Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جون 2010

ہ رسالہ

5 - 13
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(June 3, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

ہمارے بزرگ نک چڑھے نہ تھے

فرمایا کہ ہمارے بزرگ جتنے تھے وہ نک چڑھے نہ تھے ظاہر میں سب سے ہنستے بولتے تھے ظرافت بھی کرتے تھے مگر دل میں آتش عشق کاایک شعلہ بھڑکا ہوا تھا۔ جیسا نواب شیفتہ نے لکھا ہے ؎

تو اے افسردہ دل زاہد یکے دربزم رنداں شو

کہ بینی خندہ برلبہا و آتش پارہ دردلہا

میں نے اس کی ایک مثال تجویز کی ہے۔ ہمارے قصبات میں جب توا چولہے پر گرم ہوتا ہے تو عورتیں یوں کہتی ہیں توا ہنس رہا ہے مگر وہ ایسا ہنس رہا ہے کہ اس کے چھیڑنے سے دوسرے رونے لگیں۔

ہمارے اکابر کا معمول کسی کی تعریف سامنے کرنے کا نہیں ہے

فرمایا کہ ہمارے اکابر کا معمول کسی کی تعریف سامنے کرنے کا نہیں ہے۔ حضرت مولانا گنگوہیؒ نے جو کچھ بھی کلمات تحسین میری نسبت فرمائے ہیں اکثر غیب ہی میں فرمائے ہیں بعض احباب کے ذریعہ سے پتہ چل گیا۔ سامنے فرمانا کچھ یاد نہیں آتا۔

مثنوی شریف کی برکت

فرمایا کہایک فلسفی نے خط میں لکھا ہے کہ میں بالکل دہری ہوگیا تھا۔ مگر مثنوی کے مطالعہ سے مومن ہوگیا۔ اس کے بعد ہمارے حضرت نے فرمایا کہ جن کے اندر شورش نہیں ہوتی میں ان کے مطالعہ کے لیے دیوان حافظ اور مثنوی تجویز کرتا ہوں۔ دیوانوں کے کلام سے بھی دیوانگی پیدا ہوتی ہے۔ مولوی صاحب صوفیہ کے معتقد نہ تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم مثنوی کے درس میں بیٹھ جایا کرو۔ اس کے بعد ان پر ایک حالت طاری ہوئی۔ اکثر ذوق و شوق میں مثنوی کے شعر پڑھتے ہیں اور مولانا رومی کے بیحد معتقد ہیں۔

حق میں جذب اور مقبولیت ہوتی ہے

فرمایا کہ لکھنؤ میں اہل سنت تعزیہ شیعہ کے مقابلہ کے لیے بناتے ہیں اور مرثیے بھی مقابلہ کے لیے پڑھتے ہیں۔ ایسے ہی موقعہ کے لیے ایک شعر بنایا گیا تھا جو جھنڈوں کے ساتھ پڑھا جاتا تھا ؎

سنّیم من نعرۂ اﷲ اکبر می زنم

دم زبوبکر و عمر عثمان و حیدر میزنم

یہ شعر ایسا مقبول ہوا کہ شیعہ اور ہندوئوں کے بچوں تک نے حفظ کرلیا اور جابجا راستوں میں پڑھتے پھرتے تھے۔ شیعوں نے اپنے بچوں کو دھمکایا کہ کیا تم سنی ہو جو اس شعر کو پڑھتے ہو۔ حق میں جذب اور مقبولیت ہوتی ہے۔ اس کے متعلق ایک واقعہ یاد آیا کہ لکھنو میں ایک انگریز بیرسٹر تھا وہ سنیوں کے مقدمے لیتا تھا ایک بار شیعہ سنیوں کے مقابلہ میں ایک مقدمہ اس کے پاس لے گئے تو وہ کہتا ہے کہ تم جانتے نہیں ہم سنی ہیں۔ وہ شاید یہ سمجھتا ہو کہ سنی اہل حق ہیں ان کے مقدمہ میں کامیابی کی امید ہے جس سے میری شہرت ہوگی اور اہل باطل کے مقدمہ میں ناکامی ہوگی جس سے میری بدنامی ہوگی۔

حضرت تھانویؒ کا تعویذ دینے کا مذاق

فرمایا کہ ہمارے حضرت حاجی صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ جو شخص تم سے تعویذ مانگنے آیا کرے تم اسے دے دیا کرو۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو کچھ آتا ہی نہیں۔ فرمایا جو سمجھ میں آیا کرے لکھ دیا کرو۔ بس اس دن سے جو سمجھ میں آتا ہے لکھ دیتا ہوں۔ چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے کھیت میں چوہے نہ لگنے کا تعویذ مانگا میں نے اس سے کہا کہ پانچ کلہیاں لے آئو میں نے ان پانچوں میں یہ آیت لکھ کر رکھ دی وقال الذین کفروا لرسلہم لنخرجنکم من ارضنا او لتعودن فی ملتنا فاوحیٰ الیہم ربہم لنہلکن الظلمین ولنسکننکم الارض من بعدہم اور اس سے یہ کہہ دیا کہ چار تو چاروں کونوں پر گاڑ دینا اور ایک بیچ کھیت میں ذرا اونچی جگہ گاڑ دینا جہاں پائوں نہ پڑے۔ بس اسی دن سے چوہا لگنا موقوف ہوگیا۔ یہ حضرت حاجی صاحبؒ کی اجازت کی برکت ہے۔

عربی پڑھنے والوں کو ذلیل نہیں سمجھنا چاہیے

فرمایا کہ لوگ عربی پڑھنے والوں کو ذلیل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ عمر ضائع کرتے ہیں اس سے کوئی دنیاوی ترقی نہیں ہوتی میں کہتا ہوں کہ انگریزی والے زیادہ مارے مارے پھرتے ہیں ہم نے بہت سے بی اے والوں تک کو دیکھا ہے کہ کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ بلکہ یہ نوبت عربی پڑھنے والوں کی نہیں آتی۔ دیکھئے سب سے کم تعلیم اذان کا سیکھ لینا ہے اگر وہی آجاوے تو پھر روٹیوں کی کمی نہیں روٹیاں دونوں وقت فراغت سے مل جاتی ہیں۔ ایک انگریزی طالبعلم بی اے کے امتحان میں فیل ہوگیا تو شرم کی وجہ سے ریل کی پٹری پر لیٹ گیا (سب ترقی کا خاتمہ ہوگیا) لوگ شکایت کرتے ہیں کہ عربی والوں کو انگریزی والے ذلیل سمجھتے ہیں میں کہتا ہوں تم بھی ان کو ذلیل سمجھنے لگو۔ یہ نوح علیہ السلام کی سنت ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا قال ان تسخروا منا فانا نسخر منکم کما تسخرون۔ میرے برادرزادہ کی بچپن میں ریل میں ایک انگریزی دان سے جو پولیس کے اعلیٰ افسر تھے ملاقات ہوئی اس زمانہ میں یہ عربی پڑھتے تھے اور سرمنڈا ہوا تھا کیونکہ میرے یہاں کا معمول ہے کہ امردوں کے سرمنڈوادیا کرتا ہوں انہوں نے ان سے کہا کہ کیوں جی یہ کیا بات ہے کہ جتنے عربی والے دیکھے سر منڈاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیوں جی یہ کیا بات ہے جتنے انگریزی والے ہیں سب داڑھی منڈاتے ہیں۔ بس یہ جواب سن کر چپکے ہوگئے اور ہمراہی ملازم سے تحقیق کیا کہ یہ کس کا لڑکا ہے۔ لوگوں نے بتلادیا تو کہا جب ہی اس نے اس قدر تیز جواب دیا۔ اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ ایک صاحب جو بڑے رتبہ کے اور بڑے تجربہ کار ہیں انگریزی میں بی اے بھی ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ میں اس نوکری سے اتنا تنگ ہوں کہ اگر عیالدار نہ ہوتا اور مجھے (امامت تو نہں کیونکہ اس میں مسائل کی ضرورت ہے) موذنی مل جاتی تو اس کو قبول کرلیتا۔ چار پانچ روپیہ ماہوار بھی ملتا اور کھانے کو بھی ملتا اور فراغت سے اﷲ اﷲ کرتا میں کیا کروں بیوی بچوں کا ساتھ ہے ان کا نفقہ بھی میرے ذمے ضروری ہے۔

شرعی احکام کی حکمتیں پوچھنا مناسب نہیں

شرعی احکام بے چوں و چراں ماننا چاہیے

فرمایا کہ کیرانہ میں ایک وکیل نے مجھ سے دریافت کیا کہ نماز پانچ وقت کی کیوں فرض ہوئی اس کی کیا وجہ ہے ؟ میں نے کہا تمہاری ناک جو منہ پر بنی ہے اس کی کیا وجہ ہے انہوں نے کہا کہ اگر گُدّی پر ہوتی تو بری معلوم ہوتی میں نے کہا کہ ہرگز نہیں اگر سب کے گدی پر ہوتی تو بری بھی معلوم نہ ہوتی۔ بس اس کے بعد چپکے ہی تو ہوگئے۔

غصہ کا ایک علاج

فرمایا کہ اگر کسی کو کسی پر غصہ ہوئے تو چاہیے کہ اس کے سامنے سے ہٹ جائے یا اسے ہٹادے اور ٹھنڈا پانی پی لیوے۔ اور اگر زیادہ غصہ ہو تو یہ سوچ لے کہ اﷲ تعالیٰ کے بھی ہمارے اوپر حقوق ہیں اور ہم سے غلطی ہوتی رہتی ہے۔ جب وہ ہمیں معاف کرتے رہتے ہیں تو چاہیے کہ ہم بھی اس کی غلطی سے درگذر کریں۔ ورنہ اگر حق تعالیٰ بھی ہم سے انتقام لینے لگیں تو ہمارا کیا حال ہو۔

ہدیہ کب لینا جائز ہے

فرمایا کہ امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو ہدیہ بزرگ سمجھ کر دے اور وہ اتنی بزرگی نہ رکھتا ہو جس کا وہ معتقد ہو تو اس کا لینا جائز نہیں ہے۔ مولوی محمد رشید صاحب کانپوری نے اس پر عرض کیا کہ اس پر تو کسی کو لینا جائز ہی نہ ہونا چاہیے کیونکہ اپنے کو کون بزرگ سمجھے گا اور اگر ایسا سمجھے گا تو وہ بزرگ نہ ہوگا ان کے جواب میں فرمایا کہ خود اپنا معتقد کون ہوگا۔ مراد امام کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس نے یہ کوشش نہ کی ہو کہ مجھ کو کوئی بزرگ سمجھے۔

رزق کا معاملہ عجیب ہے

فرمایا کہ رزق کے بارے میں مشیت کے ایسے کھلے ہوئے واقعات ہیں کہ اس سے عقلاء بھی انکار نہیں کرسکتے۔ بمبئی میں بڑے بڑے سیٹھ ہیں کہ وہ نام لکھنا بھی نہیں جانتے مگر بڑے بڑے بی اے ان کے یہاں نوکر ہیں۔ یہ رزق کا معاملہ عجیب ہے۔ (جامع کہتا ہے قال الشیخ الشیرازی ؎

اگر روزی بدانش در فزودے

زناداں تنگ تر روزی نبودے

بناداں آنچناں روزی رساند

کہ دانا اندراں حیراں بماند)

ایک شخص کو میں نے راندیر میں دیکھا ہے کہ اس کی کوٹھی میں لاکھوں روپے کا فرنیچر ہے۔ جب ہم تفریح کو جانے لگے تو موٹر میں ان کا بیٹھنا میرے ساتھ تجویز ہوا مجھے ان کی ظاہری حیثیت سے طبعی کراہت ہوئی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مالک مکان یہی ہیں۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter