Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

3 - 60
کے ساتھ آدمیت سے بھی نکالنا پڑے گا، بلکہ نکالنے سے پہلے خود نکل جائے گا کہ وہ حقیقت میں خدا ہی کا منکر ہے۔ اس کے بعد یہ التماس ہے کہ وحی کے واجب التسلیم ہونے کے ساتھ یہ امر بھی ضروری اور بدیہی ہے کہ جملہ ذرائعِ علم میں وحی کے برابر کوئی نہیں، جہل و خطا و نسیان کا اُس میں شائبہ تک نہیں، اُس کے مقابلہ میں افلاطون و بقراط کے کلام کو کسی جاہل کو دن طفلِ مکتب کے کلام پر ہرگز فوقیت نہیں۔ کون نہیںجانتا کہ کلام کی عظمت اور اُس کی متابعت فصاحت و بلاغت واقعیت و صداقت، تطابق حکمت و مصلحت کا مدار اُس کے متکلم پر ہوتا ہے جس درجہ کا متکلم ہو اُس درجہ کا کلام، و قدر الشہادۃ قدر الشہود۔ چناںچہ حضرت فخر ِعالم ﷺ نے فرمایا کہ کلامِ الٰہی کو تمام مخلوقات کے کلام پر وہی فضیلت حاصل ہے جو حق جل و علیٰ شانہٗ کی ذاتِ پاک کو تمام مخلوقات پر۔ کلام الملوک ملوک الکلام کے قاعدے سے تو کلام إلا لہ إلہ الکلام کہنا ضروری ہوگا پھر کلامِ الٰہی کے برابر یا اُس سے زائد مخلوقات کا کلام کیسے ہوسکتا ہے، بلکہ جیسے اُس کے مقابلہ میں کسی کی کچھ حقیقت نہیں ایسے ہی اُس کے کلام کے مقابلہ میں کسی کے کلام کی کچھ حقیقت نہ ہوگی۔سقراط اور ارسطو کے کلام کے رو برو کسی پاگل دیوانہ کے کلام کی جتنی وقعت ہوسکتی ہے ربّ العزت کے کلامِ مقدس کے رو برو تمام مخلوقات کے کلام کی اتنی وقعت بھی نہیں ہوسکتی۔ بالجملہ یہ امر بدیہی ہے کہ کلامِ الٰہی کے برابر ہرگز ہرگز کسی کا کلام قابلِ تسلیم اور واجب التعمیل نہیں ہوسکتا اور اس پر کوئی حجتی بہت سے بہت کہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم کو وحی الٰہی بلا واسطہ تو پہنچتی نہیں بیچ میں وسائط ضرور ہیں تا وقتے کہ اُن وسائط کی طرف سے اطمینانِ تام نہ ہو، کلامِ الٰہی ہونے پر کیسے وثوق ہوسکتا ہے، صرف قائل کی صداقت کافی نہیں ہوسکتی اُس کے ساتھ ناقل کا صادق ہونا بھی ضرور ہے۔ تو وسائط کل دو ہیں: ایک وحی لانے والا یعنی فرشتہ دوسرے جس پر وحی لے کر آیا یعنی نبی اور رسول۔ سو ان دونوں فریق کی صداقت اور عصمت باتفاقِ اہل عقل و نقل ایسی ظاہر و مسلم ہے کہ اصلاً حاجتِ بیان نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ملائکہ الرحمن اور انبیائے کرام مقربین بارگاہِ الٰہی سے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیںکہ دنیا میں مقرب اور خواص بننے کے لیے سراپا اطاعت ہونا ضرور ہے اپنے مخالفوں کو اپنی بارگاہ میں کون گھسنے دیتا ہے اور مسند قرب پر کون قدم رکھنے دیتا ہے۔ اس لیے ضرور ہے کہ وہ مقرب جن پر اپنے اسرار اور مافی الضمیر آشکارا کیے جاویں اور منصب سفارت پر مقرر فرمائے جاویں اور سلسلۂ ہدایتِ عالم اُن کے ساتھ وابستہ کیا جاوے اور{لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَـآ اَمَرَھُمْ}1 (1 التحریم:۶) اور {مَا آتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُج وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْاج}1 (1 الحشر: ۷) فرما کر حق تعالیٰ نے اس کی صداقت کی کفالت فرمائی ہو، معصوم اور ظاہر و باطن میں مطیع و فرماں بردار ضرور ہوں گے۔ سو اب ملائکہ اور حضراتِ انبیا کی شان میں کوئی بے ہودہ خیال کرنا ہرگز انھیں تلک نہ رہے گا بلکہ اُس کی نوبت دور تک پہنچے گی۔ علاوہ ازیں حضراتِ ملائکہ کی طرف سے سوئے ظنی تو اتنا بعید امر ہے کہ عاقل سے متوقع 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter