Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

5 - 9
کارو کاری کی رسم اور اسلامی تعلیمات
کارو کاری کی رسم اور اسلامی تعلیمات

کارو کاری کا تعارف
کارو کاری یا غیرت کے نام پر قتل کرنے کا دستور بہت قدیم ہے۔ مذکورہ نام بدکاری یا زناکاری کے مترادف ہیں اورنام مختلف علاقوں میں بولی جانے والے زبانوں کے مطابق وضع کئے گئے ہیں‘ مثلاً بلوچستان میں اسے سیاہ کاری کہا جاتاہے‘ جس کا معنی ہے‘ بدکاری‘ پاپی‘ گنہگار‘ مجرم۔ سندھ میں اسے کارو کاری کہا جاتاہے‘ پنجاب میں کالا کالی اور سرحد میں طورطورہ کے نام سے مشہور ہے۔ کالے رنگ کے مفہوم کی حامل یہ اصطلاحات زناکاری اور اس کے مرتکب ٹھہرائے گئے افراد سے وابستہ سماجی رسوائی کا مظہر ہے۔(۱)
پاکستان میں جب کوئی کسی مرد اورعورت کی جان لے کر یہ دعویٰ کرتاہے کہ اس نے یہ قتل اس بناء پر کیا ہے کہ مقتول مرد اور عورت جنسی بدفعلی کے مرتکب ہوئے ہیں تو پھراس قتل کو عام قتل نہیں گردانا جاتا‘ بلکہ ”غیرت کے نام پر قتل“ کہا جاتاہے‘ جس کو انگریزی میں (Honour Killing) کہتے ہیں۔ ملزمہ زانی عورت اور بعض اوقات اس کے شریک جرم ملزم مرد کو قتل کرنے کا مقصد‘ رسوائی مٹانے اور عزت وآبرو برقرار رکھنے کے علاوہ مرد اپنے دیرینہ جھگڑے مٹانے ‘ زمین وزر کے حصول‘ قرض ادا کرنے کی ذمہ داری سے گلو خلاصی کرانے‘ دوسری بیوی کے حصول‘ کسی ناپسندیدہ عورت سے چھٹکاراپانے یا اسی طرح کے اور بہت سے مقاصد کے حصول کے لئے بھی کسی مرد اور عورت پر کارو کاری کا لیبل لگا کر انہیں قتل کردیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کاروکاری‘ سیاہ کاری یا غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے اور اخبارات میں ان کی بہت زیادہ تشہیر کی گئی‘ تاہم زیادہ رپورٹنگ نہ تو اس کی ترجمانی کرپاتی ہے اور نہ اس کی وجوہات
․ #لیکچرر شعبہٴ اسلامیات گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ
ونتائج کی نوعیت کے متعلق آگاہ کرتی ہے۔اگر خدانخواستہ اس رسم کا شکار بننے والے مرد اور عورت کا تعلق شہر کے اعلیٰ طبقے سے ہو‘ تو اس کی تشہیر سنسنی خیز ہونے کے علاوہ چٹخارے دار اور فحش بھی ہوتی ہے‘ لیکن جب کچھ گمنام کسی دور دراز کے دیہات میں قتل کردئے جاتے ہیں تو اس جرم کے بارے میں صرف دو انچ کی رپورٹ شائع ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں طرز بیان حقیقت سے اتنا دور ہوتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کا ہماری زندگیوں سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ (۲) بہرحال مذکورہ بالا اصطلاحات کسی مرد اورعورت پر اس وقت لاگو کی جاتی ہیں، جب وہ زنا کاری کے مرتکب پائے گئے ہوں یا ان پر زنا کاری کا شبہ ہو۔ بعد میں انہی اصطلاحات کے تحت جب انہیں سزا کے طور پر قتل کردیا جائے‘ تو اسے محض قتل نہیں بلکہ غیرت کے نام پر قتل کا نام دیاجاتاہے۔
کارو کاری کے مرتکب مرد وعورت کے متعلق اسلامی تعلیمات
بغیر نکاح کے کسی مرد کا عورت کے ساتھ یا عورت کا مرد کے ساتھ مباشرت کرنا زنا ہے۔ قرآن نے مرد وعورت دونوں کو زنا کرنے سے منع فرمایاہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ولاتقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشة وساء سبیلا“۔(بنی اسرائیل:۳۲)
ترجمہ:․․․”اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے“۔
قرآن وحدیث میں زنا کو نہ صرف بے حیائی اور بری راہ سے تعبیر کیا گیاہے‘ بلکہ اس کو حدود میں داخل کرکے کڑی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ شریعت ایک طرف حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جو کسی اور جرم میں نہیں دی جاتی‘ اور دوسری طرف فیصلہ دیتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے‘ ورنہ اس پر ۸۰ کوڑے برسا ؤ‘ تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلاثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔
بالفرض الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بدکاری کرتے دیکھ بھی لیا ہو‘ تب بھی اس کو خاموش رہنا چاہئے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہئے تاکہ گندگی جہاں ہے وہیں پڑی رہے اور پھیلے نہیں۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہوں‘ تو معاشرے میں بے ہودگی کے چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزموں کا جرم ثابت کرکے انہیں سزا دلوائے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بلاثبوت وگواہی کے صرف کارو کاری کا الزام عائد کرکے مرد وعورت کو قتل کردیا جاتاہے‘ اس طرز عمل کو رسم ورواج کا حصہ قرار دینے کی دلیل دی جاتی ہے اور یہ طرز عمل اپناتے ہوئے ملوث افراد نہ صرف اسلامی حدودسے باہر نکل جاتے ہیں‘ بلکہ انسانی حقوق کو بھی پامال کرتے ہیں۔
کارو کاری یا بالفاظ دیگر زنا کاری کا عام مفہوم‘ جس سے ہرشخص واقف ہے‘ یہ ہے کہ مرد اور عورت رشتہ زن وشوہر کے بغیر باہم مباشرت کا ارتکاب کریں۔ اس فعل کا اخلاقاً برا یا مذہباً گناہ، معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہوناتو ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں‘ اور اس سے سوائے ان لوگوں کے‘ جنہوں نے اپنی عقل کو نفس پرستی کے تابع کردیاہے‘ کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔ اس عالمگیر اتفاق رائے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت زنا کی حرمت کاخود تقاضا کرتی ہے۔
زنا محض اور زنا بہ زنِ غیر میں فرق
زنا کی حرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم یعنی قانونا مستوجب سزا ہونے کا مسئلہ ہے‘ اوریہ وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب وقوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ انسانی فطرت سے قریب ترین جو معاشرے رہے ہیں‘ انہوں نے ہمیشہ زنا یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کو بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لئے سخت سزائیں رکھی ہیں‘ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدن خراب کرتا گیا‘یہ رویہ نرم ہوتا چلا گیا‘ اس معاملے میں اولین تساہل‘ جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا‘ یہ تھا کہ محض زنا (Fornication) اور زنا بہ زن غیر (Adultery) میں فرق کرکے اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی اور صرف موخر الذکر کو جرم مستوجب سزا قرار دیا گیا ۔ محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے ‘ یہ ہے کہ کوئی مرد خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ‘ کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں‘ بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیاہے۔ عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے‘ قطع نظر اس کے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اسلام کے سوا دیگر تمام قوانین میں زنا بہ زن غیر ہی اصلی اور بڑا جرم ہے‘ یعنی یہ کہ کوئی شخص خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ‘ کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو۔ اس فعل کے مستوجب سزاہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے‘ بلکہ یہ تھی کہ دونوں نے مل کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کردیاہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا پڑے جو اس کا نہیں ہے‘ گویا زنا نہیں‘ بلکہ اختلاط نسب کا خطرہ اصل جرم ٹھہرا۔ (۳)
