صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ4؎ اے اللہ! میرے دل کے خیالات کو اپنا خوف اور اپنی یاد بنادے اور ایک دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، مشکوٰۃ شریف کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہٗ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ5؎ شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے معاملے کو، اس کے مکرو کید کو صرف وسوسہ تک محدود کردیا، اس سے زیادہ اس کو طاقت نہیں دی ورنہ مان لیجیے یہاں جو لوگ بیٹھے ہوئے دین کی بات سن رہے ہیں اگر شیطان آتا اور سب کو اٹھا اٹھا کر سینماہاؤس میں لے جاکر بِٹھا دیتا تو بڑی مشکل میں جان پھنس جاتی، لوگ کہتے کہ بھائی ہم تو گئے تھے خانقاہ میں اللہ کی بات سننے مگر وہاں شیاطین کا ایک لشکر آیا اور سب کو اُٹھا اُٹھا کر وی سی آر اورسینما ہاؤس میں بٹھادیا۔ شیطان کو اگر یہ طاقت ہوتی تو بتائیے ہم کتنی مشکل میں پھنس جاتے! اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ادا کرو، کہو اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہٗ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک ہیں۔ عربی میں یاد رہے تو سبحان اللہ ورنہ اُردو ہی میں کہہ لیجیے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے کید کو، اس کی طاقت کو صرف خیالات اور وسوسہ ڈالنے تک محدود کردیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر سکھایا اور شکر سے اللہ کا قرب ملتا ہے۔ پس وسوسہ کو ذریعۂ قرب و معرفت بنادیا کہ شکر ہے کہ شیطان صرف خیالات اور وسوسہ ڈال سکتا ہے، تم کو عمل پر مجبور نہیں کرسکتا۔ گندا تقاضا دل میں پیدا ہوا آپ اس پر عمل نہ کیجیے، بالکل آپ کا تقویٰ قائم ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کا روزہ ہے،جون کا مہینہ ہے، شدید پیاس لگ رہی ہے بار بار دل چاہتا ہے کہ پانی پی لوں مگر پیتا نہیں۔بتائیے روزہ اس کا ہے یا نہیں؟ کیا پانی پینے کے وسوسوں سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا؟ پانی پینے کے لاکھ تقاضے ہوتے رہیں جب تک پیے گانہیں روزہ اس کا قائم ہے ۔بلکہ اس کو ڈبل اجر مل رہا ہے، تقاضے کی وجہ سے، پیاس کی وجہ سے۔ اسی طرح گناہ کے لاکھ وسوسے آئیں جب تک گناہ نہیں کرے گا یہ شخص بالکل متقی ہے، وسوسہ سے تقویٰ میں ہرگز کوئی نقصان نہیں آئے گا۔
_____________________________________________
4؎ الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی:474/1 (1930)، دارالکتب العلمیۃ، بیروت
5؎ سنن ابی داؤد:باب فی رد الوسوسۃ،ذکرہ بروایۃ ابن قدامۃ-مشکوۃ المصابیح: باب فی رد الوسوسۃ ،المکتبۃ القدیمیۃ