Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مئی 2010

ہ رسالہ

10 - 12
اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(June 3, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

–

حال: حضرت شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ، السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ، دادا پیر جی آپ کے خلیفہ و اپنے شیخ سے بیعت ہوئے دو برس ہوئے ہیں دادا پیر جی شیخ نام ہی اس کا ہے جس کے تصور سے احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم جن پریشانیوں و گناہوں میں مبتلا ہیں وہ اس سے ہمیں نکال لے گا۔ شیخ کا ایک ایک لفظ باعث زندگی ہوتا ہے دوسری طرف میں اس لائق نہیں شیخ کا کوئی لفظ یا نصیحت میرے لیے ہو ؎

وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا

پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

سب کچھ صحیح تھا۔ ایک وقت ایسا آگیا شیخ نے فرمایا رابطہ کم کیا کریں۔ شور کیا تو جواب ملا تم حالت سکر میں ہو صحو میں لانا ہے۔ وہی ساری باتیں جو آپ کے ملفوظات میں ملتی ہیں ؎

سختیاں شیخ کی ہیں فنا کے لیے

مت سمجھ، مت سمجھ ان کو ہرگز ستم

شاہ جی شیخ کے لیے جتنا روتی تھی اتنا ہی اﷲ سے عشق شیخ مانگتی تھی۔ کیونکہ اس در کے سواکوئی اور در بھی تو نہیں تھا۔ سب ضبط ہوجاتا تھا لیکن ان کا بیرون ملک سفر ضبط نہیں ہوتا تھا۔ پتہ کبھی کبھی واپسی کے قریبی دنوں میں مل جاتا تھا۔ کبھی خود دے دیا جب پیرانی سے رابطہ نہیں تھا پھر اس کے بعد پیرانی کی منتیں کرکے مل جاتا۔ کبھی پیر بہن سے اس تکلیف کا ذکر کیا تو سمجھایا تعلق شیخ اس لیے ہوتا ہے کہ اﷲ سے تعلق ہوجائے تم تو اس پر رک چکی ہو۔ راستہ چھوڑدو تم غلطی پر ہو۔ مجھے اس کی بات ایسی بری لگی کہ اس سے پھر بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ پیرانی کی نظروں میں بھی آگئی ان کی بے رخی، تنقید، طنز کا سامنا بھی کیا شیخ سے رابطہ پر۔ میں نے شیخ (علاوہ شروع کے دنوں کے) سے کبھی بات نہیں کی بوجہ ان کے رعب کے۔ میسج کے ذریعے رابطہ رکھا ؎

یا اﷲ میرے شیخ کے درجے کو بڑھادے

سرتاج زمانہ میرے حضرت کو بنادے

شاہ جی میری زبان سے ذکر کے بجائے ہر وقت یہ شعر نکلتا ہے معذور ہوں اس کے علاوہ کچھ ذکر نہیں ہوتا۔

شاہ جی میری ساتھی ہے وہ اپنے بھائی کا رشتہ بھیجتی ہے۔ میں رو پیٹ کر انکار کردیتی ہوں۔ شیخ نے بھی بہتر قرار دے دیا تھا لیکن میرے والد صاحب نے میرے رونے کو دیکھتے ہوئے انکار کردیا۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ وہی رشتہ آیا۔ شیخ نے پھر تصویب فرمادی۔ گھروالے بضد میں بھی انکار پر بضد۔ اس بار شیخ سے تلخ کلامی ہوگئی کہ آپ کیوں بولے۔ فرمایا ان شاء اﷲ قدر ہوگی۔ قلبی رحجان نہ ہوتا تو کبھی نہ کہتا۔ میں نے کہا آپ کا نکاح ہورہا ہے جو قلبی رحجان کی خبر دے رہے ہیں؟ پھر اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے یہ کہہ کر تم جانو اور تمہارے والدین۔

بس ٹھیک ہے شادی کوئی تصوف کا مسئلہ تو نہیں کہ شیخ کی رائے پر چلنا ضروری ہو۔ میں نے بات بھی سخت کی تھی۔ مضطر ہوگئی شیخ کو فون کیا، گھر تھے۔ پیرانی کے سامنے (لگتا ہے) فرمایا اتنی سخت کلامی کی کیاضرورت تھی وہ ایک دفعہ میں تمہیں تھوڑی لے جاتے اتنا آسان ہوتا تو ہم نہ تمہیں لے آتے۔ میں خاموش ہوگئی بات تو مجہول ہے۔ میں خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتی۔ دوچار اشارے اس کے بعد مزید ملے میری ہمت جواب دے گئی کہہ دیا مجھے آپ پر اعتماد ہے مجھ سے مزید کچھ نہ کہلوائیں۔ فرمایا جی لاتفکری۔

شاہ جی بس آپ بھی مجھ سے مزید کچھ نہ کہلوائیں میرے بڑوں سے انہوں نے ابھی تک کوئی بات نہیں کی ؎

چھپانے کو ہم تم چھپاتے ہیں دونوں

رہے گا یہ افسانہ مشہور ہوکر

میں کہاں جارہی ہوں؟ معاشرہ اس کو قبول کرے گا یا نہیں۔ شیخ کو پھر سفر کا معاملہ درپیش ہوا۔ پیرانی سے بات کی لیکن وہاں سے سختی وبے نیازی کا معاملہ ہوا۔ واپسی پر شیخ بھی خاموش و بے نیاز لگے۔ ایک ہفتہ رہ کر پھر ایک ماہ کے سفر پر چلے گئے بغیر اطلاع دیئے۔ مجھے اس کا ضبط نہیں ہوا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ وہ کیا چاہتے ہیں ایک طرف پیرانی کی سختی، پھر شیخ کی بے نیازی اور معاشرہ ان سب نے مجھے مجبور کردیا کہ خاموش ہوجائوں، اپنی اس سلطنت کو چھوڑ دوں ؎

تم لاش کو میری غسل نہ دو بس خون میں لتھڑی رہنے دو

کل خون شہادت میں لتھڑا یہ جسم انہیں دکھلائیں گے

پھر ان دنوں میں میں نے استخارہ کیا کہ اب کیا کروں؟ جب بیدار ہوئی تو یہ شعر بڑی روانی سے بار بار زبان پر جاری تھا۔