لیکن اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جرم مستوجب سزا قرار دیتاہے‘ اور شادی شدہ ہوکر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتاہے‘ لیکن اس بناء پرنہیں کہ مجرم نے کسی سے عہد شکنی کی یا کسی دوسرے کی آبرو پر دست درازی کی‘ بلکہ اس بناء پر کہ اس نے اللہ کا حکم توڑا‘ اور اس کے پاس اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ایک جائز ذریعہ موجود تھا ‘ پھر بھی اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا۔
زنا محض کی سزا
زنا محض یا غیر شادی شدہ جوڑے کے زنا کی سزا کے متعلق ارشاد خداوندی ہے:
”الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منہا مائة جلدة ولاتأخذکم بہما رافة فی دین اللہ ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم والآخر ولیشہد عذابہما طائفة من المؤمنین“۔ (نور:۲)
ترجمہ:․․․”زانیہ عورت اور زانی مرد‘ دونوں میں سے ہرایک کو سوکوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے حوالے میں دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے“۔
اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے‘ وہ دراصل محض زنا کی سزا ہے۔ یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہاں اس زنا کی سزا بیان کررہا ہے جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں‘چنانچہ سورہ نساء میں ارشاد ہے :
”والتی یأتین الفاحشة من نسائکم فاستشہدوا علیہن اربعة منکم فان شہدوا فامسکوہن فی البیوت حتی یتوفہن الموت او یجعل اللہ لہن سبیلا“۔ (النساء:۱۵)
ترجمہ:․․․”اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے‘ پھر اگر وہ گواہی دیدیں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ اٹھالے ان کو موت یا مقرر کردے اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راہ“۔
اس آیت میں ایک تو ثبوت زنا کا خاص طریقہ چار مردوں کی شہادت کے ساتھ ہونا بیان فرمایاہے‘ دوسرے زنا کی سزا عورت کے لئے گھر میں قید رکھنا اور دونوں کے لئے ایذا پہنچانا مذکور ہے اور ساتھ‘ اس میں یہ بھی بیان کردیا گیاہے کہ زناکی سزا کا یہ حکم آخری نہیں‘ بلکہ آئندہ مزید کچھ حکم آنے والا ہے۔ جب سورہ نور کی آیت مذکور نازل ہوئی‘ تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ سورہ نساء میں جو وعدہ کیا گیا تھا :”او یجعل اللہ لہن سبیلا“۔ یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور سبیل بتادے تو سورہ نور کی اس آیت نے وہ سبیل بتلادی یعنی سو کوڑے کی سزا عورت‘ مرد دونوں کے لئے متعین فرمادی۔ اس کے ساتھ ہی ابن عباس نے سوکوڑے مارنے کی سزا کو غیر شادی شدہ مرد وعورت کے لئے مخصوص قرار دیا (۴) اور فرمایا:”یعنی الرجم للثیب والجلد للبکر“ یعنی وہ سبیل اور سزائے زنا کی تعیین یہ ہے کہ شادی شدہ مرد وعورت سے یہ گناہ سرزد ہو تو ان کو سنگ سارکرکے ختم کردیا جائے اور غیر شادی شدہ جوڑے کی سزا سو کوڑے ہے۔
شیخ احمد ملاجیون” تفسیرات احمدیہ“ میں فرماتے ہیں کہ:
”والحکم المذکور فی الآیة وہو الجلد انما ہو لغیر المحصن“۔ (۵)
ترجمہ:․․․”اور حکم مذکور جو آیت (سورہ نور) میں درج ہے‘ جو کوڑے مارنا ہے ‘ وہ غیر شادی شدہ جوڑے کی (سزا) ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں اس کے متعلق حسب ذیل ذکر ہے کہ:
”وان کان غیر محصن فحدہ مائة جلدة ان کان حراً“۔ (۶)
ترجمہ:․․․”اور اگر زنا کرنے والے شادی شدہ نہ ہوں تو ان کی سزا سوکوڑے ہیں‘ بشرطیکہ آزاد ہوں“۔
زنا محض کی سزا کی شرائط
کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے کے لئے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زنا صادر ہوا ہے‘ بلکہ اس کے لئے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہئیں۔
