Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۲۷ھ جنوری۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

6 - 9
عالمی اسلامی اقتصادی فورم!
عالمی اسلامی اقتصادی فورم!
منزل ہے کہاں تیری ؟


عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ اجلاس کے بعد جاری کیے جانے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مسلم دنیا اپنا آزاد تجارتی علاقہ بنائے اور اسلامی ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت اور بینکنگ کو فروغ دیا جائے ،اعلامیہ کے مطا بق اسلامی ممالک کی خواتین تاجروں اور بز نس مینوں کے لئے ایک نیٹ ورک اور تربیتی مرکز قائم کیا جائے گا اور بینکاری،فنانس اور انشورنس کے شعبوں میں تعاون کے امکانا ت کی نشاندہی کی جائے گی ،مسلم ممالک ا نسانی وسائل کی ترقی کے لئے جی ڈی پی کا 0.01حصہ مختص کریں گے۔ عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے تین دن تک جاری رہنے والے اجلاس میں اسلامی دنیا کے معاشی و اقتصادی ترقی اور مسلم ممالک کے درمیان تجارتی تعاون کے فروغ کے لئے بہت سی تجاویز پیش کی گئیں اور امت کی معاشی بہتری کے لئے متعدد سفارشات پر غور کیا گیا،لیکن اجلاس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں زیادہ تر فوکس ان چیزوں پر کیا گیا ہے جو اسلامی دنیا سے زیادہ موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کے مطابق ہیں۔آزاد معیشت ،سودی تجارت اور گلیمرائزیشن سرمایہ داریت کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہیں۔اسلامی اقتصادی فورم کے اعلامیہ میں مسلم ممالک کے درمیان خاص طور پر بینکنگ کے شعبے میں تعاون پر زور دیا گیا ہے جو کہ قابل غور امر ہے۔
بعض حالیہ تحقیقات کے مطابق عالمی استعماری منصوبہ سازوں کی نظریں ایک عرصے سے مسلم دنیا کے ان وسائل پر لگی ہوئی ہیں جو کہ ابھی تک استعمار کے شکنجے سے بچے ہوئے ہیں ۔۱۹۸۲ء میں ایک برطانوی ماہرِ معاشیات نے اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی تھی ،رپورٹ میں تجویز کیا گیا تھا کہ عالمِ اسلام کی اکثریت سودی بینکنگ کے نظام میں اپنا سرمایہ جھونکنے کے لئے ابھی تک تیار نہیں ہو سکی اور اس اکثریت کے سروے کا محدود اندازہ یہ ہے کہ اس کا حجم کل اسلامی دنیا کے سرمایہ کا %۶۵ہے ۔عالم اسلام کی یہ HIDDEN MONYیعنی سودی بینکنگ سسٹم سے با ہر گردش کرنے والا یہ سرمایہ امریکا اور یورپ کے لئے انتہائی خطرے کا با عث ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہی وہ سرمایہ ہے جس کا ۲۵ سے%۳۰ایسی تنظیموں اور تحریکوں تک پہنچ رہا ہے جو امریکا اور یورپ سے نا صرف ہمہ جہتی اختلا ف رکھتی ہیں، بلکہ کئی محاذوں پر ان کے خلاف بر سرِ پیکار بھی ہیں۔برطانوی ماہر ِ معاشیات کی تجزیاتی رپورٹ میں مستقبل کے حوالے سے خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا تھاکہ اگر اس سرمایہ کو عالمی بینکنگ سسٹم میں شامل کر کے قابلِ گرفت دستاویزات(DOCUMENTS ACCOUNT ABLE)کی زد میں نہ لایاگیا تو امریکہ ویورپ مخالف قوتیں کسی انتہا پسندانہ فیصلے کی طرف بھی جاسکتی ہیں اور یہ انتہا پسندانہ فیصلہ کھلی جنگ بھی ہوسکتا ہے ، اس اقدام سے نہ صرف ہمارے مالی مفادات کو شدیدنقصان پہنچے گا ،بلکہ ہمارے مخالفین کی عددی اکثریت میں اضافہ ہوجائے گا ، عقائدونظریات کا تصادم اسی سرمایہ کے بل بوتے پر کسی وقت خون ریز جنگی جنون کے سانچے میں ڈھل سکتا ہے ، اس لیے ماہرین اور پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ مسلم ممالک کے سرمایہ کو بہرحال بینکنگ سسٹم میں لانے کے لیے فوری لائحہ عمل طے کریں ، مذکورہ ماہر نے اس سلسلے میں ”اسلامی بینکاری “ نظام وضع کرنے کی تجویز دی تھی جس پر آج کل ہماری حکومتیں بڑی گرم جوشی کے ساتھ عمل درآمد کرارہی ہیں اور اب بینکاری کے فروغ کو اسلامی اقتصادی فورم کے اولین اہداف میں شامل کرلیا گیا ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس میں اسلام کی اقتصادی تعلیمات کی ترویج کی کوئی بات کی گئی نہ سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی عالمگیریت کی تباہ کاریوں سے بچاوٴ کا کوئی لائحہ عمل سوچا گیا ، حالانکہ اس وقت اسلامی دنیا سے باہر کی بہت سی محکوم اور مظلوم قومیں اس کی مزاحمت کررہی ہیں اور پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں ، اس وقت دنیا ایک جانب سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی پنجے کے نیچے دبی ہوئی ہے تو دوسری جانب اس کے انتہائی رد عمل میں جنم لینے والے غیر فطری اشتراکی نظریات کے جبری نظام کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ، اسلام استحصال اور جبر کی ان دو انتہاوٴں کے درمیان ایک متوازن اقتصادی نظام کی تعلیم دیتا ہے، جس کی بنیاد سود پر نہیں بلکہ جائز اور فطری اصولوں کے مطابق تجارت پر ہے ،اور جس میں زکوة ، صدقات ، کفارات اور عشرواوقاف کے ذریعے معاشرے میں دولت کا ارتکاز روکنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ”عالمی اسلامی اقتصادی فورم “ میں اسلام کی ان زرین تعلیمات پر عمل در آمدکا عہد کر کے دنیا کے سامنے ایک متبادل منصفانہ اقتصادی نظام پیش کرنے کا عزم کرلیاجاتااور پھر عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات اور ماہرین اقتصادیات کی مشاورت سے اس پر عملی کام کا آغاز کیاجاتا ، اس کی بجائے اسلامی ممالک کے مابین محض بینکنگ ، انشورنس اور سودی سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق کم از کم ان ممالک کے درمیان اسلام کے مشترکہ حوالے سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا ۔
خواتین کوتجارتی تربیت دینے پر اسلامی ممالک کے درمیان اتفاق بھی گلیمرائزیشن کے سرمایہ دارانہ طریقہ واردات پر عمل درآمد کا ذریعہ بن سکتا ہے ، اسلام میں خواتین پر تجارت کی کوئی ممانعت نہیں ہے ،شرعی احکام کے اندر رہتے ہوئے خواتین تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں ،لیکن آج کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت خواتین کو جس انداز سے شو پیس بنادیاگیا ہے اور جس طرح سے ان کا ذہنی جنسی اور معاشی استحصال کیاجارہا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے عالم اسلام کی خواتین کو تجارتی تربیت دینے کا منصوبہ بھی خالی از علت نظر نہیں آتا ، اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسلامی دنیا میں اسلام کی اقتصادی تعلیمات کو فروغ دیا جائے ،سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننے کی بجائے اس کی مزاحمت کا شعور بیدار کیا جائے، اور دنیا کے سامنے سود اور استحصال سے پاک اسلامی معیشت کی حقیقی وعملی تصویر پیش کی جائے ، یہ بات درست ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کام کی راہ میں کافی مشکلات اور پیچیدگیاں حائل ہیں ،لیکن اگر دنیا کے ۵۷اسلامی ممالک اس پر متحد ہوں اور اپنی اپنی سطح پر تمام مسلم حکومتیں اس پر کام کریں تو یہ کوئی بالکل ہی ناممکن امر نہیں ہے ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور موجودہ دور میں خاص طور پر معاشی میدان میں دنیا کی درست رہنمائی صرف اسلام ہی کرسکتا ہے ، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مسلم حکمران اوردانش ور گلوبلائزیشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے مصنوعی رعب سے نکلیں اور سرمایہ داریت کی بجائے اسلام کی خدمت کا عزم کرلیں ۔ 
Flag Counter