Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

10 - 12
علماء کی صحبت کے بغیرعلم آزمائش وابتلا ہے
علماء کی صحبت کے بغیر علم آزمائش وابتلاء ہے
دنیا میں ہرکمال کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ صاحبِ کمال کی خدمت میں رہ کر وہ کمال حاصل کر لیا جائے‘ معمولی سے معمولی صنائع اور عام سے عام پیشوں کے لئے بھی کسی استاذ ورہنماکی ضرورت مسلم۔بغیر استاد کے نری عقل وذہانت اور طباعی سے کوئی کمال صحیح طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ انجینئری ہو یا ڈاکٹری اور طبابت ،ہرصنعت وحرفت کے لئے ابتداءًََ عقل کی رہنمائی کے لئے کسی استاذ کی حاجت یقینی ہے۔ جب انسانی عقل کے پیدا کردہ فنون وعلوم کے حاصل کرنے کے لئے ایک کامل کی صحبت ضروری ہے تو علومِ نبوت اور معارفِ انبیاء اور حقائقِ شریعت کے لئے استاذ ورہنما سے کیسے استغناء ہوسکتا ہے؟ کیونکہ یہ علوم ومعارف تو عقل وادراک کے دائرے سے بالاتر ہیں اور وحی ربانی کے ذریعہ سے امت کو پہنچے ہیں‘ آسمانی تربیت اور ربانی ہدایت وارشاد کے ذریعہ سے اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘پھر ان ربانی علوم میں الفاظ سے زیادہ مربی کی توجہات اور اس کی عملی صحبت کو دخل ہوتا ہے اور تعلیم سے زیادہ ذہنی وفکری اور عملی تربیت ضروری ہے‘ اس لئے جتنی طویل صحبت ہوگی‘ زیادہ کمال نصیب ہوگا اور مربی ورہنما جتنا باکمال ہوگا ،اتنا زیادہ فائدہ اور کمال حاصل ہوگا۔ پھر ان علوم ِ نبوت کی غرض وغایت چونکہ ہدایت وارشاد اور مخلوقِ خدا کی رہنمائی ہے‘ اس لئے ان کے سمجھنے میں شیطانِ لعین کی عداوت واضلال اور گمراہی کا شدید اندیشہ ہوتا ہے‘ جو کمال کہ دنیوی مفاد کے لئے حاصل کرنا ہوتا ہے، اس میں شیطان آرام سے بیٹھا رہتاہے‘ اس کو دخل کی حاجت ہی نہیں‘ نہ عداوت ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جہاں آخرت وعقبیٰ اور دین کی بات ہوتی ہے تو شیطان اپنی شرارت کے لئے بے تاب ہوتا ہے‘ مختلف وسائل سے اپنی پوری طاقت صرف کرتا ہے کہ کسی طرح سے یہ رشد وہدایت، ضلالت میں تبدیل ہوجائے ۔اور چونکہ ابلیس لعین کا سب سے بڑا کارنامہ تلبیس ہے یعنی حق وباطل میں ایسا التباس ہوجائے کہ جو چیز ظاہری صورت کے لحاظ سے خیر ہے‘ حقیقت کے اعتبار سے شربن جائے، پھر نفسِ انسانی کی کارستانیاں اس پر مستزاد ہیں۔انسانی فطرت میں کبر وعجب ہے‘ ریاکاری وحبّ شہرت ہے‘ حبّ جاہ کا مرض ہے اور ایسے شدید وقوی امراض ہیں کہ مدتوں کی ریاضتوں اور مجاہدوں سے ان کا ازالہ نہیں ہوتا‘ اس لئے نفس وشیطان کے اثرات سے بچنے کے لئے مدتوں کسی کامل کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے، اور جب فضلِ الٰہی شاملِ حال ہو تو اصلاح ہوجاتی ہے‘ ورنہ انسان یوں ہی علم وعقل کے صحراؤں میں بھٹکتا پھرتا ہے‘ دنیا کی علمی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جتنے فتنے پیدا ہوئے ہیں‘ سب اذکیاء اور طباّع حضرات کے ذریعہ سے وجود میں آئے اور علمی دور میں اکثر فتنے علم کے راستے سے آئے ہیں‘ بلکہ علماء حق میں بھی بہت سے اذکیائے زمانہ اپنی شدتِ ذکاوت کی وجہ سے جمہور امت سے شذوذ اختیار کرکے غلط افکار ونظریات کا شکار ہوگئے اور وہاں زیادہ تر یہی حقیقت کار فرما رہی کہ اپنے تبحر وذکاوت پر اعتماد کرکے علمی کبر اور اعجاب بالرائ کے مرض میں مبتلا ہوئے‘ زیادہ صحبت نہیں ملی اور کہاں سے کہاں نکل گئے۔ ہمارے اس دور میں بھی اس کے بہت سے نظائر موجود ہیں اور چونکہ علمی ذہانت تو ہوتی ہی ہے اور بسا اوقات بہت عمدہ بات بھی کہہ جاتے اور لکھ جاتے ہیں‘ اس لئے ان کی وہ عمدہ باتیں مزید فتنہ کا باعث بن جاتی ہیں اور جن حضرات کو زیادہ صحبت اور علمی گہرائیاں نصیب نہیں ہیں‘ وہ بہت جلد ان کے معتقد ہوجاتے ہیں اور ان کے امت سے مختلف شواذ اور جدید افکار ونظریات کے بھی حامی ہوجاتے ہیں ،اور شیطان تو اپنے کام میں لگا ہوا ہے جو شخصیت امت کی ہدایت وارشاد کے کام آسکتی تھی‘ وہ امت میں زیغ وضلال کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ہر دور میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ امام غزالی نے ”مقاصد الفلاسفہ“ میں لکھا ہے کہ: یونانیوں کے علوم: حساب‘ ہندسہ عنصریات وغیرہ صحیح علوم کو دیکھ کرلوگ ان کے تمام علوم کے معتقد ہوگئے‘ طبعیات والٰہیات میں ان کی تحقیقات کے قائل ہوکر گمراہ ہوگئے۔ امام غزالی کی یہ بات بہت عجیب ہے اور بالکل صحیح ہے۔ شیطان کو اس قسم کے مواقع میں اضلال کا بہت اچھا موقع مل جاتاہے‘ بہرحال جب انتہائی علمی قابلیت والے انتہائی ذکاوت والے فتنوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں تو ایسے حضرات کہ جن میں علمی قابلیت بہت کم‘ لیکن قلمی قابلیت بہت زیادہ ہو‘ صحبتِ ارباب کمال سے یکسر محروم ہوں‘ طباّع وذہین ہوں وہ تو بہت جلد اعجاب بالرائے کی خطرناک بلامیں مبتلا ہوکر تمام امت کی تحقیر اور تمام تحقیقات امت کا استخفاف اور تمام سلفِ صالحین کے کارناموں کی تضحیک اور اول سے لے کر آخر تک تمام پر تنقید کرکے خطرناک گہرے گڑھے میں گر کر تمام نسل کے لئے گمراہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں میں سے آج کل کی ایک مشہور شخصیت جناب ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کی ہے جو بچپن ہی سے طباع وذہین ،مگر معاشی پریشانی میں مبتلا تھے‘ ابتداء میں اخبار مدینہ بجنور میں ملازم ہوئے اور پھر دہلی میں جمعیت