Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

11 - 12
یاد رفتگاں
مفسّرِ قرآن و محدث دوراں حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی 

شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ کے تلمیذ، دارالعلوم دیوبند کے عظیم فرزند، امام اہل ِ سنت حضرت اقدس مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے برادر اصغر، ان کے شاگرد، جامعہ نصرة العلوم گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ کے بانی، شیخ الحدیث و مہتمم، جامع مسجد نور گوجرانوالہ کے خطیب، فکر ولی اللّٰہی کے داعی، مناد اور شارح، اکابر کے علوم و معارف کے امین و شارح، عظیم محدث، بلند پایہ مفسر، نامور مدرس، علم و تحقیق کے امام، قدیم و جدید کے حسین امتزاج، عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، زہد و تقویٰ، توکل و تکشف، جرأت و بے باکی کی تصویر، تقریر و تحریر کے دھنی حضرت اقدس مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ۲۸/ ربیع الاول ۱۴۲۹ھ مطابق ۶/ اپریل ۲۰۰۸ء بروز پیر صبح دس بجے طویل علالت کے بعد راہی عالم آخرت ہوگئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان اللہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمّٰی۔
حضرت مولانا صوفی عبدالحمید قدس سرہ ۱۳۳۵ھ مطابق ۱۹۱۷ء کو پاکستان کے مردم خیز علاقہ صوبہ سرحد کے ضلع ہزارہ کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ گاؤں کڑمنگ بالا میں پیدا ہوئے، بچپن میں ہی والدین کا سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا ، نہایت کٹھن حالات اورمشکلات سے دوچار رہے، مگر خلاق ازل نے ان کی قسمت کی یاوری کی اور ظاہری اسباب میں ان کے بڑے بھائی امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے ان کی ماں باپ کی کمی کو پورا کرتے ہوئے ان کی ہمہ قسم کی سرپرستی کی اور ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ابتدائی طور پر علاقے کے مختلف اساتذہ اور مدارس سے کسبِ فیض کیا اور مبادیات کی تعلیم کے بعد تکمیل علوم اسلامیہ کی غرض سے ازہر الہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا۔ چنانچہ ۱۳۶۱ھ مطابق ۱۹۴۱ء میں دارالعلوم دیوبند سے دورئہ حدیث کرکے فاتحہ فراغ پڑھا۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی اور امام الادب حضرت مولانا محمد اعزاز علی قدس اللہ اسرارہم وغیرہ جیسے اساطین علم و عمل کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے اور ان کے علوم و معارف اور علم و ادب سے بھرپور حصہ پایا۔ دوسری طرف تردید باطل اور تقابل ادیان کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ نے امام اہلِ سنت حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی قدس سرہ سے تربیت حاصل کی، جبکہ طب یونانی کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کے لئے آپ نے طبیہ کالج حیدر آباد دکن کا رخ کیا اور وہاں سے باقاعدہ طب و حکمت کی سند حاصل کی۔ تکمیل علوم کے بعد آپ اپنے وطن مالوف تشریف لائے اور گوجرانوالہ میں جامعہ نصرة العلوم اور جامع مسجد نور کی داغ بیل ڈالی اور زندگی بھر اپنے ہی قائم کردہ اس مرکز علم و عرفان میں علم و حکمت اور ہدایت و معرفت کے دریا بہاتے رہے، جہاں قرب و جوار، دور و نزدیک اور اندرون و بیرون ملک کے ہزاروں تشنگانِ علوم نبوت کو سیراب کیا اور عشق و مستی کی شراب طہور کے جام لٹائے، اور ایک دنیا نے ان کے علوم و معارف کی زکوٰة سے حسب استعداد حصہ پایا۔ حضرت اقدس مولانا صوفی عبدالحمید سواتی قدس سرہ نے علوم ظاہری کے علاوہ علوم باطنی اور سلوک و احسان میں ا پنے شیخ و استاذ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ سے بیعت و سلوک اور ارشاد و احسان کا تعلق جوڑا اور زندگی بھر ان کے علوم و انفاس طیبات سے سرشار رہے، یہ اسی کا اثر تھا کہ آپ جہاں علم ظاہری میں بلند پایہ محقق، عظیم محدث، بے مثال مفسر اور مدرس تھے، وہاں آپ اپنے شیخ کے ظل و عکس کے طور پر بے باک مجاہد اور ”لایخاف لومة لائم“ کی سچی تصویر تھے۔ آپ نے زندگی بھر اپنے اساتذہ اور مشائخ کے علوم و معارف، مشرب و مسلک اور ذوق و مزاج کو اپنے تلامذہ اور سامعین کے قلوب و اذہان میں منتقل کیا، چنانچہ جہاں درس و تدریس کے میدان میں آپ کے تلامذہ آپ کی تعلیم و تدریس پر پروانہ وار جان چھڑکتے اور سر دھنتے، وہاں آپ کے روزانہ کے عام فہم مگر علمی درس قرآن و حدیث اور وعظ و بیان میں بھی عاشقوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا۔ آپ کے خلوص، اخلاص اور للہیت کا ثمرہ ہے کہ آپ نے صرف درس و تدریس اور وعظ و بیان ہی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اصلاح خلق کی خاطر لازوال قربانیاں دیں، چنانچہ آپ نے ہر دینی مذہبی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بلکہ ہراوِل دستہ کا کردار ادا کیا، اس کے لئے کئی بار آپ کو پابند سلاسل ہونا پڑا اور سنت یوسفی کی ادائیگی کا اعزاز بھی حاصل ہوا، کئی بار آپ کے ادارہ جامعہ نصرة العلوم اور جامع مسجد نور کے لئے مشکلات بھی آئیں، مگر آپ نے جس بات کو حق و سچ جانا اور سمجھا، اسے کہنے سے دریغ نہیں کیا۔ آپ کے اسی اخلاص ، لگن، کڑھن، محنت و جدوجہد کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے ادارہ کو اکابر علمائے دیوبند اور دارالعلوم دیوبند کا ترجمان و مناد بنادیا۔ یوں تو ہر ادارہ کی اپنی جگہ لازوال خدمات ہیں اور بساط بھر ہر دینی ادارہ علوم نبوت کا شارح اور ترجمان ہے، مگر بالخصوص نصرة العلوم اور اس کے بانی حضرت صوفی صاحب اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کو اللہ تعالیٰ نے اہل ِ سنت کی امامت و سیادت اور قیادت کی اوج ثریا پر پہنچادیا۔ چنانچہ جس مسئلہ میں امام اہل ِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی قدس سرہ یا ان کے ادارہ جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ کی حتمی رائے آجاتی دنیائے علم و عرفان اور اکابر علمائے دیوبند اس کو آنکھ بند کرکے تسلیم کرتے اور اس پر صاد کرتے۔ بلاشبہ دینی مدارس محض اللہ کے توکل اور اہل ِ خیر مسلمانوں کے تعاون سے چلتے ہیں ، اربابِ مدارس اس کے لئے اہلِ ذوق مسلمانوں کو ان کے تعاون کے لئے متوجہ کیا کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح مدرسہ نصرة العلوم اور جامع مسجد نور بھی محض اللہ کے فضل و عنایت سے وجود میں آئے اور اس کے لئے باقاعدہ کوئی ذریعہ آمدنی نہ تھا اور ان کے بانی حضرت صوفی صاحب بھی اپنے متعلقین و محبین کو اس طرف توجہ دلاتے تھے، مگر اس استغنٰی اور حزم و احتیاط سے کہ پیغام بھی پہنچ جائے اور ساتھ ساتھ تبلیغ کا فریضہ بھی ادا ہوجائے۔ چنانچہ حضرت کے خدام میں سے ہمارے محترم دوست جناب میر لقمان اللہ صاحب نے بتلایا کہ : حضرت صوفی صاحب یوں تو شاذ و نادر ہی کبھی مسجد و مدرسہ کے فنڈ لئے اعلان فرماتے ،لیکن جب خدام اصرار کرتے تو یوں اعلان فرماتے:
”اللہ کے بندو! مدرسہ اور مسجد کی فلاں ضرورت کے لئے فنڈ کی ضرورت ہے، اس میں تعاون کرو مگر یاد رکھو اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور پاکیزہ مال کو قبول کرتے ہیں، اس لئے جن لوگوں کا ذریعہ آمدنی حرام یا مشکوک ہو، وہ مسجد و مدرسہ میں چندہ نہ دیں، اللہ کو حلال مال دو، جن کے پاس حلال نہ ہو، وہ مسجد و مدرسہ کے چندہ میں حصہ نہ ملائے، پہلے اپنا مال حلال کرو پھر اللہ کے نام پر دو، نیز اپنے بچوں اور زیر ِ کفالت افراد کا بھی خیال رکھو، اگر اس سے فاضل ہو تو چندہ دو۔“
