Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

2 - 12
حقوق نسواںاورمذاہب عالم
حقوقِ نسواں اورمذاہبِ عالم (۲)

چنانچہ الله تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
”ولا تقتلوا اولادکم خشیة املاق، نحن نرزقھم وایاکم، ان قتلھم کان خطاً کبیرا“ ( بنی اسرائیل :۳۱)
ترجمہ:” اپنی اولاد کو افلاس کے خدشے سے قتل نہ کرو ،ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی،بیشک ان کا قتل ایک بڑی خطاہے“۔ چنانچہ اسلام نے آکر ایک عورت کو زندہ رہنے کا حق عطا کیا ۔یہی نہیں بلکہ ان بچیوں کی صحیح تعلیم و تربیت اچھے اند از میں کرنے کی تعلیم دی اور اس پر اجر مقرر کیا۔ چنانچہ رحمة للعالمین ا کا ارشاد مبارک ہے :
”جس شخص نے اپنی دوبیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی اور ان کا خیال رکھا اور محبت کے ساتھ انہیں پالا وہ شخص جنت میں داخل ہو گا“
اسی طرح اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی،ماں ، بہن ان تما م رشتوں کو حقیقی معنوں میں ایک مقام عطا کیا ،ان سب کے الگ الگ حقوق بیان کیے ،الغرض یہ کہ اسلام نے خواتین کو معاشرتی حقوق عطاکیے جن کی بدولت پاکیزہ رشتے وجود میں آئے، اسلام نے ان کا احترام کرنے ،ادب کرنے کا حکم دیا ،اسلام میں جہاں والد کے حقوق بیان کیے گئے ،وہیں والدہ کے بھی بہت سے حقوق بیان کیے گئے ۔ماں کا حق تو یہاں تک بیان کیا کہ والدہ کے قدموں تلے جنت ہے ،اس کی نافرمانی کرنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا۔
۴۔اسلام میں عورت کے تعلیمی حقوق
اسلام نے آج سے چودہ سو برس پہلے عورت کے حقوق کی بات اس وقت کی جب عورت کو کسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے ،ان کی ذاتی حیثیت املاک سے بڑھ کر نہیں تھی،اسلام نے اس وقت خواتین کی تعلیم پر زور دیا،جس وقت تمام مذاہب کے موجود ہوتے ہو ئے بھی دنیا میں تعلیم نسواں کا کوئی وجود نہیں تھا ۔سیرت طیبہ اورصحابہ کے دور میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملیں گی ،جن میں عورتوں کی تعلیم کے لئے باقاعدہ جگہ اور اوقات مقرر تھے ،جہاں ان کو باقاعدہ سے تعلیم دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد صحابیات عالمہ تھیں اور حضرات صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین ان سے مختلف فیہ مسائل کے متعلق رجوع کیا کرتے تھے ،سب سے اہم مثال ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنھا کی تھی۔جن سے صحابہ کرام اور خلفاء راشدین تک ہدایت ورہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ سے تقریباً ۱۲۱۰حادیث مروی ہیں ۔ اسی طرح ایسی کئی اور صحابیا ت کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے جو اپنے زمانے کی عالمہ تھیں جن سے مرد حضرات یعنی صحابہ کرام  رہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔
۵۔اسلام میں عورت کے قانونی حقوق
اسلامی قانون کے مطابق مرد اور عورت بالکل برابر ہیں ،اسلامی شریعت مرد اور عورت کے جان و مال کو یکساں تحفظ فراہم کرتی ہے ۔اگر کوئی مرد کسی عورت کوقتل کردے تو اسے بھی سزائے موت دی جائے گی،ا سی طرح اگر کوئی عورت کسی مرد کو قتل کردے تو اس کے لئے بھی وہی سزا مقرر ہے ۔سورہ ٴ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”یٰا ایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ، الحربالحر والعبد بالعبد والانثیٰ بالانثیٰ“ (البقرہ :۱۷۸)
ترجمہ:”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے ۔آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے،غلام قاتل ہو تووہی غلام قتل کیا جائے اور عورت اس جرم کی مرتکب ہوتو اس عورت سے ہی قصاص لیا جائے“۔
اسی طر ح دیگر جرائم کے اندر بھی عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ،چنانچہ اگر کوئی مرد چوری کرتاہواپکڑاجائے اوراس پر چوری کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کے لئے قطع ید…یعنی ہاتھ کاٹنے …کا حکم ہے ،اسی طرح اگر کوئی عورت چوری کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کے لئے بھی بلاتخصیص ہاتھ کے کاٹنے کا حکم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیھما جزآء بماکسبا نکالا من الله والله عزیز حکیم“ (المائدہ:۳۸)
ترجمہ:”اور چور خواہ مرد ہو یا عورت ،دونوں کے ہاتھ کاٹ دویہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور الله تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک سزا۔الله کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ حکمت والا ہے “۔
اسی طرح اسلام نے عورت کو گواہی کا بھی حق دیا ہے جس کے بارے میں یہودی ربی بیسویں صدی کے اندر غور و فکر کررہے تھے کہ آیا عورت کو گواہی دینے کا حق ہونا چاہیے یا نہیں ۔ اسلام نے کسی عورت پر بہتان طرازی کے معاملے میں چار گواہوں کی شہادت لازمی قرار دی ہے ،گویا اسلام کی نظر میں کسی عورت کی عصمت و عفت پر بلا تحقیق انگلی اٹھانا ایک بہت بڑا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعة شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدة ولا تقبلوا لھم شھادة ابدا“ (النور :۴)
ترجمہ:” اور جولوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ،ان کو اسی کوڑے مارواوران کی شہادت کبھی قبول نہ کرواور وہ خود ہی فاسق ہیں“۔
اس کے برعکس آج کے معاشرے میں جب جس شخص کا دل چاہتا ہے شریف عورتوں پر الزام تراشی کرنے لگتا ہے۔ ان کے کردار اور اخلاق کے بارے میں جو منہ میں آتا ہے ،کہتا چلا جاتا ہے ۔یہی وہ سب سے بڑا فرق ہے اسلام کا اور دیگر ادیان کا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کے عزت ووقارکوکس قدراہمیت دی گئی ہے۔
۶۔اسلام میں عورت کے سیاسی حقوق
اسلام نے عورتوں کوآزادیٴ اظہارِ رائے کابھی حق دیا ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی کے دوران عورتوں کی رائے کو اہمیت بھی دی گئی ہے ،چنانچہ مشہور روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے ساتھ حق مہر کے مسئلے پر گفتگو فر مارہے تھے اور حضرت عمر  کی خواہش تھی کہ حق مہر کی حد مقرر کردی جائے ۔کیونکہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا مشکل ہو تا جا رہا تھا ،اسی اثنا ء میں پیچھے سے ایک بوڑھی عورت اٹھی اور اس نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی :
”وان اردتم استبد ال زوج مکان زوج واٰتیتم احدٰلھن قنطارًافلا تاخذوامنہ شیئا“ (النساء :۲۰)
ترجمہ :” اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کرو تو خواہ تم نے اسے ڈھیرسارا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ،اس میں سے کچھ واپس نہ لینا“۔
اس کے بعد اس عورت نے کہا کہ: جب قرآن یہ اجازت دیتا ہے کہ عورت کو حق مہر میں مال کا ڈھیر بھی دیا جاسکتا ہے تو عمر کون ہوتا ہے حد مقرر کرنے والا ؟یہ سن کر حضرت عمر فاروق  نے فوراً اپنی رائے سے رجوع کر لیا اور فر مایا کہ” عمرغلط تھا اور یہ عورت درست کہہ رہی تھی “۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اسلام میں ایک عام عورت کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ ٴ وقت کے ساتھ اختلا ف کی جرأت کر سکے اور اس پر اعتراض کر سکے ۔
آخری گذارش
سوچنے کی بات یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے معاملے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود ہرسال مغربی خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کررہی ہے ،مغرب کی یہ الزام تراشی کہ اسلام خواتین پر پابندیاں عائد کرتاہے اور عورت کو ذیلی حیثیت دیتا ہے،اسلام دشمنی کے سوا اورکیا ہو سکتی ہے۔ وہ معا شرہ جو عورت کے مقابلے میں کتے کو زیا دہ اہمیت دیتا ہے ،اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے، سوائے اس کے اور کیاکہاجا سکتا ہے کہ سب کچھ جان کے بھی انجا ن رہنا ،بی بی سی کی جانب سے ۲۰۰۳ء میں کیے گئے سروے کے مطابق 78فیصدمردوں اور عورتوں نے کہا کہ: اگر ان کے پڑوس میں کوئی شخص اپنے پالتوکتے کو پیٹ رہا ہوگاتو وہ پولیس کو اطلاع دے کر اسے بچانے کی کو شش کریں گے، جب کہ اس کے بر عکس کسی گھر میں کسی مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا دوست عورت پر تشدد کیے جانے کی صورت میں پولیس کو اطلاع دینے پر صرف۵۳فیصد لوگوں نے آمادگی ظاہر کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب میں عورت آج بھی جدیدجاہلیت کے عہدِ مظلومیت سے گذر رہی ہے ،ہدایت الٰہی سے محروم تہذیب نے عورت کو عملاً مردوں کا کھلونا بنا دیا ہے،مغرب کے اہلِ دانش اس حقیقت کابر ملا اعتراف کرتے ہیں،چنانچہ ڈاکٹر ہنری میکاوٴ(Dr.Henry Makow)اپنے ایک معرکہ آراء تجزیے میں لکھتے ہیں ،جس کا نام ہے ”امریکی نسانیت کی درگت :بکنی بمقابلہ برقعہ“ (The Debauchery of american Womanhood:Binkini vs Burka) ملا حظہ کیجیے :
”اپنے کمرے کی دیوار پرمیں نے ایک تصویر برقعے میں مکمل طور پر ڈھکی ہو ئی ایک مسلمان عورت کی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور تصویر مقابلہٴ حسن میں شریک ایک امریکی عورت کی لگا رکھی ہے،جس کے جسم پر سوائے ایک بکنی کے کچھ نہیں ہے ۔ان میں سے ایک عورت لوگوں کی نگاہوں سے پوری طرح چھپی ہوئی ہے، جب کہ دوسری ان کے سامنے مکمل طور پر عریاں ہے۔یہ دو انتہائی نام نہاد تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں بہت کچھ بتارہی ہیں۔عورت کا کردار کسی بھی ثقافت کا دل ہے،مشرقی وسطیٰ پر مسلط کی گئی جنگ عربوں کا تیل چرانے کے علاوہ برقعے کو بکنی سے بدل کر، ان کے بدن سے ان کے مذہب اور ثقافت کا لباس اتار دینے کے لیے بھی ہے“۔ آگے چل کر ڈاکٹر میکاوٴ لکھتے ہیں :