علماء ہند کے اخبار ”مسلم“ سے وابستہ رہے‘ پھر چند سالوں کے بعد اخبار”الجمعیة“ دہلی میں ملازم ہوئے جو جمعیت علماء ہند کا ترجمان تھا‘ دہلی سے نکلتا تھا‘ غالباً سہ روزہ تھا‘ تاریخ کے جواہر پاروں کے عنوان سے ان کے مضامین بہت آب وتاب سے نکلتے تھے‘ اس طرح مودودی صاحب کی قلمی تربیت مولانا احمد سعیدصاحب کے ذریعہ ہوتی گئی‘ والد مرحوم کی وفات کی وجہ سے اپنی تعلیم نہ صرف یہ کہ مکمل نہ کر سکے ‘ بلکہ بالکل ابتدائی عربی تعلیم کی کتابوں میں رہ گئے‘ نہ جدید تعلیم سے بہرہ ور ہوسکے‘پرائیویٹ انگریزی تعلیم حاصل کی اور انگریزی سے کچھ مناسبت ہوگئی‘ اس دور کے اچھے لکھنے والوں کی کتابوں اور تحریرات اور مجلات وجرائد سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا‘ اور قلمی قابلیت روز افزوں ہوتی گئی‘ بدقسمتی سے نہ کسی دینی درسگاہ سے فیض حاصل کرسکے‘ نہ جدید علوم کے گریجویٹ بن سکے‘ نہ کسی پختہ کار عالم دین کی صحبت نصیب ہوسکی اور ایک مضمون میں خود اس کا اعتراف کیا ہے جو عرصہ ہوا کہ ہندوستان متحدہ میں مولانا عبد الحق مدنی مراد آبادی کے جواب میں شائع ہوا تھا‘ بلکہ بدنصیبی سے نیاز فتح پوری جیسے ملحد وزندیق کی صحبت نصیب ہوئی‘ ان سے دوستی رہی‘ ان کی صحبت ورفاقت سے بہت کچھ غلط رجحانات ومیلانات پیدا ہوگئے‘ حیدر آباد دکن سے ۱۹۳۳ء میں ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ جاری کیا‘ آب وتاب سے مضامین لکھے‘ بہتر سے بہتر پیرائے میں کچھ علمی وقلمی چیزیں ابھرنے لگیں‘ ان دنوں ملک کی سیاسی فضا مرتعش تھی ‘ تحریکِ آزادئ ہند فیصلہ کن مراحل میں تھی‘ ہندوستان کے بہترین دماغ اسی کی طرف متوجہ تھے‘ مودودی صاحب نے سب سے ہٹ کر اقامتِ دین اور حکومتِ الٰہیہ کا نعرہ لگایا اور تحریکِ آزادی کی تمام قوتوں پر بھر پور تنقید کی‘ ان کے بھولے بھالے مداح یہ سمجھے کہ شاید دین قیم کا آخری سہارا بس مودودی صاحب کی ذات رہ گئی ہے‘ چنانچہ بہت جلد مولانا سید سلیمان ندوی‘ مولانا مناظر احسن گیلانی اور عبد الماجد دریا آبادی کے قلم سے خراجِ تحسین وصول ہونے لگا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت مودودی صرف ایک شخص کا نام تھا‘نہ اس وقت اس کی دعوت تھی‘ نہ جماعت تھی ،نہ تحریک تھی۔ ان تحریرات اور زور دار بیانات سے بعض اہلِ حق کو ان سے توقعات وابستہ ہوئیں‘ ان کی آمادگی اور چوہدری محمد نیاز کی حوصلہ افزائی سے پٹھانکوٹ میں ”دار الاسلام“ کی بنیاد ڈالی گئی‘ لیگ وکانگریس کی رسہ کشی شروع ہوگئی تھی‘ ان کے قلم سے ایسے مضامین نکلے اور سیاسی کشمکش کے نام سے ایسی کتاب وجود میں آگئی کہ ہم نوا حضرات سے اس کو خراجِ تحسین حاصل ہوا اور سیاسی مصالح نے اس کو پروان چڑھایا۔