زنا محض یا بالفاظ دیگر غیر شادی شدہ جوڑے کے زنا کرنے کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہوں‘ جیساکہ عالمگیری کی عبارتِ مذکورہ (ان کان حراً) سے واضح ہے‘ اگر ایک مجرم غیر محصن غلام ہو‘ تو ان کی سزا ۵۰ کوڑے ہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ عاقل ہوں اور تیسری شرط یہ ہے کہ بالغ ہوں ،اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو‘ تو وہ حد زنا کا مستحق نہیں ہے۔
زنا بہ زنِ غیر یا زنا بعد احصان کی سزا
یہ امر کہ زنا بہ زن غیر یا زنا احصان کی سزا کیا ہے؟ قرآن مجید نہیں بتاتا‘ بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوا ہے۔ معتبر روایات سے بکثرت ثابت ہے کہ نبی کریم انے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری) بیان فرمائی ہے‘ بلکہ عملاً آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی فرمائی ہے‘ پھر آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور میں بھی یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابہ کرام  اور تابعین میں یہ مسئلہ متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ قرون اولیٰ میں کسی کو اس کے ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان کے بعد تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس کے سنت ثابتہ ہونے پر متفق رہے ہیں‘کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں‘ جن کے ہوتے ہوئے کوئی صاحب علم اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ عین الہدایہ اردو شرح ہدایہ میں اس زنا بہ زن غیر یا زنا بعد احصان کے متعلق مذکور ہے:
”واذا وجب الحد وکان الزانی محصنا رجمہ بالحجارة حتی یموت لانہ علیہ السلام رجم ماعزاً وقد احصن وقال فی الحدیث المعروف وزنا بعد الاحصان وعلی ہذا اجماع الصحابة“۔(۷)
ترجمہ:․․․”جب حد واجب ہوئی اور زنا کرنے والا محصن ہے‘ تو (حاکم) اس کو پتھروں سے سنگسار کرے‘ یہاں تک کہ مرجائے‘ کیونکہ حضور انے ماعز بن مالک کو رجم کیا، دراں حالیکہ وہ محصن تھا اور حدیث معروف میں ہے و زنا بعد الاحصان اوراسی پر صحابہ کا اجماع ہے“۔
ایک دوسری حدیث میں حضور ا نے فرمایا ہے کہ:
”لایحل دم امر ء مسلم الا باحدی ثلث زنا احصان او کفر بعد اسلام او قتل نفس بغیر حق “ (۸)
ترجمہ:․․․”کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں ہے‘ مگریہ کہ تین (باتوں) میں سے کوئی ایک (بات) ہو: وہ احصان کے بعد زنا کرے (یعنی رجم کیا جائے گا) یا اسلام کے بعد کافر (مرتد) ہوجائے (یعنی اگردوبارہ اسلام نہ لائے تو قتل کردیا جائے) یا کسی کو ناحق قتل کرے (یعنی قصاصاً اسے قتل کیا جائے)۔
زنابہ بزن غیر کی سزا کی شرائط
زنا بعد احصان کے بعد سزا دیتے وقت جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے‘ وہ درج ذیل ہیں:
۱:․․․ پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو‘ اس پر سب کا اتفاق ہے‘ کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتاہے کہ غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جائے گی‘ سورہ نساء میں مذکور ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو‘ تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہئے‘ لہذا فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہوگا۔
۲:․․․ دوسری شرط یہ کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو‘یہ شرط بھی متفق علیہ ہے اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بناء پر تمتع کر چکا ہو یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو‘ شادی شدہ قرار نہیں دیا جائے گا یعنی اگر اس سے زنا کا صدور ہو‘ تو اس کو رجم کی نہیں‘ بلکہ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔
۳:․․․ تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو‘ بلکہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ بھی ہوچکی ہو صرف عقد نکاح کسی فرد کو محصن یا عورت کومحصنہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں ان کو رجم کیا جائے‘ اس شرط پر بھی اکثر فقہاء متفق ہیں‘ مگر امام ابوحنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ کرتے ہیں کہ مرد یا عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جبکہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد‘ بالغ اور عاقل ہوں‘ اس مزید شرط سے جو فرق پڑتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہوا ہو جو لونڈی ‘ نابالغ یا مجنون ہو‘ تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستر بھی ہوچکا ہو‘ پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہوگا‘ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے کہ اگر اس کو اپنے نابالغ ‘ مجنون یا غلام شوہر سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو‘ پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔
۴:․․․ چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو‘ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے‘ امام شافعی‘ امام ابو یوسف‘ اور امام احمد اس شرط کو نہیں مانتے‘ ان کے نزدیک ذمی بھی اگر زنا بعد احصان کا مرتکب ہوگا تواسے رجم کیا جائے گا‘ لیکن امام ابوحنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے لئے ہے‘ اس کے دلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگساری جیسی سزا دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مکمل احصان کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آئے‘ احصان کا مطلب ہے اخلاقی قلعہ بندی‘ اور اس کی تکمیل تین حصاروں سے ہوتی ہے۔
۱:․․․لاچار ومجبو رنہ ہو‘ کیونکہ لاچاری ومجبوری گناہ کراسکتی ہے۔
۲:․․․ کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہ ہو۔
۳:․․․ تیسرا احصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہوچکا ہواوراس کے لئے تسکین نفس کا جائز ذریعہ موجود ہو۔
یہ تینوں حصار جب پائے جاتے ہوں‘ تب قلعہ بندی مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بجاطور پرسنگساری کا مستحق قرار پاسکتاہے‘ جس نے ناجائز شہوت رانی کی خاطریہ تین حصار توڑڈالے‘ لیکن جہاں سب سے بڑا حصار یعنی خدا‘ آخرت اور قانونِ خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو‘ وہاں یقیناً قلعہ بندی مکمل نہیں ہے‘ اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنادے۔ (۹)
مراجع ومصادر
۱- رابعہ علی‘ غیرت کا تاریک پہلو‘ مترجم افتخار محمود‘ شرکت گاہ لاہور‘ ص:۱۵‘ ۲۰۰۱ء
۲- ایضا‘ ص:۵
۳- مودودی (ابو الاعلیٰ) تفہیم القرآن‘ ادارہ ترجمان القرآن‘ لاہور ص:۳۲۱‘ ج:۳ ‘ ۱۹۹۸ء
۴- مفتی محمد شفیع‘ معارف القرآن‘ ادارة المعارف‘ کراچی‘ ۱۹۹۶ء‘ ص:۳۴۴‘ ج:۶
۵- شیخ احمد ملاجیون‘ تفسیرات احمدیہ‘ مطبع کریمیہ‘ بمبئی‘ ۱۳۲۷ھ‘ ص:۵۴۱
۶- فتاویٰ عالمگیری (فتاویٰ ہندیہ) مکتبہ ماجدیہ طوغی روڈ کوئٹہ‘ ۱۹۸۳ء ‘ص:۱۴۶‘ج:۲
۷- علامہ مولانا سید امیر علی ‘ عین الہدایہ اردو شرح ہدایہ‘ قانونی کتب خانہ‘ کچہری روڈ لاہور‘ ص:۴۴۶‘ج:۲
۸- الخطیب العمری (امام ولی الدین محمد بن عبد اللہ) مشکوٰة‘ نیشنل بک فاؤنڈیشن‘ اسلام آباد‘ ۱۹۸۵ء‘ ص:۳۰۱ (القصاص)
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: مسئلہ بشریت انبیاء ،علم غیب ومختار کل تفسیر”ضیاء القرآن “ کی روشنی میں 
Flag Counter