دیکھئے! کس ہمت، جرأت ، بے باکی، استغنٰی اور کس خوبصورتی و سلیقہ سے حلال کی ترغیب دی جارہی ہے کہ جو لوگ حلال نہیں کماتے یا ان کی آمدنی حرام و مشکوک ہے، وہ دینی کاموں اور مسجد و مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہیں لے سکتے اور ان کا مال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس شخص کا مال اللہ کے بندے قبول نہ کریں یا مسجد و مدرسہ میں نہ لگ سکے، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیونکر قبولیت حاصل کرسکتاہے؟ اسی طرح اصحابِ حقوق کے حقوق کی ادائیگی اور زیر کفالت افراد کی ضروریات کے خیال رکھنے کا کیسا عمدہ عنوان اختیار کیا گیا؟ حضرت صوفی صاحب قدس سرہ نے درس، تدریس، اہتمام و انتظام، خطابت، دینی اجتماعات، ملی خدمات کے علاوہ جس پابندی سے روزانہ فجر کے بعد کے عوامی درس قرآن و حدیث کو نبھایا، وہ بھی کسی کرامت سے کم نہیں۔ بلاشبہ آپ موفق من اللہ تھے اور آپ کے اوقات و لمحات میں منجانب اللہ برکت تھی حضرت صوفی صاحب کے موفق من اللہ ہونے اور ان کے اوقات میں غیر معمولی برکت ہونے کا حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے کس خوبصورتی سے اظہار فرمایا ہے، ملاحظہ ہو:
”جناب صوفی صاحب اور ان کے برادر محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم ان علماء ربانیین میں سے ہیں، جن کے اوقات میں حق تعالیٰ شانہ نے فوق العادت برکت فرمائی ہے، اور دین قیم کی بے لوث اور خاموش خدمت کے لئے ان کو موفق بنایا ہے، درس قرآن پاک کے پیش لفظ میں جناب مرتب کا یہ انکشاف اسی کی شہادت ہے: روزانہ درس قرآن پاک ہر زمانے میں علمائے کرام کا معمول رہا ہے، چنانچہ سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صوفی عبدالحمید صاحب مدظلہ العالی نے درسِ قرآن پاک کا آغاز تقریباً آج سے تیس سال بیشتر جامع مسجد نور، نزد گھنٹہ گھر گوجرانوالہ میں کیا۔ صوفی صاحب ہفتہ میں چار یوم بعداز نماز فجر درس دیتے ہیں، اس عرصہ میں قرآن پاک کا مکمل درس پانچ مرتبہ دیا جاچکا ہے اور اب چھٹی دفعہ اس کا آغاز ہوچکا ہے، ہفتہ کے باقی ایام میں حدیث پاک کا درس ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بخاری، ترمذی، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مشارق الانوار اور الترغیب والترہیب کا درس مکمل ہوچکا ہے اور اس وقت مسند احمد کا درس جاری ہے۔“ (ماہنامہ بینات، ربیع الثانی ۱۴۰۳ھ، ص:۶۳)
حضرت صوفی صاحب بلاشبہ غیر معمولی صفات و خصوصیات کے مالک تھے، ان کے تلامذہ کا بیان ہے کہ حضرت صوفی صاحب واقعی اسم بامسمّٰی تھے۔ حضرت صوفی صاحب کا تصوف کا کیا مقام تھا؟ اور ان کو اس عنوان پر کس قدر درک و ادراک تھا؟ اس کا اندازہ ان کی کتاب فیوضات حسینی اور اس کے مقدمہ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ عملی اعتبار سے ان کے تقویٰ و طہارت اور شرم و حیاء کا یہ حال تھا کہ ان کی نگاہیں ہمیشہ نیچی رہتی تھیں، حتی کہ درس گاہ میں بھی ان کا یہی معمول ہوتا، دوران درس نہایت متانت و سنجیدگی کا مظاہرہ فرماتے، ان کے سبق میں حشو و زوائد نہ ہوتے، ان کی کوئی بات ثقاہت کے معیار سے گری ہوئی نہ ہوتی، ان کی ہر بات تحقیق و ثبوت کی چھلنی سے چھن کر نکلتی، وہ کوئی بات بلاثبوت و بلاحوالہ نہ کرتے، چنانچہ ان کا درس حدیث، درس قرآن بلکہ خطبہ جمعہ بھی باحوالہ ہوتا، وہ اکابر و اسلاف کی تحقیقات کے پابند تھے، وہ اپنے اساتذہ و مشائخ کے ذوق و مزاج کے خُوگر تھے، حضرت موصوف نہایت متحمل مزاج اور دھیمے انسان تھے، ان پر جذباتیت کا اثر نہیں تھا، تاہم اگر خلاف اسلام یا اکابر علماء کی اہانت و توہین کا کوئی پہلو محسوس فرماتے تو جلال میں آجاتے۔ ان کا ہر روز بلکہ زندگی بھر کا معمول تھا کہ وہ نماز کے وقت سے پہلے نماز کے لئے تیار ہوجاتے تھے، چنانچہ جیسے ہی موذن اذان کے لئے اللہ اکبر کہتا، حضرت صوفی صاحب عین اسی وقت مسجد میں داخل ہورہے ہوتے، یقینا آپ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کے مصداق تھے کہ: ”جب بھی نماز کا وقت آیا میں نے اس کی تیاری اس کے وقت سے پہلے کرلی تھی، اور جب بھی نماز کا وقت آتا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں پہلے سے اس کا مشتاق تھا۔