اورکَظَمَ کے کیامعنیٰ ہیں؟ عرب کے لوگ کَظَمَ کا استعمال کہاں کرتے تھے؟ قرآن کیوں کہ محاورۂ عرب پر نازل ہوا ہے لہٰذا علامہ آلوسی سید محمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ مفتی بغداد نے تفسیر روح المعانی میں عربوں کا محاورہ نقل کیا ہے تاکہ قرآن صحیح سمجھ میں آجائے۔ فرماتے ہیں کہ کَظَمَ عرب کی لغت میں اس وقت بولتے تھے جب مشک بھر کر پانی اُبلنے لگتا تھا تو عرب کے لوگ رسّی سے اس کا منہ باندھ دیتے تھے۔ لہٰذا کَظَمَ کے معنیٰ ہیں شَدُّ رَأْسِ الْقِرْبَۃِ عِنْدَ اِمْتِلَا ئِھَا مشک کا منہ باندھ دینا جب پانی بھر کر اس کے منہ سے نکلنے لگے۔2؎
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ کہ جب تم کو غصہ آجائے اور تمہارے جسم کی مشک کے منہ سے غصہ میں اول فول، گالی گلوچ یا کوئی انتقامی جذباتی اور مضر بات نہ نکل جائے اس وقت جلدی سے کظم کی رسّی سے منہ کو باندھ دو اور غصہ کو ضبط کرلو۔ اسی کا نام ہے کَظَمَ غَیْظًا۔
اچھا غیظ اور غضب میں کیا فرق ہے؟ جیسے دفتر والے کہتے ہیں کہ آج صاحب کا موڈ ٹھیک نہیں ہے، بہت غیظ و غضب میں بیٹھے ہوئے ہیں، شاید بیوی سے کچھ ناچاقی ہوگئی ہے۔
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے غیظ و غضب کا فرق بیان کیا ہے۔ غیظ کے معنیٰ ہیں کہ غصہ آئے اور انسان اس کو ضبط کرلے۔ غیظ میں آدمی اندر اندر گھٹتا رہتا ہے اور غضب کے ساتھ ارادہ انتقام کا ہوتا ہے۔ اس لیے غیظ کا استعمال مخلوق کے لیے خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف غیظ کی نسبت کرنا جائز نہیں یعنی ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچو، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کے غیظ سے بچو۔ غیظ کا لفظ صرف مخلوق کے لیے خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں اور غضب کا استعمال مشترک ہے خالق کے لیے بھی اور مخلوق کے لیے بھی۔ یعنی غضب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کی جاتی ہے اور مخلوق کی طرف بھی کی جاسکتی ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے چار حدیثیں بیان کی ہیں۔ اس لیے کہ آیات کی تفسیر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہی سے ہوسکتی ہے، جن پر
_____________________________________________
2؎ روح المعانی:58/4 (134/3)،داراحیاءالتراث، بیروت