Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مئی 2010

ہ رسالہ

11 - 12
حضرت تھانویؒ اور سید سلیمان ندوی کے تعلقات
ایف جے،وائی(June 3, 2010)

مولانا ڈاکٹر سید سلیمان ندوی

ترتیب و پیشکش: سجاد نعمانی
(ماخوذ از ماہنامہ الفرقان)

ابھی چند دن پہلے کی بات ہے، اس عاجز کے علم میں آیا کہ استاذ الاساتذہ سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے صاحبزادے مولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی صاحب (جنوبی افریقہ) تشریف لائے ہوئے ہیں، اور راقم کو یاد فرما رہے ہیں… میں اگلی صبح کو مجسم شوق بن کر ندوے حاضر ہوگیا۔ ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا کہ ابھی تھوڑی دیر بعد دارالعلوم کے فضیلت کے طلبہ سے وہ مذکورہ بالا عنوان پر خطاب فرمانے والے ہیں اس محفل میں شرکت کی سادت حاصل ہوئی۔ گفتگو تین عظیم ہستیوں کے بارے میں تھی اور زبان ایک ایسے فاضل عالم و دانشور کی تھی جو ظاہر وباطن کے حسن سے مالا مال اور ایک یونیورسٹی میں پروفیسری کے باوجود خالص مشرقی تہذیب اور اسلامی روایات و اقدار کے دل دادہ اور اپنے علو نسب اور علو نسبت نیز فکری اعتدال و توازن، جامعیت اور مثبت مزاج کی وجہ سے ہم طالب علموں کے لیے ہمیشہ سے نہایت پرکشش شخصیت کے حامل رہے ہیں۔ راقم الحروف کو ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ توسیعی لیکچر بہت ہی مفید اور موثر محسوس ہوا اور وہاں سے جب نکلا تو بے ساختہ زبان پر یہ شعر آگیا ؎

نام ان کا، اور جان کے ساز پر

ہر رگِ جان کھنچ گئی آواز پر

اسی وقت یہ ارادہ کرلیاکہ اس لذت و حلاوت میں الفرقان کے قارئین کو بھی شریک کروں گا، چنانچہ عزیزم بلال سلمہ کی کوشش سے C.D حاصل کی گئی اورعزیزاز جان بیٹی سمیہ سلمہا نے اسے قلم بند کرنے کے کام کو بڑی لگن اور محنت سے انجام دیا۔ اور پھر کہیں کہیں سلسلۂ کلام مربوط کرنے اور مدعا کو واضح کرنے کے لیے مجھے بھی عبارت میں کچھ تقدیم و تاخیر اور کہیں کہیں کچھ اختصار یا اضافہ کرنا پڑا۔ بہتر تو یہی ہوتا کہ خود فاضل مقرر کی نظر اس پر پہلے پڑجاتی مگر وہ تو پردیس چلے گئے اور انتظار کی تاب نہیں۔ بہرحال ماحاضر ہے۔ (مدیر)

یہ میری عین سعادت ہے اور اﷲ تعالیٰ کا احسان و کرم ہے کہ مجھے اس دارالعلوم ندوۃ العلماء کے منتہی طلبہ سے ایک نہایت مفید اور اہم موضوع پربات کرنے کا موقع مل رہا ہے جو میرے لڑکپن اور جوانی کے آغاز کی مادر علمی ہے، اس موقع پر میرے دل سے یہ دعا بھی نکل رہی ہے کہ آپ حضرات بھی آنے والی زندگی میں جہاں بھی رہیں اپنی مادر علمی سے اور اپنے اساتذہ کرام سے رشتہ ضرور قائم رکھیں۔ میں اس موقع پر موجود اساتذہ کرام کا بھی ممنون ہوں اور خاص طور پر مہتمم دارالعلوم مولانا سعید الرحمن الاعظمی صاحب کا مشکور ہوں کہ وہ باوجود اپنے عذر کے تشریف لائے۔

آج مجھے جس موضوع پر بات کرنی ہے وہ ہے ’’مولانا سید سلیمان ندویؒ کے تعلقات اپنے استاذ مولانا شبلی سے اور اپنے مرشد حضرت تھانوی سے۔‘‘