لاہور میں اجتماع ہوا‘ اور باقاعدہ امارت کی بنیاد ڈالی گئی اور ان کی ایک لکھی تقریر پڑھی گئی‘ جس میں بتایا گیا کہ: امیرِ وقت کے لئے کیا کیا امور ضروری ہیں‘اربابِ اجتماع میں مشہور شخصیتیں :جناب مولانا محمد منظور نعمانی‘ مولانا ابو الحسن علی ندوی‘ مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا مسعود عالم ندوی بھی تھے‘ بڑے امیر منتخب ہوگئے اور چار امراء یہ حضرات امیر ِماتحت منتخب ہوگئے‘ جماعت اسلامی باقاعدہ وجود میں آگئی ۔اس کا دستور آیا‘ اس کا منشور آیا‘ لوگوں کی نگاہیں اٹھیں‘ ہر طرف سے امیدیں وابستہ ہوگئیں‘ لیکن ۶/ماہ کا عرصہ نہیں گذرا ہوگا کہ مولانا نعمانی‘ مولانا علی میاں مستعفی ہو گئے اور ان کو ان کی علمی کمزوریاں اور اخلاص کا فقدان نظر آیا‘ ساتھ نہیں دے سکے‘لیکن ان حضرات نے پھر بھی پردہ پوشی کی اور امت کے سامنے صاف وصریح وجہ ِ علیحدگی ظاہر نہیں فرمائی۔ میں اس وقت جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تدریسی خدمات انجام دیتا تھا‘ میں نے ان دو بزرگوں سے جدائی کے وجوہ دریافت کئے‘ بہت کچھ کہا‘ لیکن کوئی صاف بات نہیں بتلائی‘ لیکن میں سمجھ گیا۔ مولانا مسعود عالم مرحوم اور مولانا امین احسن اصلاحی کو بہت کچھ معتقدات وطریقہ کار میں موافقت تھی اور یہ دونوں بزرگ عرصہ تک مودودی صاحب کے دست وبازو بنے رہے۔ مولانا مسعود عالم مرحوم نے عربی ادب کے ذریعہ خدمات انجام دیں اور مودودی صاحب کی تحریرات اور کتابوں کے آب وتاب سے عربی ترجم کئے اور ادبی تربیت کرکے چند شاگردوں کو بھی تیار کردیا‘ مولانا اصلاحی نے اپنے خاص علمی ذوق وانداز سے مودودی صاحب کی تحریک کو پروان چڑھایا ‘اچھے اچھے رفقاء کار‘ اربابِ قلم اور اربابِ فن شامل ہوگئے‘ کیمونزم کے خلاف اور بعض دینی مسائل پر عمدہ عمدہ کتابیں لکھی گئیں‘ سود خوری‘ شراب نوشی ‘ پردہ وغیرہ پر اچھی کتابیں آگئیں ‘تفہیمات وتنقیمات میں بعض اچھے اچھے مضامین آئے ‘ جدید نسل کی اصلاح کے لئے کتابیں تالیف کی گئیں‘ عرب ممالک میں خصوصاً سعودی عرب کو متاثر کرنے کے لئے اور وہاں کے شیوخ کو ہم نوا بنانے کے لئے مختلف انداز سے کام کیا اور کامیاب تدبیریں اختیار کیں اور جو رفقاء کار کے قلم سے معرضِ اشاعت میں آیا‘ اسے اس انداز سے پیش کیا جاتا رہا کہ یہ سب کچھ مودودی کی توجہات کارہینِ منت ہے۔ اس سے ان کی شخصیت بننی شروع ہوگئی اور تمام جماعت کے افراد کی تالیفات سے خود وجاہت کا فائدہ اٹھایا ۔خود عربی لکھنے سے معذور‘ انگریزی لکھنے سے معذورر ہے۔ نہ عربی لکھ سکتا ہے‘ نہ بول سکتا ہے‘ یہی انگریزی کا حال بھی ہے، لیکن جو کتابیں ترجمہ کی گئیں ،ان کے سرورق پر بھی لکھا گیا ”تالیفات المودودی“ کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ ترجمہ مسعود عالم کا ہے یا عاصم حداد کا ہے۔ لوگ یہ سمجھے کہ اردو کا یہ ادیب، کیا ٹھکانا‘ عربی ادب کا بھی امام ہے‘ لیکن چند دن گذرے تھے کہ مولانا گیلانی مرحوم اور حضرت سید سلیمان مرحوم متنبہ ہوگئے کہ یہ تحریراتِ جدید فتنہ انگیزی کا سامان مہیا کررہی ہیں‘ جو کچھ خطابات تھے اور متکلمِ اسلام وغیرہ القاب تھے‘ اس کو روک دیا اور مولانا گیلانی نے ”صدق جدید“ میں ”خارجیتِ جدیدہ“ کے عنوان سے تنقیدی مضمون لکھا۔علمائے کرام کے زمرے میں شاید حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی پہلی شخصیت ہیں‘ جنہوں نے اپنے مکاتیب میں اس فتنے کی نشاندہی فرمائی‘ رفتہ رفتہ علماء امت کچھ نہ کچھ لکھتے رہے‘حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نے اس وقت جو مطبوعہ ذخیرہ تھا‘ سب کا مطالعہ فرماکر ایک مبسوط رسالہ مرتب فرمایا‘ لیکن افسوس کہ طبع نہ ہو سکااور اس سلسلہ میں ایک مدرس مظاہر العلوم مولانا محمد زکریاقدوسی صاحب مودودی صاحب کی طرف مائل ہوگئے تھے‘ ان کی اصلاح کے پیشِ نظر ایک مکتوب لکھا جو ”فتنہٴ مودودیت“ کے نام سے ایک رسالہ کی شکل میں شائع ہوگیا ہے۔ مودودی صاحب کی بہت سی چیزیں پسند بھی آئیں اور بہت سی ناپسند بھی‘ لیکن عرصہ دراز تک جی نہ چاہا کہ ان کو مجروح کیا جائے اور ان کے جدید اندازِ بیان سے جی چاہتا تھا کہ جدید نسل فائدہ اٹھائے ۔اگرچہ بعض اوقات ان کی تحریرات میں ناقابلِ برداشت باتیں بھی آئیں ‘ لیکن دینی مصلحت کے پیشِ نظر برداشت کرتا رہا اور خاموش رہا‘ لیکن اتنا اندازہ نہ تھا کہ یہ فتنہ عالمگیر صورت اختیار کرے گا اور اکثر عرب ممالک میں یہ فتنہ بُری صورت اختیار کرے گا اور دن بدن ان کے شاہکار قلم سے نئے نئے شگوفے پھوٹتے رہیں گے۔ صحابہ کرام اور انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں ناشائستہ الفاظ استعمال ہوں گے‘ آخر ”تفہیم القرآن“ اور ”خلافت وملوکیت“ اور” ترجمان القرآن“ میں روز بروز ایسی چیزیں نظر آئیں کہ اب معلوم ہوا کہ بلاشبہ ان کی تحریرات وتالیفات عہدِ حاضر کا سب سے بڑا فتنہ ہے‘ اگرچہ چند مفید ابحاث بھی آگئیں ہیں
”واثمہما اکبر من نفعہما“
والی بات ہے۔ اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سکوت جرمِ عظیم معلوم ہوتا ہے اور چالیس سال جو مجرمانہ سکوت کیا اس پر بھی افسوس ہوا اور اب وقت آگیا ہے کہ بلاخوف لومة لائم الف سے یاء تک ان کی تالیفات وتحریرات کو مطالعہ کرکے جو حق وانصاف ودین کی حفاظت کا تقاضا ہو وہ پورا کیا جائے۔
واللہ سبحانہ ولی التوفیق۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: سیکریٹری جنرل اوآئی سی کے نام خط
Flag Counter