Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۲۷ھ جنوری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

9 - 9
پاکستان اور اسلام
پاکستان اور اسلام


بینات کے صفحات پر عرصہ سے اس امر کو واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ:
دینِ اسلام ہی اللہ تعالیٰ کی وہ آخری نعمت ہے جو اس عالم کو دی گئی ہے اور عصر ِ حاضر کی تاریخ میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے۔
لیکن ان روشن حقائق کے باوجود:۔
پاکستان ہی ایسا ملک ہے جہاں نہایت سرعت کے ساتھ اسلام کے نام پر غیر اسلامی معاشرہ پھیل رہاہے۔
پاکستان ہی وہ بدنصیب ملک ہے جہاں شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلامی شعائر‘ اسلامی خصائل اور اسلامی تہذیب کو دفنا یا جارہاہے۔
پاکستان ہی وہ خطہ ہے جہاں ملک وملت کے خزانے کی بھاری رقمیں اسلام کی تحریف پر بہائی جارہی ہیں۔
پاکستان ہی وہ مملکت جہاں آزادئ رائے کے بہانے سے تمام عیسائی مشنریوں کو تمام زنا دقہ وملاحدہ کو دل کھول کر اسلام پر اعتراضات کرنے اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے کا موقعہ دیا جارہاہے۔
پاکستان ہی وہ حکومت ہے جس کے جتنے حکمران بھی آئے ہرایک کے عہدِ حکومت میں پاکستان کے دینی معیار کو بلند کرنے سے غفلت برتی گئی۔
تعجب وتأسف کا مقام یہ ہے کہ ایک طرف تو ”قرار دادِ مقاصد“ اور ”دستور“ میں یہ طے کیا جائے کہ کتاب وسنت پر پاکستان کے قانون کا مدار ہوگا اور کتاب وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایاجائے گا۔
لیکن دوسری طرف جو قانون بنائے جائیں کتاب وسنت کے خلاف بنائے جائیں۔اور صرف اتنا ہی نہیں کہ کتاب وسنت کے خلاف قانون بنائے جائیں‘ بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی کے ساتھ یہ بھی قانون بنادیا جاتاہے کہ ان قوانین کو بڑی سے بڑی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ بتیس (۲۳) جدید قوانین ایسے بنائے گئے ہیں‘ جن میں عائلی قانون بھی شامل ہے‘ جن کی حفاظت کے لئے قانون بنایا گیا ہے کہ ان کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
آخر اس تلبیس کی کیا ضرورت ہے‘ ”قرار دادِ مقاصد“ ہی کو کیوں نہیں ختم کردیا جاتا‘ ”سابق دستور“ کو کیوں نہیں منسوخ کردیا جاتا پھر جو قانون مزاج چاہے‘ بنایئے۔
بہرحال اس پر آشوب صورت حال میں ہمارے محترم ایس ایم ظفر وزیر قانون کا حالیہ بیان جو ۲۰/ ستمبر ۱۹۶۶ء کی ”پریس کانفرنس“ میں انہوں نے دیاہے‘ وہ ان مایوس کن گھٹاؤں میں امید کی اک ہلکی سی کرن ہے‘ موصوف فرماتے ہیں:
”اسلام ہی ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کی یک جہتی کو قائم رکھ سکتاہے‘ پاکستان میں مسلم معاشرہ کی تشکیل کے لئے پروگرام مرتب کیا گیاہے‘ نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے گا اور اس سلسلہ میں ایک جامع کتاب اسلامی قوانین شائع کی جائے گی‘ جس پر آئندہ قانونی عمل درآمد ہوگا“۔
اس امید افزا اعلان سے کون مسلمان ہے جو خوش نہ ہوگا اور وزیر ِ محترم کو خراج تحسین نہ پیش کرے گا۔
