Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

3 - 10
اسلام کا نظام معیشت قرآن وسنت کی روشنی میں
اسلام کا نظام معیشت قرآن وسنت کی روشنی میں (۳)


۲:-”ولاتبذر تبذیرا‘ ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین‘ وکان الشیطان لربہ کفورا“۔ (بنی اسرائیل:۲۶‘۲۷)
ترجمہ:․․․”فضول خرچی نہ کرو‘ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے“۔
قرآن کی نگاہ میں انسان کے لئے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لے‘ اس مال پر اس کی اپنی ذات کا اور اس کے متعلقین کا حق ہے جسے ادا کرنے میں اس کو بخل بھی نہ کرنا چاہئے‘ لیکن اعتدال کا پہلو اختیار کرے‘ قرآن میں ہے:
۱:-”ولاتجعل یدک مغلولة الی عنقک ولاتبسطہا کل البسط فتقعد ملوماً محسوراً“۔ (بنی اسرائیل:۲۹)
ترجمہ:․․․․”اور اپنا ہاتھ نہ تو اپنی گردن سے باندھ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ ملامت زدہ اور حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے“۔
۲:-”والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواماً“۔ (الفرقان:۶۷)
ترجمہ:․․․”اور اللہ کے نیک بندے وہ ہیں جو خرچ میں نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخل ‘ بلکہ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتے ہیں“۔
۳:-”وابتغ فیما اٰتاک الله الدار الآخرة ولاتنس نصیبک من الدنیا واحسن کما احسن الله الیک ولاتبغ الفساد فی الارض“۔ (القصص:۷۷)
ترجمہ:․․․”جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس کے ذریعہ سے آخرت کے گھر کی بہتری کے لئے کوشش کر اور اپنا دنیا کاحصہ بھی فراموش نہ کر اور (اللہ کی مخلوق کے ساتھ) احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور (اپنی دولت کے ذریعہ سے) زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش نہ کر“۔
۴:-”لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون“۔ (آل عمران:۹۲)
ترجمہ:․․․”تم نیکی کا مقام ہرگز نہیں پاؤگے جب تک کہ اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہ کرو“۔
۵:-”وانفقوا خیراً لانفسکم‘ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون“۔ (التغابن:۱۶)
ترجمہ:․․․”اور خرچ کرو یہ تمہارے اپنے لئے بہتر ہے اور جو دل کی تنگی سے بچ گیا ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“۔
دولت کی تقسیم کے لئے: زکوٰة‘ صدقات واجبہ‘ انفاق‘ قانون وراثت وغیرہ سے دولت کی منصفانہ تقسیم روبہ عمل لائی گئی ہے‘ اسلام تمام کرہ ارضی اور وسائل قدرت کو اصلاً الله کی ملکیت قرار دیتا ہے اور تمام معاشی معاملات میں انسان کو اس عظیم ترملکیت کے تصور کے تحت انفرادی ملکیت وتصرف کا حق دیتا ہے۔ اسلام جمع کرنے کے بجائے خرچ کی تعلیم دیتا ہے‘ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتا ہے ‘ ارشاد ربانی ہے:
۱:-”ویسئلونک ماذا ینفقون‘ قل العفو“۔ (البقرة:۲۱۹)
ترجمہ:․․․”اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہو کہ جو ضرورت سے زائد ہو“۔
۲:-”وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتمیٰ والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم“۔ (النساء:۳۶)
ترجمہ:․․․”اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اور ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام اور باندیوں کے ساتھ“۔
۳:-”وفی اموالہم حق للسائل والمحروم“۔ (الذاریات:۱۹)
ترجمہ:․․․”اور ان کے مال میں صاحب احتیاج اور معذور کا حق ہے“۔
اسلام دولت کو جمع کرنے سے منع کرتا ہے‘ اس سے دولت کی گردش رک جاتی ہے اور تقسیم دولت میں توازن برقرار نہیں رہتا‘ دولت جمع کرنے والا خود بدترین اخلاقی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے‘ قرآن مجید بخل اور قارونیت کا سخت مخالف ہے:
”ولایحسبن الذین یبخلون بما اٰتاہم الله من فضلہ‘ ہو خیراً لہم‘ بل ہو شر لہم“۔ (آل عمران:۱۸۰)
