نقدونظر
تبصرے کے لیے ہر کتاب کے دو نسخوں کاآنا ضروری ہے
(ادارہ)
معارف بہلوی:
چار جلد: قطب الارشاد حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی‘ شجاع آبادی قدس سرہ‘ ترتیب وتسہیل: مولانا سعید احمد جلال پوری‘ صفحات: جلد اول: ۴۴۰‘ جلد دوم: ۴۲۴‘ جلد سوم: ۴۸۸‘ جلد چہارم: ۵۶۸‘ قیمت: درج نہیں‘ پتہ: مکتبہ لدھیانوی‘ ۱۸/سلام مارکیٹ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔
مخدوم العلمأ پیر طریقت‘ رہبر شریعت‘ شمس العارفین ”شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی کی شخصیت حلقہٴ اہل علم میں کسی تعارف کی محتاج نہیں‘ بلاشبہ آپ نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی اسیرمالٹا‘ خاتمة المحدثین حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری اور رئیس المفسرین حضرت مولانا حسین علی واں بھچراں سے حدیث وتفسیر پڑھی تو قطب العالم‘ شیخ المشائخ حضرت مولانا فضل علی قریشی مسکین پوری سے تمام سلاسل میں مجاز قرار پائے۔ آپ نے جلال پور پیروالا کی ایک مضافاتی بستی بہلی سے درس ‘ تدریس‘ تعلیم‘ تعلم اور سلوک واحسان کا آغاز کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے عشاق وپروانوں کا ہجوم لگ گیا اور بہلی کا چھوٹا سا مدرسہ ایک عظیم درس گاہ اور اصلاح وارشاد کی عالی شان خانقاہ کا منظر پیش کرنے لگا،آپ نے ایک طرف پچاس سال تک حدیث وتفسیر کا درس دیا تو دوسری طرف سالکینِ اصلاح وارشاد کی تربیت پر بھی بھر پور توجہ فرمائی اور آپ کی مرجع خلائق شخصیت سے پاکستان ہی نہیں ،دنیا بھر کے عشاق نے کسب ِفیض کیا،جب ضعف وپیرانہ سالی بڑھی تو خدام کے اصرار پر خانقاہ، بہلی سے شجاع آباد منتقل کردی گئی اور رشد وہدایت کا یہ چمن وہاں لہلہانے لگا۔
حضرت اقدس نے جہاں درس وتدریس پر توجہ مرکوز رکھی، وہاں آپ نے مختلف عنوانات پر مختصر مگر مفید رسائل وکتب بھی تصنیف فرمائیں ،چنانچہ ہماری معلومات کے مطابق مختلف اوقات میں چھوٹے بڑے رسائل وکتب جو آپ کے قلم حقیقت رقم سے وجود میں آئیں‘ ان کی تعداد ۴۴کے لگ بھگ ہے، جن میں سے قرآن کریم کی تفسیر اور مستدلات الحنفیہ اپنی جگہ ضخیم کتب ہیں اور مستدلات الحنفیہ ایک عرصہ تک وفاق المدارس العربیہ کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے چھوٹے بڑے ۴۲ رسائل ایک عرصہ سے ناپید ونایاب تھے اور رفتہ رفتہ اہل علم کی توجہ سے محروم اور آنکھوں سے اوجھل ہوتے جارہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت بہلوی مرحوم کے مسترشد‘ ماہنامہ بینات کے مدیر اور حضرت لدھیانوی شہید کے خادمِ خاص کو جنہوں نے اس طرف توجہ کی اور حضرت کے رسائل کو جمع کرنے‘ ان کی ترتیب وتسہیل اور اشاعت وطباعت کا بیڑہ اٹھایا‘ ہماری معلومات کے مطابق موصوف دوسال کی محنت شاقہ کے بعدان رسائل کو اس خوبصورت قالب میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئے اور بجا طور پر بحث وتحقیق‘ سیرت وتفسیر‘ سلوک واحسان اور تصوف وتکشف کے حقائق ومعارف پر مشتمل نادر رسائل کا حسین گلدستہ تیار ہوگیا ،مرتب موصوف نے اپنی اس محنت وکاوش کے پس منظر، پیش منظر کے علاوہ وجوہ اسباب کو جس خوبصورت انداز میں پیش لفظ کے ذیل میں درج کیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے اسے درج ذیل کردیا جائے:
