Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۲۷ھ جنوری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

5 - 9
حیات النبی ا اور قرآن
حیات النبی ا اور قرآن


جب سے بعض مدعیان نے حیات النبی ا کا انکار کیا ہے‘ اس وقت سے وہ حیاتِ انبیاء کے خلاف قرآن پاک کی ان آیات کریمہ کو پیش کرتے رہتے ہیں جن میں ہر انسان کے لئے موت کو لازم قرار دیا گیا ہے‘ جیسے ”انک میت وانہم میتون“ حالانکہ اس سے کسی کو انکار نہیں ہے‘ یہ دنیوی موت ہرایک کے لئے ہے اور سرور کائنات ا پر بھی یہ وقت آیا اور گذر گیا‘ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد جب ہرآدمی کی روح لوٹاکر نکیر منکر کا سوال وجواب ہوتا ہے آیا دوسروں کی طرح آنحضرت ا کی روح مبارک بھی لوٹائے جانے کے بعد پھر علیحدہ کی جاتی ہے یا نہیں یا روح مبارک کا اس دنیا والے جسد مبارک سے تعلق باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے آپ ا درود وسلام روضہ مبارک پر پڑھا جانے والا سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں یا روح کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور آپ ا کا جسد بے روح وبے شعور پڑا رہتا ہے۔
احادیث صحیحہ کی وجہ سے حیات النبی ا کے قائل اہلسنت والجماعة اسی حیات کے قائل ہیں‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ا پر اصطلاحی موت طاری نہیں ہوئی‘ اس لئے حیات النبی ا کے مقابلہ میں ”انک میت وانہم میتون“ کی آیت کریمہ اورحضرت ابوبکر صدیق کا خطبہ: ”فان محمداً قدمات“ پیش کرنا تعصب‘ ہٹ دھرمی‘ کوڑمغز یا عوام کو فریب دینے کی کوشش کے مترادف ہے‘ آنحضرت ا نے جو ارشاد فرمایا کہ: انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ اس کا مطلب اس دنیا میں زندہ رہنے کا نہیں‘ بلکہ یہاں سے جانے کے بعد قبر میں زندگی کاذ کر ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا صاف ارشاد ہے :
”لاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لاتشعرون“۔
”کہ جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں“۔
اس میں بھی قتل (موت) کے بعد دوسری زندگی کا ذکر ہے گویا یہ موت اور قتل تو مسلم اور خارج از بحث ہے بحث موت کے بعد قبر کی زندگی کی ہے جس کا بعض لوگ انکار کرتے اور اپنی توحید کا سکہ جمانا چاہتے ہیں۔بلکہ سرگودھا میں جہاں ایک طرف حضرت مولانا جامع طریقت وشریعت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مہتمم سراج العلوم جیسے محقق عالم اور حیات النبی ا کے قائل بزرگ ہیں‘ وہاں (بزعم خود) ایک اور مایہٴ ناز ہستی نقلی حسین علی بنی ہوئی ہے اس کو علم کا ہیضہ ہوگیا ہے‘ وہ حضور ا کی حیات کے قول کو شرک فی التوحید لکھتے ہیں۔ حضرت سراج الالیاء خواجہ سراج الدین صاحب موسیٰ زئی شریف رحمہ اللہ کے استاذ اور خلیفہ حضرت مولانا حسین علی صاحب مرحوم بہت بلند پایہ عالم اور بزرگ تھے‘ وہ صاحبِ حال تھے اور اپنے بلند مقام سے بعض باتیں فرمادیتے تھے جن میں جمہور علماء اور اکابر دیوبند ان کا ساتھ نہ دیتے تھے‘ لیکن وہ اپنے حال اور غالب کیفیت سے مجبور تھے‘ لیکن خدا بچائے نقلی اور مصنوعی حسین علیوں سے۔ خدا گنجے کوناخن نہ دے‘ اگر ان کا اختیار ہو(تو) کسی مخالف کو اسلام کے اندر نہ رہنے دیں‘ مگر ہرشخص حضرت مولانا حسین علی صاحب قدس سرہ نہیں بن سکتا۔ قرآن کے منکر کون ہیں؟
