Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

5 - 10
مولاناابوالکلام آزاد کی تفسیرکے چند قابل گرفت مضامین
مولاناابوالکلام آزاد کی تفسیرکے چند قابل گرفت مضامین

سورہٴ فاتحہ کی آیت: ”اہدنا الصراط المستقیم“ کی تفسیر میں موصوف اپنی تحقیقات یوں واشگاف کرتے ہیں:
”دنیا میں رائج مختلف مذاہب وادیان ،چاہے نصرانیت ہو ‘ یہودیت ہو یا صابئیت ۔ اگر کوئی شخص اسی ہیئت پر اس دین کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے جو ہیئت اس دین کے لانے والے نبی بتلا کر گئے ہیں تو یہ عمل روز قیامت اس کی نجات کے لئے کافی ہوگا۔ اس لئے ان تمام ادیان کی اصل واساس ایک ہی ہے اور وہ خداوند پر ایمان اور اعمال صالح ہیں، ہر دین کے شارع نبی توحید لے کر مبعوث ہوئے اور اعمال صالحہ کی راہنمائی کی ۔ بعد ازاں شرک اور برے اعمال کی آمیزش بعد کی تفرقہ بازی اور تشتت افکار سے پیدا ہوئی“۔
اپنے اس نظریہ کو موصوف بار بار اپنی تفسیر میں مختلف عنوانات وعبارات کے تحت لاتے ہیں اور اس پر خوب جرأت واستقلال دکھلاتے ہوئے متفرق اسالیب سے اپنے موقف کو درست باور کراتے ہیں۔ ایک دوسرے موقع پر کہتے ہیں:
”قرآن بھی اسی نظریہ وموقف کا پر روز اعلان کرتا ہے“
مزید برآں موصوف یہ خیال کرتے ہیں کہ جو بات ان کی سمجھ میں آئی ہے وہی قرآن کا مقصود ومطلوب ہے۔ اپنے اس موقف کی تائید کے لئے قرآن پاک کی درج ذیل آیت بطور استدلال پیش کرتے ہیں:
”ان الذین آمنوا والذین ہادوا والنصاریٰ والصابئین من اٰمن باللّٰہ والیوم الآخر وعمل صالحاً فلہم اجرہم عند ربہم ولاخوف علیہم ولاہم یحزنون“۔
اعمال صالحہ ان کے نزدیک احکام تکلیفیہ میں سے ہی نہیں اور نہ شریعتِ اسلامی میں کوئی قدر ومنزلت رکھتے ہیں‘ بلکہ موصوف کے نزدیک ان اعمال صالحہ پر کسی جزاء کا مدار ہی نہیں ہے۔ ایک مقام پر یوں گویا ہیں:
”یہ عبادات اور مشروع اعمال تو محض ظاہر داری کی رسمیں ہیں اور گویا صورتیں اور اجسام ہیں، نہ ان اعمال کو حقیقتِ دین سے کوئی تعلق ہے ،نہ دین کی روح سے کچھ رشتہ“۔
معلوم ہوا کہ ان اعمال مشروعہ اور احکامِ عبادت کا اگر کوئی شخص اعتقادی طور پر بھی منکر ہو تو بھی وہ ضرور مسلم ہی شمار ہوگا۔ آیت:
”ان الدین عند اللّٰہ الاسلام“
اور آیت:
”ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فمن یقبل منہ وہو فی الآخرة من الخاسرین“
کے ذیل میں یوں فرماتے ہیں کہ:
”اسلام‘ عمومی دینی اتحاد کا نام ہے اور کسی خاص شریعت کے ساتھ اسلام خاص نہیں، اس لئے کہ یہ تمام ملل وادیان اسی اتحاد ویگانگت کے داعی اور مکمل سچائی کی طرف بلاتے ہیں، اس دعوت میں تمام ادیان برابر ہیں“۔
یعنی موصوف کے نزدیک ملتِ اسلامیہ ان کے نزدیک مخصوص اعتقادات وعبادات کی حامل جماعت نہیں ہے، اور محترم تحریر کرتے ہیں:
”اب جو ظاہری رسوم وعبادات کا ان شرائع ومذاہب میں اختلاف پایا جاتا ہے اور عبادت کے ظاہری طرز وطریق میں یہ فرق جو عیاں نظر آتا ہے، اس سے تو چھٹکارا حاصل نہیں ہوسکتا ہے، چنانچہ یہ اختلاف کوئی اوپری چیز نہیں ہے اور نہ کسی ملامت کا مستحق ہے۔ لہذا اپنے تنگ سینوں کو اس فرق واختلاف کے لئے کشادہ رکھواور جو تنگی وممانعت تم لوگوں نے گڑھ رکھی ہے ،اس کو چھوڑدو“ ۔
یہاں سے اقتباس ختم ہوچکا ہے اور مولانا بنوری کا تبصرہ ہے: اگر ایک شخص موسوی شریعت کا اتباع کرتا ہے، اس کے مطابق حلال کو حلال اور حرام کو حرام ٹھہراتا ہے، حال یہ ہے کہ اسلام آچکا ہے اورموصوف کے وضع کردہ اصول کے مطابق وہ بھی نجات دہندہ مسلمان شمار ہوگا۔ انہی افکار کے مانند دیگر کئی ایسے نظریات ہیں جنہیں موصوف نے خوب مزین کرکے اپنے تعجب خیز طرز تحریر وانشاء سے چمکا دمکا کر پیش کیا ہے اور بمطابق محاورے :
” اپنے کوڑے کو سبز دکھلاکر لوگوں کو دھوکہ دیا“ خوب بے باکی اور بے خوفی سے ان نظریات کو بیان تو کیا لیکن اس کے ورے ورے ان کی تفصیلات سے ان کا پیمانہٴ علم بھی خالی ہے اور ان نظریات کے متعلق چیں وچنیں کی تو خوب آواز آتی ہے، لیکن سب کے سب غباربے قدر کے مانند ہے۔ مذکورہ بالا ابحاث جو میں نے عربی میں نقل کیں، یہ ان کی تحریر کردہ صریح عبارت کا خلاصہ وما حصل ہے، جن میں کسی طرح تاویل نہیں کی جاسکتی ،سوائے اس کے کہ صریح اور ستھری عبارات کی غیر مناسب تاویلات کی جائیں۔ حالانکہ ان نظریات کو ایسی صریح عبارات سے موصوف نے بیان کیا ہے کہ یہ افکار روز روشن میں واضح نظر آنے والے شگاف کی طرف واضح ہوچکے ہیں اور بقول کسے :”چھری رکھنے کے واسطے کوئی جگہ ہی خالی نہ چھوڑی “ اور فطری قانون ہے کہ صریح باتوں میں تاویلات کی گنجائش ہی نہیں ہوا کرتی ہے اور کیا ایسا فصیح شخص جو اپنے اغراض ومقاصد کو فصیح وبلیغ انداز میں بلاکم وکاست ایسی عبارات کی مدد سے کہ ان عبارات میں کسی قدر غموض واخفاء یا لکنت وقلق باقی نہ رہے، بیان کر دینے پر قادر ہو، ایسے شخص کا قلم اپنی غرض کو درست بیان کردینے سے قاصر رہے۔ اور وہ کیونکر ایسی تعبیرات استعمال کریگا جن سے ان کے متبادر معنیٰ اس نے خود مراد نہ لئے ہوں؟ اور سیاق وسباق اور کلام کی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو معنی دیکھنے والے کی فکر میں پیدا ہوتا ہے، اس معنی ومراد سے یہ شخص اس دیکھنے والے کی فکر کی تبدیلی کا محتاج ہو؟ اور اگر ان تاویلات کو راہ دی جائے تو کیا تاویلات معترض کو شافی وکافی جواب مہیا کر سکیں گی؟ اور وہ مزید قیل وقال سے مستغنی کردیں گی؟ موصوف کہتے ہیں:
”اسلام تمام اہلِ ادیان کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ اپنے حقیقی دین کو ان باطل اعمال اور خواہشات کی اتباع میں وضع کردہ ان احکام سے صاف ستھرا اور پاک کردیں اور اپنے اسی دین کی بنیادی تعلیمات سے بہرہ ور ہوں، اسلام ان سے یہ تقاضا کرتا ہی نہیں کہ وہ اپنے ادیان و مذاہب کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلیں“۔
انہی تلبیسات وتدلیسات کے مانند دیگر کئی ایسی قابلِ گرفت نظریات موصوف نے اختیار کئے ہیں جو ہلاکت کے گڑھے میں پہنچانے والے اور دینی تباہی وبربادی کے منتہیٰ تک لے جانے والے ہیں۔
الا تسئلان المرأ ماذا یحاول
أنحب فیقضی ام ضلال وباطل
وکل امرئ یوماً سیعلم حالہ
اذا کشفت عند الالٰہ الحضائل
ترجمہ:۔”خبردار! اے دو مخاطبوں! کیا اس شخص سے تم نے پوچھ لیا کہ کیا چاہتاہے ؟ اگر چیخ وپکار چاہتاہے تو کرلے یا پھر محض گمراہی اور باطل بات کا دعویدار ہے۔ایک نہ ایک دن ہر شخص اپنے حال سے باخبر ہوجائے گا ،جب خداوند کریم کے دربار میں خصائل وطبائع ظاہر کردیئے جائیں گے“
رسالہ ”المعارف“ کی کمیٹی نے موصوف کی اس تفسیر پر رد وتبصرہ کا ایک مفصل مضمون شائع کیا تھا اور وہ ”ترجمان القرآن“ میں کئے گئے موصوف کے بعض آیات کے ترجمہ لے کر بیس سال قبل رسالہ ”الہلال“ میں کئے گئے انہی آیات کے ترجمہ کا تقابل دکھلایا گیا تھا اور ان میں فرق واختلاف نمایاں طور پر تحریر کیا گیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا یہ تفسیر ایسی ہے جس تفسیر کے مساوی ومقابل سارے عالم میں کوئی تفسیر نہیں ہے؟ بلکہ ہاں! درست فرمایا: کوئی تفسیر اس تفسیر کے مقابل ومساوی نہیں ہوسکتی ہے۔ ایسے اختراع کردہ نظریات وافکار کی حامل جن کی صحت کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اور ایسی قابل گرفت آراء جن پر کوئی برہان وسلطان نہ قائم کیا جا سکے، پر مشتمل ہونے میں اس تفسیر کے مساوی واقعی عالم اسلام میں کوئی تفسیر ہے ہی نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ رسالہ ”الفتح“ کے مذکورہ مقالہ نگار جنہوں نے محترم مذکور کی تفسیر کی اس قدر تعریف فرمائی اور خوب مبالغہ آرائی برتی وہ رسالہ ”المعارف“ کی کمیٹی کے ارکان کے رفقاء ومعاونین میں سے ہیں اور ان کو ضرور رسالہ ”المعارف“ کے اس مضمون کے متعلق بھی خوب معلوم ہوگا، اس کے باوجود بھی یہ تمام تعریفات کیونکر کر گئے؟ معاملہ بڑا ہی سخت اور نازک ہے، چھری ذبح میں ہڈی تک پہنچ گئی ہے، آج کوئی بچانے والے نہیں، سوائے اس کے جس پر خدائے پاک رحم فرماویں وہ تو بچ سکتا ہے، وگرنہ معاملہ خطرناک ہے۔ میں نے جو چند باتیں ان کی تفسیر سے ذکر کیں، یہ محترم کے وہ اصول وقواعد ہیں جن پر ان کی اس تفسیر کی اساس اور بنیاد ہے۔ علاوہ ازیں آیات کو اپنے منشا ومقصد سے اپنی خواہش کے مطابق منشا کی طرف پھر دینا اور ان آیات میں ایسے ذرائع بروئے کار لاکر تشریح وتفسیر کرنا جو خداوند کو نہ محبوب ہیں ،نہ ان سے خداوند راضی ہیں اور نہ اس کے متعلق صاحب وحی سے کوئی تائید منقول ہو، اور نہ اول مخاطبین صحابہ کرام سے مروی کوئی توجیہ پیش کی جاسکے، بلکہ موصوف کی پیش کردہ تاویل کے مخالف کوئی تاویل منقول ہو، اس قسم کے بہت سے مواضع ان کی تفسیر کا حصہ ہیں، جن کی تمام تر تفصیلات اس مقام پر بیان کرنا نہ ممکن ہے اور نہ اس رسالہ میں ان پر رد وقدح کی گنجائش ۔ لہذا بعض غفلت خوردہ اشخاص کو بیدار کرنے کے لئے اور دھوکہ میں مبتلا افراد کو تنبیہ کے واسطے ہم بعض آیات کی بیان کردہ ان کی تفسیر مختصر رد وقدح کے ساتھ درج ذیل میں ذکر کئے دیتے ہیں:
کونوا قردةً خاسئین کے ذیل میں فرماتے ہیں:
” مطلب یوں ہے کہ ”ہوجاؤ ذلت خوردہ ،کمتر، مانند بند رکے، انسانیت کے رتبے سے گرے ہوئے تا آنکہ مروت اور انسانیت کی علامات میں سے کچھ بھی تم میں پائی جاویں۔“
صفحہ :۲۶۱ پر ”فقال لہم اللّٰہ موتوا“ کے تحت یوں رقم فرماتے ہیں:
” یعنی تمہاری بزدلی کی وجہ سے تو تم مرنے ہی کے لائق ہو یعنی تم پر دشمن غلبہ پالے گا اور تم اپنے دشمن پر فتح اور ظفر یابی کی زندگی نہ پاسکوگے۔ “”ثم احیاہم“ یعنی پھر خدائے پاک نے ان میں عزم واستقلال کی روح پیا فرمائی کہ قتال کے لئے آمادہ ہوگئے، جس کی بناء پر ان کو دشمن پر مدد اور ظفریابی عطا ہوئی۔“
صفحہ: ۲۶۹ آیت ”او کالذی مر علی قریة“ اس آیت کے بھی ظاہری معنی سے خوب کاٹ چھانٹ کرنا چاہی، لیکن موصوف اس آیت کے سوائے ایک لفظ کے بقیہ تمام الفاظ کو ظاہری معانی ومفاہیم کے مطابق برقرار رکھنے پر مجبور ہوگئے۔
”فخذ اربعة من الطیر“ اس آیت کی تفسیر ابو مسلم اصفہانی معتزلی کی تفسیر کے مطابق فرمائی، ابو مسلم اصفہانی معتزلی کی اس تفسیر کو جو جمہور کے خلاف تھی امام رازی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے ،مزید برآں مولانا ابو الکلام صاحب نے اس تفسیر کے منہیہ میں جمہور کے قول کی خوب تردید وتنقید بھی کی ہے ،ملاحظہ ہو: ص:۲۷۰ تا۲۷۱
”ورفعنا فوقہم الطور“ ص: ۲۰۰، اس آیت کے بھی معنی میں موصوف تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں، ان کے علاوہ دیگر کئی آیات کی ایسی باطل تاویلات ذکر کی ہیں جو اہل سنت والجماعت اور اکابرین امت کی رائے کے صریح مخالف ہیں۔ ان کی تفسیر کا کل سرمایہ بھی یہ کمزور ‘ بے ڈھنگ ‘ بے ہنگم تاویلات ہیں جن کی آیات میں ذرہ بھر گنجائش نہیں ہے ۔ موصوف کا خصوصی وطیرہ یہ رہا ہے کہ مختلف آیات کی تفسیر میں انہوں نے احادیث وآثار کی مراجعت نہیں فرمائی ہے‘ بلکہ یونانی اور فرانسیسی مؤرخین کی مختلف تواریخ پر چاہے ان کا مدار محض تخمینی وقیاسی آراء وافکار ہی ہوں، معاملہ کی بنیاد رکھی ہے ،اور بہترے ان مقامات کے متعلق قوی الاسناد احادیث جو ان تاریخی روایات اوران قدیم کتبوں سے جن پر کوئی دلیل صحت وثبوت نہیں ہے، کہیں اونچا مرتبہ ومقام رکھتی ہیں۔ موجود ہوتی ہیں تب بھی ان سے صرف نظر فرمایا ہے، ایسے ہی لوگوں کے متعلق باری جل شانہ کا فرمان مقدس ہے کہ:
”مالہم بذالک من علم ان ہم الا یخرصون“
اسی طرح یہ بھی ان کا خصوصی طرز رہا ہے کہ جب بھی کسی تاویل کے متعلق موصوف کوئی رائے قائم فرمالیتے ہیں تو اس کو امر قطعی شمار کرتے ہیں، جس کے مقابل نہ ان کے نزدیک حدیث مرفوع کی کوئی حیثیت ہے، نہ اثر صحیح اور نہ ہی درست فکر وتدبر سے حاصل شدہ نتیجہ۔ یہ بھی ان کا خاص طریق رہا ہے کہ کسی آیت کے متعلق کمزور قول کی مفسرین کی طرف نسبت فرمادیتے ہیں، حالانکہ اس کے علاوہ دیگر کئی صحیح اقوال موجود ہوتے ہیں، پھر اس ضعیف قول پر رد فرماتے ہیں اور ان مفسرین ہی کے اقوال میں سے کوئی قول ذکر فرماکر یہ باور کراتے ہیں کہ یہ ان کا اختراع کردہ ہے اور وہی اس کے اول پیش کرنے والے ہیں کہ تمام مفسرین کو اس متعلق کچھ خبر نہ تھی اور کبھی کبھی ان مفسرین پر سخریانہ طنز بھی فرما دیتے ہیں، اپنے تمام طرز وطریق میں وہ عرب شاعر کے اس شعر کی مجسم تصویر ہیں کہ:
نزلوا بمکة فی قبائل نوفل
ونزلت بالبیداء ابعد منزل
ترجمہ :۔”مخالفین مکہ میں قبائل نوفل کے ہاں پناہ گزیں ہوگئے اور میں میدان میں ان سے کہیں دور مقام پر اتراہوں۔“
یہ مفسر کا طور طریق رہا ہے، ان کی اس تفسیر موسوم ب ”ترجمان القرآن“ میں
وذی خطل فی القول یحسب انہ
مصیب فیما یلمم بہ فہو قائلہ
ترجمہ :۔”لغو اور مہمل باتیں کرنے والا اپنے آپ کو درست خیال کرتا ہے، اسی بناء پر جو خیال اس کے دل میں اترتا ہے ،ا سکو کہہ ڈالتا ہے۔“
بعض اردو راسائل میں ان کا یہ مضمون شائع ہوا، جس میں موصوف نے برملا یہ اعلان کیا ہے کہ:
”وہ امور واحکام جن پر نجات اخروی کا دار ومدار ہے جس طرح نماز کے باب میں ”اقیموا الصلوٰة“ کو مصرح بیان فرمایا گیا ہے، ان امور واحکام کو بھی اسی تصریح کے ساتھ بیان کیا جانا چاہئے تھا ،بلکہ اس سے بڑھ کر تصریح فرمانی چاہئے تھی اور یہ ضروری تھا کہ قرآن ہی میں ان پر ایمان وتصدیق کی تصریح کی جانی چاہئے تھی ،چنانچہ وہ امور جن پر نجات اخروی کا دار ومدار نہیں ہے، وہ اگرچہ ان میں مذکور ہیں اور قرآن نے ان سے بھر پور تعرض کیا ہے، لیکن وہ عقائد کے زمرہ میں داخل نہیں ہیں ،تب ان کا قبول کرنا اور ان کے متعلق عقیدہ رکھنا ،کسی شخص پر ضروری نہیں ہے“۔
اسی طرح یوں رقمطراز ہیں:
”میرے اعتقاد کے متعلق تو حضرت مسیح ابن مریم کا قرب قیامت کے زمانہ میں نزول بھی نہ ہوگا۔“
اس پر میں نے موصوف کو لکھ بھیجا کہ ہم یہ عقیدہ کیسے اپنا سکتے ہیں، اس لئے کہ نزول مسیح کے متعلق کئی صحیح متواتر احادیث موجود ہیں، آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ تو یوں جواب دینے لگے:
”ان کے نزول کا ذکر تو علاماتِ قیامت میں سے شمار کیا گیا ہے، اس لئے ان کا یہ نزول عقائد میں سے شمار نہیں ہو گا۔“
وائے تعجب ! جن احکامات ومسائل کو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ا لے کر آئے ،ان تمام کی تصدیق کرنا عقائد میں سے نہیں ہے؟ جب حضور پاک ا نے ایک بات ارشاد فرمائی اور ان کے وقوع کی خبر دی پھر اس حدیث کی سنداً صحت اور اس کا اتصال ثابت ہو گیا اور مشرق ومغرب میں وہ حدیث تواتر کے ساتھ نقل کی جانے لگی، اس کے بعد بھی اس بات پر ایمان لائے اور اس کی تصدیق کرنے کے لئے کسی اور چیز کا انتظار کیا جاسکتا ہے؟ کہ ہمیں نبی کریم ا یوں صریح حکم ارشاد فرمائیں کہ عیسیٰ ابن مریم کے نزول پر ایمان لاؤ ،یہی نہیں، موصوف کے نزدیک یہ تصریح نہ صرف حدیث میں ضروری ہے‘ بلکہ قرآن میں بھی یوں تصریح کی جانی چاہئے کہ عیسیٰ ابن مریم کے نزول پر ایمان لے آؤ۔ کیا حضور پاک ا کا یہ پاک ارشاد
”وکیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم“
․․․․تمہاری کیا حالات ہوگی جبکہ عیسیٰ ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے․․․․ کافی نہیں ہے؟ کیا اتنی صراحت سے بھی بڑھ کر صراحت ہوسکتی ہے؟ اور واقعی اس سے بڑھ کر تصریح کیا ہوگی؟ اس تصریح کے ساتھ ساتھ اس کا تواتر معنوی ایسا معروف ہے کہ جیسا سورج کا طلوع ہونا زحل سیارے کی رفعت سے مستغنی کردیتا ہے۔․․․․کہ وہ حکم جس کو صراحتاََ عقائد میں شمار کیا گیا ہوگا ،اس کا عقیدہ رکھنا تو ضروری ہے، وگرنہ دیگر احکام جو صراحتاََعقائد میں شمار نہ کئے گئے ہوں گے، ان کا عقیدہ رکھنا بھی کسی شخص پر ضروری نہ ہوگا․․․․ کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو پانچ نمازوں کا ذکر صراحتاََ کہاں وارد ہوا ہے؟
اسی طرح مقادیر زکوٰة‘ کفارہٴ صوم کے مسائل کہاں صراحتاََ ارشاد فرمائے گئے ہیں؟
اسی طرح دیگر کئی احکام جس کا احصار بھی دشوار ہے، وہ کہاں صراحتاََ ذکر کئے گئے ہیں کہ کیا ان امور کی فرضیت کا اعتقاد رکھنا ان امور میں سے شمار نہ ہوگا جن پر نجات اخروی کا دار ومدار ہے؟ کیا ایسا شخص کافر نہ ٹھہرے گا جو ان امور کی فرضیت کا انکار کرے؟ ہمارے شیخ حضرت امام العصر اپنے رسالہ ”اکفار الملحدین فی ضروریات الدین“ میں فرماتے ہیں:
”جب اتنی بات جان لی گئی تب ہم کہتے ہیں کہ: نماز ایک فریضہ ہے ،اس کی فرضیت کا اعتقاد بھی فرض ہے اور اس کا جاننا، سیکھنا بھی فرض ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ اسی طرح اس سے بے خبر رہنا اور نہ جاننا اور نہ سیکھنا کفر ہے۔اسی طرح مسواک کرنا سنت،اوراس کی سنیت کااعتقادفرض اوراس کاجاننا،سیکھنابھی سنت ہے،اور اس کا انکار کفر ہے، اس سے بے خبری محرومی ہے اور اس کا ترک کرنا خدائے پاک کا عتاب ہے یا پھر خدائے پاک کی جانب سے دنیوی عقوبت۔“
باوجود اس کے کہ اس رسالہ کے شروع ہی سے میں تفصیل واطناب سے کام نہیں لے رہا تھا، اس مقام پر میں نے خوب تفصیل کی، یہ صرف اس وجہ سے کہ موصوف کی تفسیر میں مجھے اس قسم کے واضح داغ اور خوب دھوکہ وفریب نظر آیا اور میں اس قسم کے اعتراضات سے چشم پوشی اور تسامح بڑی بددیانتی سمجھتا ہوں ،اس لئے کہ الحاد وزندقہ کی زہریلی ہوائیں اس وقت سارے ہند میں چل رہی ہیں اور اس قطعہٴ زمین کو ان مہلک ہواؤں نے خوب بھر دیا ہے اور قرآن کے سمجھنے کا دار ومدار ایسی تفاسیرپررکھا جانے لگا ، جن میں عصری تقاضوں کے مطابق لچکدار تعبیرات ہوں۔ ان مہلک عقائد ونظریات سے صرف وہی شخص بچ سکتا ہے جس کو خداوند کریم صحیح فہم عطا فرمائیں یا وہ شخص جن کا نفس ان بزرگانِ دین کی صحبت میں پاک سے پاک تر ہوتا چلا گیا ہو جن کی صحبت میں قلوب کی حیرت انگیز اصلاح ہوتی ہے۔ چنانچہ ان تمام شرائع واحکامات پر جنہیں حضور اکرم ا لے کر آئے اس کا سینہ ٹھنڈا اور دل مطمئن رہتا ہے اور ان احکامات میں وہ اپنی کمزور رائے سے رائے زنی نہیں کرتا۔ پنجاب کے ایک اہل حدیث عالم محترم ابراہیم سیالکوٹی نے اس ”ترجمان القرآن“ کے رد میں ایک تفسیر تالیف فرمانا شروع کی تھی اور اس کی ایک جلد بھی طبع ہوچکی ہے ،لیکن میں اب تک اس کا مطالعہ نہیں کرسکا ہوں اور میرا خیال ہے کہ فاضل مذکور نے اپنے اس رد میں خوب سیر حاصل ابحاث تحریر کی ہوں گی، کاش! کہ ابو الکلام صحیح علم رکھتے اور دین محمدی کے چاہنے والے ہوتے تو کچھ بعید نہ تھا کہ ان کو دور حاضر کی عظیم ان ہستیوں میں شمار کیا جاتا جن کے ذریعے فخر کیا جاتا ہے اور ان کی لوگوں کے قلوب میں خوب قدر ومنزلت ہوتی۔ لیکن دین کی محبت مومن کے دل میں ابو الکلام کی محبت سے کہیں زیادہ جگہ رکھتی ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ شریعت اسلامیہ کو ان ناپاک نظریات کی خلط سے محفوظ کردیا جائے جو قابل قدر بصیرت رکھنے والے اشخاص جو درست علم کے ساتھ ساتھ عقول سلیمہ سے بھی سرفراز ہیں کی بصیرت انگیز نظروں میں شریعت کی ساکھ کو کمزور اور اس کی قدر ومنزلت کو گھٹاتے ہیں ۔اللہ رب العزت ساری امت کو درستگی کی ہدایت نصیب فرمائے اور شاہراہ مستقیم پر گامزن فرمائے۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رجب: ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: اسلامی سزائیں
Flag Counter