”چند سال پیشتر حضرت مولانا عبد الرشید ارشد کی تحریک پر اپنے مرشد ومربی اور خاندانی محسن‘ مرشد العلمأ ‘ قطبِ ارشاد‘ حضرت اقدس مولانا محمد عبد اللہ بہلوی قدس سرہ کی حیات پر ایک مفصل مضمون قلم بند کرنے کی سعادت میسر آئی‘ اسی دوران حضرت مرحوم کی تصنیفات اور علمی رسائل دیکھنے اور جمع کرنے کا شوق اور داعیہ پیدا ہوا تو خیال ہوا کہ ان رسائل کا مختصر سا تعارف بھی آجائے‘ اس غرض سے جب اس علمی خزانہ کو دیکھا تو احساس ہوا کہ بلاشبہ آج سے پچاس سال پہلے کی عوام کی استعداد آج کے مجھ جیسے نام نہاد مولویوں سے اچھی تھی‘ جب ہی تو حضرت مرحوم کے اس دور کے عوام کے لئے لکھے گئے رسائل‘ جو بلاشبہ دریا بکوزہ کا مصداق ہیں‘ ان کا سمجھنا ہمارے لئے کارے دارد! اسی لئے اس مضمون میں راقم نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کوئی اللہ کا بندہ ان کی جمع‘ ترتیب اور تسہیل کا کام کردے تو خاصے کی چیز ہوگی۔
حسنِ اتفاق سے جب اس مضمون کی پہلی بار ”بزمِ حسین“ میں اشاعت ہوئی تو کئی دوسرے حضرات نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا‘ بعض احباب نے یہ فرمایا کہ: تم ہی یہ کام کرلو‘ مگر اس مشکل کام کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈر لگتا تھا کہ کہیں حضرت کے علوم کی اشاعت کی جگہ ان میں تحریف کا مرتکب نہ ہو جاؤں‘ چنانچہ اس خوف سے یہ کام مزید تاخیر وتعطل کا شکار ہوتا گیا‘ بالآخرجب احباب کا اصرار بڑھا تو اپنے بزرگ حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی شیخ الحدیث باب العلوم کہروڑپکا دامت برکاتہم اور دوسرے اکابر سے مشورہ کیا‘ تو انہوں نے اس عنوان پر کام کرنے پر نہ صرف زور دیا، بلکہ ہمت بندھوائی‘ چنانچہ حضرت کے رسائل جمع کرنا شروع کردیئے‘ کچھ اصل دریافت ہوئے‘ تو کچھ فوٹو حاصل کئے‘ اور اللہ کا نام لے کر کام شروع کردیا۔ بلامبالغہ یہ کام جتنا اونچا تھا‘ اس سے کہیں زیادہ مشکل اور جان گداز بھی تھا‘ کئی بار ہمت نے جواب دے دیا‘ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی حضرت بہلوی قدس سرہ کی بعد از وفات کرامت تھی کہ ان مشکلات کے باوجود بھی اپنی سی کوشش میں لگا رہا اور جہاں کہیں کوئی مشکل پیش آجاتی ‘ وہاں حضرت مولانا زو!ار حسین شاہ قدس سرہ کی کتب‘ مکتوباتِ مجدد الف ثانی‘ حضرت تھانوی یا دوسرے اکابر کی کتبِ تصوف سے مدد لے کر اس کی تسہیل کی کوشش کی‘ اور ہمیشہ یہ دعا کرتا رہا‘ یا اللہ! مجھے حضرت کے علوم ومعارف کی تسہیل وافادیت کا ذریعہ بنا‘ اور ان کے علوم ومعارف کی تحریف وبگاڑ کا ذریعہ نہ بنا۔ جب اس کام سے فارغ ہوا تو حضرت اقدس مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم سے اس پر نظرثانی کی درخواست کی‘ انہوں نے فرمایا: اس کے لئے مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب مدیر جامعہ عبیدیہ فیصل آباد زیادہ موزوں ہیں‘ یا پھر مولانا محمد عابد صاحب استاذ جامعہ خیر المدارس ملتان۔ یہ مکالمہ چل ہی رہا تھا کہ حسنِ اتفاق سے وہاں حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب مدظلہ سے ملاقات ہوگئی،ان سے مشورہ ہوا تو انہوں نے فرمایا:مولانا محمدعابد صاحب ہی اس کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ چنانچہ جب تسہیل کا کام مکمل ہوا تو راقم الحروف نے ملتان کا سفر کیا اور سارا مسودہ حضرت مولانا محمد عابد صاحب کی خدمت میں پیش کردیا‘ اللہ تعالیٰ ان کو بہت ہی جزائے خیر دے ! کہ انہوں نے اس کام کو جی جان سے زیادہ عزیز رکھ کرایک ہفتہ میں پورا کیا‘ اور اس پر یہ اضافہ کیاکہ حضرت کے رسائل میں جتنا فارسی اشعار تھے‘ ان کا انہوں نے پہلے سے کسی عالمِ دین سے اردو ترجمہ کرا رکھا تھا‘ وہ ہرایک شعر کے ساتھ جوڑدیا۔
اسی طرح حضرت کے تصوف کے وہ مضامین جو حضرت کی حیات میں اشتہارات اور چارٹ کی شکل میں شائع ہوئے تھے اور انہوں نے ان کو ”جواہر بہلویہ“ کے عنوان سے شائع کیا تھا‘ ان کو بھی شامل کرنے کا مشورہ دیا‘ مگر میں نے اس پر یہ شرط رکھی کہ جو مضامین حضرت کی زندگی میں شائع ہوئے تھے‘ اگر ان کی اصل میسر ہوگی تو شامل کروں گا‘ تاکہ ہماری طرف سے تحریف واضافہ کا شبہ نہ ہو‘ چنانچہ ایسے تمام رسائل کو حضرت کے رسالہ ”ضرورة الشریعة والطریقة“ کے زیر عنوان آخر میں شامل کردیا گیا ہے‘ چونکہ حضرت کے رسائل میں ”القول النقی فی حیات النبی“ کے حوالے قدیم تھے اور زیادہ تر اردو ترجمے تھے‘ اس لئے ان کی تخریج ضروری سمجھتے ہوئے اصل عربی عبارتیں اور ان کے تراجم بھی شامل کردیئے گئے۔ اصل مطبوعہ رسائل میں جہاں لفظی اغلاط تھیں‘ ان کی تصحیح کی کوشش کی گئی‘ جہاں قدیم اردو عبارت تھی‘ ان کو جدید اردو میں اس طرح ڈھالا گیا کہ جضرت کی عبارت کا مفہوم نہ بدلے‘ بلکہ حتی الوسع حضرت کی بابرکت عبارت کے الفاظ تھوڑی بہت تقدیم وتاخیر سے برقرار رہیں۔ اسی احتیاط کے پیشِ نظر اس مجموعہ کا نام ”معارف بہلوی“ تجویز ہوا‘ نیز ترتیب وتسہیل میں راقم کے نام کی ضرورت بھی اسی لئے پیش آئی کہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو۔
چونکہ حضرت کے اصل رسائل پہلی طباعت میں مختلف سائزوں میں طبع ہوئے تھے‘ چنانچہ بعض کلاں تھے‘ تو بعض خورد اور بعض جیبی سائز کے‘ اس لئے سب کی ایک کتابت ․․․․․․ میں کمپیوٹر کمپوزنگ کرائی گئی اور تمام رسائل کے ٹائٹل بھی جدید انداز میں کتابت کرائے گئے‘ یوں اس کی تعداد صفحات میں خاصا اضافہ ہوگیا‘ اس لئے ان سب کو چار جلدوں میں تقسیم کرنا پڑا‘ پھر احباب کا خیال ہوا کہ حضرت پر راقم کا وہ مضمون جو ”بزمِ حسین“ میں آچکا ہے‘ اسے بھی بطور مقدمہ کے اس کتاب کا حصہ بننا چاہئے ،تاکہ قاری کے سامنے حضرت کی شخصیت کا مختصر سا تعارف بھی آجائے۔
اس سب کے آخر میں یہ مرحلہ در پیش تھا کہ چونکہ حضرت کے رسائل مختلف عنوانات پر ہیں‘ تو ان سب کی ترتیب کیا ہونا چاہئے؟ اس لئے احباب اور علمأ کے مشورہ سے اس کی ترتیب‘ ایمانِ مفصل کی ترتیب کے تحت رکھی گئی ہے‘ یعنی: توحید‘ رسالت‘ قرآن‘ تفسیر قرآن اور سلوک واحسان وغیرہ ۔ بہرحال موصوف کا یہ کارنامہ لائقِ صد تبریک اور حضرت بہلوی کے خدام ومسترشدین پر بہت بڑا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس خدمت کو بیش از بیش نافع اور مفید بنائے اور مسلمانوں کو اس سے بھر پور نفع حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
