Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1437ھ

ہ رسالہ

7 - 15
عصر حاضر میں علماء اور طلبہ کی ذمے داریاں

مولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی
	
﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ،اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ﴾․العلق:5-1)

مدارس دینیہ اور یونی ورسٹیوں کے مقاصد الگ الگ
آپ حضرات جس مدرسہ میں پڑھ رہے ہیں آپ نے سوچ سمجھ کر اس مدرسہ میں داخلہ لیا ہو گا؟ اس مدرسے کی تعلیم کا مقصد او رمطمح نظر اور ذریعہ تعلیم اور جو علم آپ حاصل کر رہے ہیں وہ عام جامعات سے مختلف ہے مدارس جیسی درس گاہوں میں قربانی کا تصور، خواہ وہ مالی ہو، جسمانی ہو ، فکری ہو، ذہنی ہو، تعلیمی ہو، وہ ( عصری) جامعات (یونی ورسٹیوں) سے مختلف ہوتا ہے۔ آپ کے ہاں مدارس میں جو طلبہ ہیں ان پر اپنے نان نفقہ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے ، لیکن مدارس کے جو مہتمم او ران کے جو منتظمین ہیں ان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہے کہ دو ہزار طلبہ کو دوپہر اور شام کا کھانا کیسے پہنچایا جائے؟ او رکہاں سے یہ نقد رقم ملے جس کے ذریعہ یہ انتظام کیا جاسکے؟ تاکہ آپ ان امور سے فارغ رہ کر یکسوئی کے ساتھ ہمہ تن تعلیم کی طرف متوجہ رہیں۔ ان حضرات نے اپنے کندھوں پر یہ ذمے داری لے رکھی ہے۔ اس کے برخلاف جامعات اور دوسری یونی ورسٹیوں میں اس کا نظم دوسری قسم کا ہوتا ہے، وہاں طلبہ سے فیس بھی لی جاتی ہے اور ان کو اسکالر شپ بھی ملتا ہے اور بعض بعض اداروں میں بڑے کرو فر اور ٹھاٹ باٹ سے یہ لوگ رہتے ہیں، ان کے ہاں ایک ، علمی تعیش ہوتا ہے، لیکن جس چیز کی طرف میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ کئی معاملوں میں مدارس اور جامعات دو مختلف چیزیں ہیں، ان کا مقصد دوسرا اور ذریعہ حصول مقصد دوسرا ہے۔

اوّلین وحی اور سوالات کے جوابات
جوآیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کیں وہ پہلی وحی ہے، ان آیات کا جو پہلا لفظ اقراء وہ اس زمانے میں ایک عجیب اور نامانوس سی چیز معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذہن میں کئی سوالات تھے، وہ ان سوالات کے جوابات چاہتے تھے۔ عرب جو اس زمانے میں تھے ان کے ذہن میں بھی اس قسم کے سوالات پیدا ہوتے تھے، مگر ان کے پاس سوچنے، سمجھنے اور فکر وتدبر کرنے کا وقت نہیں تھا اور یہی حالات آج بھی ہیں ، خود عوام اور مسلمانوں تک میں یہی چیز ہے کہ ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارا خالق کون ہے ؟ ہمارے خلق کا مقصد کیا ہے ؟ کہاں واپس جائیں گے؟ موت کیا ہوتی ہے؟ ہمارا دائرہ عمل کیا ہے؟ یہ تمام سوالات ہمارے ذہن میں بھی پیدا ہوتے ہیں، لیکن چوں کہ ہمیں اس کے جواب کے لیے سوچنے، فکر کرنے اور تدبر کا وقت نہیں ملتا، اس لیے ہم اس سے صرف نظر کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن جب اچانک کوئی حادثہ پیش آتا ہے، کوئی صدمہ پیش آتا ہے، کوئی زلزلہ پیش آتا ہے یا کوئی ایسا فطری تغیر پیدا ہوتا ہے اس وقت اچانک یہ خیال آتا ہے کہ کچھ تو ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذہن میں بھی سوالات تھے، اس لیے آپ غارا حرا تشریف لے جاتے تھے ، وہاں فکر وتدبر کرتے، سوالات کے جوابات چاہتے تھے او رجب وحی نازل ہوئی تو ان سوالات کے جوابات مل گئے، اگر جوابات نہ ملتے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیسے مطمئن ہوتے اور پھر اگر خود مطمئن نہ ہوتے تو دوسروں کو کیسے مطمئن کرتے؟ … اس لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ خالق کون ہے؟ مخلوق کون ہے ؟ اور خود کیا ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے ؟ بہرحال وحی میں الله تعالیٰ نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ خالق ہے …﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ﴾ اور یہی سوال تھا اور عجیب چیز یہ ہے کہ جو دوسری آیت سے﴿خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ﴾… بظاہر اس کی کوئی ضرورت تو نہ تھی، اس لیے کہ انسان بھی ایسا ہی مخلوق ہے جیسا کہ اور چیزیں مخلوق ہیں۔ الله تعالیٰ نے ایک مرتبہ فرما دیا کہ میں ہی خالق ہوں، پڑھ اپنے رب کے نام پر جس نے پیدا کیا۔ اگر دوسری آیات نہ بھی ہوتیں ظاہر ہے کہ انسان بھی شجر وحجر کی طرح ایک مخلوق ہے، ہر وہ چیز جو دنیا میں پیدا کی گئی ہے مخلوق ہی ہے، لیکن ہمارا ایمان واعتقاد اور قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ قرآن مجید کا ہر ہر لفظ اور آیت جو مکرر ہو اس کا کوئی خاص مقصد ہوتا ہے، اس لیے جو دوسری آیت ہے﴿خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ﴾… وہ بہت ضروری تھی، اس لیے کہ وحی کا مخاطب انسان تھا اور انسان دوسری مخلوقات سے مختلف تھا۔