مجھ پر میرے مسئلے کے بارے میں حکم صادر فرمادیں۔ بھائی کی اجازت و مشورہ و دستخط سے تحریر لکھ رہی ہوں۔ ارادہ ہے شیخ سے بالکل خاموشی اختیار کرنے کا۔ آپ کی تصویب ہی جمائے گی ورنہ مجھے اپنی ذات پر اعتماد نہیں۔ خاموش بھی ان کو بتا کر ہوجائوں یا بس خاموش ہوجائوں؟

جواب: پورا خط حرف بہ حرف پڑھا۔ پڑھ کر سخت صدمہ ہوا۔ ایک ایک لفظ سے عشق مجاز کی بدبو آرہی ہے۔ شیخ سے تعلق اﷲ کی محبت سیکھنے کے لیے ہوتا ہے نہ یہ کہ شیخ سے عشق لڑایا جائے۔ شیخ سے تمہارا تعلق اﷲ کے لیے نہیں ہے اس میں سراسر نفسانیت ہے۔ نیت تمہاری خراب معلوم ہوتی ہے اور الزام رکھ رہی ہو دوسرے پر اور یہ بھی انتظار ہے کہ ان کی طرف سے پیغام آئے تمہاری پیرانی کا ناراض ہونا اسی وجہ سے ہے کیونکہ غالباً وہ تمہاری نیت کو بھانپ گئیں۔ اور پیر بہن نے جو صحیح مشورہ دیا کہ تمہارا راستہ صحیح نہیں ہے تو اس سے ناراض ہونا بھی نفسانیت کی دلیل ہے اور شیخ سے کہیں اس طرح گفتگو اور جرح کی جاتی ہے جیسے کسی برابری والے سے اور شیخ سے کہیں اس طرح جواب طلب کیا جاتا ہے کہ بغیر اطلاع دیئے سفر پر کیوں گئے۔ یہ شیخ و مرید کی گفتگو ہے؟ یہ تو عاشق و معشوق کی گفتگو ہے۔ تعجب ہے کہ وہ کیسا شیخ ہے جس نے ان باتوں پر نکیر نہیں کی اور تعلق کو ختم نہیں کیا اور عورت کا اس طرح کے عاشقانہ اشعار شیخ کو لکھنا نہایت نامناسب اور بے باکی کی بات ہے لیکن اگر تمہارا بیان صحیح ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم تمہیں نہ لے آتے اور اشارے دیئے وغیرہ تو شیخ کا نام بتائو تاکہ ان سے جواب طلب کیا جائے۔ اگر تحقیق کے بعد یہ بات صحیح ثابت ہوئی تو جو شیخ مریدنیوں سے عشق لڑانے لگے وہ خلیفہ بننے کے قابل نہیں۔ اسی لیے ہمارے بزرگوں نے نامحرم مریدنیوں کو بغیر محرم کے خط پر دستخط کے مکاتبت کی اجازت نہیں دی۔ یہ بزرگوں کا طرز چھوڑنے کی نحوست ہے کہ خط کیا فون پر بے محابا گفتگو ہورہی ہے میسج کئے جارہے ہیں۔ شیخ عشق مجاز کی گندگی کو نکالنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ وہ خود اس گند میں مبتلا ہوجائے یا اس کو اس گند میں ملوث کرنے کی کوشش کی جائے۔ خبردار فوراً اس خلیفہ سے تعلق ختم کرو۔ یہ تعلق بالکل نفسانی ہے‘ توبہ کرو، اپنی آخرت کو تباہ نہ کرو۔ جس سے تعلق میں نفس شامل ہو اس سے اﷲ نہیں مل سکتا اور اس سے بیعت یا اصلاح کا تعلق رکھنا حرام ہے۔

…………………

حال: حضرت والا مجھے اپنی کیفیت بیان کرنے کے لیے کوئی الفاظ نہیں مل رہے، حضرت اقدس میں بہت زیادہ پریشان ہوں اور مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ میں کیوں پریشان ہوں۔ میں ذہنی طور پر لگتا ہے جیسے تھک گئی ہوں۔دماغ ہر وقت فکر مند سا رہتا ہے، کبھی آپس کے رویوں کی وجہ سے، کبھی گھر کے ماحول کی وجہ سے، کبھی امی کی صحت کے بارے میں فکر مندی ہوتی ہے حضرت والا کبھی کبھار لگتا ہے جیسے میرے باطن کی خرابی نے میرے ارد گرد کے ماحول کو میرے لیے پریشان کن بنادیا ہے۔ یا پھر میرے ارد گرد کا عجیب ماحول میرے باطن پر اثر انداز ہے۔

حضرت والا یہ صریح ناشکری ہوگی کہ میں کہوں کہ میں بہت برے ماحول میں ہوں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے اکثر گھروں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا یا شاید اس سے بھی برا۔ مگر پتا نہیں کیوں کچھ عرصے بعد مجھے ہر چیز اجنبی سی لگنے لگتی ہے کچھ طبیعت پریشان سی ہوجاتی ہے، اکتاہٹ سی پیدا ہونے لگتی ہے، چھوٹی چھوٹی بات بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا۔ معمولی معمولی باتوں پر دل چاہتا ہے کہ روئوں۔ کسی پُر سکون جگہ خاموش بیٹھی رہوں۔ حضرت والاچند دنوں یہ کیفیت ہوتی ہے پیر کے بیان میں شرکت کرنا اتنی بڑی نعمت لگتا ہے کہ ہزاروں سجدوں سے بھی حق ادا نہ ہو (اﷲ رب العزت بیان پر عمل کی بھی توفیق نصیب فرمائے، آمین، ثم آمین)

حضرت والا گذشتہ سے گذشتہ خط میں کم و بیش ایسی ہی کیفیت پر فرمایا تھا کہ بحالت مجبوری کسی ایسے مدرسے میں جہاں مردوں کا عمل دخل نہ ہو پڑھ لو یا پڑھالو، اور یہ بھی فرمایا تھا کہ والدین یا بھائی کی اجازت سے کسی دیندار دوست سے مل آیا کرو یا بہن کے گھر چلی جایا کرو۔

حضرت والا دوستوں کے گھر جانے کا ہمارے گھر اتنا رواج نہیں ہے اجازت بہت مشکل سے ملتی ہے (اور ویسے بھی میری دوست کی شادی ہوگئی ہے) بہن کے گھر میں زیادہ تر بھائی یا امی وغیرہ ہی جاتی ہیں میرا جانا کم کم ہی ہوتا ہے۔