عمدة البیان فی تفسیر القرآن المعروف تفسیر المدنی‘ الکبیر:
حصہ اول: شیخ التفسیر حضرت مولانا ابو طاہر محمد اسحاق خان المدنی حفظہ اللہ‘ صفحات:۹۰۴‘ قیمت: درج نہیں‘ پتہ: دار العلوم آزاد کشمیر‘ بلندی ضلع سدھنوتی‘ آزاد کشمیر‘ پاکستان۔
حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی دامت برکاتہم کی علمی شخصیت اہل علم حلقہ میں محتاج تعارف نہیں ہے‘ آپ ایک عرصہ سے دبئی میں قیام پذیر ہیں‘ آپ کا حلقہ درس قرآن بھی کافی شہرت رکھتاہے‘ آپ نے ایک عرصہ سے اپنے آپ کو درس تفسیر قرآن کے لئے وقف کر رکھا تھا‘ آپ اپنی مساعی میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں؟ پیشِ نظر تفسیر عمدة البیان کی جلد اول : جو سورہ فاتحہ سے سورہٴ نساء تک کی تفسیر پر مشتمل ہے․․․ کی شکل میں اس کا خوبصورت نتیجہ اور ثمرہ حاضر خدمت ہے‘ موصوف کا تفسیری انداز بلاشبہ اکابر دیوبند کی طرز پر تحقیقی ہے۔ کتاب کا ایک ایک حرف اور ایک ایک بحث قابلِ قدر اور لائقِ رشک ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کو عوام وخواص کے لئے نفع بخش بنائے اور حضرت مولانا موصوف کی ترقی درجات اور نجات ِ آخرت کا ذریعہ بنائے آمین․ اس تفسیر کے بارہ میں کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ:مشک آنست کہ خود ببوید!
مثنوی آب رواں:
جناب سید شمیم رجز ایم اے: پتہ: اظہار القرآن‘ ۱۹ اردو بازار لاہور۔
قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور اللہ کے کلام کی ترجمانی یا اس کی مراد کی تعیین کرنا نہایت مشکل ہے‘ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ بہت سے اکابر کسی ایک آیت کا ترجمہ بھی اپنی طرف سے نقل نہیں کرتے‘ بلکہ سابقہ بزرگوں کے ترجمہ پر اعتماد کرتے ہوئے اسے نقل فرماتے۔
قرآن کریم کے نثر اور رواں ترجمہ میں احتیاط اور مشکلات کا یہ عالم ہے تو نظم میں اس کو بیان کرنا کس قدر خطرناک اور مشکل ہوگا؟ جبکہ نظم کا دامن نثر سے ویسے ہی تنگ ہوتاہے۔ پیشِ نظر مثنوی آب رواں دراصل قرآن کریم کے منظوم مطالب ومفاہیم کی ترجمانی کی ایک کوشش ہے‘ جس میں جناب سید شمیم صاحب نے اپنے تئیں اس کو بہت خوبصورت انداز میں نبھانے کی کوشش کی ہے‘ مگر بہرحال چونکہ یہ نظم ہے اور نظم کا دامن تنگ ہوتا ہے‘ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ ترجمانی بھی صحیح ہوپائی ہے کہ نہیں؟ کیونکہ قرآن کریم کی بلاغت‘ فصاحت اور حصر واختصاص کے مفہوم کی آدائیگی سے جب نثر قاصر ہے تو نظم اس کو کیونکر نبھا سکے گی؟
بہرحال موصوف کی بہت نیک اور اچھی کوشش ہے اور ان کا یہ ارشاد بجا ہے کہ یہ : ”انتہائی سلیس‘ شیریں اور دل نشین زبان میں قرآن حکیم کے منظوم مطالب ومفاہیم“ کی بہت اچھی کوشش ہے،اس مثنوی کا انداز بالکل ترجمہ قرآن کریم کا ساہے‘ چنانچہ دائیں جانب قرآن کریم کا عربی متن ہے اور اس کی بائیں جانب متعلقہ قرآنی آیت یا متعلقہ حصے کا منظوم ترجمہ ہے۔ امید ہے باذوق قارئین اس کی قدر دانی فرماویں گے۔
ادارہ اظہار القرآن لاہور کی قرآن کریم کی منظوم ترجمانی کے علاوہ اچھی پیشکش یہ بھی ہے کہ اس نے قرآن کریم کو الگ الگ اجزاء میں اس طرح شائع کیا ہے کہ ایک سطر عربی متن کے بعد دوسطریں خالی چھوڑ دیں ہیں اور ہردو صفحات کے بعد مزید دو صفحات بالکل خالی چھوڑ کر عربی سے اردو ترجمہ پڑھنے اور اس کے مفاہیم ومطالب لکھنے کے لئے خالی سطریں کام میں لائیں جائیں‘ اور اس کے تفسیری نوٹ لکھنے کے لئے ان دو صفحات کو کام میں لایا جاسکے۔ ایسے طلبہ جو درس نظامی میں اساتذہ سے قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھتے ہوں یا کسی جگہ تفسیر قرآن کے مختصر تفسیری دورہ میں شریک ہوں‘ ان کو اپنی یاد داشتیں محفوظ کرنے میں بڑی سہولت رہے گی۔
ہمارے سامنے اس سلسلہ کا چوتھا پارہ اس طرح کے خوبصورت انداز میں مطبوعہ موجود ہے جو ہراعتبار سے قابل ِ قدر اور لائقِ تبریک ہے۔ اللہ تعالیٰ ادارہ کی اس خدمت کو قبول فرمائے ،آمین۔
تسہیل شدہ حیاة المسلمین:
تالیف: حکیم الامت حضرت اقدس الشاہ محمد اشرف علی تھانوی‘ وتسہیل وترتیب ِجدید مفتی احسان اللہ شائق‘ استاذ جامعة الرشید احسن آباد کراچی‘ صفحات: ۲۴۶‘ قیمت: درج نہیں‘ ناشر: دار الاشاعت اردو بازار‘ ایم اے جناح روڈ کراچی۔
پیشِ نظر کتاب حیاة المسلمین کے بارہ میں حضرت تھانوی نے فرمایاتھاکہ: مجھ کو اپنی کسی تصنیف کے متعلق یہ خیال نہیں ہے کہ یہ میری سرمایہٴ نجات ہے‘ البتہ حیات المسلمین کے متعلق میرا غالب خیال قلب پر یہ ہے کہ اس سے میری نجات ہو جائے گی‘ اس کومیں اپنی ساری عمر کی کمائی اور ساری عمر کا سرمایہ سمجھتاہوں اور فرمایا: مسلمانوں کی جتنی ذلت اور پریشانی آج کل ہو رہی ہے‘ اس کتاب میں ان سب کا علاج ہے، اس جدید وتسہیل شدہ ایڈیشن میں جہاں اس کی تسہیل کی گئی ہے وہاں اس کی ظاہری ومعنوی خوبیوں کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے ، چنانچہ اس کے پیش لفظ میں ہے کہ تسہیل شدہ کتاب میں درج ذیل امور کا خیال رکھا گیا:
۱- کوشش کی گئی ہے کہ حضرت رحمہ اللہ کے اصل مضامین بعینہ باقی رہیں،۲- بعض مواقع میں فائدے کا اضافہ کیا گیا ہے،۳- پوری کتاب میں نئے عنوانات قائم کیے گئے ہیں، تاکہ استفادہ آسان ہو،۴- بعض بڑے مضامین میں ذیلی عنوانات قائم کر کے ان کو آسان بنایا گیا ہے،۵- مقدمہ کتاب کی بھی تسہیل کی گئی ہے ‘ لیکن اس میں مضمون کا اضافہ نہیں ہوا،البتہ آیات ‘ احادیث اور فارسی اشعار کا اردو میں ترجمہ کردیا گیا ہے‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس محنت کو قبول فرمائے اور امت کے لئے نافع بنائے۔ آمین․
وجوہ التکرار فی القرآن :
تالیف :مفتی ذاکرحسن نعمانی،صفحات :۲۳۴، قیمت: درج نہیں ،پتہ :مکتبہ بیت العلم ٹرسٹ ، جی -۳۰ ، اسٹوڈنٹ بازار ، نزد مقدس مسجد ، اردوبازار ، کراچی۔