ترجمہ:․․․”جو لوگ اللہ کے دئے ہوئے فضل میں بخل کرتے ہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ فعل ان کے لئے اچھا ہے‘ بلکہ درحقیقت یہ ان کے لئے برا ہے“۔ دین اسلام اس امر پر زور دیتا ہے کہ تقسیم رزق کا جہاں تک تعلق ہے‘ وہ رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے‘ ارشاد ربانی ہے:
”وان من شئ الا عندنا خزائنہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم“۔ (الحجر:۲۱)
ترجمہ:․․․”اور ہر چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں اور اتارتے ہیں ہم اندازہ معین پر“۔
انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہوتا رہتا ہے‘ لیکن اللہ کے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں‘ وہ کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ اس کی وضاحت حسب ذیل آیات کریمہ میں ملتی ہے:
۱:-”قل من یرزقکم من السماء والارض امن یملک السمع والابصار ومن یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ومن یدبر الامر‘ فسیقولون الله فقل افلا تتقون“۔ (یونس:۳۱)
ترجمہ:․․․”تو پوچھ کون روزی دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمین سے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اورکون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور تدبیر کرتا ہے کاموں کی‘ سو بول اٹھیں گے کہ اللہ! تو کہہ پھر ڈرتے نہیں ہو“۔
۲:-”اہم یقسمون رحمت ربک‘ نحن قسمنا بینہم معیشتہم فی الحیوٰة الدنیا ورفعنا بعضہم فوق بعض درجات لیتخذ بعضہم بعضاً سخریاً‘ ورحمت ربک خیر مما یجمعون“۔ (الزخرف:۳۲)
ترجمہ:․․․”کیا وہ بانٹتے ہیں تیرے رب کی رحمت کو ہم بانٹتے ہیں ان میں روزی ان کی دنیا کی زندگانی میں اور بلندکر دئیے درجے بعض کے بعض پر کہ ٹھراتا ہے ایک دوسرے کو خدمت گار‘ اور تیرے رب کی رحمت بہتر ہے ان چیزوں سے جو سمیٹتے ہیں“۔
ہرجاندار کا رزق اللہ کے ذمے ہے اللہ نے رزق میں انسانوں کو متفاوت بنایاہے کہ ایک دوسرے سے کام لیں‘ اللہ نے معیشت کو لوگوں میں تقسیم کیا ہے۔ حضور اکرم ا کے زمانے میں منافقین آپس میں کہتے تھے کہ جو لوگ آپ ا کے پاس رہتے ہیں‘ان پر خرچ نہ کرو تا کہ وہ متفرق ہوجائیں‘ وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ زمین وآسمان کے خزانے اللہ ہی کے ہیں اور اللہ نے انسان کے لئے معاش کا سامان رکھ دیا ہے جو تمام سائلین کے لئے برابر ہے‘ حیوانات اور نوکرچاکر وغیرہ سے کام اور خدمت ہم لیتے ہیں اور روزی ان کی اللہ کے ذمہ ہے‘ ارشاد ربانی ہے:
”وجعلنا لکم فیہا معایش ومن لستم لہ برازقین“ ۔ (الحجر:۲۰)
ترجمہ:․․․”اور تمہارے لئے اس میں معیشت کے اسباب بنائے اور وہ چیزیں جن کو تم روزی نہیں دیتے“۔
وہ لوگ جو حلال طریقہ سے دولت اکٹھا کریں‘ لیکن اللہ کے راستے میں خرچ نہ کریں‘ مثلاً زکوٰة نہ دیں اور حقوق واجبہ نہ نکالیں ان کی سزا دردناک عذاب ہے۔ امتوں کی خرابی اور تباہی کا بڑا سبب تین جماعتوں کی خرابی وبے راہ ہونا اور اپنے فرائض کو ترک کرنا ہے۔۱- علماء ۲- مشائخ ،۳-اغنیاء اور روساء قرآن پاک نے اس کی وضاحت یوں کی ہے:
”یا ایہا الذین اٰمنوا ان کثیراً من الاحبار والرہبان لیاکلون اموال الناس بالباطل ویصدون عن سبیل الله‘ والذین یکنزون الذہب والفضة ولاینفقونہا فی سبیل الله فبشرہم بعذاب الیم“۔ (التوبة:۳۴)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! (اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور درویش لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور روکتے ہیں اللہ کی راہ سے اور جو لوگ گاڑھ رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘ سو ان کو خوشخبری سنا دو عذاب دردناک کی“۔