جواب: حضرت حکیم الامت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ پریشانی اور تشویش کی وجہ تجویز ہے ہم چاہتے ہیں مثلاً کہ ہمارے ارد گرد کا ماحول ایسا نہیں ایسا ہو، لوگوں کا رویہ ایسا ہو وغیر ہ اور جب اس کے خلاف ہوتا ہے تو تشویش پید ہوتی ہے اس کا علاج تفویض ہے کہ اپنے کو اﷲ کے سپرد کردو کہ میں آپ کی مرضی میں راضی ہوں البتہ دعا کرنا تفویض اور تسلیم و رضا کے خلاف نہیں دعا کرو والدہ کی صحت اچھی ہوجائے گھر کا ماحول بدل جائے جیسے چھوٹا بچہ ابا سے اپنا حال کہہ کر مطمئن ہوجاتا ہے کہ میں نے ابا سے کہہ دیا ہے اب ابا وہی کریں گے جو میرے لیے بہتر ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ سے کہہ دو اور پھر ان کے فیصلے پر راضی رہو تو پریشانی نہیں ہوگی۔

حال: اور حضرت والا ایسا مدرسہ جہاں صرف معلمات ہوں اس بارے میں جس جس سے پوچھا ہے اس نے آپ والا کے مدرسے جامعہ اشرف المدارس ہی کا ذکر کیا ہے۔ حضرت والا میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں میرا ذہن مصروف ہوجائے، مجھے لگتا ہے جیسے میری یہ کیفیت یکسانیت کی وجہ سے ہوئی ہے، حضرت والا میرا دل چاہتا ہے کہ کچھ عرصے میں کچھ مختلف سوچوں، حضرت والا میں ایک جیسی سوچ ایک جیسے ماحول سے تنگ آگئی ہوں اﷲ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے اگر ناشکری ہوگئی ہو۔ حضرت والا میں واضح طور پر اپنی سوچ اپنے احساسات اس لیے بھی بیان کررہی ہوں تاکہ جہاں میں غلطی پر ہوںجہاں کہیں نفس کی آمیزش ہو، حضرت والا، وہاں وہاں تنبیہ فرمادیں۔

حضرت میں بہت بے سکون سی ہوں اندرونی طور پر۔ حضرت والااب مسئلہ یہ ہے کہ جامعہ اشرف المدارس ہمارے گھر سے بہت زیادہ دور ہے۔ اگر مدرسہ پڑھنے کی گھر سے اجازت مل بھی گئی تو اتنی دور مدرسے کی تو مشکل ہی لگتی ہے کہ اجازت ملے۔

حضرت والا تین بنات کے مدرسے ایسے ہیں جن کی انتظامیہ سے بات ہوسکتی ہے کہ مرد اساتذہ سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوگا، نہ حاضری لینے کا، نہ سبق سننے سنانے کا غرض یہ کہ ان کے گھنٹے میں ایسے ہی لوں گی جیسے بیان وغیرہ سناجاتا ہے، ان کو نہ علم ہو کہ پچاس ساٹھ طالبات میں میں بھی موجود ہوں۔ اور حضرت والا انتظامیہ کو یہ بھی بتادیں گے کہ اس ہی شرط پر داخلہ دیا جائے، ورنہ داخلہ منظور نہ کیا جائے۔ حضرت والا مندرجہ بالا صورت حال اگر آپ والا کو ٹھیک لگتی ہے تو حضرت والا آپ کی مبارک نسبت کی وجہ سے آپ والا سے وعدہ ہے کہ بات چیت تو درکنار، کوئی استاذ میرا سلام کا جواب بھی نہیں سنے گا، (انشاء اﷲ العزیز) آگے حضرت اقدس آپ جو مناسب سمجھیں وہ حکم دیں چاہے مجھے سمجھ آئے یا نہ آئے انشاء اﷲ سر تسلیم خم ہوگا۔ آپ والا کے حکم کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دکھائی گئی بہترین راہ سمجھوں گی۔

جواب: آپ کے تقویٰ پر ہمیں اعتماد ہے مگر کیا کریں بزرگان دین نے منع فرمایا ہے اور بزرگوں کی نگاہ جہاں تک جاتی ہے ہماری نگاہ وہاں تک نہیں جاسکتی۔ قریب میں کوئی ایسا ادارہ جہاں صرف عورتیں مثلاً سلائی یا کھانا پکانا سکھاتی ہوں وقت گزارنے کے لیے علاجاً وہاں داخلہ لے لو۔ کچھ ماحول بدلے گا تو طبیعت بہل جائے گی۔

حال: حضرت والا یہ سب یقینا معمولی سی باتیں ہوں گی مگر ان کی وجہ سے میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہوں۔

جواب: زیادہ حساس نہ ہو ضرورت سے زیادہ حساس ہونا بھی باعث تکلیف ہوتا ہے کسی بات کو ذہن پر نہ لو سمجھو کہ یہ کوئی اہم بات نہیں‘ احساس کی وجہ سے اہم معلوم ہورہی ہے۔

…………………

حال: اﷲ رب العزت آپ والا کو صحت کاملہ عاجلہ و مستمرہ نصیب فرمائے، اور آپ والا کا سایہ ہم سب پر تادیر سلامت رکھے، (آمین)۔ اور اﷲ تعالیٰ آپ کو اور جملہ متعلقین کر ہر غم سے بچائے اور ہر خوشی دکھائے، آمین ثم آمین۔ حضرت اقدس بھائی سے آپ والا کی خرابیٔ صحت کا پتا چلا تو دل کی جو کیفیت تھی وہ دائرۂ تحریر سے باہر ہے، دل میں بے شمار وساوس آرہے تھے، آنکھوں میں مسلسل آنسوآرہے تھے، مشفق شیخ کی قدر نہ کرنے کا احساس گھیرے ہوئے تھا، حضرت والا دل کا خالی پن اپنی نا اہلی کا احساس دلا رہا تھا کہ تقریباً چار سال ہونے کو ہیں حضرت والا سے تعلق قائم کئے ابھی تک صرف اور صرف اپنی غفلت کے سبب دل دل نہیں بن سکا۔ دنیا کی فانی چیزوں میں کس قدر مشغول ہے کہ مشغولیت کا احساس بھی اب کم کم ہوتا ہے، حضرت والا! کاش کہ میری نظر سے سب کچھ گرجائے، اور کاش کہ وہ معرفت، اور قربت جو آپ والا کو حاصل ہے اس کا صرف ایک ذرہ ہی مجھے حاصل ہوجائے، (آمین ، ثم آمین) حضرت والا میں بے ادبی کی حد کو پہنچی ہوئی ہوں مجھے معاف کردیں۔