اعداء اسلام آئے دن دین اسلام ،قرآن اوراحادیث کے بارے میں (نعوذباللہ) لوگوں کے ذہنوں میں جہاں اور شکوک وشبہات ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں وہیں ایک بودا سا اشکال یہ بھی کرتے ہیں کہ اس قرآن میں حروف ، الفاظ ،جملے، امثال ، قصص اور مضامین کا تکرار ہے ،حالانکہ یہ تکرار برائے تکرار نہیں ،بلکہ علم فصاحت وبلاغت میں رسوخ رکھنے والے علماء نے تکرارکے بہت سارے فوائد بیان کیے ہیں اورپھر جب قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت عربی ادب کی اس بلندچوٹی پر ہے جس کو سرکرنے سے آج کے ادیب بھی عاجز ہیں تو پھر یہ صرف اعتراض برائے اعتراض ہے اوراس کی کوئی حقیقت نہیں ، حضرات مفسرین رحمہم اللہ نے اپنی اپنی تفسیروں میں قرآن کریم میں آمدہ تکرار کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں،اس موضوع پر عربی زبان میں کافی کام ہواہے لیکن اردوکا دامن ابھی تک اس موضوع سے تشنہ تھا ، جامعہ عثمانیہ پشاور کے استاذاورجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی کے فاضل مفتی ذاکر حسن نعمانی نے تقریبا چھبیس تفاسیر کی مددسے اپنی بساط کے مطابق اردو میں یہ علمی کارنامہ انجام دیا ،تفسیر اور علوم قرآنی سے شغف رکھنے والوں کے لیے اس موضوع پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہے، موٴلف نے کتاب میں حوالہ جات کااہتمام کیا ہے ،البتہ کتاب چونکہ اردو میں ہے اس لیے کتاب کا نام بھی اردو میں ہی ہوتا تو زیادہ مناسب رہتا ۔
تذکرہ وسوانح حضرت مولانا سید اسعد مدنی:
مولانا عبد القیوم حقانی‘ صفحات: ۵۱۲‘ قیمت: درج نہیں‘ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابو ہریرہ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد نوشہرہ۔
جیساکہ نام سے ظاہر ہے پیشِ نظر کتاب فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کی پر عزم زندگی‘ لازوال جد وجہد، قومی وملی خدمات‘ قابل تقلید کارناموں‘ لائقِ تحسین کردار‘ سیرت واعمال کے ہمہ جہت پہلوؤں پر مشتمل ہے اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہیہ مجموعہ فدائے ملت کے حسین تذکرہ‘ دل چسپ حکایات‘ واقعات اور سیرت وسوانح پر مشتمل حسین گلدستہ ہے۔
قبر کی راحت والم کا تصور‘ ایک شدید غلط فہمی کا ازالہ:
مفتی محمد اسماعیل طورو‘ صفحات: ۱۱۶‘ قیمت: درج نہیں‘ پتہ: دار الافتاء جامعہ اسلامیہ صدر کامران مارکیٹ راولپنڈی۔
یہ فتنوں کا دور ہے‘ آئے دن نئے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں‘ وہ مسائل جو قرآن وحدیث‘ اہلِ حق کے اجماع واتفاق سے ثابت شدہ تھے ان میں شک وشبہ پیداکرنا اور جمہور اہلِ علم کے خلاف رائے قائم کرکے عوام کو گمراہ کرنا آج کل ایک فیشن بن چکا ہے، عذابِ قبر حق ہے‘ اس پر ایمان لانا اور اسے تسلیم کرنا واجب ہے‘ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے‘ البتہ جو لوگ عقل پرست اور ملحدین وفلاسفہ کے پیروکار ہیں، وہ عذابِ قبر کے انکاری ہیں۔ان کی اسی کج روی اور کم فہمی کواس کتاب میں قرآن وحدیث ‘ اجماع اور اہل سنت والجماعت کے تمام مکاتب فکر کے فتاویٰ سے مبرہن کیا گیاہے‘ کتاب لائقِ مطالعہ ہے‘ البتہ عربی عبارات میں لفظی اغلاط ہیں۔امیدہے کہ اگلے ایڈیشن میں ان کا اعادہ نہیں ہوگا۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