قرآن پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ نہ کہو‘ بلکہ وہ زندہ ہیں۔ یہ منکر کہتاہے کہ ان کو زندہ نہ کہو‘ بلکہ مردہ ہیں۔ بتایئے! صاف صاف قرآن پاک کا مقابلہ نہیں ہے؟ ”العیاذ باللہ تعالیٰ“ شہیدوں سے بہرحال پیغمبروں کا درجہ بڑھا ہوا ہے‘ اگر شہداء کو مردہ کہنے کی ممانعت ہے تو انبیاء کو مردہ کہنا یقیناً ممنوع ہوگا۔ ہم ”انک میت وانہم میتون“ کو مان لینے کے بعد قبر میں حیات کے قائل ہیں جس کا قرآنِ پاک نے انکار نہیں کیا اور حدیث پاک نے ثبوت دیا ہے اور منکر‘ان احادیث کے مشترکہ مضمون کی تصدیق سے بھی انکار کرتے ہیں جو متبادر ہے اور نص قرآن کے بھی خلاف کہتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کا حکم ہے ان کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں۔ ان کا فیصلہ ہے ان کو زندہ نہ کہو وہ مردہ ہیں۔ بتایئے! قرآن کے مقابلہ میں گفتگو کرکے آپ اوروں کو الزام دیتے ہیں۔”میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا“
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ
البتہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے آنحضرت ا کی موت ‘ لوگوں کی موت سے علیحدہ قسم بتائی ہے۔ متعارف موت کا ان کو انکار نہیں‘ بھلا یہ کوئی مسلمان کرسکتاہے؟ البتہ انہوں نے فرمایا کہ: جہاں اور بہت سی باتوں میں حضور ا کے حالات اوروں سے مختلف تھے‘ اسی طرح آپ ا کی موت بھی اور طرح تھی۔ اوروں میں خروج روح تھا‘ آپ ا میں ایسا نہیں‘ بلکہ جیسے چراغ پر ڈھکنا رکھ دیا جائے جیسے ڈھکنے کے بعد چراغ کی روشنی کے اثبات نہیں رہتے‘ اگرچہ وہ بجھا نہیں ہے ‘اسی طرح روح مبارک کے سمٹ جانے سے جسد مبارک پر ظاہری اثبات باقی نہیں رہتے جس سے دنیوی خلائق واعمال کا خاتمہ ہوکر دفن فرمادیا جاتا ہے‘ یہی موت ہے۔
یہاں یہ سوال کہ خروجِ روح وقبضِ روح کے ظاہری اور متبادر معانی کے یہ خلاف ہے‘ تو عرض ہے کہ خروجِ روح‘ دخولِ روح‘ نفخِ روح‘ قبضِ روح ‘ ارسالِ روح اور تعلقِ روح بالبدن یہ سب الفاظ ایسے ہیں جن کے ظاہر پر ایمان لانا ہوگا اور مطلب اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا ہوگا خود روح امر رب ہے جس کا ادراک آسان کام نہیں ہے‘ یہ سب امور غیر مدرک بالکنہ ہیں۔ کیا قرآن پاک میں یہ ذکر نہیں کہ موت اور نیند دونوں حالتوں میں روح قبض کی جاتی ہے؟ موت والی روک دی جاتی ہے اور نیند والی چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا نیند والے کی روح قبض ہوکر بھی اس میں حس وحرکت نہ تھی؟ ضرور تھی۔ اس کے برعکس سکتہ کے بیمار میں روح ہوتی ہے‘ مگر ادراک قطعاً نہیں ہوتا‘ نہ نبض چلتی ہے‘ نہ سانس آتاہے‘ اس لئے روح اور اس کی صفات کے بارہ میں جو کلمات نبی کریم اسے وارد ہیں ان پر ایمان لاکر حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا چاہئے۔
ایک اور طرح سے
جب قرآن پاک نے تصریح فرمادی ہے کہ شہداء کو مردہ مت کہو‘ بلکہ وہ زندہ ہیں‘ مصنوعی حسین علی کہتے ہیں کہ موت کا معنی ہے روح کا جسم سے علیحدہ ہونا‘ تو ہم کہتے ہیں حیات کا معنی ہوا روح کا جسم میں داخل ہونا تو جب قرآن پاک شہداء کو زندہ قرار دیتاہے تو بات وہی عود روح کی ہوگی اور اگر یہاں حیات کے معنی میں آپ کوئی تاویل کرکے اس کو روح وجسد کے اتصال کے سوا کوئی اور جامہ پہنانے ہیں تو انبیاء کی موت میں بھی اگر موت کا متعارف معنی چھوڑ کر دوسرا معنی مراد لیا جائے‘ جیسے حضرت نانوتوی  فرما تے ہیں تو کیوں کسی موحد کی ماں مرے اور اس کو مشرک قرار دے کر تمام علماء دیوبند کے بزرگوں پر ہاتھ صاف کرکے بے دینوں کے لئے راہ ہموار کرے۔
مصنوعی لوگوں کا انجام
اللہ تعالیٰ حضرات موسیٰ زئی شریف کے متبعین اور حضرت مولانا حسین علی صاحب کے اسوہ پر چلن‘ کی توفیق ہرایک کو دے‘ مگر اللہ تعالیٰ مصنوعی حسین علیوں سے بچائے۔ ایک مصنوعی حسین علی مولوی منور الدین مرزائی ہوگیا اب خود تو وہ مسلمان ہوگیا‘ مگر بے شمار شاگرد کافر کے کافر ہی رہ گئے‘ اب مصنوعی حسین علی حیات النبی ا کو شرک قرار دیتے ہیں‘ خدا تعالیٰ جانے ان کا اور ان کے متبعین کا حشر کیا ہوگا ؟ ہمارا عقیدہ ہے: اللہ تعالیٰ کا حکم ہے‘ مردہ نہ کہو‘ ہم نہیں کہتے۔ اس کا حکم ہے وہ زندہ ہیں‘ ہم نے کہا: بے شک زندہ ہیں جو نہ مانے اپنا سرکھائے۔ 
Flag Counter