لیکن جن باتوں سے یہ ”عظیم“ کام انجام پائے گا‘ بیان میں جو کچھ اس کی تفصیل آئی ہے‘ افسوس کہ اس کی بھیانک تاریکی میں وہ امید کی کرن ایسی تہ بتہ ظلمتوں میں چھپ جاتی ہے کہ آئندہ کے لئے کوئی امید باقی ہی نہیں رہتی‘ فرمایاہے:
”یہ کام ادارہٴ تحقیقات اسلامی کے سپرد کیا گیاہے اور ماہنامہ فکر ونظر ”اردو“ اسلامک اسٹڈیز (انگریزی) الدراسات الاسلامیہ (عربی) الامة (انگریزی) کے ذریعہ سے ادارہ کے محققین‘ پروفیسروں‘ ریڈروں‘ ریسرچ فیلوز اور بیرسٹروں کی نگرانی میں ہورہاہے“۔
یہ وہ مایوس کن تفصیل ہے جس نے جو امید بندھی تھی اس کو خاک میں ملادیا اور بدرجہ مجبوری راقم الحروف نے پریس کو ایک بیان دیا جو ۶/ ستمبر ۱۹۶۶ء کے مؤقر روز نامہ جنگ کراچی میں شائع ہوچکا ہے اور اس میں یہ کہنا پڑا کہ ڈاکٹر فضل الرحمن کی نگرانی میں اب تک جو ”تحقیقی کارنامے“ منظر عام پر آئے ہیں‘ ان کو دیکھتے ہوئے یہ توقع غلط ہے کہ ان کی نگرانی میں اور ان کے قلمی رفقاء کے ذریعہ کوئی صحیح کام ہوسکے گا یا کوئی ”معیاری اسلامی کارنامہ“ وجود میں آئے گا اور ساتھ ہی یہ بھی صاف صاف کہہ دیا کہ اگر اس ملک کے مقتدر علماء دین پر اعتماد نہیں ہے اور ان کی تنگ نظری کا شکوہ ہے تو پھر ممالکِ اسلامیہ شام‘ مصر‘ عراق‘ حجاز‘ الجزائر وغیرہ سے ایسے ممتاز علماء ومحققین کو جو جدید وقدیم علوم کے ماہر ہوں کچھ عرصہ کے لئے اس کام کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ان کودعوت دی جائے مثلاً:
۱-ڈاکٹر محمد مصطفےٰ زرقاء ۲-ڈاکٹر محمد مبارک کو دمشق سے۔۳-ڈاکٹر عبد اللہ بن محمد حسبر طرابلسی کو بیروت سے۔ ۴-ڈاکٹر عمر بہاء الامیری کو حلب سے۔ ۵-ڈاکٹر محمد عبد اللہ العربی۔ ۶-اور ڈاکٹر ابوزہرہ کو قاہرہ سے۔
یہ حضرات وہ ممتاز اہلِ علم ہیں جن سے حکومتِ پاکستان بھی متعارف ہے‘ چنانچہ ۱۹۵۸ء میں جو انٹرنیشنل کلوکیم لاہور میں ہوئی تھی‘ یہ سب حضرات اس میں شامل تھے اور ڈاکٹر حسبر طرابلسی کو تو اس کے بعد مؤتمر عالمِ اسلامی کی ایک کانفرنس میں بھی نمائندگی کا موقعہ دیا گیا تھا۔
لیکن اگر مدارِ کار ادارہٴ تحقیقات اسلامی کے موجودہ ”اربابِ تحقیق“ پر رہا اور یہی ڈاکٹر فضل الرحمن‘ مسٹر کمال فاروقی‘مسٹر رفیع اللہ خان اور عمر احمد تھانوی جیسے حضرات ہی متوقع اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور قوانینِ اسلام کی تدوین کے روحِ رواں رہے تو پھر:
قیاس کن زگلستانِ من بہار ِ مرا
تعجب اس پر ہے کہ اگر اتفاق سے ادارہٴ تحقیقاتِ اسلامی میں بعض ایسے افراد آگئے ہیں جن سے کسی قدر صحیح کام کی امیدہو سکتی ہے تو یا تو ان کو نہایت سرعت کے ساتھ ان کے دینی تصلب کی بناء پر علیحدہ کردیا گیا ہے یا ان کو عضوِ معطل بناکر ڈال دیا گیا ہے‘ ان سے اسلامی موضوعات پر کام کرایا جاتاہے‘ مگر ان کے صحیح کام میں قطع برید کرکے اسے اپنے منشا کے سانچے میں ڈھال لیا جاتاہے۔
بہرحال ۶/ستمبر ۱۹۶۶ء کے روزنامہ جنگ میں مدیر محترم نے ایک قیمتی شذرہ اپنے ایڈیٹوریل نوٹ کے ذیل میں اس موضوع پر لکھ کر حکومت کو متوقع فتنہ سے بروقت متنبہ کیا ہے‘ ہم شکریہ کے ساتھ قارئین بینات کے لئے اس کو نقل کرتے ہیں۔
