اس کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کا عہد مبارک ہوگا۔ آپ حاکم عادل ہوںگے۔ یہود پہلے ہی تباہ ہوچکے ہوںگے تو اور بھی تباہ ہو جائیںگے۔ جزیہ قبول نہ ہوگا۔ مال ودولت آپ کے عہد میں بکثرت ہوگی اور لوگ سیراب ہوںگے۔ یہاں تک کہ ایک انار ایک کنبہ کو کافی ہو جائے گا۔ آپ صلیب اور خنزیر کو نیست ونابود کر دیںگے اور عیسائیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ صرف خدا ہی کی پرستش ہوگی۔ قریش اپنی سلطنت پر قائم ہو جائیںگے۔ زمین جوان ہوکر حضرت آدم علیہ السلام کے وقت جیسی نباتات نکالے گی۔ گھوڑے چند روپوں میں ملیںگے۔ کیونکہ دنیا میں امن قائم ہوگا۔ لڑائی کا نام ونشان تک نہ رہے گا۔ بیل کی قیمت بڑھ جائے گی۔ کیونکہ کھیتی میں بہت ضرورت بڑھ جائے گی۔ نزول کے وقت آپ کے سر سے پانی کے قطرے گرتے ہوںگے۔ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریںگے۔ آپ پر دوزعفرانی چادریں ہوںگی۔ آپ کے دم سے یہودی خود ہی بھسم ہوںگے۔ باب لد میں دجال کو قتل کریںگے۔ دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار کے پاس ٹھہریںگے۔ آپ فج روحاء کے مقام سے حج کا احرام بھی باندھیںگے۔ آپ شادی کریںگے۔ آپ کے بچے ہوںگے۔ آپ کی وفات پر اہل اسلام جمع ہوکر نماز جنازہ پڑھیںگے اور روضہ نبویہ میں آپ کو دفن کیاجائے گا۔ (کنزالعمال)
یاجوج ماجوج کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیام جبل طور پر ہوگا اور یہ قوم بحیرہ طبریہ کو بھی پی کر خشک کر دے گی۔ پھر ان کے آخری حصہ کا گذر ہوگا تو کہیںگے کہ کبھی یہاں پانی ہوتا تھا۔ مسلمان ایسے تنگ ہوںگے کہ ایک بیل کا سریا خود ایک بیل سودرہم سے زیادہ عزیز ہوگا۔ حضرت کی بددعا سے ان کو پھوڑا نکل کر تباہ کر دے گا اور ان کی لاشوں سے بدبو پھیل جائے گی۔ پھر دعا کریںگے تو بڑے بڑے پرندان کی لاشیں اٹھالے جائیںگے اور بعد میں بارش ہوکر زمین صاف ہو جائے گی اور خوب کھیتی ہوگی۔ اس کے بعدایک ہوا چلے گی تو مسلمان مر جائیںگے اور بے ایمان باقی رہیںگے۔ جن پر قیامت قائم ہوگی۔ (کنزالعمال)
ان تصریحات کو پیش نظر رکھ کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امام مہدی الرضوان کی سلطنت ملک شام میں اس وقت ہوگی کہ قسطنطنیہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ عرب کی سلطنت از سر نو قائم ہوگی۔ یہودی قوم کا کانا دجال خدائی دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کو مٹانے کے لئے نکلے گا۔ مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے نازل ہونے سے یہودی سلطنت بالکل تباہ ہوجائے گی اور ملک شام میں کم ازکم چالیس سال حکومت کریںگے اور صاحب اولاد ہوکر مدینہ شریف میں روضہ نبویہ کے اندر دفن ہوںگے اوربعد میں اسلام مٹ جائے گا اور بد کرداروں پر قیامت قائم ہوگی۔ (کنزالعمال، ابن جریر)
یہ واقعات بالکل صاف بتارہے ہیں کہ حضرت مسیح اور حضرت امام مہدی ملک شام میں ظاہر ہوںگے۔ ان کا تعلق ہندوستان وغیرہ سے نہیں ہے اور جو لوگ اس پیشین گوئی کو افسانہ خیال کر کے تکذیب کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ زمانہ کے انقلابات میںآئے دن کئی ایک نئی نئی صورتیں پیش آتی رہتی ہیں کہ جن کا کسی کو وہم وخیال تک بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے ممکن ہے بلکہ یقین ہے کہ اندرون عرب میں ایسے واقعات پیش آئیں جن کا اثر قسطنطنیہ تک بھی پہنچ جائے۔ اگرچہ اس وقت اس پیشین گوئی کے آثار موجود نہیں ہیں۔ لیکن موجود ہوتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ خدا جب چاہتا ہے تو گریٹ وار پیدا کر کے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیتا ہے اور مسلمان ایسے مٹ جاتے ہیں کہ لنگوٹی سنبھالنے کو مستقل حکومت خیال کر لیتے ہیں۔
جس طرز پر اسلامی تصریحات نے ظہور مہدی اور نزول مسیح کو پیش کیا ہے وہ حاکمانہ رنگ ہے۔ محکومانہ یا رعیتانہ بو اس میںنہیں آتی اور یہ ایسے واقعات ہیں کہ ان کے ظہور پذیر ہونے میں کچھ اشکال بھی نہیں۔ گو آج تک مجموعی طور پر یہ تمام واقعات پیش نہیں آئے۔ لیکن اس سے یہ