جواب: مطمئن رہیں‘ دل ایسے ہی بنتا ہے اور خوب بن رہا ہے۔ اس راہ میں ناکامی نہیں ہے۔ دنیا کے کاموں میں مشغول ہونا بھی برا نہیں۔ دل کا دنیا میں ایسا لگنا کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کو نظر انداز کردے یہ برا ہے۔ ہاتھ دنیا کے کاموں میں ہوں، اور دل اﷲ کے ساتھ ہو اور باخدا ہونے کی علامت یہ بھی ہے کہ ایسا دل مرضی الٰہی کے خلاف کسی چیز میں نہیں لگ سکتا ؎

دنیا کے مشغلوں میں بھی یہ باخدا رہے

یہ سب کے ساتھ رہ کے بھی سب سے جدا رہے

حال: حضرت والا بہت سے مسائل میرے لیے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ جب میری ذات کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، حضرت والا پتا نہیں کیوں میں اہمیت چاہتی ہوں، قدر چاہتی ہوں، اسی لیے حضرت میں چاہتی ہوں کہ میں بالکل مٹی ہوئی رہوں، تاکہ دوسروں کی حقارت، اور نظر انداز کرنا، مجھ پر اثر انداز نہ ہو۔

جواب: حقارت اور نظر انداز کرنے سے تکلیف ہونا فطری بات ہے لیکن صبر کریں اور انتقام نہ لیں اور اپنے عیوب کو یاد کریں اور سوچیں کہ اگر یہ عیوب لوگوں کو معلوم ہوجائیں تو وہ کتنا حقیر سمجھیں بس یہی غنیمت ہے کہ وہ نفرت اور تحقیر نہیں کرتے چہ جائیکہ ان سے تعریف کی توقع رکھی جائے اور سوچو کہ بالفرض تمام لوگ میری تعریف کرنے لگیں تو کیا حاصل نہ وہ رہیں گے نہ میں رہوں گی پھر ایسی فانی چیز کی تمنا کرنا بیوقوفی ہے۔

حال: حضرت والا گذشتہ خط میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ خوش رہا کرو۔ حضرت اقدس مجھے خوش رہنا نہیں آتا، حضرت والا کچھ میری طبیعت بہت زیادہ ہی حساس ہوگئی ہے۔ چھوٹی سی بات بھی دل پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ کچھ ہمارے گھر کا ماحول بھی عجیب سا ہوگیا ہے، ہر وقت پیسہ ، پیسہ اسی پر لڑائی ہوتی ہے۔ اسی سے صلح ہوتی ہے۔ اور اسی سے ہی خوشی غمی ہوتی ہے، حضرت والا، دل گھٹنے لگتا ہے دل چاہتا ہے کہیں بہت دور چلی جائوں، کسی پرسکون جگہ۔

جواب: گھر کے ماحول کو نہ دیکھو۔ اﷲ تعالیٰ کے اس فضل عظیم کا شکر کرو کہ اس ماحول میں آپ کو اس ماحول سے بیزار کردیا اور اپنی محبت کا غم اور دین کی فکر عطا فرمائی۔ اگر اﷲ تعالیٰ فضل نہ فرماتے تو آپ بھی اسی ماحول میں گم ہوتیں۔ اس نعمت کے استحضار سے سارا غم جاتا رہے گا ان شاء اﷲ تعالیٰ۔

حال: جھوٹ بولنا: حضرت والا عادت تقریباً ختم ہوگئی تھی، مگر کچھ دنوں سے محض بے خیالی اور مذاق میں بات کچھ تھی، کچھ کہہ دی، اسی مجلس میں پتا بھی چل گیا کہ میں مذاق کررہی تھی بات اس طرح تھی، دل میں بار بار یہی آرہا ہے کہ شاید یہ بھی جھوٹ میں شامل ہے، اصلاح کی محتاج ہوں۔

جواب: زیادہ وہم میں نہ پڑیں۔

حال: بدگمانی: حضرت والا بدگمانی بھی بہت ہونے لگی ہے۔ قریبی رشتوں کے بارے میں خاص کر، کچھ عرصے سے اکثر باتوں میں منفی پہلو کی طرف دھیان جاتا ہے۔

جواب: بدگمانی کی طرف دھیان جانا یا خیال آنا بدگمانی نہیں ہے بدگمانی یہ ہے کہ اس گمان کو دل سے صحیح سمجھے۔

حال: غیبت سننا: حضرت بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جہاں غیبت ہورہی ہو وہاں سے اٹھ تو جاتی ہوں مگر آواز برابر آتی رہتی ہے۔ حضرت والا اس وقت کیا کروں؟

جواب: اٹھ جانا کافی ہے اپنے اختیار سے کان لگا کر نہ سنیں۔

حال: اور حضرت والا ایسی مجلس سے اٹھا بھی کم جاتا ہے، صرف اور صرف اپنی غفلت کی بنا، اٹھنے میں دیر ہوجاتی ہے۔

جواب: جس کی غیبت ہورہی ہے اس کی طرف کوئی اچھی تاویل کردیں کہ یہ بات یوں نہیں یوں ہوگی پھر بھی وہ نہ مانیں تو اٹھ جائیں۔

…………………

حال:شرعی پردہ تاحال شروع نہ ہوسکا۔ اس بار شوہر کے جہاز پر جانے سے پہلے ان سے کہا کہ میں شرعی پردہ کرنا چاہتی ہوں مگر آپ کے تعاون اور رضامندی کے بغیر نہیں کرسکتی میں اﷲ کے حضور بے پردہ حالت میں حاضر نہیں ہونا چاہتی ہوں آپ سوچ لیں پھر مجھے جواب دیں۔اسی دن جہاز پر جارہے تھے تو جواب کچھ نہ دیا۔

جواب: اس میں شوہر کا تعاون اور رضامندی ضروری نہیں شرعی پردہ فرض ہے۔ ہمت سے کام لے کر فوراً شروع کردیں۔

حال: ویسے جانے سے پہلے الحمدﷲ اتوار کی مجالس میں بھی حاضر ہوتے رہے اور جمعہ میں مجالس میں تو پہلے ہی سے جارہے تھے اس بار میرے خالہ زاد اور میرے شوہر کے ماموں زاد بھائی کے ساتھ الحمدﷲ حضرت والا کے ہاتھ مبارک پر بیعت ہوئے۔ اس کے بعد ماشاء اﷲ تبدیلی بھی آئی ہے۔ اب آپ والا سے خصوصی دعائوں کی درخواست ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے دل میں جلدی ڈال دیں اور وہ مجھے شرعی پردے کی اجازت دے دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ شرعی پردے کے لیے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے مگر حضرت اگر میں نے بغیر ان کی رضامندی کے شروع کیا تو یہ ہمارے تعلقات کی خرابی کا باعث ہوگا۔ لہٰذا بہت بہت دعائوں کی درخواست ہے۔

جواب: کوئی تعلقات خراب نہیں ہوں گے کسی چیز سے نہ ڈرو یہ ڈر شیطانی ہے اور اﷲ سے دور کرنے والا ہے۔

حال: حضرت والا اﷲ تعالیٰ سے ان کی محبت ان کا عشق مانگ رہی ہوں مگر کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ ان کی محبت میں اضافہ ہوا۔ دل پر وہی زنگ وہی قفل لگا ہے جو پہلے تھاحضرت والا میں جانتی ہوں کہ ناپاک پلید میرا دل میرا جسم سرتاپا پلید ہوں لیکن پھر بھی مانگتی رہتی ہوں کہ اﷲ مجھے اپنا ایسا عشق ایسی محبت عطا کردیں کہ ان کی محبت کے سامنے دنیا کی ساری محبتیں ہیچ ہوجائیں ایسا کب ہوگا حضرت اور ہوگا بھی کہ نہیں؟ مجالس میں حاضری کے دوران اور عورتوں کو دیکھتی ہوں کہ کیا کیا ان کے مبارک احوال ہیں تو رشک آتا ہے۔ اور دل چاہتا ہے کہ میں بھی ان میں شامل ہوں مگر میرا حال تو بہت خراب ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ میرا پردہ نہ کرنا ہے۔ دل اندر ہی اندر بہت گھٹتا ہے، اس محرومی پر۔

جواب: یہ رشک مبارک ہے آپ بھی ہمت سے کام لیں تو دین میں خوب ترقی کریں گی۔ پردہ شروع کردیں تو سب رکاوٹ دور ہوجائے گی اور بہت جلد اس مقام پر پہنچوگی جس کی تمنا ہے۔

حال: حضرت میرے لیے اپنے مبارک ہاتھ اٹھاکے اﷲ تعالیٰ سے مانگ لیں کہ وہ مجھے اپنا بنا لیں جذب فرمالیں اپنے دوستوں کی صف میں شامل فرمالیں۔ حضرت آپ اﷲ کے مقرب اور محبوب ہیں اﷲ تعالیٰ آپ کی دعا رد نہیں فرمائیں گے انشاء اﷲ اور میری بگڑی بن جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ آپ کا بابرکت وجود ہمارے سروں پر قائم رکھے اور ہمیں آپ سے خوب خوب فیض اٹھانے والا بنائیں، آمین۔

جواب: دل سے دعا ہے۔

…………………

حال: حضرت والا میں نے اپنے پچھلے خط میں شرعی پردے سے متعلق لکھا تھا کہ ہمت نہیں ہوتی تو آپ نے لکھا کہ میں ہمت کروں آپ دعا کریں گے میں نے اسی سلسلے میں جب اپنے شوہر کے خیالات معلوم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ تم پردہ تو کرتی ہو پورا دوپٹہ سر سے اچھی طرح لپیٹ کر آتی ہو (صرف چہرہ کھلا ہوتا ہے) اور باہر وہ بھی کور(Cover) کرتی ہوں۔ تو شوہر نے کہا کہ یہ بھی کافی ہے۔

جواب: شرعاً یہ کافی نہیں ہے۔

حال: اور کہا کہ چہرے کا پردہ فرض ہے مگر ہم کون سے سارے فرائض پورے کرتے ہیں ہم تو کمزور اور گناہ گار بندے ہیں اور میں تو اﷲ سے توبہ استغفار کرلیتا ہوں کہ یا اﷲ میں خطاکار ہوں آپ معاف فرمائیے (یہ خیالات شوہر کے ہیں)۔

جواب: یہ کون سی منطق ہے کہ اگر فرائض پورے نہیں کرتے تو جو کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں ان کو بھی چھوڑ دیں۔ گناہ چھوڑنے کا عزم کرکے توبہ کرنے سے توبہ قبول ہوتی ہے گناہ بھی کرتے رہو اور استغفار بھی کرتے رہو ایسی استغفار و توبہ قبول نہیں۔

حال: پھر انہوں نے یہ مثال دی کہ فلاں ڈاکٹر صاحب جو ہمارے سلسلہ کے بہت بڑے بزرگ تھے۔ اور میرے ساس سسران سے بیعت بھی تھے۔ وہ تو میری امی کے سامنے اور خاندان کی اور خواتین کے سامنے آجاتے تھے ہاں نظر اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے اسی طرح ان کی زوجہ بھی شرعی پردہ نہیں کرتی تھیں (واﷲاعلم)

جواب: کسی بزرگ کا کوئی عمل حجت نہیں شریعت کا حکم حجت ہے۔ کتب فقہ سے بزرگوں کے عمل کو ملائو، بزرگ کے عمل سے کتابوں کو نہ ملائو۔ اگر کتاب یعنی شریعت کے حکم کے مطابق کسی بزرگ کا عمل ہے تو صحیح ہے ورنہ اس کو بشری کمزوری پر محمول کریں گے۔

حال: بہرحال میں اس وقت چپ ہوگئی پھر بعد میں میں نے دوبارہ پوچھا تو انہوں نے کافی ناگواری کا اظہار کیا اور میری بہت سی عادتیں گنوائیں جو یہ ہیں کہ میں ہر وقت سر سے دوپٹہ کیے رہتی ہوں اگرچہ گھر میں کوئی نامحرم بھی نہیں ہوتا تب بھی اور بھی اسی طرح کی ایک دو باتیں کہیں اور مجھے کافی باتیں سنانے کے بعد کہا کہ میں دین کے معاملے میں کچھ نہیں کہتا، اب حضرت والا آپ بتائیں کہ اس صورتحال میں جبکہ مجھے اپنے شوہر کی ناگواری بھی معلوم ہوگئی اور میرے اندر تو ویسے ہی اپنے ماحول اور جوائنٹ فیملی کی وجہ سے ہمت کی کمی تھی میں کیا کروں اگر میرا شوہر ہی مجھے اس سلسلے میں سپورٹ نہیں کرے گا تو میں کس کی طرف دیکھوں۔

جواب: اﷲ کی طرف دیکھیں، کسی کی طرف نہ دیکھیں شوہر کی ناگواری اﷲ تعالیٰ کے حکم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ حدیث پاک میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

حال: حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ شوہر مجھ سے خود کہے کہ پردہ کرو مگر ان کا نہ تو کسی سے اصلاحی تعلق ہے اور نہ ہی ان کے خیالات سے لگتا ہے کہ انہیں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جب کہ میں چاہتی ہوں کہ وہ بھی میرے ساتھ مجالس میں جائیں مگر وہ ہر دفعہ منع کردیتے ہیں۔ حضرت ان حالات میں کیا میں اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر پردہ شروع کردوں؟

جواب: بالکل شروع کردیں۔

حال: یا مجھے کیا کرنا چاہیے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ جلد جواب دیں تاکہ میں اس الجھن سے نکل سکوں۔

جواب: جب سمجھانے کے باوجود آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا تو معلوم ہوتا ہے کہ پردہ کے معاملہ میں خود سنجیدہ نہیں ہو۔

حال: مجھے ریاح کے دبائو کا شدید مرض ہے۔ لیکن حضرت والا میں باوضورہنا چاہتی ہوں مگر گیسز کی وجہ سے سونے سے پہلے وضو کروں تو اکثر ٹوٹ جاتا ہے اس صورت میں میں کیا کروں؟

جواب: اس بیماری کے ساتھ ہر وقت باوضو رہنے کا خیال چھوڑ دیں ورنہ ریاح اوپر دل کی طرف چلی جائے گی جس سے اختلاج قلب کا اندیشہ ہے۔ اس زمانے میں نگاہوں کو باوضو رکھو شرعی پردہ کرو یہ ہر وقت باوضو رہنے سے افضل ہے۔

…………………

حال: آفس میں بھی معاملات صحیح چل رہے اب چونکہ میرے آفس کے دوساتھی حج پر چلے گئے ہیں اس لیے میں نے آفس میں سے انٹر نیٹ کو بند کروادیا ہے صرف ایک کمپیوٹر ہے اور وہ بھی دوسرے صاحب کے استعمال میں ہے جس پر انہوں نے Lockلگا رکھا ہے کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا۔اس کے باوجود میں نے آفس میں کہہ دیا ہے کہ جب تنہائی ہوگی میں اٹھ کر باہر چلا جائوں گا۔ اب اگر انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے تو ساتھ والے کمرے میں انٹرنیٹ موجود ہے وہاں جاکر استعمال کرلیتا ہوں وہاں بھی یہ احتیاط کرتا ہوں کہ جب کوئی نہیں ہوتا تو نہیں جاتا اگر ایک آدمی بھی ہوتا ہے تو جاتا ہوں اور صرف ضروری ضروری کام کرکے واپس اپنے کمرے میں آجاتا ہوں۔ اس میں حضرت ایک دفعہ کو تاہی ہوئی جس کا نقصان بھی ہوا میں نے توبہ بھی کی اور نفس جب ہی پریشان کرتا ہے جب میں کسی مصلحت کو گوارا کرلیتا ہوں اور آپ کی باتوں کو چھوڑتا ہوں اسی غلطی والے دن میں عصر کی مجلس میں حاضر ہوا تھا دل بہت پُر غم تھا ندامت طاری تھی تو مجھے حضرت والا کا ارشاد یاد آیا کہ جب غلطی ہوجائے تو فوراً توبہ کرو اور توبہ اگر اﷲ والوں کے سامنے کرو تو بہت ہی فائدہ ہوگا۔ الحمدﷲ اس پر عمل کی توفیق ہوئی عصر کی مجلس کے اختتام پر جب حضرت والا کھڑے ہوئے اور خدام حضرت کو سہارا دینے لگے تو میں نے دیکھا کہ حضرت والا کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی ہیں اور ایک خوب صورت آنسو حضرت کی آنکھ کے کنارے پر ٹھہرا ہوا ہے جیسے اس نے سیٹ بنالی ہو تو میں نے فوراً اﷲ میاں سے دعا کی کہ اے اﷲ میرے شیخ کے اس آنسو کے صدقے میں میری توبہ قبول کرلے مجھے معاف کردے مجھے اﷲ والا بنادے اور دعا کرتا رہا۔ پھر عشاء کے بعد والی مجلس میں حاضری ہوئی حضرت کے سامنے ہی بیٹھا تھااس مجلس میں حضرت بولے نہیں خاموش رہے ادھر ادھر دیکھتے رہے ایک دو دفعہ مجھے بھی دیکھا اس مجلس میں اشعار پڑھے گئے، وہ مجلس عجیب تھی حضرت بہت عجیب بہت عجیب… میرا دل ٹوٹا ہوا تھا ندامت سے بھرا ہوا تھا حضرت نے ایک نظر کیا ڈالی ایسا لگا دل نور سے بھرگیا ایسا محسوس ہوا میرے رگ رگ میں نور دوڑنے لگا۔ اس مجلس سے بعد دل پر عجیب کیفیت طاری رہی ہر وقت ایسا محسوس ہوتا کہ اﷲ تعالیٰ مجھے، دیکھ رہے ہیں جب بھی میں کسی سے بات کرتا تو یوں لگتا اﷲ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیسے بولتا ہے جب میں چلتا تو یوں لگتا اﷲ تعالیٰ واقعی میں دیکھتے ہیں کہ کیسے چلتا کیسے نماز پڑھتا ہے کیسے کام کرتا ہے بس ہر وقت دل ان ہی سے چپکا رہا کامل دو دن اس ہی کیفیت میں گزرگئے الحمدﷲ اب بھی یہ کیفیت طاری ہے۔ وساوس ہیں ہی نہیں، خیالات سب دب گئے ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی عظمت سامنے رہتی ہے اور ساتھ ساتھ اس کی برکت سے نگاہوں کی خوب حفاظت ہورہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ سر پر بہت بوجھ ہے اﷲ تعالیٰ سامنے ہیں اور یوں ہوتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی اور نہیں میرے اور میرے اﷲ کے سوا۔

