نتیجہ نہیں نکلتا کہ سرے سے ناممکن بھی ہیں۔ دنیا کی مادی ترقی، انکشافات جدید اور علوم وفنون کی تبدیلیاں یا اقوام میں سیاسی اور تمدنی انقلابات یہ سب کے سب ایسے امور ہیں کہ جن کے سامنے اس پیشین گوئی کا اظہار اصلی رنگ میں دکھائی دینا کوئی ناممکن بات نہیں رہ جاتا اور جن لوگوں نے عجلت پسندی سے یا اس پیشین گوئی کے بعض الفاظ کی بنیاد پر یا کسی غلط فہمی اور مغالطہ اندازی سے یہ یقین کرلیا ہے یا یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ایسے واقعات ظہور پذیر ہوچکے ہیں یا یہ کہ انکا جائے وقوع ہندوستان یا کوئی دوسرا ملک ہے انہوں نے دیدہ دانستہ اس پیشین گوئی کے تمام اجزاء پر نہ کبھی خود غور کیا ہے اور نہ کسی کی توجہ اس طرف منعطف ہونے دی ہے۔ ورنہ بالکل صاف ہے کہ خروج مہدی اور نزول مسیح کے آثار ابھی تک نمایاں طور پر کہیں بھی نمودار نہیں ہوئے اور قیامت کے آثار یعنی علامات صغریٰ ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں البتہ ان میں ترقی ہورہی ہے۔ معلوم نہیں کب تک پایۂ تکمیل کو پہنچ کر ایک دفعہ پھر اسلام ہی اسلام نظر آنے کا موقعہ پیدا ہوگا۔
حضورﷺ نے قرب قیامت کے علامات سینکڑوں بیان کئے ہیں۔ جن میں سے جس قدر آج ہمارے سامنے موجود ہیں ان کو قلمبند کیا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’بدزبان لوگ پیدا ہوںگے۔ جو سلام بھی گالیوں میں دیںگے۔ کتاب اﷲ پر عمل پیرا ہونا باعث توہین ہوگا۔ جھوٹ زیادہ ہوگا اور سچائی بہت کم ہوگی۔ اپنی ظنی رائے پر فیصلہ ہوگا۔ بارش زیادہ ہوگی اور پھل کم ہوگا۔ زمانہ ساز آدمی بہتر خیال کیا جائے گا۔ قرآن کی بجائے خانہ زاد اصول پیش کئے جائیںگے۔ لیکچرار بہت تیار ہوںگے۔ شراب نوشی بکثرت ہوگی۔اسلامی جہاد ترک ہو جائے گا۔ شریف النفس کس مپرسی کے عالم میں ہونگے اور کم ذات عالی قدر ہو جائیںگے۔ دنیا میں عامل بالقرآن نہ رہیںگے نو عمر ایک دوسرے پر گدھوں کی طرح چڑھیںگے۔ تجارت اس قدر ہوگی کہ عورتیں بھی اس کام میں امداد کریںگی اور جہاں کہیں مال جائے گا نفع نہ ہوگا۔ رذیل عالم ہوگا اور شریف جاہل گدھوں اور کتوں کی طرح برلب سڑک، عورتوں اور بچوں سے بدفعلی کی جائے گی۔ چھوٹے پر رحم نہ ہوگا اور بڑے کی عزت نہ ہوگی۔ حرامزادے کثرت سے ہوںگے۔ بلاضرورت قسم کھائیںگے۔ ناگہانی موتیں واقع ہوںگی۔ ایمانداری کم ہو جائے گی۔ بے ایمان اپنی اپنی قوم پر حکومت کریںگے۔ عورتیں اکڑ کر چلیںگی۔ جاہل عبادت گذار ہوںگے اور اہل علم بے عمل ہوںگے۔ شراب کو شربت بنائیںگے اور سود کو خریدوفروخت، رشوت ستانی تحفہ بن جائے گا اور چندہ کے مال سے تجارت چلے گی۔ ایماندار کو جانور سے بھی ذلیل سمجھا جائے گا۔ نیک عمل برے تصور ہوںگے اور برے عمل نیک عمل خیال کئے جائیںگے۔ زہدوتقویٰ صرف روایات میں نظر آئے گا اور دکھانے کے لئے پرہیزگاری ظاہر کی جائے گی۔ اولاد سے سکھ نہ ہوگا۔ والدین کہیںگے کہ اس کے بجائے پلا پالتے تو بہتر ہوتا یا پتھر ہوتا تو کسی کام آتا۔ گانے والیاں مہیا کی جائیںگی۔ نوعمر حکمران ہوںگے۔ ناپ اور تول میں کمی بیشی ہوگی۔ مسلمان کے پیٹ میں قرآن شریف کی ایک آیت بھی نہ ملے گی۔ لا الہ الا اﷲ کی رسم ہوگی اور اس کی حقیقت سے کوئی بھی واقف نہ ہوگا۔ غیر قوم میں نکاح زیادہ پسند ہوگا اور اپنی رشتہ دار عورت پسند نہ آئے گی۔ وغیرہ وغیرہ‘‘ (کنزالعمال)
۶…حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق قادیانی خیالات
۱… آپ بیت اللحم ملک شام میں پیدا ہوئے جو بیت المقدس سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے۔ (اتمام الحجۃ ص۱۹ حاشیہ، خزائن ج۸ ص۲۵)
۲… جب پیدا ہوئے تو بادشاہ نے نجومیوں سے سنا کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ پیدا ہوا ہے۔ اس لئے اس نے تلاش کرنا شروع کردیا۔ ان کو بشارت ہوئی کہ اس ملک سے نکل جاؤ تو وہ مصر