اسلام کا قانون
”مرکزی وزیرِ قانون مسٹر ایس ایم ظفر نے بتایاہے کہ اسلامی تحقیق کا ادارہ اس وقت ”اسلام کا قانون“ نامی ایک کتاب مرتب کررہاہے‘ یہ کتاب تقریباً چار سال میں مکمل ہوگی اور وزیرِ قانون کا کہنا ہے کہ اسے عدالتوں کی رہنمائی کے لئے استعمال کیا جاسکے گا‘ مسٹر ظفر نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کتاب میں اسلامی قوانین پر جدید وقدیم علماء کے افکار شامل ہوں گے اور اس پر تعمیری تنقید کا خیر مقدم کیا جائے گا‘ تاکہ بعد کے ایڈیشنوں کو بہتر بنایا جا سکے‘ ظاہر ہے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اس ملک میں اسلام کا قانون ہی چلنا چاہئے‘لیکن مغرب کی غلط تقلید نے پاکستان کے ”تعلیم یافتہ“ طبقہ کو کچھ اس طرح گمراہ کیا کہ اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی اس مملکت میں اسلام سے اکثر انحراف ہوتا رہا‘ اسلام کو پوری قومی زندگی پر حاوی دیکھنے والے حلقے یقیناً وزیر قانون کے اس اعلان کا خیر مقدم کریں گے‘ لیکن اس کتاب کی تدوین میں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ قدیم کے ساتھ جدید علماء کے افکار پیش کرنے کی کوشش میں قرآن وحدیث کے مطلب ومعنی کو غلط رنگ میں پیش نہ کیا جائے‘ اس کتاب کی ترتیب کا خیال بہت نیک ہے‘ لیکن مسودہ کو قطعی صورت دینے سے قبل انتہائی احتیاط کے ساتھ اس کی جانچ ہونی چاہئے‘ اس لئے مختلف ادوار میں اسلام کو دانستہ یا نا دانستہ مسخ کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں‘ ہم اسلام کی سربلندی کے علمبردار ہیں‘ ہماری ذراسی لغزش سے ایک نیا فتنہ کھڑا ہوسکتا ہے‘ لہذا اسلام کو بروئے کار لانے کے اقدامات میں ہمیں ضرورت سے زیادہ محتاط رہنا ہوگا‘ امید ہے اسلامی تحقیق کا ادارہ صحیح اسلامی اسپرٹ سے کام لے گا اور اس کتاب کی اشاعت سے قبل تمام اسلام پسند حلقوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘ تاکہ بعد میں تعمیری نکتہ چینی کے بجائے کوئی نیا فتنہ کھڑا نہ ہوجائے“۔ (روز نامہ جنگ ۶/ستمبر ۱۹۶۶ء)
گذشتہ چند سال کے تلخ تجربوں کی روشنی میں مدیر موصوف نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے‘ وہ بالکل صحیح ہے‘ ظاہر ہے کہ جب تک وزیرِ قانون یہ کام قابل ِ اعتماد ”اربابِ تحقیق“ کے سپرد نہیں کریں گے‘ ہرگز قابلِ اطمینان اور ملک وملت کے لئے قابل قبول نہ ہوگا ‘ بلکہ بقول مدیر موصوف ملک میں ایک نیا فتنہ کھڑا ہوجائے گا‘ بقول شاعر:
ایں رہ کہ تو می روی بترکستان است
واضح رہے کہ اگر حکومت یا وزیرِ قانون کی نیت بخیر ہے اور امت وملت کو کسی غلط فہمی میں مبتلا کرنا مقصود نہیں ہے اور واقعی دینِ اسلام کا صحیح قانون بنانا ہی مقصود ہے اور اب تک پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے اس کی تلافی کرنے کا عزم ہوچکا ہے تو قطعاً اس کی ضرورت ہے کہ ”رجال کار“ کا صحیح انتخاب کیا جائے اور ممالکِ اسلامیہ سے ایسے صحیح ”رجال کار“ کو بلا کر یہ کام سپرد کیا جائے جن میں اسلام وایمان کی پختگی کے ساتھ ساتھ جدید وقدیم علوم سے واقفیت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو یعنی شریعتِ محمدیہ کے نہ صرف قوانین واحکام جانتے ہوں‘ بلکہ شریعت محمدیہ کے ․․․مزاج شناس․․․ ہوں اور عصرِ حاضر کے دینی تقاضوں کو اور پاکستانی مسلمانوں کے دینی مزاج وخواہشات کو جانتے ہوں۔
اگر ان حضرات کے بجائے کہیں یورپ وامریکہ سے چند مستشرقین کو بلایا گیا اور اسمتھ اور شاخت جیسے اعداءِ اسلام سے اس کام کی تکمیل کرائی گئی تو اس ․․․مضحکہ خیز․․․ طریقہ کار کی نہ صرف پاکستانی مسلمان بلکہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان تحسین نہیں کرسکتا‘ بلکہ یہ صورتِ کار جہاں اسلامی غیرت‘ دینی حمیت‘ ملکی مصلحت کے خلاف اور اپنی بے دینی وبدنیتی کا واضح ثبوت ہوگی‘ ساتھ ہی اس ملک کے عوام میں شدید اور دور رس انتشار پیدا کرنے کے مترادف اور بقول مدیر جنگ ایک نئے فتنہ کا دروازہ کھولنا ہوگا‘ اس دردناک صورتِ حال سے بدرجہا بہتر یہ ہے کہ صاف اعلان کردیا جائے کہ اس ملک کے اندر ”رومن لاء“ یا ”سوئیزر لینڈ کا قانون“ یا امریکہ یا لندن کا قانون نافذ کیا جائے گا‘ لیکن اگر اسلام کے نام سے ہمارے سروں پر کفر کے قانون کو مسلط کرنے کی کوشش کی تو یاد رہے کہ اس ملک کے اندر غیر مختتم انتشار واضطراب کا سلسلہ رونما ہوگا اور اس کے جو بدترین سیاسی نتائج نکلیں گے اس کی ذمہ داری انہی سر براہان ِ حکومت پر ہوگی جو دیدہٴ دانستہ اس ․․․عظیم گناہ․․․ کے مرتکب ہوئے ہوں گے‘ جب موجودہ ”ادارہ تحقیقات“ کا یہ عملہ باوجود دعویٰ اسلام وایمان اور دعویٰ دین کے اسلامی قانون کی تشکیل کے لئے اہل نہیں تو شاخت اور اسمتھ جیسے مستشرقین عیسائی اور یہودی کیسے قابل اعتماد ہوسکتے ہیں اور یہ کہنا قطعاً کھلا ہوا فریب ہے کہ ہم ان مستشرقین کو ”طریقِ کار“ سکھانے کے لئے بلاتے ہیں‘ جیساکہ موجودہ ڈائرکٹرصاحب نے اب سے تین سال پہلے اپنے ایک ڈان مورخہ ۹/۱۰/۱۹۶۳ء میں شائع شدہ ”انٹرویو“ میں کہا تھا‘ کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں رہ کر ان کو اس اقدام کی جرأت نہیں ہوسکی ہے‘ اسی لئے ادارہ کو اسلام آباد راولپنڈی لے گئے ہیں‘ بہرحال ہم اس اقدام کے انتہائی خطرناک نتائج سے بروقت حکومت اور وزیرِ قانون کو متنبہ کرتے ہیں‘ ”جدید طرزِ تحقیق“ کے ان سے بدرجہا بہتر ماہرین اس وقت اسلامی ممالک میں موجود ہیں‘ جن کے تحقیقی شاہکار ان مستشرقین کے علی الرغم شائع ہوچکے ہیں۔
مزید وضاحت اور قارئین کی معلومات میں اضافہ کی غرض سے ادارہٴ بینات روز نامہ حریت کراچی ۸/ستمبر ۱۹۶۶ء میں رفیقِ محترم مولانا مفتی ولی حسن کا اسی موضوع پر شائع شدہ مضمون پیش کرتاہے:
اسلامی قوانین کی ترتیب وتدوین کے لئے تحقیقاتی جدوجہد
محترم وزیرِ قانون نے ۳۰/اگست ۱۹۶۶ء کو راولپنڈی کی ایک پریس کانفرنس میں ایک اہم حقیقت کا اظہار فرمایاہے کہ:
