نے اَلْعَادِمِیْنَ الۡغَیۡظَ نازل نہیں فرمایا، اس لیے کہ غصہ کا عدم مراد نہیں ہے۔ اگر غصہ معدوم ہوجائے تو کفار سے مقابلے کے وقت جہاد کیسے کرے گا؟ غصہ رہے،وہ تو اللہ نے رکھا ہے،اس لیے کہ غصہ کے موقع پر اس کا استعمال کرے، مثلاً جہاد ہو رہا ہے۔ اب خدا کے دُشمنوں کے خلاف غصہ استعمال کرو، اس وقت اگر کوئی کہے کہ یہ حقیر فقیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے تو اس وقت یہ تواضع حرام ہے بلکہ اس وقت تو کہو ھَلْ مِنْ مُّبَارِزٍ؟ہے کوئی جو میرے مقابلے میں آئے، لیکن غصہ جب اپنے نفس کے لیے ہو اُس وقت کے لیے ہے وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ یہ ہیں مردانِ خدا جو غصہ کو پی جاتے ہیں، ضبط کرلیتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب کوئی ایسا وظیفہ بتادیجیے کہ بُرے خیالات ہی نہ آئیں۔شہوت اور تقاضے ہی ختم ہوجائیں یعنی وہ چاہتے ہیں کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،یہ نادانی ہے۔ کمال تو یہی ہے کہ بُرے تقاضے پیدا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے اپنی آرزوؤں کا خون کرلے۔ جو شخص آپ کے لیے جتنی زیادہ مشقت اور تکلیف اُٹھاتا ہے آپ اس کو اتنا ہی زیادہ اپنا گہرا دوست سمجھتے ہیں۔ بس تقاضوں سے بھاگنا یا مغلوب ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف نہیں اُٹھانا چاہتے۔ پھر کیا دعوائے محبت ہے۔ محبت کا ایک حق یہ ہے کہ محبوب کو راضی کرنے کے لیے ہر تکلیف کو برداشت کرلے، بس تقاضے تو رہنے چاہئیں اگر تقاضے زائل ہوجائیں تو حلال موقع پر بیوی کے حقوق کیسے ادا کرے گا؟ مطلب یہ ہے کہ غلط استعمال نہ کیا جائے۔
حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رذائل کا ازالہ مقصود نہیں امالہ مقصود ہے۔ یعنی رذائل کو زائل نہیں کیا جاسکتا، اُن کا رُخ پھیرا جاسکتا ہے۔ مثلاً کسی کے اندر غصہ کا مادّہ زیادہ ہے، اصلاح سے پہلے اپنے نفس کے لیے غصہ کیا کرتا تھا، کسی نے بُرا کہہ دیا، بس آپے سے باہر ہوگیا، کسی سے کوئی تکلیف پہنچی، اس پر صبر نہ کیا اور غصہ نافذ کردیا۔ لیکن اصلاح کے بعد اسی غصہ کا رُخ بدل گیا، اب اللہ کی نافرمانی پر غصہ آتا ہے، خدا تعالیٰ کے دُشمنوں سے بغض رکھتا ہے، نفس اگر گناہ کا تقاضا کرتا ہے تو اپنے نفس پر غصہ نافذ کرتا ہے کہ ہر گز تجھے گناہ نہیں کرنے دوں گا۔ غصہ تو ہے لیکن اب امالہ ہوگیا، رُخ بدل گیا جو محمود اور پسندیدہ ہے۔