“ بلاشبہ ہمارے اکابر و اسلاف صحابہ و تابعین کے سچے عاشق، شیدائی اور فرمانبردار تھے، جس طرح ان حضرات کا مسجد کے ساتھ رشتہ مضبوط و مستحکم تھا، ٹھیک اسی طرح ان حضرات کو بھی مسجد کے علاوہ کہیں چین و سکون نہیں ملتا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ نماز سے پہلے مسجد میں نماز کا انتظار فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت سعید بن مسیب کے بارہ میں آتا ہے کہ: ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آذان ہوئی ہو اور وہ مسجد میں موجود نہ ہوں، یعنی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کی غیر حاضری میں اذان ہوگئی ہو، ٹھیک اسی طرح حضرت صوفی صاحب کا معمول تھا۔ شاید ایسا کبھی نہ ہوا ہوگا کہ وہ گھر میں ہوں اور اذان ان کی غیر حاضری میں ہوئی ہو۔ حضرت صوفی صاحب کی حسنات کا یوں تو شمار و بیان ہم ایسے جاہلوں اور کوتاہ علموں کے لئے نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے ان سے قرآن و سنت اور علوم نبوت کی جو خدمت لی، سب سے بھاری ہے، آپ کی ساری زندگی قال اللہ وقال الرسول میں گزری۔ علماء، طلبہ کو علوم و فنون صرف، نحو، فلسفہ، معانی، بدیع بیان، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث، تفسیر اور اصول تفسیر پڑھایا، اس کے علاوہ روزانہ صبح عوام کو قرآن و حدیث کے درس سے سرفراز فرمایا۔ چنانچہ آپ کے انہیں دروس کو کیسٹ کی مدد سے نقل کرکے جب مدون کیا گیا اور اس کی تصحیح و تخریج کی گئی تو وہ ”معالم العرفان فی دروس القرآن“ کے نام سے اردو زبان کی خالص علمی، تحقیقی اور معیاری تفسیر کہلائی، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اردو تفاسیر کے مجموعہ میں اس سے زیادہ محقق ،مفصل اور مبسوط تفسیر شاید ہی کوئی ہو، کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق ۱۳ ہزار صفحات اور ۲۰ جلدوں پر مشتمل تاحال کوئی اردو تفسیر وجود میں نہیں آئی۔ اس تفسیر کی جلالت قدر اور اس کی علمی تحقیقات کے بارہ میں حکیم العصر حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی یہ شہادت کسی سند سے کم نہیں کہ:
”....جس توسع اور تفصیل سے آیات کریمہ کی تشریح کی گئی ہے، اس پر تفسیر عزیزی کا گمان ہوتا ہے، مضامین تمام تر اہل ِ حق کے مطابق ہیں اور مصنف نے تفسیر و حدیث وغیرہ کی جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے، ان کا حوالہ بقید صفحات حاشیہ میں دے دیا گیا ہے ۔“ (ماہنامہ بینات، جمادی الاخریٰ ۱۴۰۴ھ، ص:۶۱ )
اسی طرح ماہنامہ بینات ربیع الثانی ۱۴۰۳ھ میں معالم العرفان پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے مزید لکھا:
”درس کا انداز عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عالمانہ، محققانہ، مصلحانہ اور عارفانہ ہے، آیات بینات کی تشریح و تفسیر احادیث صحیحہ اور سلف صالحین کے علوم کی روشنی میں کئی گئی ہے۔ حضرت حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے صاحبزادہ گرامی مسند الہند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے علوم و افادات سے بطور خاص استفادہ کیا گیا ہے، خدا کرے یہ پورا درس قرآن کتابی شکل میں شائع ہوجائے تو یہ ہمارے دور کی عظیم الشان تفسیر ہوگی۔ واللہ الموفق۔“ (ص:۶۳)
عموماً مفسرین ابتدأ اور شروع میں بسط و تفصیل سے اور آخر میں ایجاز و اختصار سے کام لیتے ہیں، مگر حضرت صوفی صاحب کی ”معالم العرفان فی دروس القرآن“ کا انداز سب سے ہٹ کر ہے، چنانچہ انہوں نے شروع سے آخر تک یکسانیت کا مظاہرہ کیا اور بسط و تفصیل کے ایک ہی انداز کو نبھایا ہے۔ اسی طرح آپ کی تصنیفی خدمات میں سے ”نماز مسنون کلاں“ ایک بیش بہا خدمت ہے، جس میں آپ نے مسلک احناف کی نماز کو دلائل و براہین سے مسنون نماز ثابت کیا ہے۔ دراصل دورِ حاضر کے غیر مقلدین سیدھے سادے مسلمانوں اور خصوصاً حنفی حضرات کو پریشان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہاری نماز خلافِ سنت ہے بلکہ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ تمہاری نماز ہی نہیں ہوتی۔ عامة الناس اور فقہ حنفی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اس پریشانی اور اضطراب کو دور کرنے اور غیر مقلدین کے باطل پروپیگنڈا کے توڑ کے لئے آپ نے نہایت مبسوط و مدلل نماز مسنون تالیف فرکر نماز حنفی کے ایک ایک عمل کو قرآن و سنت سے مبرہن فرمایا، اس کے علاوہ ایک دوسری کتاب نماز مسنون خورد بھی ہے۔ اسی طرح مقدمہ صحیح مسلم، مولاناعبیداللہ سندھی کے علوم و افکار، مقالات سواتی، جس میں آپ کے اکتیس علمی و تحقیقی مضامین کو جمع کیا گیا ہے، دروس الحدیث (۴ جلد) تشریحات سواتی الی ایسا غوجی، بیان الازہر ترجمہ فقہ اکبر، خطبات صدارت شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی، عقائد اہل سنت ترجمہ عقیدة الطحاوی، سعدیات فارسی، شرح شمائل ترمذی(۲ جلد)، فیوضات حسینی، اور خطبات سواتی (۶ جلد) ایسی خالص علمی اور تحقیقی کتابیں شامل ہیں، عام طور پر خطبات جمعہ باحوالہ نہیں ہوتے مگر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید صاحب قدس سرہ کے خطبات کا یہ اختصاص ہے کہ وہ بھی ان کی دوسری تصنیفات کی طرح باحوالہ ہیں۔
اس کے علاوہ آپ کی علمی و تصنیفی خدمات میں سے درج ذیل شاہکار بھی شامل ہیں:
ترجمہ و تشریح ترمذی شریف ابواب البیوع، ترجمہ و تشریح ابن ماجہ شریف کتاب الطہارة، تقریر بخاری شریف مکمل جو بحمدللہ ۲۰۰۷ء سے ماہنامہ نصرة العلوم میں مسلسل شائع ہورہی ہے۔ اسی طرح آپ نے حضرت ولی اللہ ،شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی تصنیفات اور علوم و افکار پر بھی بھرپور کام کیا، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: ”صرف ولی اللّٰہی“ ...حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی… کی اشاعت مع مقدمہ و تصحیح ،”الطاف القدس فی معرفة النفس“ ...حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ...کا ترجمہ و تصحیح، عقیدة الحسنة …حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی …کا ترجمہ و تصحیح ”میزان البلاغہ“ ...حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ...کا ترجمہ و تصحیح، تفسیر آیت النور“ ...حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی ...مجموعہ رسائل مکمل دو جلد، ...حصہ اول دس رسائل اور حصہ دوم تیس رسائل ...حضرت شاہ رفیع الدین ... ”تکمیل الاذہان“...حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی ...مع مقدمہ و تصحیح، ”حجة الاسلام“ حضرت نانوتوی ،کی تعریب، اجوبہ اربعین، کا مقدمہ ،تحقیق، تخریج کے علاوہ جدید قالب میں طباعت ”مبادی تاریخ الفلسفہ“ ...مولانا ابوالکلام آزاد...کی تعریب، عون الخبیر شرح فوزالکبیر ،کا ترجمہ و تشریح۔ ”دمغ الباطل“ ...حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی... جس کی تصحیح و تطبیق پر آپ نے پانچ سال کی محنت شاقہ اٹھائی اور اس کا متعدد نسخوں سے مقابلہ کیا پھر اس کا مقدمہ لکھا اور نہایت تصحیح کے ساتھ اس کی طباعت فرمائی اور اس پر اس دور کے اکابر نے آپ کی خوب تحسین تشجیع اور ہمت و حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔ تفسیر کے علاوہ مستقل ترجمہ قرآن کریم ،جو معالم العرفان کی بیس جلدوں میں پھیلا ہوا تھا ،اب یکجا کردیا گیا ہے، آخر میں آپ کی تصنیف ”الاکابر“ منصہ شہود پر آئی ہے، چنانچہ حضرات صحابہ کرام سے لے کر آج تک آپ نے جن جن اکابر پر جو کچھ لکھا تھا، اس میں وہ تمام مضامین جمع کردیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صوفی صاحب اور ان کے برادر بزرگ امام اہل ِ سنت حضرت اقدس مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ سے اس دور میں خوب خوب کام لیا اور بطور خاص جن شعبہ جات میں کام کرنے کی ضرورت تھی، ان کو ان شعبوں کی طرف متوجہ فرماکر ان سے کام لیا گیا۔ حضرت صوفی صاحب قدس سرہ گزشتہ کئی سال سے علیل اور اب کئی ماہ سے صاحبِ فراش بلکہ حالت استغراق میں تھے ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ کے مصداق پیر ۲۸ /ربیع الاول ۱۴۲۹ھ کو دس بجے دن آپ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دنیا سے منہ موڑ گئے، اسی دن شام کو نماز جنازہ ہوئی، آپ کے صاحبزادے اور جانشین مولانا محمد فیاض خان سواتی مدیر جامعہ نصرة العلوم نے نماز جنازہ پڑھائی، ملک بھر کے اکابر علماء ، صلحاء اور طلبہ نے جنازہ میں شرکت کی اور حسب وصیت آپ کو گوجرانوالہ کے عام قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ بلاشبہ حضرت صوفی صاحب کی رحلت سے جہاں جامعہ نصرة العلوم کے اساتذہ، طلبہ، متعلقین، اعزئہ و اقربا کو عظیم صدمہ پہنچا ہے، وہاں پورے اہلِ علم ان کی رحلت کے صدمے سے دوچار ہیں۔ بلاریب امام اہل سنت حضرت اقدس مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب مدظلہ کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے کہ:
”حضرت صوفی صاحب کی رحلت سے میری کمر ٹوٹ گئی، کیونکہ انہوں نے میرا ہر میدان میں ساتھ دیا، گھریلو، معاملات، خاندانی مسائل، دینی، تعلیمی، تدریسی اور انتظامی معاملات میں ہمیشہ انہوں نے میرا ساتھ دیا ہے۔“
اس لئے حضرت صوفی صاحب کی رحلت علم و عمل، بحث و تحقیق اور زہد و اتقا کی موت ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت صوفی صاحب کی زندگی بھر کی دینی خدمات کو قبول فرماکر ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی عمر بھر کی کمی کوتاہیوں سے درگزر فرماکر ان کو اپنے قرب سے مالا مال فرمائے اور آپ کے برادر بزرگ امام اہل ِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم العالیہ اور ان کے نسبی و روحانی اخلاف کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مفتی سیّد سعید احمد اخوندزادہ شہید
استاذ: شاخ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
۱۴/اپریل ۲۰۰۸ء مطابق ۷/ ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ بروز پیر صبح ساڑھے پانچ بجے ہمارے دوست ہم نام و ہم کام جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل، متخصص اور استاذ مولانا مفتی سیّد سعید احمد اخوند زادہ کو سفاک درندوں اور دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمی۔
مولانا مفتی سیّد سعید احمد اخوند زادہ شہید کا آبائی تعلق مردان، شیخ ملتون ٹاؤن سے متصل، آبادی ”خورہ“ سے تھا۔ موصوف نے ۱۹۶۶ء میں جناب مولانا متحمل شاہ صاحب کے گھر میں آنکھ کھولی، ناظرہ قرآن کریم اور پرائمری تک ابتدائی تعلیم آبائی علاقہ خورہ میں حاصل کی، ناظرہ اور پرائمری کے بعد حفظ قرآن کریم کے لئے آپ نے مردان کے مشہور قاری اور بزرگ عالم دین جناب حضرت مولانا قاری محمد ابراہیم فاضل دارالعلوم دیوبند کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے اور جامع مسجد گجو خان روڈ مردان سے تین سال کے مختصر عرصہ میں حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی، علوم عالیہ اور درس نظامی کی تعلیم کے لئے آپ نے ملک کی مشہور علمی اور مایہ ناز دینی درس گاہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا قصد کیا، اور شوال ۱۴۰۲ھ مطابق اگست ۱۹۸۲ء سے شعبان ۱۴۱۱ھ مطابق فروری ۱۹۹۱ء تک پورے ۹ سال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، میں رہ کر علوم نبوت کی تکمیل کرکے فاتحہ فراغ پڑھا۔ فراغت کے بعد دو سال تک دارالعلوم احیاء العلوم مردان میں تدریس کے فرائض انجام دیئے، دوران تدریس ہی آپ کو تخصص فی الفقہ کا شوق ہوا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پھر سے اپنی مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تخصص فی الفقہ کے لئے داخلہ لے لیا اور امام المجاہدین حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہید کی خدمت میں رہ کر دو سال میں تخصص فی الفقہ کا کورس مکمل کیا اور مفتی کی ڈگری حاصل کی۔ تخصص کی تکمیل و فراغت کے بعد آپ نے اپنے استاذ و مشرف حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہید کی زیر سرپرستی ان کی قائم کردہ درس گاہ جامعہ امینہ للبنات کراچی میں تین سال تک، فقہ ، اصولِ فقہ، حدیث و تفسیر کا درس دیا اسی دوران ایک سال جامعہ امینہ للبنات کے ناظم تعلیمات بھی رہے۔ تین سال بعد بعض ذاتی اور ناگزیر وجوہ کی بنا پر آپ اپنے آبائی علاقہ مردان تشریف لے گئے، جہاں آپ نے اپنے والد ماجد کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ مظاہر العلوم میں تدریس اور جامع مسجد گورنمنٹ کالج مردان میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے، اسی دوران آپ نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و فلاح کی غرض سے ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کیا، مگر اپنے استاذ و مشرف حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہید کی خواہش و ایماء پر آپ نے پھر کراچی کا رخ کیا، چنانچہ فروری ۱۹۹۹ء مطابق ذوالقعدہ ۱۴۱۹ھ سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر میں بحیثیت استاذ آپ کا تقرر ہوا اور پورے دس سال تک آپ نے اپنی مادر علمی میں اپنی خداداد علمی قابلیت و صلاحیت کے جوہر دکھائے اور اپنے اساتذہ کے اعتماد کی بھرپور لاج رکھی، ان دس سالوں میں آپ نے درسِ نظامی کی مختلف کتب کی تدریس فرمائی اور اساتذہ و طلبہ میں محبوبیت و مقبولیت کے اعزاز سے سرفراز ہوئے، اب کئی سال سے آپ درجات عالیہ کے محبوب و مقبول استاذ تھے، تادم آخر حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰة شریف آپ کے زیر درس تھی۔ چونکہ مولانا موصوف خاندانی اعتبار سے سیّد اور خانوادئہ نبوت سے تعلق رکھتے تھے، دوسری جانب آپ کے والد ماجد بھی عالم دین تھے، اس لئے شروع سے آپ کے طبیعت، ذوق اور مزاج میں شرافت، دیانت، تقویٰ اور تدین کے آثار نمایاں تھے۔ آپ نہایت خاموش مزاج اور صابر و شاکر انسان تھے، مدرسہ، مسجد، تعلیم، تدریس، درس گاہ، کتاب اور مطالعہ کے علاوہ آپ کی کسی قسم کی کوئی سرگرمیاں نہ تھیں۔ آپ خالص علمی اور تحقیقی انسان تھے، فنون متداولہ کے علاوہ آپ کا سراجی اور حدیث و فقہ کا درس مشہور تھا، آپ جہاں کم گو تھے، وہاں کم آمیز بھی تھے، آپ کے تلامذہ اور شاگردوں کا بیان ہے کہ آپ طلبہ کو نصیحت و وصیت کیا کرتے تھے کہ بلا ضرورت مدرسہ سے باہر نہ جایا کریں، مدرسہ کی چار دیواری بہت بڑی نعمت اور باہر کے فتنوں سے حفاظت و صیانت کا محفوظ قلعہ ہے، چونکہ باہر کی فضا میں قدم قدم پر فتنے منہ کھولے کھڑے ہیں، اس لئے میں بھی حتی الوسع مدرسہ سے باہر نہیں جاتا، جب تک میرا کام چلتا ہے میں مدرسہ سے باہر قدم نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ ایک ایک ماہ گزر جاتا ہے میں مدرسہ سے نہیں نکلتا... بلاشبہ جو فرمایا، اسے سچ کر دکھایا، اس لئے کہ جب تک ان کی شہادت کا وقت نہیں آیا تھا، اس وقت تک مدرسہ سے باہر جانے پر ان کا کوئی کام موقوف نہیں تھا، جب ان کی شہادت کا وقت آیا تو ظاہر ہے مدرسہ کے اندر رہتے ہوئے شہادت ملنا مشکل تھا، اس لئے مجبوراً انہیں مسجد کی امامت کے بہانے مدرسہ سے باہر نکلنا پڑا... موصوف کو مدرسہ کی طرف سے مدرسہ ہی کے اندر مکان ملا ہوا تھا اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ مدرسہ کے مکان میں ر ہائش پذیر تھے اور مدرسہ کی قوت لایموت پر نہایت خوش دلی سے گزر بسر کرکرتے تھے، آپ نے کبھی معاشی تنگی اور تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کسی قسم کے دوسرے مالی وسائل اختیار کرنے کی خواہش کی، کئی مرتبہ ان کو امامت و خطابت کی پیشکش ہوئی مگر ہمیشہ انہوں نے یہ کہہ کر اس سے معذرت کرلی کہ جب میرا گزارہ ہورہا ہے تو میں خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو پریشان کروں؟اب آخر میں غالباً شہادت سے صرف ڈھائی ماہ قبل جامع مسجد گلستان سوسائٹی مرغی خانہ لانڈھی کراچی کی کمیٹی کے حضرات نے مدرسہ عربیہ ملیر کے ذمہ داروں سے امام و خطیب کی درخواست کی تو وہاں کے اساتذہ نے مولانا موصوف کو مجبور کیا کہ علاقہ کی مسجد ہے اور لوگ بھی اچھے ہیں اور نہایت اخلاص سے درخواست کررہے ہیں، اس لئے آپ یہاں کی امامت و خطابت قبول فرمالیں، اپنے اساتذہ و احباب کے اصرار پر آپ نے امامت و خطابت قبول فرمالی۔ چنانچہ فجر کی نماز کی امامت سے بھی آپ کو مستثنیٰ قرار دے دیا گیا، حسن اتفاق کہ کچھ دنوں کے لئے آپ کی مسجد کے موذن اور نائب امام چھٹی پر چلے گئے تو مروتاً آپ فجر کی نماز کے لئے جانے لگے تھے۔ شہادت کے دن بھی حسب معمول آپ تہجد کے وقت بیدار ہوئے ،دارالاقامہ میں چکر لگایا، طلبہ کو فجر کی نماز کے لئے جگایا، فجر کی نماز کی تیاری کی اور اسکوٹر پر بیٹھ کر مسجد جانے لگے، ابھی تھوڑا سا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ گھات لگائے قاتلوں نے اندھا دھند فائرنگ کردی، جس سے آپ کی ٹانگ اور پہلو میں گولیاں لگی، مگر بایں ہمہ آپ ہمت کرکے چلتے رہے، آگے آبادی میں جاکر آپ گر گئے اور اونچی اونچی آواز میں اللہ، اللہ کا ورد شروع کردیا، قریب کی آبادی کے لوگ جمع ہوگئے ،اس وقت آپ ہوش و حواس میں تھے اور موبائل سے فون کرنا چاہتے تھے ،مگر شدت تکلیف کی وجہ سے مشکل ہورہا تھا، چنانچہ ان کے ہدایت پر ایک طالب علم کو فون کیا گیا، مدرسہ میں اطلاع پہنچی تو طلبہ اور اساتذہ فوراً پہنچ گئے، طلبہ کا کہنا ہے کہ جب ہم پہنچے تو آپ کلمہ شہادت کا ورد کررہے تھے، فوراً ہسپتال پہنچایا گیا، مگر ہسپتال جانے سے قبل ہی ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور آپ شہادت کے رتبہ پر فائز ہوگئے۔ شہید مرحوم درس و تدریس کے علاوہ مدرسہ کے ناظم ِمطبخ اور ناظم دارالاقامہ بھی تھے، اور مدرسہ کی خدمت دل و جان سے کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ موصوف کے ہم ذوق و ہمنشین اور مدرسہ عربیہ ملیر کے استاذ مولانا عبدالحی دین پوری صاحب نے بتلایا کہ: موصوف نہایت متدین انسان تھے، جس طرح وہ خود نوافل و عبادات کے خوگر تھے، اسی طرح ان کی چاہت اور خواہش ہوتی کہ ہر ایک ان کا اہتمام کرے، ان کا کہنا تھا کہ: اچھے اعمال حسن ِ خاتمہ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انہوں نے بتلایا کہ: مدرسہ اساتذہ میں سے ایک صاحب نے شہید مفتی صاحب سے کہا کہ مدرسہ سے باہر جاتا ہوں، آتے جاتے ہوئے خطرات محسوس ہوتے ہیں، اس پر انہوں نے فرمایا: تہجد، اشراق، چاشت اور اوبین پڑھتے ہو؟ ان صاحب نے نفی میں جواب دیا تو شہید نے ہنستے ہنستے فرمایا: پھر تمہیں کوئی خطرہ نہیں ، کیونکہ شہادت ہر آدمی کو نہیں ملتی، یہ ایک اعزاز ہے اور اللہ تعالیٰ یہ اعزاز اس کو عنایت فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا مقرب ہو اور نوافل پڑھنے والا اللہ کا مقرب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کو درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مضمون نگاری کا بہت عمدہ ذوق عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ ماہنامہ بینات میں آپ کے متعدد مضامین اشاعت پذیر ہوئے، جن میں سے ”پرانا کردار نیا انداز“ ذوالحجہ ۱۴۲۸ھ بہت ہی عمدہ مضمون تھا، اسی طرح صلہ رحمی پر بھی ان کا بہت ہی خوبصورت مقالا بینات میں اشاعت پذیر ہوا۔ اسی دن گیارہ بجے مدرسہ عربیہ ملیر کے احاطہ میں ان کی نماز جنازہ ہوئی، جس میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے اکابر، اساتذہ، طلبہ اور کراچی کے مشہور مدارس کے اکابر علماء اور طلبہ کے علاوہ علاقہ بھر کے مسلمانوں کی کثیر تعداد نے جنازہ میں شرکت کی، بعدازاں اسی دن بذریعہ ہوئی جہاز ان کی میت ان کے آبائی شہر مردان لے جائی گئی، جہاں رات گئے، جنازہ پڑھ کر ان کے آبائی قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ مولانا مرحوم نے پسماندگان میں والدین چار بھائی، بیوہ، پانچ معصوم بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے اور یتیم بچوں اور تمام گھر والوں کی کفایت فرمائے ۔آمین۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: علماء کی صحبت کے بغیرعلم آزمائش وابتلا ہے
Flag Counter