عزیز طلبہ! میرے والد ماجد حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کا رابطہ اپنے علمی رہنما علامہ شبلی سے ندوے میں ہوا تھا، مولانا شبلی کی جوہر شناس نگاہ نے بہت جلد ان کی بلند استعداد کو بھانپ لیا، چنانچہ ا نہوں نے میرے دادا سے کہا کہ اس لڑکے کو مجھے دے دیجئے۔ ہمارے یہاں خاندان میں طبابت کا پیشہ اور مشغلہ تھا، والد صاحب کا بھی ارادہ یہی تھا، مگر مولانا شبلی کے باصرار یہ کہنے پر کہ ’’آپ اس کو طبیب جسمانی بنانا چاہتے ہیں اور میں اس کو طبیب روحانی بنانا چاہتا ہوں‘‘ انہوں نے (یعنی میرے دادا نے) انہیں ان کے حوالے کردیا۔ اور علامہ شبلی نے اپنے اس مخصوص شاگرد کی خصوصی تربیت شروع کردی۔ اسی زمانے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ندوے کے ایک بڑے اجلاس میں جس میں کہ والد ماجد کوعالمیت کی سند دی جانے والی تھی انہوں نے اردو میں ایک تقریر کی، اس اجلاس میں شریک مولانا حالی کے داماد خواجہ غلام الثقلین نے اچانک مولانا شبلی کو مخاطب کرکے یہ کہا کہ میں تو ندوے کو تب مانوں گا جب یہ لڑکا عربی میں تقریر کردے، یہ سن کر مولانا شبلی نے میرے والد صاحب سے کان میں پوچھا کہ اگر کوئی عنوان تمہیں ابھی دیا جائے تو کیا تم برجستہ عربی میں تقریرکرسکتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! مولانا شبلی نے اعلان کیا کہ اجلاس میں شریک کوئی صاحب اس لڑکے کو عنوان دے دیں! چنانچہ یہ عنوان اسے دیا گیا ’’ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیوں کر ہوئی؟‘‘ مولانا شبلی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایسا میں اس لیے کررہا ہوں کہ کسی کو یہ خیال نہ ہو کہ کوئی رٹی رٹائی تقریر اس لڑکے سے پیش کروادی گئی۔ بہرحال میرے والد ماجد نے عربی تقریر شروع کردی، مولانا شبلی ہال سے باہر نکل گئے اس خیال سے کہ پتہ نہیں سلیمان تقریر کر بھی سکے گا یا نہیں؟ اور اس خیال سے بھی کہ میری موجودگی کی وجہ سے شاید اس پر رعب بھی رہے، (خیال رہے کہ اس زمانے میں طلبہ پر اساتذہ کی ہیبت بہت ہوتی تھی، اﷲ جانے اب آپ لوگوں کا کیا حال ہے؟) میرے والد ماجد نے تقریر ابھی شروع کی تھی، چند جملے ہی انہوں نے کہے تھے کہ ہال مرحبا کی آفریں آوازوں سے گونجنے لگا، مولانا شبلی گھبرا کر اندر آئے تاکہ دیکھیں کیا صورتحال ہے؟ تو دیکھا کہ یہاں کا منظر ہی کچھ اور ہے۔ بس اپنے شاگرد رشید کی کامیابی دیکھ کر وجد میں آگئے اور فرط مسرت میں اپنے سر کا عمامہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دیا۔

میرے والد ماجد نے لکھا ہے کہ میرے استاذ گرامی کا یہ عمامہ میری زندگی کا طرۂ افتخار بن گیا اس عمامے کو انہوں نے آخر تک انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ رکھا یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ بوسیدگی کی وجہ سے جگہ جگہ سے وہ پھٹ گیا تھا، پھر بھی اس کے پیوند چھپا چھپا کر عید، بقر عید میں وہ اسی صافے کو پہنتے تھے، ان کا یہ معمول حضرت تھانوی سے بیعت ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔

ان دونوں استاذ اور شاگرد کے درمیان محبت و عقیدت کا جو مثالی تعلق تھا، یہ اسی کی برکت تھی کہ جب مولانا شبلی کا مرض وفات شروع ہوا اور شاید مولانا شبلی کو کوچ کا وقت قریب ہونے کا احساس بھی ہوگیا تو انہیں سب سے زیادہ فکر ’’سیرۃ النبی‘‘ کے سلسلے میں اس کام کی تکمیل کی ہوئی جس کا آغاز، ایک طویل منصوبے کے تحت وہ کرچکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تین حضرات کو اپنی علالت کی اطلاع بذریعہ تار دی۔ عجیب بات یہ ہوئی (اور اسے مشیت الٰہی کے سوا کچھ اور کہنا ممکن نہیں ہے) کہ تارتینوں میں سے کسی کو نہیں ملا، مگر ہوا یہ کہ میرے والد ماجد کے دل میں غیر معمولی گھبراہٹ شروع ہوئی، وہ اپنے استاذ کی علالت سے باخبر تھے، مگر اچانک دل کی غیر معمولی کیفیت سے مغلوب ہوکر انہوں نے رخت سفر باندھ لیا، وہ جب اپنے استاذ کی خدمت میں پہونچے تو علامہ شبلی کا دم واپسیں قریب تھا، آگے کا حال خود والد ماجد ہی کی زبانی سنئے!

’’آہ جب ۱۵؍نومبر کی شام کو میں پہنچا تو طاقت جواب دے چکی تھی، میں سرہانے کھڑا تھا، میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے، مولانا نے آنکھیں کھول کر حسرت سے میری طرف دیکھا اور دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ اب کیا رہا؟ پھر… دوبارہ فرمایا اب کیا؟ اب کیا؟ لوگوں نے پانی میں جواہر مہرہ گھول کر ایک چمچ پلا دیا تو جسم میں ایک فوری طاقت آگئی تو معاہدہ کے طور پر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ’’سیرت میری تمام عمر کی کمائی ہے، سب کام چھوڑ کے سیرت تیار کردو‘‘ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ضرور ضرور۔‘‘

(جاری ہے۔)
Flag Counter