Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

2 - 9
غیر مسلموں کا کردارادا کرنے والوں کے ایمان کا حکم
غیر مسلموں کا کردارادا کرنے والوں کے ایمان کا حکم


کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ:
وہ تمام افراد مثلاً مصنف‘ ہدایت کار‘ پیش کار‘ کیمرہ مین‘ اداکار اور نشریاتی ادارے‘ جو اسٹیج‘ ٹی وی اور فلموں میں غیر مسلموں‘ مثلاً: ہندو‘ عیسائی‘ یہودی وغیرہ کا کردار ادا کرتے ہوئے‘ مندروں‘ گرجا گھروں وغیرہ جاکر ان ہی کی طرح عبادت کرتے ہیں‘ بتوں سے مدد مانگتے ہیں‘ کیا یہ سب اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں؟ اور ان سب کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟ ایسی صورت میں کیا ان کی بیویاں اور شوہر ان سے علیحدگی اختیار کریں؟ ان تمام افراد کے بارہ میں جواب سے مطلع کریں ۔
سائل: محمد سلیم موسیٰ قادری، کراچی
الجواب ومنہ الصدق والصواب
واضح رہے کہ غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنا‘ ان کی نقالی کرنا گناہ اور مسلمان کی شان کے خلاف ہے‘ پھر خصوصاً کفار کے مذہبی شعار میں ان کی مشابہت اختیار کرنا یا ان کا کردار ادا کرنا اور اس نوعیت کے دوسرے ایسے امور (جن کی سرحدیں کفر سے ملتی ہیں) کا مرتکب ہونا ضلالت اور کفر کا باعث ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے ‘ حضور ا نے ارشاد فرمایا:
”جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے (وہ کل قیامت کے دن) انہیں میں سے ہوگا“۔ (مشکوٰة:۳۷۵)
لہذا صورت مسئولہ میں نشریاتی اداروں‘ اسٹیج‘ ٹی وی اور فلموں میں جو کچھ نشر ہوتا ہے‘ اس کے بے حیائی‘ منکرات اور دوسرے مفاسد پر مشتمل ہونے کے علاوہ ایسی چیزیں نشر ہوتی ہیں جو موجب کفر ہیں‘ اور اس میں جو لوگ حصہ لیتے ہیں‘ مثلاً: مصنف‘ ہدایت کار‘ اداکار وغیرہ اورپھر غیر مسلموں کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کی طرح عبادت کرتے ہیں‘ مندروں اور گرجا گھروں‘ کلیساؤں میں جاکر بتوں اور صلیب وغیرہ کے سامنے جھکتے ہیں‘ اپنے گلے میں صلیب لٹکاتے ہیں‘ ہندؤں کی طرح مانگ بھرتے ہیں ‘ غیر اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کفار کے دوسرے مذہبی شعار کو بخوشی ادا کرتے ہیں‘ ان سب افعال کے اداکرنے والے اور اس کی رہنمائی کرنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔
نیز امت مسلمہ کا قرناً بعد قرن اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ باری تعالی کے علاوہ ایسی چیزوں کی عبادت‘ پرستش اور ان کوسجدہ کرنا(چاہئے تعظیماً کیوں نہ ہو) جو کفار کے شعار اور خاص کفر کی علامات ہیں‘ جیسے بت‘ چاند‘ سورج اور صلیب وغیرہ باجماعِ امت کفر وشرک ہے‘ اس کا کرنے والا کافر ومرتد ہے‘ اگرچہ اس کا مرتکب عبادت کی نیت نہ رکھتا ہو‘ کیونکہ شریعت کامدار ظاہر عمل پر ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ عند اللہ سبحانہ تعالی وہ شخص مومن ہو‘ مگر دنیوی احکام کے لحاظ سے اس کا مرتکب کافر شمار ہوگا‘ جیساکہ علامہ ابن حجر ہیثمی اپنی کتاب ”الاعلام“ میں فرماتے ہیں کہ:
” جو حضور اکی تعلیمات کو تسلیم کرے اور اس پر ایمان لائے اور ساتھ ساتھ آفتاب (سورج) کو سجدہ کرے‘ تو وہ شخص بالاجماع مسلمان نہیں‘ اگر اس کا دل ایمان سے بھر پور ہے تو دیانةً کافر نہیں کہا جائے گا‘ لیکن قضاءً اس کو کافر کہیں گے‘ اور تمام معاملات اس کے ساتھ وہی کئے جائیں گے جو کفار کے ساتھ کئے جاتے ہیں“۔
(الاعلام بقواطع الاسلام‘ ج:۲‘ص:۳۳)
نیز فرمایا کہ:” جو شخص کوئی ایسا کام کرے جو سوائے کافرکے کسی دوسرے سے صادر نہیں ہوسکتا تو وہ شخص کافر کہا جائے گا‘ اگرچہ وہ اعلانیہ اپنے اسلام کو ظاہر کررہا ہو‘ جیسے یہودیوں کے کنیسہ میں یہود کے ساتھ ان کے طریقہ پر زنار وغیرہ پہن کر جانا وغیرہ“
(الزواجر‘ ج:۱‘ ص:۲۴)
الغرض کفار کے مذہبی شعارکو اختیار کرنا‘ ان کی طرح عبادت کرنا‘ غیر اللہ یعنی بتوں وغیرہ کو سجدہ کرنا‘ خواہ عبادت کی نیت ہو یانہ ہو‘ بالاجماع یہ سب اعمال کفر وشرک میں داخل ہیں‘ اس کے مرتکبین اور رہنما کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘ ان پر لازم ہے کہ ان چیزوں سے توبہ کرکے تجدیدِ ایمان اورتجدیدِ نکاح کریں‘ ورنہ ان پر ان کی بیویاں حرام ہوں گی اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا شرعاً درست نہ ہوگا۔
شرح العقائد‘ ص:۱۴۸ میں ہے:
”ولانزاع فی ان من المعاصی ما جعلہ الشارع امارة للتکذیب‘ وعلم کونہ ذلک بالادلة الشرعیة کسجود الصنم والقاء المصحف فی القاذورات والتلفظ بالفاظ الکفر․․․الخ“۔
نبراس‘ ص:۲۴۸ میں ہے:
”کما لوفرضنا ان احدًا صدق بجمیع ماجاء بہ النبی ا واقربہ وعمل بہ ای صار جامعاً لارکان الایمان باجماع اہل القبلة ومع ذلک شدا الزنار بالاختیار یجعلہ کافراً‘ ای: نحکم بکفرہ ظاہراً وباطناً وہو مختار الشارع․․․“ الخ․
حافظ ابن حجر نے الاعلام بقوامع الاسلام ج:۲‘ص:۳۳پر لکھا ہے :
”ومنہا ان موجبات الارتداد کل قول او فعل صدر عن تعمد او استہزاء بالدین صریح‘ کسجود الصنم والشمس سواء کان فی دار الحرب او فی دار الاسلام‘ وفی المواقف وشرحہا من صدق بما جاء بہ النبیا ومع ذلک سجد للشمس کان غیر مومن بالاجماع․․․․الخ“․
در مختار‘ج:۴‘ص:۲۲۲ میں ہے:
”فی الفتح: من ہزل بلفظ کفر ارتد․․․․الخ وقال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:
”ای تکلم بہ باختیار غیر قاصد معناہ وہذا لاینافی بامر من ان الایمان ہو التصدیق فقط او مع الاقرار‘ لان التصدیق وان کان موجوداً حقیقة‘ لکنہ زائل حکما‘ لان الشارع جعل بعض المعاصی امارة علی عدم وجود‘ کالہزل المذکور‘ وکما لو سجد لصنم․․ فانہ یکفر الخ“۔
”(وقولہ والطوع) ای الاختیار‘ احتراز عن الاکراہ‘ ودخل فیہ الہازل کما مر‘ لانہ یعد مستخفا لتعمدہ التلفظ بہ‘ وان لم یقصد معناہ۔ وفی البحر عن الجامع الصغیر: اذا اطلق الرجل کلمة الکفر عمداً لکنہ لم یعتقد الکفر․․ قال بعضہم یکفر وہو الصحیح عندی لانہ استخف بہ منہ۔ الخ۔ ثم قال فی البحر: والحاصل ان من تکلم بکلمة الکفر ہازلاً او لاعباً کفر عند الکل ولا اعتبار باعتقادہ کما صرح بہ فی الخانیة “ ۔ (ج:۴‘ص:۲۲۴)
علامہ قاضی خان لکھتے ہیں:
”اذا لقن الرجل رجلاً کلمة الکفر فانہ یصیر کافراً‘ فان کان علی وجہ اللعب‘ وقال الفقیہ ابو اللیث: اذا علم الرجل رجلاً کلمة الکفر یصیر کافراً اذا علمہ‘ وامرہ بالارتداد‘ وکذا فمن علم المرأة کلمة الکفر انما یصیر ہو کافراً اذا امرہا بالارتداد‘ لانہ رضی بکفر المامور‘ ومن رضی بکفر الغیر یصیر کافراً․․․ والرضا بالکفر کفر۔ رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ علی الایمان یکون کافراً‘ ولایکون عند اللہ مومن․․․ الخ“ ۔ (کتاب السیرج:۳‘ ص:۵۷۲)
مزید ج:۳‘ص:۵۷۷پر لکھتے ہیں:
”واما الہازل والمستہزی اذا تکلم بالکفر استخفافا ومزاحا
واستہزاء‘ یکون کفراً عند الکل‘ وان کان اعتقادہ خلاف ذلک․․․ لان الہازل یقول قصداً‘ الا انہ لایرید حکمہ۔ الخ․․․ مسلم وضع علی راسہ قلنسوة المجوس قال العلامة ابوبکر محمد بن الفضل لایکفر بذلک‘ قال وہذا الجواب انما یصح اذا یفعل ذلک ضرورةً ولایعتقد انہ یصیر بہ کافراً فان فعل ذلک وظن انہ یصیر بہ کافراً ویعتقد بہ الاستخفاف فی الدین فانہ یصیر کافراً “۔
فتاویٰ ہندیہ ‘ج:۲‘ص:۲۷۵ میں ہے:
”یکفر بوضع قلنسوة المجوسی علی راسہ وہو الصحیح الا لضرورة لدفع الحر والبرد وبشد الزنار فی وسطہ الخ “(ج:۲‘ص:۲۷۵)
خلاصہ یہ کہ جو لوگ ایسے کاموں میں براہ راست شریک ہیں‘ ان کے لئے توبہ اور استغفار کے ساتھ ساتھ تجدید ایمان اورتجدید نکاح بھی ضروری ہے اور جو لوگ براہ راست اس میں شریک نہیں‘ ان کے لئے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضرورت نہیں‘ البتہ ہرلحاظ سے ایسے کاموں میں شرکت سے پرہیز کرنا چاہئے‘ ورنہ آخرت میں پریشانی ہوگی۔
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری محمد انعام الحق
کتبہ
محمد شاہد
دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ
علامہ یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: انعاماتِ الٰہیہ کی بارش
Flag Counter