Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

6 - 10
جو قومیں تاریخ پہ نظر نہیں رکھتیں ․․․․ مٹ جاتی ہیں
جو قومیں تاریخ پہ نظر نہیں رکھتیں ․․․․ مٹ جاتی ہیں


بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر ایک تبصرہ شائع ہوا‘ جسے روز نامہ اسلام نے اپنی ۹/جون ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں نقل کیا ہے ،اس کا عنوان ہے: ”ہنس مکھ زرداری اور بش کا دستِ شفقت مشرف کے اطمینان کے لئے کافی ہیں“ اس میں کوئی شک نہیں کہ مراسلہ بہت اچھا اور ہمارے حسبِ حال ہے، مگر اس کاآخری پیراگراف کچھ تشنہ رہ گیا ،وہ آخری پیراگراف یہ ہے:
”جب لارڈ کلایئو کو مشورہ دیا گیا کہ وہ مناسب وقت کا انتظار کرے اور فی الحال ایسٹ انڈیا بہادر مٹھی بھرسپاہ کو نواب سراج الدولہ کے تیس ہزاری لشکر سے بھڑوانے کی حماقت نہ کرے تو لارڈ کلایئو بھولے مشیر کی جانب دیکھ کر صرف مسکرادیا تھا“۔
تبصرہ پڑھنے والے قاری کے لئے لارڈ کلایئو کی مسکراہٹ یقینا معمہ بن گئی ہوگی۔ اس معمہ کے حل کے لئے آیئے تاریخ کے اوراق الٹتے ہیں۔ اٹھارویں صدی عیسوی کے اوائل سے ہی برصغیر میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوچکی تھی‘ مغلیہ سلطنت سکڑتی جارہی تھی‘ نواب سراج الدولہ کی حکمرانی میں بنگال‘ ٹیپو سلطان کی حکمرانی میں‘ میسور اور میر صادق کی حکمرانی میں دکن آزاد ہوچکے تھے‘ ان کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے علاقوں کے راجے مہاراجے کسی نہ کسی ریاست کی باجگذاری میں نیم خود مختاری حاصل کرتے جارہے تھے۔ ان حالات میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی بظاہر تجارت کی غرض سے ‘ لیکن در پردہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی پر قبضے کی نیت سے برصغیر میں داخل ہوئی‘ مغلیہ سلطنت کی ملکہ کے کامیاب علاج کے صلہ میں سلطنت کے اندر آزادانہ تجارت کرنے کا اجازت نامہ حاصل کیا‘ تجارت کے ساتھ ساتھ یہاں کے معروضی حالات کے پیش نظر اپنے مشن کی تکمیل کے لئے سازشوں کے جال بننے شروع کردئے اور مسلمان حکمرانوں کے عدم اتحاد سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ دہلی کی مغلیہ سلطنت کے ساتھ ساتھ بنگال‘ میسور اور دکن جیسی ریاستیں ایسی نہ تھیں کہ طاقت کے بل پر انہیں زیر کیا جاسکتا‘ لہذا لارڈ کلایئو کے شاطر ذہن نے ایسے پلان ترتیب دئے جن پر عمل در آمد کے لئے اسے بڑی فوج کی ضرورت ہی نہ پڑے‘ بنگال کے نواب سراج الدولہ کے سپہ سالار اور مشیر اعلیٰ میر جعفر کو انعام واکرام اور حکمرانی کا لالچ دے کر اسے نواب سے غداری پر آمادہ کرلیا‘ سازش مکمل ہونے پر ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر کی مٹھی بھر سپاہ سے نواب سراج الدولہ کی تیس ہزاری لشکر پر حملے کا پلان مرتب کیا‘جس پر اس کے بھولے مشیر نے جب اعتراض کیا تو لارڈ کلایئو اس کی جانب دیکھ کر صرف مسکرادیا‘ بی بی سی کے تبصرہ کے آخری پیراگراف میں اسی طرف اشارہ ہے‘ پھر جنگ ہوئی اور میر جعفر اپنی کثیر نفری کے ساتھ الگ ہوکر کمپنی بہادرکے ساتھ جاملا‘ نتیجہ سازش کے مطابق نکلا اور ساتھ ہی لارڈ کلایئو کی مسکراہٹ کا عقدہ بھی کھل گیا۔ امید ہے کہ قارئین پر بھی اب اس مسکراہٹ کا راز فاش ہوگیا ہوگا‘ اس کے بعد سے آج تک کیا ہوا ؟ آیئے! اس پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ میسور کے ٹیپو سلطان کے خلاف ،دکن کے میر صادق کو بدعہدی پر آمادہ کیا۔ سازش کے مطابق عمل ہوا اور میر صادق ،ٹیپو سلطان کا ساتھ چھوڑ کے کمپنی بہادر سے جاملا۔ ٹیپوسلطان نے کہا: ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“جیساتاریخی جملہ ادا کرتے ہوئے بے جگری سے لڑے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے‘ میسور اور دکن بھی تاجِ برطانیہ کی عملدای میں آگئے۔ اب کیا تھا؟ مختلف قبائل کے سرداروں اور وڈیروں میں کسی کو خان بہادر‘ کسی کو ”سر“ کے القاب عطا کرکے بڑی بڑی جاگیروں سے نواز کر انہیں اپنا وفادار بنایاگیا۔ پھر اس کے صلہ میں کسی سے پانچ سو ‘ کسی سے ہزاری‘ کسی سے دو ہزاری نفری بمعہ آلاتِ حرب اکٹھی کیں اور مغلیہ سلطنت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی‘ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر شاعری کرتے ہوئے جیل خانے کی نظر ہوئے‘ دلی اجڑ گئی‘ خون کی ندیاں بہیں‘ برصغیر پرسات سمندر پار سے تاجِ برطانیہ کا سورج چمکنے لگا جو تقریباً ڈھائی سو سال چمکتا رہا اور یہاں کفر والحاد کا سمندر ٹھاٹیں مارتا رہا۔انہی حالات پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا:
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگِ آدم ننگِ دین ننگِ وطن
اپنے اس تاریک دور حکومت میں انگریزوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دو بڑی سازشیں کیں:
۱- لارڈ میکالے نے یہاں کے اسلامی اور معاشرتی علوم کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے فرسودہ قرار دیا اور ایک نئے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ اپنے نظریئے کے بارے میں اس نے لکھا:
”ہمیں اس وقت یہاں ایک ایسا طبقہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمارے اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین ترجمانی کے فرائض انجام دے سکے‘ جن پر ہم اس وقت حکمران ہیں‘ ایسا طبقہ جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہو، مگر ذوق ‘ طرزِ فکر‘ اخلاق اور فہم وفراست کے نقطہٴ نظر سے انگریز“
اور ہم بھیڑوں کی طرح یہ سوچے بغیر کہ فن طب میں آپریشن کا طریقہ ایجاد کرنے والا سرجن ابن عباس زہراوی‘ علم کیمیا کا موجد جابر بن حیان ‘ ماہر علم نجوم جعفر بن محمد ابو معشر البلخی‘ عظیم ہیئت دان‘ بغداد اور قادسیون کی رصد گاہوں کا انچارج خالد بن عبد الملک المروزی‘ گشتی شفاخانے‘ اطباء کے امتحان اور ان کی رجسٹریشن کا سسٹم ایجاد کرنے والا عظیم فزیشن سنان بن ثابت ‘ عظیم ریاضی دان اور سول انجنیئر ابو طیب سند بن علی‘ دنیا کا مشہور ترین فزیشن ماہر طبیعات وحیاتیات طب میں علم النفس (سائیکالوجی) کو داخل کرنے والا عظیم سائیکالوجسٹ اعضاء جسم کی تقسیم اور گروہ بندی مرتب کرنے والا بہ مہلا فزیولوجسٹ‘ طب کا امام اعظم فن طب کی معرکة الآراء کتاب ”القانون“ سمیت طب پر بے شمار کتب کا مصنف (اس کی کتابیں یورپ کے میڈیکل کالجوں میں آٹھ سو سال تک داخل نصاب رہیں) حسین بن عبد اللہ بوعلی سینا‘ قطب نما کا موجد ابن ماجد‘ تاریخ کو سائنس کا درجہ دینے والا علم عمرانیت (سوشولوجی) کا بانی ”مقدمہ“ اور ”کتاب الآبار“ جیسی لافانی کتب کا مصنف عبد الرحمن ابن خلدون، آنکھوں کا پہلا سرجن‘ موتیا بند آپریشن کا موجد ابو القاسم عمار موصلی‘ اجرام فلکی کا ماہر اصطرلاب (دور بین کی ابتدائی شکل) کا موجد ابراہیم بن جندب‘ وقت کی پیمائش کے لئے گھنٹے کو ساٹھ پر تقسیم کرکے منٹ اور سیکنڈ کا موجد (حساب ستین) ماہر ریاضی دان ابو الحسن علی احمد نسوی‘ ماہر ریاض دان لیپ سال کا موجد عمر بن ابراہیم خیام کیمیاوی‘ ترازو کا موجد محمد بن موسی شاکر سمیت ہزاروں مسلمان سائنسدان اور ان کے شاگرد آٹھویں صدی عیسوی سے پندھرویں صدی عیسوی کے درمیان پیدا ہوئے۔ اس وقت یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہواتھا۔ انہوں نے اسلامی طریقہ تعلیم سے ہی علم حاصل کیا تھا‘ ان کے جال میں پھنس گئے۔ ”سروں“ نے ہمیں بے سرکردیا اور اس کے نتیجہ میں ہم آج تین طبقات میں بٹ گئے:
۱۔ایک لارڈ میکالے والا طبقہ: جس نے بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی داغ بیل ڈالی۔
۲۔ دوسرے وہ مسلمان جو آج بنیاد پرست‘ دہشت گرد اور نہ جانے کیا کیا گردانے جاتے ہیں۔
۳۔تیسرا عوام کا وہ بڑا طبقہ جو ”نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم“ کا مصداق بناہوا پریشان ہے کہ کدھر جائیں‘ کس سے اپنا دکھڑا روئیں۔
۲- فرنگیوں کے ملحدانہ دورِ حکومت میں جو سب سے بھیانک سازش اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی گئی وہ جعلی نبوت کی تھی‘ میر جعفر اور میر صادق سے بھی بڑا ضمیر فروش کذاب مرزا غلام احمد قادیانی تلاش کیا گیا اور اسے جہاد کی مخالفت‘ انگریزوں سے وفاداری اور اسلام کی بنیادی اینٹ یعنی ختم نبوت کو اکھاڑ پھینکنے کا مشن سونپ کر ۱۹۰۱ء میں نبی بناکر سامنے لایا گیا‘ اس فتنہ قادیانیت کے متعلق امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری نے فرمایا:
”امت مسلمہ کی پوری تیرہ سو سالہ تاریخ پر میں نے جب گہری نظر ڈالی تو پوری تاریخ میں مسلمانوں کے خلاف قادیانیوں جیسا خطرناک فتنہ وجود میں نہیں آیا‘ مسلمانوں کے ایمانوں کو اس فتنہ ارتداد سے بچاؤ اور اپنی ساری قوتیں اس میں صرف کرڈالو اور یہ ایسی جد وجہد ہے جس کا بدلہ جنت ہے اور میں اس بدلہ کا ضامن ہوں“۔
الحمد للہ! اس وقت سے لے کر آج تک ختم نبوت کی حفاظت کے لئے بے شمار اکابرین‘ ان کے جان نثاروں نے اور کروڑوں مسلمانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں ۔ سر پر کفن باندھ کر رسول اللہ ا سے اپنی محبت کے نشے میں اس فتنہ کا سر کچلنے میں مصروف ہیں اوردوسری طرف پورا عالم کفر اسے مصنوعی سانسوں پر زندہ رکھنے کی کوشش میں مشغول ہے۔ دشمن کی طرف سے ہمارے دین کو مسخ کرنے کی سازشیں ہمیشہ کی طرح آج بھی جاری ہیں‘ مساجد ‘ مدارس، خانقاہوں اور علماء کرام کے خلاف ناجائز کارروائیاں اور بے بنیاد زہریلے پروپیگنڈے اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ،جب کہ دوسری طرف قبر ‘ حشر‘ عاقبت اور آخرت کے نتائج سے بے خوف‘ دین کی ابجد سے بھی نابلد ”سر“ اور خان بہادر کی نسلیں دانستہ یا نادانستہ طور پر دشمن کے جال میں پھنستے جارہے ہیں‘ بلکہ ان کے آلہٴ کار بنے ہوئے ہیں۔ آج اگر ہم دنیا کو اس وقت کا برصغیر تصور کریں تو منظر نامے میں کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آتا‘ مقاصد ایک ہیں‘ صرف اس کا دائرہ کا‘ وسیع ہوکر ساری دنیا پر محیط ہوچکا ہے ،جس کی وجہ سے دشمن کا کام بھی بڑھ گیا ہے۔ اب ایک ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے لے لی‘ ان کو تقویت دینے کے لئے این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ٹانک ایجاد ہوئے۔ میڈیا کو ترقی دے کر اور اس پر کنٹرول حاصل کرکے اسے توپ کی طرح استعمال کیا جانے لگا کہ جس طرف چاہا اس کا رخ پھیر دیا‘ بہتر اور فوری نتائج کے لئے امداد اور کم شرح سود پر قرضوں کا نشہ ایجاد ہوگیا‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے نظر بندی کے ماہر تیار کئے گئے ‘ تھنک ٹینک کے جیوتشی وجود میں لائے گئے‘ بی بی سی کی جگہ سی این این کا تریاق ایجاد ہوا‘ ایٹم بم کا ہوا کھڑا کیا گیا‘ قدامت پرستی‘ بنیاد پرستی اور دہشت گردی جیسی پھلجھڑیاں اور ہوائیاں ایجاد کی گئیں‘ ٹی وی‘ ڈش اور کیبل کی ہیروئین تیار کی گئی‘ پھر تھنک ٹنیکس ہی کی مدد سے ماضی کی کمی کوتاہیوں کودور کرنے کی تدابیر سوچی گئیں کہ جن کی وجہ سے تاجِ برطانیہ جس کی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا، اب مختصر سے جزائر میں محدود ہے‘ ان سب تیاریوں کے ساتھ مسکرانے والے لارڈ کلائیو کی گدی پر کوئی اور قابض ہوگیا۔ نئے آنے والے نے سب سے پہلے اپنے جوہر اس پر آزمائے جس سے اسے سب سے زیادہ خطرہ تھا اور اوپر درج ہتھیاروں کی مدد سے بغیر ایٹم بم داغے اس کے پرخچے اڑادئے‘ ساتھ ہی دوسری بڑی طاقت کی معیشت پر اپنا بھاری بھرکم پاؤں رکھ دیا‘ جب پونڈ کی قیمت کے ساتھ ان کے گھٹنے بھی زمین پر لگ گئے تو انہیں وارننگ نہیں دی‘ بلکہ مسکرائے۔ بالآخر سیانے سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جب شیر‘ جنگل کے سب ہرن‘ بکریاں‘ بارہ سنگھے‘ نیل گائے وغیرہ ہڑپ کرجائے گا تو لومڑی اور گیدڑوں ہی کی باری آئے گی‘ اس لئے حفظ ما تقدم کے طور پر انہوں نے اپنے گرد یونین کا حصار کھینچ لیا‘ دیوار برلن گرگئی‘ آپس میں نسل اور زبان کی بنیاد پر شدید تعصب پر پردہ پڑگیا‘ ایک کرنسی کی بنیاد رکھی گئی‘ ایک ملک کے شہری کو دوسرے ملک جانے کی آزادی دی گئی‘ آپس میں دفاعی معاہدہ کی بہتر انداز میں تجدید کی گئی‘ آپس کی تجارت کو فروغ دینے کے اقدام کئے گئے‘ مشترکہ دشمن سے نمٹنے کی ڈھال تیار کی گئی۔ غرض گدی نشین کی مسکراہٹ کے انجام کے خوف سے اپنی حفاظت کا پیشگی بندو وبست کرلیا گیا اور جو کام ہم صدیوں میں نہ کرسکے، وہ کام انہوں نے انتہائی سرعت سے چند سالوں میں ہی مکمل کرلیا۔ دوسری طرف ۶۵ پینسٹھ سے زائد اسلامی ممالک بہترین وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اٹھارویں صدی عیسوی کی طرح آپس کے اختلافات کا شکار ہوکر اسی طرح ایک ایک کرکے شکاری کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں‘ جس طرح اس وقت برصغیر کی ریاستیں ایک ایک کر کے پھنسی تھیں۔اسی طرح میر جعفر اور میر صادق کی تلاش کرکے ان سے اپنے کام نکالے جارہے ہیں‘ اسی طرح دولت ‘ ثروت اور اقتدار کے بھوکے خان بہادر تلاش کئے جارہے ہیں جو نہ صرف ہرحال میں وفاداری نبھاسکیں ‘ بلکہ بوقت ضرورت پانچ سو ہزاری“ دوہزاری نفری بمع ساز وسامان مہیا کرسکیں۔ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو انہیں ننگِ آدم‘ ننگِ دین‘ ننگِ وطن کا قافیہ ملانا ہی مشکل ہوجاتا کہ آج دنیا میں میر جعفر اور میر صادق جیسے ہزاروں کیا، لاکھوں موجود ہیں۔ یاد رکھیں کہ جب تک ہم اور ہماری حکومتیں اپنے تھنک ٹینک یعنی علماء کرام کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے‘ ان کے مشوروں پر عمل نہیں کریں گے‘ اس گرداب سے نہیں نکل سکتے ‘ چاہے جتنی صدیاں کیوں نہ گذرجائیں‘ یہ ہمیں شروع سے سمجھاتے آرہے ہیں کہ جیسے اعمال ہمارے اوپر چڑھیں گے‘ ویسے ہی فیصلے نیچے اتریں گے‘ اچھے تو اچھے‘ برے تو برے۔ لہذا جب تک ہم توبہ کرکے اپنے اعمال درست نہیں کریں گے ،اس وقت تک اسی طرح کبھی ایک لارڈ کلائیو کی مسکراہٹ کا سامنا کریں گے‘ کبھی دوسرے کی۔اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو سمجھ عطا فرمائے‘ آمین․
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رجب: ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: مولاناابوالکلام آزاد کی تفسیرکے چند قابل گرفت مضامین
Flag Counter