جواب: عطاء نسبت کی علامت ہے، مبارک ہو۔

حال: حضرت اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہتا ہے اعمال مقصود ہیں، یہ کیفیات ہوں یا نہ ہوں، لیکن حضرت دل میں اس کی وجہ سے عجیب خوشی رہتی ہے۔

جواب: خوش ہونا اچھا ہے‘ حال محمود کا اکرام ہے۔

…………………

حال: الحمدﷲ حضرت والا کی دعائوں سے اﷲ تعالیٰ نے نیک سیرت، متقی اور دین دار بیوی عطا فرمائی، ہر لمحہ حضرت کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ میری اوقات نہیں تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم شیخ کے تعلق کے صدقے میں ایسی رفیق حیات عطا فرمائی، الحمدﷲ ، الحمدﷲ!

حضرت سے اصلاح کی درخواست ہے کہ بات آج کل پیش آرہی ہے کہ اکثر اوقات اہلیہ کا دھیان رہتا ہے اور جب بھی وسوسۂ گناہ دل میں آتا ہے تو فوراً اہلیہ کا دھیان ہوجاتا ہے۔ حالانکہ پہلے تو اﷲ تعالیٰ کا دھیان آتا ہے اب ایسا لگتا ہے کہ اہلیہ کا دھیان بیچ میں آگیا ہے اگرچہ میں باتکلف اﷲ تعالیٰ کا دھیان اس موقع پر لے آتا ہوں لیکن یہ چیز کھٹکتی ہے۔ حضرت اصلاح فرمائیں۔

جواب: کوئی کھٹک کی بات نہیں اہلیہ کا دھیان غیر اﷲ نہیں ہے۔

حال: حضرت والا کی بیویوں سے حسن سلوک کی تعلیم اکثر ذہن میں رہتی ہے جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی حسین تر ہوگئی ہے الحمدﷲ! بیوی کی محبت شدید محسوس ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت مغلوب ہوگئی۔ جیسے پہلے اﷲ تعالیٰ کا تعلق اور دھیان محسوس ہوتا تھا اب ویسا نہیں، جیسے پہلے حضرت والا کا تصور نگاہوں میں رہتا تھا اب وہ کیفیت نہیں اب وہ داعیہ شدید خانقاہ جانے کا پیدا نہیں ہوتا اگر چہ ہفتے میں دوتین بار حاضری ہوجاتی ہے اور اہلیہ کو بھی یبان میں لاتا ہوں۔ مجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب: بیوی سے تعلق اﷲ ہی سے تعلق ہے اس کا سبب حق تعالیٰ کی ذات ہے ورنہ یہ نامحرم ہوتی پھر آپ اس کی طرف توجہ کرتے؟ البتہ جو اعمال واجبہ ہیں ان میں کمی نہ ہو اور یہ بھی نہیں کہ ذکر اﷲ اور خانقاہ چھوڑ دو، یہ بھی سوچو کہ یہ محبت لاکھ جائز صحیح لیکن فانی ہے اور اﷲ کے نام کی لذت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے جوموقوف ہے صحبت اہل اﷲ پر لہٰذا دنیا کی کوئی نعمت اور کوئی لذت اس کا بدل نہیں ہوسکتی۔

حال: پھر دل کو یوں تسلی دیتا ہوں کہ یہ تو بیوی کا حق ہے کہ اس کو وقت دیا جائے خصوصاً شروع میں تو اس ایڈجسٹ (Adjust) ہونے میں میری مدد کی میرے ساتھ کی زیادہ ضرورت ہے۔ اور وہ سارا دن انتظار میں بھی رہتی ہے۔ ا گر اس کو وقت کم دوں تو وہ محسوس کرے گی۔

جواب: صحیح ۔

حال: حضرت والا سے محبت کبھی اتنا رلاتی ہے کہ حد نہیں، کبھی ناقدری کا احساس حواس پر چھاجاتا ہے کبھی محبت ایسی کم ہوجاتی ہے کہ دن غمگین ہوہو جاتا ہے۔ اور ناقدری کا احساس دامن گیر ہوجاتا ہے۔ آخرت میں اس کی پکڑ کا خوف حواس پر چھا جاتا ہے غم ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا شاید معمولات کمی ہونے کی وجہ سے خانقاہ میں حاضری کم ہورہی ہے۔ عجیب بے چینی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے دل چین نہیں پاتا۔

جواب: یہ رونا اور ناقدری کا احساس دلیل محبت ہے۔

حال: حضرت والا بعض اوقات طبیعت پر مایوسی پیداہوجاتی ہے، ناشکری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے لوگوں کے جاہ پر مال پر نظر چلی جاتی ہے اگرچہ فوراً دل کو تسلیم و رضا کا درس دیتا ہوں سمجھاتا ہوں کہ جو اﷲ کی مرضی اس پر راضی رہوں اور اپنے اوپر نعمتوں کی بارش یاد کرتا ہوں، دنیا کی زحمتوں کے بارے میں سوچتا ہوں کہ اس کے ذریعے درجات بلند ہوتے ہیں، ثواب ملتا ہے اور یہ دنیا تو چند دن میں چھوٹ جائے گی پھر اس کا غم کیا کرنا، ان شاء اﷲ تعالیٰ جنت میں خوب مزے کریں گے!

