قرآن نازل ہوا ان ہی کی زبان مبارک سے اس کی تفسیر ہوسکتی ہے۔
پہلی حدیث یہ بیان فرمائی کہ مَنْ کَظَمَ غَیْظًا وَہُوَ یَقْدِرُ عَلٰی اِنْفَاذِہٖ مَلَأَ اللہُ تَعَالٰی قَلْبَہٗ اَمْنًا وَّاِیْمَانًا3؎ جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیکہ وہ غصہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو ایمان اور سکون سے بھردے گا۔
یعنی جس شخص کو کسی پر غصہ آ گیا اور وہ اس پر پورا غصہ جاری کرسکتا ہے، اس کے لیے کوئی مانع نہیں ہے لیکن اللہ کے خوف سے اپنے غصہ کو پی جاتا ہے اور معاف کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو امن و ایمان سے بھردے گا۔ امن کے معنیٰ ہیں سکون۔ غصہ ضبط کرنے کا یہ انعامِ عظیم ہے۔بزرگوں نے فرمایا کہ جو شخص غصہ کا تلخ گھونٹ پی لیتا ہے یعنی غصہ کو ضبط کرلیتا ہے تو وہ غصہ سب کا سب نور بن جاتا ہے۔اور ساتھ ساتھ غصہ کی ایک اور تفسیر بیان کی کہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے اور دین کے اجراء کے لیے اور اللہ کے لیے جو غصہ آئے وہ مستثنیٰ ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منکرات اور اللہ کی نافرمانی پر اتنا غصہ آتا تھا کہ آپ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوجاتا تھا۔ کَاَنَّ الرُّمَّانَ عُصِرَ عَلٰی وَجْہِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جیسے کہ آپ کے چہرۂ مبارک پر انار نچوڑ دیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر غصہ آنا ہی چاہیے۔
دوسری حدیث یہ بیان کی کہ جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا درآنحالیکہ وہ اس کے نافذ کرنے پر قادر تھا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ جس حور کو چاہے اپنی پسند سے انتخاب کرلے ۔غصہ ضبط کرنے کا یہ دوسرا انعام بیان فرمایا گیا۔4؎
تیسری حدیث یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ وہ شخص کھڑا ہوجائے جس کا میرے اوپر کوئی حق ہو فَلَا یَقُوْمُ اِلَّا اِنْسَانٌ عَفَا5؎ پس کوئی شخص کھڑا
_____________________________________________
3؎ کنزالعمال:131/3 (5822)، باب فی تعدید الاخلاق المحمودۃ، مؤسسۃ الرسالۃ
4؎ ابوداؤد:303/2، باب من کظم غیظا، ایج ایم سعید
5؎ روح المعانی:58/4 ، داراحیاء التراث، بیروت