حضرت ابو ہریرہ  جناب نبی کریم ا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے جو اولاد آدم کے رزق اور ان کی روزی پر مقرر کئے گئے فرماتاہے کہ جس بندے کو تم دیکھو کہ اس کو صرف ایک ہی فکر ہے یعنی دین کی تو اس کے رزق کا آسمانوں اور زمین کو ضامن بنادو اور جس بندے کو تم دیکھو کہ رزق کی تلاش کرتا ہے تو وہ عدل پر چلتا ہے اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو اور اس پر آسانیاں بہم پہنچاؤ اور جس شخص کو ان دونوں باتوں کے خلاف پاؤ تو اس کو اس کی خواہش کے درمیان چھوڑدو‘ وہ پھر جو کچھ میں نے اس کے لئے لکھ دیا ہے اس کے اوپر کوئی درجہ حاصل نہیں کرسکتا۔(۱۴) ذخیرہ اندوزی کا جہاں تک تعلق ہے وہ ذاتی نفع کے لئے نہ ہو جیساکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کو مشورہ دیا تھا کہ:
”فما حصدتم فذروہ فی سنبلہ“۔ (یوسف:۴۰)
ترجمہ:․․․”اگر کبھی اناج کو چند سالوں کے لئے ذخیرہ کرنے کی ضرورت پڑجائے تو اس کو بدستور خوشوں میں رہنے دو“۔
اس سلسلے میں چند احادیث میں وضاحت کی گئی ہے‘ حضور ا نے ارشاد فرمایا :
۱:۔”غلہ کو گرانی کے لئے وہی شخص روکتا ہے جو خاطی اور گنہگار ہو“۔(۱۵)
۲:۔حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:
”جس نے چالیس دن سے زیادہ غلہ کو روکا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے“۔ (۱۶)
۳:۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے۔
”غلہ کو روکنے والا ملعون“۔(۱۷)
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ا سے غلہ کا بھاؤ مقرر کرنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا:”اللہ پاک ہی بھاؤ مقرر کرنے والا ہے (یعنی اگر زیادہ پیدا کرے گا تو سستا بکے گا اور اگر کم پیدا کرے گا تو گراں بکے گا) وہی کم پیدا کرنے والا ہے‘ وہی زیادہ اور وہی رزق دینے والا ہے اور میں اللہ کے حضور میں جانے والا ہوں‘ میں غلہ کا بھاؤ مقرر کرکے غلے والوں کو تکلیف کس طرح دوں اور کوئی مجھ سے کسی کے جان ومال میں بے انصافی کے حکم کی امید نہ رکھے“۔ (۱۸)
چور بازاری کے طریقہ کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے‘ چوربازاری میں بائع مشتری کی رضا مندی کے بغیر مال کی قیمت حاصل کرتا ہے‘ ارشاد ربانی ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا لاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارة عن تراض منکم“۔ (النساء:۲۹)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے مت کھاؤ‘ مگر یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت ہو“۔
اپنے اس قانون کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کسی ملک کے باشندوں کو امن اور چین سے رکھتا ہے ان کے پاس ان کی روزی بافراغت چلی آتی ہے پھر وہ اللہ کے احسانات کی ناشکری کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ناشکری اور کرتوتوں کا مزا چکھاتا ہے‘ ان کے اعمال کے نتیجہ میں بھوک اور خوف ان کے تن کا لباس بن جاتے ہیں ‘ ارشاد الٰہیہ ہے:
”وکم اہلکنا من قریة بطرت معیشتہا فتلک مساکنہم لم تسکن من بعدہم الا قلیلاً وکنا نحن الوارثین“۔ (القصص:۵۸)
ترجمہ:․․․”کتنی بستیاں ہم نے غارت کردیں جو اپنی معیشت پر اتراتی تھیں ان کے گھر ان کے بعد بے آباد پڑے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں“۔
دین اسلام حلال اور پاکیزہ اشیاء کھانے کی تلقین اور ایک دوسرے بالخصوص یتیم کا مال ناحق طریقے سے کھانے سے منع کرتا ہے‘ نبی کریم ا نے متعدد بار حرام سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا:
”منہ میں خاک ڈالنا اس سے بہتر ہے کہ کوئی حرام مال منہ میں ڈالے“۔ (۱۹)
حوالہ جات
۱۴- ابن ماجة‘ ج۲ ص:۸۴ ، ۱۵- ابو داود‘ ج۲ ص:۱۶۹، ۱۶- الاصبہانی‘ ابونعیم‘ حلیة الاولیاء ، ۱۷- الترمذی ج۱ص:۱۵۲، ۱۸- ابن ماجہ‘ ج۲ص:۷ ا ، ۱۹- ابن ماجہ‘ ج۲ص:۷
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رجب: ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: موبائل فون پر ہولڈ کے وقت حمد ونعت یا میوزک لگانے کا حکم
Flag Counter