جواب: بہت اچھا مراقبہ ہے۔ اس لیے حکم ہے کہ دنیا کے معاملہ میں اپنے سے کم والوں کو دیکھو تو شکر پیدا ہوگا دین کے معاملہ میں اپنے سے بہتر کو دیکھو تو دین میںترقی کی فکر ہوگی۔

حال: حضرت والدین کے حقوق کے سلسلے میں شدید کوتاہی ہورہی ہے۔ بعض اوقات والدین کا آپس میں جھگڑا ہوتا ہے اور میں ان کو ملانا چاہتا ہوں کہ گھر میں جو Tensionکی فضاء ہے ختم ہوجائے اس سمجھانے میں والدین دونوں اپنی اپنی جگہ مجھے کوستے ہیں کہ تمہاری وجہ سے یہ جھگڑا اکثر ہوتا ہے کیونکہ والدہ میری Sideلیتی ہیں اور ابو اس پر ناراض ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ بھی دونوں میں بہت بدگمانیاں ہیں اور چھوٹی سی باتوں پر اس کا دفتر کھل جاتا ہے، اتنا تماشا ہوتا ہے کہ حد نہیں اسی سے وہ دونوں ہی مریض بن چکے ہیں لیکن پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، اب میں نے بھی بحث کرنا اور سمجھانا قریب قریب چھوڑ دیا ہے میں کبھی کوئی بات ایسے ہی عمومی طور پر کہہ دیتا ہوں تو والد صاحب اس پر کوشش کرتے ہیں کہ بحث ہوجائے وجہ یہ ہی ہے کہ ہم میں مناسبت کی کمی ہے۔ بات صحیح ہوتی ہے لیکن اتنے غصے سے سمجھاتے ہیں کہ شدید دبائو محسوس ہوتا ہے۔ اکثر سب کے سامنے بھی خوب ڈانٹ دیتے ہیں جس سے مجھے دلی تکلیف ہوتی ہے کہ آرام سے بھی تو سمجھایا جاسکتا تھا، کچھ ماضی میں جوش میں ایسی باتیں ہوگئیں تھیں جس کو دونوں نے خوب یاد رکھا ہوا ہے۔ اور میرے بارے میں یہ سوچ لیا ہے کہ یہ سدا کا نافرمان ہے اور ہمیشہ الٹ بات ہی کہتا ہے۔ حضرت ایسے مواقعوں پر میں کیا کروں؟

جواب: بس لب نہ کھولو۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ کو برداشت کرو۔ حکم یہی ہے کہ اگر ماں باپ ظلم بھی کریں تو اُف نہ کرو۔

حال: کیونکہ بعض باتیں وہ شریعت کے خلاف بھی کہتے ہیں رسموں میں شرکت نہ کرنے پر غصہ ہوتے ہیں یاپردہ کی سختی کو ناپسند کرتے ہیں اس طرح کی باتوں کی وہ سے مجھ سے شاکی رہتے ہیں میں اگرچہ کوشش کرتا ہوں ایسی باتیں نہ ہوں لیکن بوجہ بشریت غلطی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بعد کوشرمندگی ہوتی ہے۔ میں ان کو کہتا ہوں کہ یہ بات اس طرح ہے اگر مجھ پر یقین نہیں تو کسی مفتی صاحب سے پوچھ لیں وہ اس پر راضی نہیں ہوتے۔ حضرت اس سلسلے میں بعض اوقات کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جواب: وہ جو کچھ بھی کہیں جواب نہ دیں لیکن کسی نافرمانی میں ہرگز شریک نہ ہوں ان کی شکایت کا اثر نہ لیں، نہ بحث کریں نہ کسی مفتی سے پوچھنے کو کہیں لیکن کریں وہی جو اﷲ کا حکم ہے۔ کوشش کریں کہ ہرگز کوئی بے ادبی نہ ہو تاکہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑے لیکن اگر کوتاہی ہوجائے تو فوراً معافی مانگیں۔

حال: حضرت والا کی دعائوں سے پچھلے ایک سال سے جو انٹرنیٹ کا مسئلہ چل رہا تھا آفس میں وہ باخوبی حل پاگیا ہے۔ میں نے باقاعدہ اپنے مسئول کو خط تحریر کرکے یہ بات کہی کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ رسالے کا معیار بہتر سے بہتر ہو اور میرے انٹرنیٹ پر تصاویر تلاش نہ کرنے پر آپ کو تشویش ہے۔ لہٰذا میں بھی آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بننا چاہتا اور میگزین کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔ لہٰذا میرا ٹرانسفر آپ ایسی جگہ کردیں جہاں انٹرنیٹ کا استعمال نہ ہو اور یہ تجویز بھی دی کہ میری چھٹیوں کے دوران جن صاحب کو رکھا تھا ان کو ہی مستقل بنیادوں پر میگزین کے لیے رکھ لیں اور مجھے ان کی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں۔ اس سے آپ کی تشویش بھی ختم ہوجائے گی اور میری جان بھی چھوٹ جائے گی۔ الحمدﷲ حضرت کی دعائوں سے دو ہفتے ہوئے میرا ٹرانسفر دوسرے کمرے میں ہوگیا ہے اور میگزین کی ذمہ داریاں جو مجھے بے حد عزیز تھیں وہ چھوڑ دی ہیں۔ الحمدﷲ! اب اس کمرے میں صرف میں بیٹھتا ہوں اور میرے ساتھ میرے مسئول صاحب تشریف رکھتے ہیں اور میں نے اپنے آفس کمپیوٹر سے انٹرنیٹ بھی ہٹوادیا ہے جس کی وجہ سے میں بہت چین میں ہوں۔ رات گئے تک رکنے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے اب اگر رکنا بھی پڑتا تو میرے ساتھ کوئی نہ کوئی ہوتا ہے۔ اور کبھی اگر مسئول صاحب کے کہنے پر انٹرنیٹ پر E-mailوغیرہ چیک کرنی پڑتی ہے تو میں اپنے کمرے سے اٹھ کر سابقہ کمرے میں جاکر استعمال کرکے واپس آجاتا ہوں۔

جواب: بہت دل خوش ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بہت بڑی لعنت سے نجات دی۔ جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں تھوڑی سی بھی کوشش کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں۔

حال: حضرت ایک طرف اس کی خوشی بھی ہے ساتھ ساتھ کبھی شیطان یہ وسوسہ بھی ڈال دیتا ہے کہ تونے مزے چھوڑ دیئے آگے بڑھنے کے مواقع ختم ہوگئے۔

جواب: یہ شیطانی وسوسہ ہے اﷲ کو راضی کرنے والا کبھی خسارہ میں نہیں رہ سکتا۔
Flag Counter