Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جون 2010

ہ رسالہ

4 - 13
لطائف و معارف سورہ فاتحہ
ایف جے،وائی(June 3, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

تلاوت سے پہلے تسمیہ کی حکمت

اس کے بعد بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ہے قرآن پاک کی ابتداء ان تین ناموں سے ہوئی ہے، اﷲ اسمِ ذات ہے جو تمام صفات کا حامل ہے اور اسمِ اعظم ہے اور یہ نام سوائے اﷲ کے کسی دوسرے کا نہیں ہوسکتا اور رحمٰن و رحیم اس کی صفت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے تسمیہ میں اپنا تعارف کراکے بندوں کو امید دلائی ہے کہ جس مالک کا تم نام لے رہے ہو وہ بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے۔

لطائف و معارف سورۂ فاتحہ

الحمد ﷲ کے معنیٰ ہیں کہ سب تعریفیں اﷲ کے لیے خاص ہیں میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھے تفسیر پڑھاتے ہوئے فرمایا تھا کہ تعریف کی چار قسمیں ہیں (ا) بندہ اﷲ کی تعریف کرے۔(۲) اﷲ بندہ کی تعریف کرے۔ (۳) بندہ بندے کی تعریف کرے۔(۴) اﷲ خود اپنی تعریف کرے اور یہ چاروں قسمیں اﷲ کے لیے خاص ہیں، کوئی مخلوق اس لائق نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے، اگر کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ دراصل اﷲ ہی کی تعریف ہے کیونکہ بندہ میں اگر کوئی خوبی ہے بھی تو وہ اﷲ ہی کی عطا ہے، اگر کسی بھیک منگے کو بھیک کے پیالے میں کوئی ایک کروڑ کا موتی دے دے تو اس میں بھیک منگے کا کیا کمال ہے، یہ تو دینے والے کاکمال ہے۔ ہمارے پاس جو نعمتیں اور خوبیاں ہیں یہ سب اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بھیک ہے، اﷲ تعالیٰ کی عطا ہے ہمارا کمال نہیں۔ اس لیے تعریف کے قابل صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے، سب کمالات اﷲ کے لائق ہیں، اﷲ پاک نے ہمیں انتم الفقراء فرمایا ہے ہم تو ان کے رجسٹرڈ فقیر ہیں، جب ہم فقیر ہیں تو ہماری ہر چیز بھیک ہے، آنکھ کی بینائی، کان کی شنوائی، زبان کی گویائی وغیرہ تمام نعمتیں اﷲ کی دی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب چاہتے ہیں واپس لے لیتے ہیں، ہم اپنے جسم وجان کے مالک نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے اعضاء کو مرضی الٰہی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر کوئی شخص کرتا ہے تو وہ مجرم ہے اور اسی وجہ سے خود کشی حرام ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی جان کامالک نہیں ہوتا لہٰذا اس کو اجازت نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی جان میں تصرف کرے۔

الحمدﷲ رب العٰلمین کے معنیٰ ہیں کہ سب تعریفیں اﷲ کو لائق ہیں جو پالنے والا ہے ہر ہر عالَم کا، عالمین جمع ہے عالم کی اور عالَم علم سے ہے جس کے معنیٰ ہیں نشان۔ چونکہ عالم کا ذرّہ ذرّہ اﷲ کے وجود کی نشانی ہے ہر چیز اﷲ کے وجود پر دلالت کرتی ہے اس لیے اس کو عالم کہا جاتا ہے اور عالمین جمع ہے کیونکہ مخلوقات کی ہر جنس کا الگ الگ عالَم ہے جیسے عالَمِ انسان، عالَمِ جنات، عالَمِ نباتات، عالَمِ جمادات، عالَمِ ناسوت، عالَمِ لاہوت، عالَمِ ملکوت اور عالَمِ جبروت وغیرہ ہزاروں عالم ہیں اور سارے عالموں کا پالنے والا اﷲ ہے۔

عالَمِ لاہوت پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ ایک بدعتی پیر اپنے مریدوں پر رعب جما رہا تھا کہ میں عالَمِ لاہوت، عالَمِ ملکوت اور عالَمِ جبروت کی سیر کررہا ہوں، اس مجلس میں ایک صحیح العقیدہ بزرگ بھی موجود تھے ان سے اس پیرنے پوچھا کہ آپ کس عالم میں ہیں انہوں نے کہا کہ میں تو عالم کھاہوت میں رہتا ہوں یعنی خوب کھاتا ہوں اور یہ دراصل انہوں نے اس پر چوٹ کی کیونکہ جعلی پیروں کا مقصد کھانا پینا اور پیسے بنانا ہے۔

خیر یہ تو ایک لطیفہ کی بات تھی۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خیال ہوا کہ اﷲ تعالیٰ سارے عالم کو کیسے پالتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ! سامنے جو پتھر کی چٹان سے اس پر لاٹھی مارو ۔ آپ نے لاٹھی ماری تو پتھر کی ایک چٹان اُڑ گئی، حکم ہوا کہ اور مارو دوسری بار لاٹھی ماری تو چٹان کی ایک اور تہہ اُڑ گئی پھر حکم ہوا کہ اور مارو تیسری بار پوری چٹان ٹوٹ گئی تو دیکھا کہ اندر ایک چھوٹا سا کیڑا بیٹھا ہوا ہے جس کے منہ میں تازہ گھاس کا ہرا پتہ ہے اور وہ یہ تسبیح پڑھ رہا تھا: سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ وَیَسْمَعُ کَلاَمِیْ وَیَعْرِفُ مَکَانِیْ وَیَرْزُقْنِیْ وَلاَ یَنْسَانِیْ

پاک ہے وہ اﷲ جو مجھے دیکھ رہا ہے اور جو میری بات کو سن رہا ہے اور جومیرا گھر جانتا ہے اور جو مجھ کو رزق پہنچاتا ہے اور جو مجھ کو کبھی نہیں بھولتا۔ یہ واقعہ تفسیر روح المعانی میں ومامن دابۃ فی الارض الا علی اﷲ رزقھا کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہوا ہے۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter