناشکری ہی نہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض بھی لازم آئے گا ۔جس سے کفر کا اندیشہ ہے۔ جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”رجل قال فی مرضہ وضیق عیشہ باری بدانمی کہ خدای تعالیٰ مرا جرا آفریدہ است چون از لذتھای دنیا مرا ہیچ نیست۔ فقد قیل لایکفرولکن ہذا الکلام خطأ عظیم“ ( عالمگیری‘ ج:۲‘ ص:۲۶۲ ‘ ط:رشیدیہ)
۲- شریعت میں جنس کی تبدیلی تو درکنار دوسری جنس کی ادنیٰ مشابہت اختیار کرنا بھی سخت گناہ اور حرام ہے۔ جیساکہ حدیث میں ہے:
”عن ابن عباس قال: لعن النبی ا المخنثین من الرجال والمترجلات من النساء‘ وقال: اخرجوہم من بیوتکم “۔ (مشکوٰة ‘ ص:۳۸۰‘ ط:قدیمی)
وفی المرقاة: لعن النبیا المخنثین ای المشتبہین بالنساء من الرجال فی الزی واللباس والخضاب والصوت والصورة والتکلم وسائر الحرکات والسکنات‘ فہذا الفعل منہی‘ لانہ تغییر لخلق اللہ“۔(مرقاة ج:۴‘ ص:۴۵۹ ط: المکتبة الاسلامیة)
۳- قدرتی تخلیق وپیدائش میں کسی قسم کی قطع وبرید اور رد وبدل کرنا قطعاً ناجائز اور حرام ہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
۱:- ”ولاضلنہم ولامنینہم ولاٰمرنہم فلیبتکن اٰذان الانعام ولاٰمرنہم فلیغیرن خلق اللہ“۔ ( نساء : ۱۱۹)
۲:-” لاتبدیل لخلق اللہ“۔ (الروم:۳۰)
۳:-تفسیر قرطبی میں ہے:
”وقالت طائفة: الاشارة بالتغییر الی الوشم وماجری مجراہ من التصنع للحسن‘ قالہ ابن مسعود والحسن ومن ذلک الحدیث الصحیح عن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ ا ”لعن الله الواشمات والمستوشمات‘ والنامصات والمتنمصات‘ والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللہ“۔ الحدیث اخرجہ مسلم․․․․ وہذہ الامورکلہا قد شہدت الاحادیث بلعن فاعلہا‘ وانہا من الکبائر۔ واختلف فی المعنی الذی نہی لاجلہا‘ فقیل: لانہا من باب التدلیس‘ وقیل: من باب تغییر خلق الله تعالیٰ‘ کما قال ابن مسعود‘ وہو اصح‘ وہو یتضمن المعنی الاول․․․ قال عیاض ویأتی علی ما ذکرہ ان من خلق باصبع زائدة او عضو زائد لایجوز لہ قطعہ ولانزعہ‘ لانہ من تغییر خلق اللہ“۔ (الجامع لاحکام القرآن ‘ ج:۵‘ ص:۲۵۱‘۲۵۲)
۴-جنس کی تبدیلی کے دو مفہوم ہیں:۱- فقہی‘ ۲-عرفی
جنس کی تبدیلی کا فقہی مفہوم یہ ہے کہ: کوئی چیز اپنی اصل حقیقت کو چھوڑ کر دوسری حقیقت بن جائے‘ جنس کی ایسی تبدیلی سے احکام کی تبدیلی فقہ اسلامی کا مستقل موضوع ہے‘ اس کی مشہور مثال یہ ہے کہ: گدھا نمک کی کان میں جاکر پوری طرح نمک بن جائے تو وہ نمک ہی شمار ہوتا ہے‘ نہ کہ گدھا جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صار ملحا ترتب حکم الملح‘ ونظیرہ فی الشرع: النطفة ․․․ فعرفنا ان استحالة العین تستتیع زوال الوصف المرتب عیلہا“۔ (شامی ‘ج:۱‘ ص:۳۲۷‘ ط:سعید)
یہاں پر جنس کا لفظ ماہیت وحقیقت کا مترادف ہے‘ اس سے منطقی جنس یا عرفی جنس مراد نہیں ہے‘ جب کہ جنس کی تبدیلی کا عرفی مفہوم یہ ہے کہ: جنس‘ جنسیات سے ہے‘ یہ ایک موضوع ہے جو آج کل مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کی ازدواجی وغیر ازدواجی نوعیت سے بحث کرتا ہے‘ اس موضوع سے بحث کرنے والوں کے ہاں جنس سے مراد ذکورت وانوثت (مذکر ومؤنث کی خاصیات کا حامل ہونا) ہے‘ جس انسان میں مذکر کے خواص پائے جائیں وہ مذکر اور مرد کہلاتا ہے اور جس میں مؤنث کی خاصیات پائی جائیں وہ مؤنث اور عورت کہلاتی ہے۔ اس حیثیت میں دونوں کے باہمی تعلق کو جنسیات کہتے ہیں۔ عام طور پر آج کل جب جنس کی تبدیلی کی بات ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ مردانہ اوصاف والے کسی آدمی نے مردانہ اوصاف ختم کرکے زنانہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی ترکیب اور تدبیر کی۔
اس لئے کتب فقہ وفتاویٰ میں اگر کہیں جنس کی تبدیلی کا تذکرہ پڑھنے کو ملے تو یہ دونوں مفہوم سامنے ہونے ضروری ہیں‘ اس پر مزید یہ بھی غور کرنا ضروری ہوگا کہ سیاق وسباق کے لحاظ سے یہاں پر کون سا معنی ومفہوم مراد ہے؟ ورنہ مسئلہ سمجھنے میں غلطی اور اشکال کا قوی اندیشہ ہے۔
جنس کی تبدیلی کی مذکورہ مثال سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی چیز کی حقیقت پوری تبدیل نہ ہو‘ بلکہ بعض وجوہ سے تبدیل ہوجائے تو ایسی تبدیلی ‘ تبدیلئ حکم کو مستلزم نہیں‘ جیساکہ پانی میں بعض اشیاء مل جائیں تو وہ پانی ماء مطلق نہیں کہلاتا‘ لیکن مطلق ماء ضرور کہلاتا ہے‘ اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ انسانی جسم میں قطع وبرید سے پیدا ہونے والی تبدیلی بالکلیہ تبدیلی نہیں‘ بلکہ بعض وجوہ سے تبدیلی ہوتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو مرد اور عورت کے ہر ہر عضو میں فطری وقدرتی تفاوت ہوتا ہے‘ پورے جسم کے صرف دو یاتین حصوں میں مخصوص قطع وبرید کو فقہی اعتبار سے جنس کی تبدیلی ہرگز نہیں کہا جاسکتا‘ بلکہ سچ یہ ہے کہ عرفی جنس کی تبدیلی محض احساسات اور جذبات کا کھیل ہے‘ ایسی تبدیلی اصطلاحی اعتبار سے جنس کی نہیں‘ صرف ایک یا دو اعضاء و اجزاء کی تبدیلی ہے۔
۵- شریعت میں کئی احکام کا مدار ذریعہ پر ہوتا ہے ۔ جیسے زنا حرام ہے تو اس کے دواعی واسباب بھی حرام ہیں۔ جیساکہ ہدایہ میں ہے:
۱:-”لان الاصل ان سبب الحرام حرام“۔ (ہدایة جزء رابع‘ کتاب الکراہیة‘ فصل فی الوطی والنظر واللمس‘ ص:۴۶۶‘ )
۲:-” ویتضح لی ما ذکر ان وسیلة المحرم محرمة‘ ووسیلة الواجب واجبة․․․ فالفاحشة حرام والنظر الی عورة الاجنبیة حرام‘ لانہا تؤدی الی الفاحشة“ ۔ (اصول الفقہ الاسلامی ج:۲‘ مبحث الذرائع ص:۸۷۴ ‘ ط: دار الفکر)
اور حرام کو فروغ دینے والی اجازتوں کا جواز بیان کرنا مقاصد شرعیہ کے خلاف ہے۔
۶- خنثیٰ (پیدائشی ذو فرجین) دونوں خاصیات کا حامل ہونے کے باجود اکثری علامات کی بناء پر کسی ایک جہت کے ساتھ ملحق کیا جاتا ہے ۔جیساکہ شامی میں ہے:
”اذا کان للمولود فرج وذکر فہو خنثی‘ فان کان یبول من الذکر فہو غلام‘ وان کان یبول من الفرج فہو انثی‘ وان بال منہما فالحکم للاسبق“۔ ( شامی‘ عالمگیری‘ ج:۶‘ ص:۴۵۷ ‘ ط: رشیدیہ)
۷- اگر کسی مرد یا عورت کے اعضاء‘ انسانی تصرف یا قدرتی وپیدائشی رکاوٹ کی وجہ سے اپنی مخصوص مطلوبہ افادیت کے حامل نہ ہوں تو اس سے جنس کے احکام تبدیل نہیں ہوتے‘ مثلاً مرد کے اندر ”مجبوب“(جس کا آلہٴ تناسل کٹ چکا ہو) کا معنی صادق آنا مردانہ اوصاف سے محرومی کا باعث تو ہوتا ہے‘ مگر ایسے شخص پر مردوں والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں ۔
اسی طرح کسی عورت میں ایسی فطری رکاوٹ کا ہونا یا پیدا کر دینا جو افتراش واستیلاد(ہم بستری اور ولادت) کے لئے مانع ہو تو ایسی تبدیلی اور رکاوٹ سے عورت کے نسوانی اوصاف میں کمی ضرورکہلاتی ہے‘ مگر ایسی عورت نسوانیت سے خارج شمار نہیں ہوتی‘ جیسے رتقاء وغیرہا۔اسی طرح اگر کسی مرد سے غیر فطری طور پر شہوت رانی ہو رہی ہو یا اس کے جسم میں کہیں بھی ایسا منفذ ومدخل بنادیا جائے جو شہوت رانی کے مقصد کو پورا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو جائے تو اس کو جنس کی تبدیلی نہیں کہا جاسکتا۔
اسی طرح خواتین کا مردانہ لذتوں کے حصول کے لئے سحاق (باہمی اعضاء مخصوصہ کی رگڑ سے شہوت پوری کرنا) ناجائز طور پر تسکین شہوت کا ذریعہ تو بن سکتا ہے‘ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ ان دو عورتوں نے مردمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ الغرض کسی مرد اور عورت سے غیر فطری طور پر شہوت رانی کے امکانات سے یہ قطعاً لازم نہیں آتا کہ یہ جنس کی ایسی تبدیلی ہے جس سے متعلقہ جنس کی پیدائشی حیثیت میں تبدیلی آچکی ہے‘ اور پیدائشی حیثیت والے احکام بدل جائیں گے‘ انسانی جسم میں قطع وبرید پر اس کا اطلاق شرعاً مشکل ہے۔
اس لئے جو لوگ جنس کی تبدیلی کے نام پر اپنے جسموں کے مخصوص اعضاء میں قطع وبرید کرتے ہیں‘ اس سے مخصوص اعضاء میں ظاہری تبدیلی کے باوجود اصل جنس کے احکام نہیں بدلیں گے۔کیونکہ ایسی تبدیلی پر شرعاً تبدیلی کا اطلاق نہیں ہوتا‘ بلکہ اعضاء کی ناجائز قطع وبرید کا حکم لگتا ہے۔اگر شریعت ایسے ناجائز تصرفات کو تسلیم کرلے تو اس سے مسلمانوں میں حیوانیت اور درندگی کا ایک دروازہ کھل جائے گا۔پس ایسے لوگوں کو یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے جسموں میں ایک تو ناجائز تصرفات کررہے ہیں اور دوسرے یہ کہ اس قسم کی قطع وبرید سے انہیں غیر فطری شہوت رانی کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہذا نہ وہ کہیں ہم جنس سے شادی کرسکتے ہیں‘ نہ ہی دیگر احکام میں کوئی تبدیلی آئے گی‘ بلکہ تبدیلی سے قبل جو مردتھا اس پرمرد والے اورجو عورت تھی اس پر عورت والے احکام لاگو ہوں گے۔