پاکستان میں اسلامی نظریہ کو محوری حیثیت حاصل ہے‘ ملک کے دونوں صوبوں کے درمیان یک جہتی کے لئے اسلام ایک مستقل قوت ہے اس لئے نئی نسل کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ضروری ہے۔ ہم محترم وزیر قانون کے اس خیال کی پُر زور تائید کرتے ہوئے ان سے گذارش کرتے ہیں کہ آپ کے یہ الفاظ پاکستان کے دس کروڑ عوام کے دلوں کی آواز ہے۔ ”اسلامی نظریہٴ حیات“ پاکستان کی روح ہے اس مملکت کا قیام بھی اسی نظریہ کے لئے ہوا‘ اس کی بقاء بھی اسی نظریہ میں مضمر ہے اور اس کی کامیابی بھی اسی کی رہینِ منت ہوسکتی ہے‘ پاکستان کے دونوں صوبوں کے درمیان وسیع خلیج کو یہی نظریہٴ حیات پاٹ سکتا ہے کیونکہ دونوں صوبوں کے درمیان اگر کوئی چیز مشترک ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے اس لئے اس رشتہ کو جس قدر مضبوط کیا جائے گا اسی قدر پاکستان مضبوط ہوگا اس کے دونوں صوبے ایک دوسرے سے قریب سے قریب تر آجائیں گے جس طرح حصول پاکستان کے وقت متحد تھے اور دونوں صوبوں کے درمیان علیحدگی پسند عناصر کا فتنہ اپنی موت آپ مرجائے گا۔
نئی نسل کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ضروری ہے ہماری نئی نسل پر مادّیت کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ دین سے یہ نہ صرف ناواقف بلکہ منحرف ہیں ہمارے ”تعلیمی ادارے“ اس سلسلے میں جوکردار ادا کررہے ہیں اس سے آپ بے خبر نہیں ہیں۔
محترم! ”ادارہٴ تحقیق اسلامی“ کے بارے میں آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ ہمارے لئے محلِ نظر ہے ہم اپنی معروضات بصد ادب پیش کررہے ہیں‘ امید ہے کہ آپ ہماری معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے ہمارے اس ملک میں ”ادارہٴ تحقیق اسلامی“ کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم کیونکہ آپ نے جن موضوعات کی نشاندہی فرمائی ہے‘ واقعی ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے مثلاً ”اسلامی قانون“ کی ترتیب وتدوین‘ اسلام کا سماجی نظام‘ اسلام کے اقتصادی اصول‘ اسلام کا سیاسی نظام وغیرہ لیکن ہمیں بصد افسوس عرض کرنا پڑتا ہے کہ موجودہ ”ادارہٴ تحقیق اسلامی“ جس پر ملک کا لاکھوں روپیہ خرچ ہورہاہے اپنے مقصد تأسیس سے نہ صرف بہت دور بلکہ اس کی ضد ہے۔
محترم! آپ نے ”ادارہ تحقیق اسلامی“ کے مقصدِ تاسیس کو اس طرح بیان فرمایاہے:
ادارہ کا بنیادی مقصد عوام الناس کو اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گذارنے میں مدد دیناہے۔ اس مقصد کو سامنے رکھ کر جب ہم ادارہ کے اب تک کے کام کا نہایت اخلاص سے جائزہ لیتے ہیں تو ہم کو شدید مایوسی ہوتی ہے ادارے کے قیام کو ایک عرصہ ہوگیا لیکن اس کی طرف سے اب تک اسلام کی کوئی قابلِ ذکر خدمت سامنے نہیں آئی ہمیں تو ایسا نظر آتاہے کہ ادارہ ایک ”نئے اسلام“ کی داغ بیل ڈال رہاہے جس سے یہاں کے عوام سخت انتشار میں مبتلا ہوغئے ہیں‘ اس ”نئے اسلام“ کے بنیادی خطوط بطور نمونہ درج ذیل ہیں جن سے آپ ادارہ کع دانشوروں‘ علمأ‘ محققین‘ پروفیسروں‘ ریڈروں‘ ریسرچ فیلوز کے ذہنی رخ کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
۱:․․․قرآنی احکام ابدی نہیں بلکہ ان کی علل غایات ابدی ہیں۔
۲:․․․․حدیث رسول اللہ علیہ وسلم زمانہٴ مابعد کی پیداوار ہیں۔
۳:․․․سنت ہر زمانہ کے رسم ورواج کا نام ہے۔
۴:․․․شرعی سزائیں قابل تبدیلی ہیں۔
۵:․․․قرآن ایک اخلاقی کتاب ہے۔