مخلوقات کی دو قسمیں اور اپنا اپنا دائرہ عمل
دنیا میں دو قسم کی مخلوق ہیں، ایک تو وہ مخلوق جس کا دائرہ عمل پہلے سے طے شدہ ہے ، وہ اپنے دائرہ عمل سے نکل نہیں سکتے، فرشتے گناہ نہیں کر سکتے، پانی بہے گا، آگ جلائے گی، یہ ساری پراپرٹیز ( خصوصیات) ہیں، جوان میں رکھ دی گئیں ، وہ اس سے انحراف نہیں کرسکتے، سورج نکلے گا غروب ہو گا، چاند نکلے گا غروب ہو گا، ستارے نکلیں گے، رات آئے گی، دن جائے گا ، یہ تمام چیزیں ہیں اور ان میں کوئی انکسار نہیں کر سکتا کہ صاحب آج میں تھک گیا ہوں، آج میں نہیں نکلوں گا، ان کا دائرہ عمل طے ہے،وہ کرتے رہیں گے، اسی لیے کفار کے بارے میں آتا ہے کہ وہ روز قیامت کہیں گے﴿یٰلیتنی کنت ترابا﴾”کاش! ہم پتھرومٹی ہوتے“… یعنی مکلف نہ ہوتے اور ایک دائرہ کار کے پابند رہتے تو یہ سوال جواب تو ہم سے نہ ہوتا، لیکن انسان کو الله تعالیٰ نے ایک ممتاز درجہ عطا فرمایا، ان کو فکر وتدبر اور عقل دی، جس کی بدولت وہ دیگر مخلوقات سے ممتاز ہوا، جب یہ طے ہو گیا تو اب آیت کا مقصد سمجھ میں آتا ہے، لیکن آگے چل کر قرآن جو کہتا ہے﴿عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ﴾ دوبارہ انسان کاذکر علم کے سلسلے میں کیا جارہا ہے، اب علم میں کیا چیز ہے ؟ ایک تو وہ چیز جو سیکھی جائے، ایک سکھانے والا چاہیے، ایک سیکھنے والا چاہیے، تو ہمارے ہاں تینوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، جو چیز سیکھی جائے اور پھر سکھانے والا اور اس کا پڑھنے والا۔ سیکھنے سکھانے کے بارے میں جو حدیث ہے، خواہ وہ حدیث ضعیف ہو یا اس کی اسناد پر کوئی گفت گو کر بھی لی جائے، لیکن اس کا جو معنی ہے وہ صحیح ہے، انسان روزانہ سیکھتا ہے، بچہ روزانہ سیکھتا ہے، بوڑھے ہونے کے بعد بھی سیکھتا ہے، بلکہ میں ایک قدم اور آگے بڑھتا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی آدمی سیکھتا ہے ،وہاں بھی نئی نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔

حصول علم کا مقصد متعین ہونا چاہیے
جہاں تک سیکھنے کا تعلق ہے اس سے نجات نہیں، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، سیکھتا تو ہے۔ اب اس کے بعد مسئلہ اتنا رہ جاتا ہے کہ کس چیز کے لیے… اس کا مقصد کیا ہے؟ علم کے دیے جانے کے بارے میں الله تعالیٰ ایک مقام پر فرماتے ہیں:﴿وَمَا أُوتِیْتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلا﴾․(بنی اسرائیل:85)
ترجمہ:” تمہیں علم کا تھوڑا سا حصہ دیا گیا ۔“