”میری نگاہ میں برقعہ اپنے شوہر اوراپنے اہل خانہ کے لیے عورت کی تخصیص اور تقدیس کی علامت ہے،صرف وہی اسے دیکھتے ہیں،برقعہ گھریلوزندگی کی رازداری اور اہمیت کو مستحکم کرتاہے،مسلمان عورت کی سر گرمیوں کا محوراس کا گھر ہے ،یہ وہ آشیانہ ہے جہاں اس کے بچے پید اہوتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں،وہ”گھر“ بنانے والی ہے ۔یہ گھر خاندان کی روحانی زندگی کو سیراب کرنے والا سر چشمہ ہے ،اس کے بچوں کی پرورش اور تربیت کا مرکز ہے اور اس کے شوہر کی تقویت کا باعث اور پناہ گاہ ہے ۔اس کے برعکس بکنی پوش امریکن بیوٹی کوئین ٹی وی پر عملاًعریاں حالت میں لاکھوں لوگوں کے سامنے اتراتی ہوئی آتی ہے ۔ اپنی حدتک تووہ عورتوں کے حقوق کے علمبردار اور اپنی مالک آپ ہے مگر عملاً وہ پبلک پراپرٹی ہے،وہ کسی کی نہیں اور سب کی ہے ۔وہ اپنے جسم کو سب سے زیادہ بولی لگانے والے کے ہاتھ فروخت کرتی ہے ،وہ خود کو ہمہ وقت نیلام کرتی رہتی ہے ۔امریکا میں عورت کی سماجی وثقافتی حیثیت کا پیمانہ اس کی صنفی کشش ہے ۔“… (خاتونِ مغرب کا حالِ زار اور اسلام ،ثروت جمال اصمعی ،روزنامہ جنگ۸ نومبر ۲۰۰۸ء)
یہ تجزیہ کسی مسلمان شدت پسند کا نہیں بلکہ ایک انگریز دانشور کا ہے ،جواسی معاشرے کا رہنا والا ہے۔ اس تجزیے کے مطابق امریکی معاشرے میں عورت کے جنسی کھلونا بن جانے اور اس کے نتیجے میں خاندانی نظام کے بکھر جانے ،بچوں کا ممتا کی محبت سے محروم ہو جانے اوربالخصوص معاشرے کا تباہی کے راستے پر گامز ن ہوجانے کا ذکر بڑی وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ اس تجزیے کو پڑھ کر یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ جو معاشرہ حقوق نسواں کا پرچار کررہاہے اورخودکو اس کا علمبردار گردانتا ہے، اس معاشرے کی اپنی حالت کس قدر دگرگوں ہے ،مغربی معاشرے میں رہنے والی عورت مغرب کے تمام تر دعووٴں کے باوجود آج بھی اپنا کوئی مقام حاصل نہیں کرپائی ہے ۔مغربی ذرائع ابلاغ کے تمام تر دعووں کے باوجود خود انہی کے اپنے ملک سے شائع ہونے والی رپورٹیں اور سروے ان کے اپنے منہ پر طمانچہ ہیں۔ درحقیقت اسلام ہی وہ کامل مذہب ہے جو عورت کو ماں،بہن ،بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے احترام ،تقدس اور محبت کے بلندمدارج پر فائز کرتا ہے، مغربی تہذیب میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں پایاجاتا۔ لہٰذا یہ کہنا اور سمجھنا کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کا سرے سے ہی کوئی تصور نہیں ،نہایت نادانی اور ناسمجھی کی بات ہے ۔ یاد رکھئے !صحت مند معاشرے کے قیام کے لئے عورت کا وجود اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مرد کا ۔لیکن عورتوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الله تعالیٰ نے ان کے حقوق کے ساتھ کچھ قیودات بھی مقرر کی ہیں جن کی پاسداری خود انہی کی بقاء ومفاد کی ضمانت ہے ،،لہٰذا تمام مسلمانوں سے یہی گذارش ہے کہ اپنے مذہب کی قدر جانیں اور اسلام کے ہر پہلو کو اپنی عملی زندگے میں شامل کریں ،اسی میں ہماری بقاء ہے ۔غیروں کی چالبازیوں میں آکر اعتراض کرنا اوراپنے دین میں برائی نکالنا نہایت آسان ہے ،غیروں کی تہذیب اور ثقافت نے آج تک ہمیں نہ کچھ دیا ہے اور نہ ہی آئندہ ان سے کسی اچھائی کی امید کی جاسکتی ہے۔بقول شاعر :
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدا ر ہوگا
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: آٹھ سالہ پرویزی دور کے کارنامےاور نئی حکومت سے چند گذارشات
Flag Counter