۶:․․․جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں بنابنایا قانون موجود ہے وہ جاہل اور کم فہم ہیں۔
۷:․․․ بینک کا سود حلال ہے۔
۸:․․․زکوٰة مالی عبادت نہیں بلکہ ٹیکس ہے۔
۹:․․․زکوٰة کی شرح میں اضافہ ہونا چاہئے۔
۱۰:․․․بیئر شراب حلال ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم نے اس مختصر مراسلے میں صرف چند ارشادات پر اکتفاء کیا ہے‘ آپ اگر اس سلسلہ میں تحقیق کرنا چاہیں (جس کی ذمہ داری ادارہ کا صدر ہونے کی بنا پر آپ پر بھی عائد ہوتی ہے) تو ہم ”ادارہٴ تحقیق اسلامی“ کے اب تک کے کام کا تفصیلی جائزہ لینے میں آپ کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں‘ ان محققین بلکہ ”متجددینِ عصر“ کی تحقیقات کو صحیح اسلام کی روشنی میں آپ کو دکھا سکتے ہیں کہ یہ حضرات کس مشن کع تحت اسلامی تحقیقات کررہے ہیں۔
جہاں تک اسلامی قوانین کی ترتیب وتدوین کا تعلق ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ ”ادارہٴ تحقیق اسلامی“ ترتیب وتدوین کا مطلب یہ سمجھتا ہے کہ کتاب وسنت کے منصوص ومقررہ احکام میں بھی ترمیم واضافہ کیا جائے زمانہ اور حالات کو کتاب وسنت کے ماتحت نہ کیا جائے بلکہ خود کتاب وسنت کو زمانہ اور حالات کے ماتحت کردیا جائے ‘ یہ نظریہ اور اندازِ فکر اسلام کع لئے نہایت خطرناک اور مہلک ہے‘ اس طرح تو یہ ”دینِ قیم“ بازیچہٴ اطفال بن جائے گا اور اپنی ”ابدیت“ کھو بیٹھے گا‘ ترتیب وتدوین کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کتاب وسنت اور فقہاء مجتہدین کی کاوشوں اور تحقیقات کی روشنی میں جدید ترتیب وتہذیب کے ساتھ ایک ایسا ”مجموعہٴ قوانینِ اسلام“ مرتب کیا جائے جس میں منصوص احکام کو جوں کا توں باقی رکھ کر فقہاءِ امت کی تحقیق کی پیروی کی جائے اور جدید مسائل اور پیش آمدہ صورتوں کو قرآن وسنت اور فقہ کی روشنی میں حل کیا جائے۔
”ادارہٴ تحقیق اسلامی“ سے اس ملک کے عوام کو بڑی توقعات تھیں کیونکہ اسلام کو اس ملک میں پھولتا پھلتا دیکھنا ان کی سب سے بڑی آرزو ہے اور جب اس ادارہ کی بنیاد رکھی گئی تو عوام کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور لوگ کہنے لگے تھے کہ حکومت نے بالکل صحیح قدم اٹھایاہے لیکن ادارہ کے کام کو دیکھ کر توقعات سراب سے زیادہ ثابت نہیں ہوئیں اب ان کے دلوں میں ناقابلِ تردید شکوک وشبہات بلکہ ناقابلِ برداشت ”جراحتیں“ ہیں جو ادارہ کے نام نہاد علمائے محققین نے اسلام کے خلاف کام کرکے ان کے قلوب میں ڈالی ہیں جن کے پس منظر کی اطلاع بہت کچھ آپ کو بھی ہے۔
محترم! ان جراحتوں کا مرہم پریس کانفرنس نہیں بلکہ ادارہ کا صحیح رُخ موڑنا ہے ادارہ کا قبلہ شروع سے اب تک میکگل یونیورسٹی ‘ یہودی ونصرانی مستشرقین کی تحقیقات ہیں‘ آپ اس کا رُخ کعبة اللہ‘ قرآن ِ کریم ‘ حدیثِ نبوی ا اور فقہاء ومحدثین ومفسرینِ اسلام کی طرف موڑ دیجئے‘ لوگوں کی جراحتیں ”مندمل“ ہوجائیں گی اور اسلام اور ملک وملت کو ان سرنگوں سے نجات مل جائے گی جو زیر زمین بچھائی جارہی ہیں اور اس ملک کے عوام آپ کو اسلام کے وکیل اور کامیاب وزیر قانون کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
Flag Counter