تو آپ یہ خیال فرمائیں کہ تھوڑے سے حصے کے دیے جانے پر انسان خدا بننے کو تیا رہے۔ قرآن کی ایک دوسری آیت میں علم کی زیادتی کے لیے دعا تلقین کی گئی ہے ﴿قل رب زدنی علماً…﴾آپ یہ بتائیں کہ ان آیات کے اوّلین مخاطب کون لوگ تھے؟صحابہ کرام حضور صلی الله علیہ وسلم کے وساطت سے اوّلین مخاطب تھے اور صحابہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ تم یہ دعا مانگو کہ الله تعالیٰ ہمیں علم عطا فرمائے اور پھر حدیث میں مزید تاکید فرمائی کہ اس طرح دعا کرو” اے الله! ہمیں علم نافع عطا فرما“… لیکن ایک بات سمجھنے کی ہے، جس کے لیے میں نے تمہید باندھی کہ علم کا حاصل کرنا خود کوئی مابہ الامتیاز چیز نہیں، علم تو شیطان کو بھی حاصل تھا، اسی لیے اس نے بحث بھی کی، تو علم حاصل کرنا خود کوئی غیر معمولی چیز نہیں ،وہ تو غیر مسلم بھی حاصل کرتے ہیں۔

علم نافع اور غیر نافع میں فرق
لیکن کس چیز کے لیے حاصل کیا جائے کس کے نام پر؟ او رکیا آپ خود اس سے نفع اٹھاسکتے ہیں ،کسی دوسرے کو نفع آپ پہنچائیں گے؟ اس لیے حدیث میں”علم نافع“ کا ذکر آتا ہے ، ایسا علم جس سے نفع پہنچ سکے اور جس سے نقصان پہنچے وہ بے کار ہے اور یہ طے ہوچکا ہے رومی کا شعر ہے…
        علم را برتن زنی مارے بود
        علم را برجاں زنی یارے بود

اگر علم کو تعیش جسمانی اور اپنے ترفع کے لیے استعمال کرو گے تو وہ تمہارے لیے سانپ بن جائے گا اور سانپ بن کر ڈسے گا، لیکن اگر اس کو اپنے ایقان کے ساتھ قلب پروارد کرواور اسے ایمان کی سلامتی کے ساتھ استعمال کر وگے تو وہ تمہارا دوست بن جائے گا، اگر یہ صحیح ہے تو پھر دوسرا مرحلہ یہ آتا ہے کہ جب آپ یہاں مدرسے سے فارغ ہو کر نکلتے ہیں تو عام طور سے یہ تاثر ہوتا ہے کہ اب ہم فارغ ہو گئے، الحمدلله ہم عالم ہو گئے۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے لیے مولوی کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا، مولوی کے بعد مولانا کا لفظ استعمال ہوا، پھر علامہ کا لفظ آیا اور رفتہ رفتہ دیگر بہت سے خطابات اس میں شامل ہوتے چلے گئے، لیکن اصل خطاب تو وہ ہے جو امت آپ کو دے، آپ اگر خود اپنے نام کے ساتھ لگائیں گے تو وہ کچھ بھی نہیں اور قابل اعتبار نہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوا کہ جو علم آپ نے حاصل کیا اگر وہ صرف علم رہا بغیر تربیت ، بغیر جذبہ احسان کے ، بغیر تقویٰ کے، اگر آپ نے علم کا حصول کیا اور اس علم کو آپ نے بدون مذکورہ خصوصیات کے استعمال کیا تو پھر وہ علم آپ کے لیے نافع نہیں۔

استاذ شاگرد کا رشتہ… ایک مثال
ہمارے والد ماجد سے کسی نے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج کل کے جو نئے او رتازہ متخرجین علماء ہیں ان میں اسلاف جیسی برکت نہ رہی اوران میں انتشار بھی ہے؟ اور یہی تاثر عام حلقوں میں بھی پایا جاتا ہے، مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب محدث نے ایک جگہ اسی مسئلہ پر گفت گو بھی فرمائی ہے ، اسلاف میں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا اور ان کے استاد کا رشتہ دیکھ لیجیے، ہمارے والد ماجد او رمولانا شبلی کارشتہ دیکھ لیجیے اور دوسرے حضرات کا دیکھیے، یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے اپنے استاد کے کہنے پر اپنے عیش اور آرام کو چھوڑ دیا اور پوری عمر ان کے ساتھ گزار دی۔ یہ ایثار وقربانی جامعات، یونی ورسٹی میں کہاں ملتی ہے؟ یہ ایثار وقربانی ان چٹائی والے مدارس کی ہے۔

علم نبوت اور نور نبوت
آمدم برسر مقصد ہمارے والد ماجد نے اس سوال کا جواب دیا کہ آخر یہ علماء میں کمزوری کیوں ہے؟ فرمایا کہ دیکھیے ایک تو ہے علم نبوت اور ایک ہے نور نبوت ، علم نبوت تو مدارس میں حاصل ہو جاتا ہے، لیکن نور نبوت حاصل نہیں ہوتا، نور نبوت کا مطلب تزکیہ واحسان ہے، اپنے قلب میں تقویٰ، خوف اور خشیتِ الہیٰ کی کیفیت پیدا کرنے کا نام ہے، جو انسان کو سیدھے راستے پر چلاتا ہے، اس لیے علم بدون عمل کچھ نہیں۔

مستشرقین کی قرآن وحدیث سے دلچسپی
جہاں تک علم کا تعلق ہے، چاہے عیسائی ہو یا یہودی ،وہ بھی علم حاصل کرتے ہیں۔ ایک مشہور ڈچ اسکالر، جس کا نام اے جے ونسنگ ہے، اس نے 8,7 ضخیم جلدوں میں احادیث نبویہ کا انڈکس تیا ر کیا ہے، جس کا نام معجم المفھرس لالفاظ الاحادیث النبویة… صحاح ستہ کے علاوہ مسند امام احمد بن حنبل او رموطا امام مالک کو اس میں پیش نظر رکھا گیا اور اس طرح اس نے آٹھوں احادیث کے مجموعوں کا اشاریہ بنایا، اس کے تیار کرنے کے لیے اس نے ان آٹھوں مجموعوں کی احادیث کو لفظاً لفظاً پڑھا، تب جا کر یہ اشار یہ تیار ہوا، لیکن وہ مسلمان تو نہیں تھا، بعض غیر مسلم لوگوں نے قرآن پاک کے تراجم کیے، ایک بڑے مشہور انگریز مستشرق نے بھی قرآن مجید کا ترجمہ کیا، قرآن کی ہر آیت کو اس نے لفظاً لفظاً پڑھا ہے، لیکن وہ مسلمان تو نہیں تھا۔ بہرحال اخلاص اور تقویٰ اور احسان کی کیفیت پیدا کرنا ہو گی اور اس کے لیے کسی کے ساتھ آپ کو بیٹھنا پڑے گا اورباقاعدہ سیکھنا ہو گا تو پھر آپ علم کو اپنی صحیح جگہ پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکے تو آپ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کریں اور ظاہر ہے کہ یہ جذبہ ایثار وقربانی سے حاصل ہو گا اور اس کے لیے اپنے آپ کو تربیت کے ان تمام منازل ومراحل سے گزارنا ہو گا جو اس کا مطالبہ کرتی ہے۔

اساطین کی اپنے آپ کو شیخ او راستاذ کو سپردگی
بڑے بڑے علما، اساطین علم… آخر ان کو کیا ضرورت پڑی کہ انہوں نے اپنے تمام تر علمی کمال اور پہاڑ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کسی استاد کے حوالے کیا ، خواہ وہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ہوں، شیخ الحدیث مولانا زکریا ہوں خواہ وہ کوئی اور ہو، ہر شخص کسی نہ کسی منزل پر پہنچ کر، پھر اس کی تلاش کرتا ہے۔ بہت مشہور اور طویل حدیث ہے، جس میں ہے کہ الله تعالی فرماتے ہیں سات لوگ قیامت کے دن الله کے عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے یوم لاظل الاظلہ جب کوئی دوسرا سایہ نہ ہو گا، حدیث میں جو پہلی قسم امام عادل کی ہے وہ تو سمجھ میں آتی ہے، اس لیے کہ اس نے اپنے کندھے پر پوری رعایا کا بوجھ لیا ہے، اس لیے حضرت عمر رضی الله عنہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں خلافت کے بعد روتے پھرتے او رکہتے کہ کوئی ایک بکری یا بھیڑ اگر بھوکی رہی تو اس کا جواب بھی مجھے دینا ہو گا۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اپنی خلافت کے بعد گلیوں میں دوڑتے پھرتے کہ مجھ سے یہ منصب لے لو، یہ منصب بڑی ذمے داری کا ہے … تو امام عادل سمجھ میں آتا ہے لیکن دوسری قسم وہ عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اور تمام اقسام اس کے بعد میں آتی ہیں اور وہ ہے” شاب نشأ فی عبادة الله“ ایک ایسا نوجوان جس کی زندگی الله تعالیٰ کی اطاعت میں گزری ہو، یعنی الله تعالیٰ کی عبادت آزمائش ٹھہری کہ صاحب! اس کے ذریعے تمہارا امتحان ہو سکتا ہے ۔ آپ حضرات نوجوان جو یہاں سے فارغ ہو کر نکل رہے ہیں تو آپ کی زندگی، طرز حیات اور جو علم حاصل کیا یہ تمام چیزیں صرف اور صرف الله تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے ہونی چاہییں۔