اس تفصیل کی روشنی میں سائل کے سوال کا جواب تقریباً معلوم ہوچکا ہے‘ تاہم اختصار کے ساتھ واضح ہو کہ دونوں فتوؤں کے ظاہری تعارض کی وجہ یہ ہے کہ حضرت شہید رحمہ اللہ نے اپنے جواب کی بنیاد بالفرض‘ واقعی اور حقیقی تبدیلی اور تبدیلئ جنس کے عمومی احکام اور جنس کی تبدیلی کے فقہی مفہوم پر رکھی ہے‘ جبکہ دار الافتاء سے جاری شدہ فتویٰ کی بنیاد انسانی جسم میں غیر شرعی قطع وبرید پر ہے‘ جسے شرعی اعتبار سے جنس کی تبدیلی نہیں کہا جاسکتا‘ بلکہ یہ اعضاء کی ایسی قطع وبرید ہے جس سے شہوت رانی کا رخ تبدیل کردیا گیا ہے اور اپنے متعین رخ اور مقام سے ہٹ کر شہوت رانی کے ممکنہ طریقے‘ غیر فطری طور پر لذتیں حاصل کرنے کے مترادف ہیں اور شریعت میں فطری مقام اور جائز طریقے کے علاوہ شہوت رانی کے تمام طریقوں کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔اس لئے دونوں میں بظاہر تعارض نظر آرہا ہے جبکہ حقیقتاً ان میں کوئی تعارض نہیں ہے‘ تاہم دار الافتاء کا فتویٰ کئی وجوہ سے قابل ترجیح ہے:
۱:مذکورہ تبدیلی ایسا تصرف ہے جو ناجائز ہے‘ ایسے لوگوں کی شرعاً حوصلہ شکنی لازم ہے‘ تاکہ وہ اپنے طرز عمل سے تخلیقِ الٰہی پر اعتراض کے مرتکب نہ بنیں اورحرام کے فروغ کی وجہ سے مقاصد شرعیہ کی خلاف ورزی لازم نہ آئے اور ان کی آخرت برباد نہ ہو‘ بلکہ اسلامی ممالک کی حکومتوں پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کو سخت سزا دیں۔
۲: انسانی جسم میں بعض اعضاء کی تبدیلی بالکلیہ تبدیلی نہیں ہے‘ جسے فقہی اصطلاح میں جنس کی تبدیلی سے تعبیر کیا جاسکتا ہو‘ بلکہ یہ ایسی جنسی تبدیلی ہے کہ اس کا اثر صرف اعضاء مخصوصہ کے مقام اور ان کی افادیت وصلاحیت میں ظاہر ہوتا ہے‘ جس کا نتیجہ اور مقصد غیر فطری طریقہ ٴ شہوت رانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس لئے ایسی غیر فطری تبدیلی سے پیدائشی حیثیت اور اس کے احکام تبدیل نہیں ہوسکتے۔
۳- انسانی جسم میں قطع وبرید سے جنس کی تبدیلی کی تعبیر محض لفظی اور عرفی ہے‘ یہ جنس کی تبدیلی نہیں‘ بلکہ اعضاء کی قطع وبرید ہے۔انسان کے اعضاء کٹ جانے یا منفی ومخالف صلاحیت پیدا ہونے سے جنس کی تبدیلی کا فقہی مفہوم اخذ نہیں کیا جاسکتا۔جب جنس میں فقہی تبدیلی نہیں آتی تو احکام بھی تبدیل نہیں ہوں گے۔
۴- انسان میں ایسی طبعی تبدیلی یا رکاوٹ جو اس کو مطلوبہ افادیت سے روک دے‘ اس سے انسان کی تبدیلی کا حکم نہیں لگتا۔
فقط وااللہ اعلم
کتبہ
 رفیق احمد بالاکوٹی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
  الجواب صحیح                             الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری             سعید احمد جلال پوری
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ: ۱۴۲۹ھ دسمبر:۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: اسلامی نظریاتی کونسل کی مجتہدانہ تحقیق!
Flag Counter