نصاب سے جہادی آیات کے نکالنے کا مسئلہ
آج کل کے اخباروں میں ہنگامہ ہے کہ مدارس کے نصاب کو تبدیل کیا جائے، یہ بھی خبریں ہیں کہ اسکولوں کے نصاب سے جہاد کی آیتیں نکالی جارہی ہیں،بدر اور اُحد کے واقعات نکالے جارہے ہیں… تو میں کہتا ہوں کہ نکال دینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ قرآن سے تو نہیں نکال سکتے ہیں؟ قرآن کی آیات تو موجود ہیں، ابھی یہ قاری صاحب نے تلاوت فرمائی ﴿ ان الذین قالوا ربنا الله ثم استقاموا…﴾ استقامت کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ الله کی اطاعت میں جو بھی قربانیاں پیش آئیں وہ پیش کرنی ہوں گی اور صحابہ نے کرکے دکھائیں۔

جہاد کا وسیع مفہوم اور فکری جہاد
خواہ عملی جہاد ہو، قلمی ہو، عملی ہو، فکری ہو، لیکن جہاد سے مفر نہیں ہے، یہ تو انگریزوں اور انگریزی پڑھے لکھے مسلمانوں نے جہاد کے مفہوم کو تنگ اور محدود کر دیا کہ جہاد کا اصل معنی صرف یہ ہے کہ جہاد تلوارسے کیا جائے، یہ صحیح ہے کہ تلوار کاجہاد افضل ہے، اس لحاظ سے کہ جب اس کا موقع آئے تو وہ ہی کرنا ہو گا، لیکن جہاد کا مطلب آپ کا الله کے راستے میں علم کی قربانی دینا بھی ہے، آپ نے اگر راستہ سے پتھر ہٹا دیا تو وہ بھی جہاد ہے، جہاد کے سلسلے میں اسلام کے کئی محاذ ہیں ، لیکن اس میں سب سے بڑا جہاد جس کا ذکر مولانا بوالحسن علی ندوی نے بھی کیا ہے الغزو غزو الفکری ہے، جو فکری انحطاط، فکری لامذہبیت ولادینیت ہے اس کے خلاف آپ کو جہاد کرنا ہے، آپ یہاں پڑھ رہے ہیں، آپ کو یہ معلوم نہیں کہ زہر کہاں سے آرہا ہے؟ او رکہاں کہاں پھیل رہا ہے ؟ اور اس زہر کا تریاق کیا ہو گا؟ تو آپ کیسے جہاد کریں گے؟

میثاق مدینہ کو سیکرلر معاہدہ کہنے والے
پچھلے سال کا واقعہ ہے ،میں ”ڈان“ اخبار میں ایک مضمون دیکھ رہا تھا جس میں یہ ذکر تھا کہ میثاق مدینہ ایک سیکولر قسم کا معاہدہ تھا، یعنی دوسرے لفظوں میں مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں سیکولرازم کو رائج کیا جائے، کیوں کہ یہاں پر غیر مسلم بھی رہتے ہیں اور نمونہ کے طور پر انہوں نے میثاق مدینہ کا حوالہ دیا کہ میثاق مدینہ ایک سیکولر قسم کا معاہدہ تھا، تو اگر نبی وقت سیکولر معاہدہ کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ دیکھیے! کتنی بے وقوفی او رایمان کی کمی اور کمزوری کی بات ہے کہ نبی وقت سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ سیکولر معاہدہ کرے گا، اگر میثاق مدینہ کو بنظر غائر دیکھے اور سمجھے تو اس میں کون سا سیکولرازم تھا؟ عربی کا ایک لفظ ہے امة،اس کو انہوں نے قوم کے نام پر ترجمہ کرتے ہوئے استعمال کیا، عربی زبان کا جان لینا کسی کو تفسیر کا حق دیتا ہے ؟ … جواب نفی میں ہے، اگر صرف زبان کسی علم کے حاصل کرنے کے لیے معیارہے تو میں بھی انگریزی جانتا ہوں، کیا میں انگریزی کی اصطلاحات اورانگریزی ٹرمینالوجی کی تشریح کرسکتا ہوں؟ نہیں کر سکتا ہوں، اگر ایک وکیل کسیغیر وکیل کو حق نہیں دیتا کہ وہ ان کے قانون کی تشریح کرے تو وہ یہ حق اپنے آپ کے لیے کیسے لے لیتا ہے کہ صاحب! عربی جاننے کے بعد سب کچھ ہمارے لیے سہل ہو گیا، یہ کتنی بے وقوفی کی بات ہے؟! بہرحال اس فکری حملے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان حالات سے واقفیت پیدا کریں اور حالات عامة کا مطالعہ کریں اور ایسے مجلے اور رسالے زیر نظر رکھیں، آپ کے اساتذہ ہیں، ان سے سمجھنے او رسیکھنے کی کوشش کریں، آپ کو یہاں سے نکل کر اس میدان میں جانا ہے جہاں جنگ ہی جنگ ہے۔

گوشہٴ نشینی کا وقت نہیں
میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم غار حرا تشریف لے گئے اور ان کو پہلی وحی مل گئی تو کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس پہلی وحی کو لینے کے بعد دوبارہ غار حرا تشریف لے گئے؟ اس کے بعد آپ کا غار حرا سے کوئی تعلق نہ تھا ،اس لیے کہ اب جو جنگ لڑنی تھی ﴿ یایھا المدثر قم فانذر…﴾ اب جنگ سڑکوں، گھروں، بازاروں، جنگلوں میں لڑی جارہی تھی، اب عبادت گذاری، قفس گیری اور گوشہ نشینی کا وقت نہ تھا، یہ عملی جہاد کا وقت تھا، جب آپ اپنے اس قلعے سے باہر نکلیں گے اور جس میدان میں آپ کو جانا ہے وہاں جنگ ہی جنگ ہے، اس جنگ کی تیاری کے لیے آپ کوفکری مطالعہ بڑھانا ہو گا اور ان کے جوابات کے لیے آپ کو تیاری کرنی ہو گی، کوئی آپ کی یہ بات نہیں سنے گا کہ میں فلاں مدرسے کا طالب ہوں اور وہ ادارہ مستند ہے، اس کے لیے دلائل کے ہتھیار سے اپنے آپ کو لیس کرنا ہو گا، تب ہی آپ آگے بڑھ سکتے ہیں، اقبال کا شعر ہے #
        ہم نے سوچا تھا کہ لائے گی فراغت تعلیم
        کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

تو ان کا مطمح نظر کچھ اور ہے اور آپ کا کچھ اور … تو جب مطمح نظر کا فرق ہے تو پھر آپ کو وہ ذرائع استعمال کرنے ہوں گے جس سے آپ کا م یابی پاسکیں۔ اس کے ساتھ میں اپنی گزارشات ختم کرتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں، میرے لیے بھی دعا فرمائیں ،میں بھی اس کا مستحق ہوں اور اگر آپ تک یہ بات پہنچ گئی اور آپ اس کو سمجھ گئے تو میں سمجھوں گا کہ الحمدلله کام یابی حاصل ہوئی، اقبال کا ایک شعر #
        خرد نے کہہ بھی دیا لا اِلٰہ تو کیا حاصل؟
        دل ونگہ جو مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

اگر آپ کی نگاہ، دل ،فکر، ذہن، خیالات اور جسم نہیں بدلا تو پھر آپ گھاٹے میں ہیں، جو ہمارے یہاں مسلمان ہیں وہ اپنے آپ کو بڑے عالم سمجھتے ہیں، لیکن ان کا ذہن اصلاً مغربی افکار کا گھر ہوتا ہے، ان پرمغربی افکار کی وجہ سے ایک رعب سا طاری ہوتا ہے۔ آپ پر الحمدلله وہ رعب نہیں، آپ لوگوں کا مصالحہ تیار ہے اور مصالحہ تیار ہو تو اس مصالحے کا صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو وہ نشانہ پر صحیح پہنچے گا۔

Flag Counter